جدیدیت -مابعد جدیدیت کیا بلا ہے

افضل حسین

محفلین
ماہرین اردو ادب سے گزارش ہے کہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت ان دونوں اصطلاحوں کی تعریف بتائیں مجھے سخت کنفیوژن ہے
 

ملائکہ

محفلین
جدیدیت یا modernism ہم اس دور، سوچ یا طرز زندگی کو کہہ سکتے ہیں جو کہ روایتی نا ہو۔۔۔ یہ دور یورپ ممالک میں پروان چڑھا جس میں نئی فکٹریاں بننے اور نئے نئے شہر بنے کے بعد وجود میں آیا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ہم اسے صنعتی انقلاب کا بائی پروڈکٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔
 

نکتہ ور

محفلین
آپ کے سوال کا جواب یہاں ہے اگرچہ مضمون کا نام مابعد جدیدیت سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے لیکن مضمون میں جدیدیت کو بھی زیربحث لایا گیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
مغربی "فلسفۂ ما بعد جدیدیت" کا اینٹی کلائمکس
نظام صدیقی


(1)
ہندوستانی تناظر میں "اردوئی ما بعد جدیدیت" خصوصی طور پر ما بعد جدید ادب و تنقید کا ایک نیا مجتہدانہ زرّیں باب ہے۔ وہ مغربی سیاق و سباق کے فلسۂ ما بعد جدیدیت سے بہت حد تک مختلف اور جدا گانہ کردار کا امین ہے۔ اردوئی ما بعد جدیدیت اگر ایک طرف اردو کی تحریرات کو متعدد متون اور فوق متون (META TEXT ) میں پڑھنے، لطف اندوز ہونے اور سمجھنے کے لیے قاری کو ذہنی طور پر آزاد کرتی ہے تو دوسری طرف ایسے متعدد نت نئے مفید اور موثر معنی افروز فنّی وسائل کو تنقید کے دھیان میں لاتی ہے جو اب تک اُس کے دائرے سے باہر ہی مانے جاتے تھے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں میں اُردو تنقید سے ذوقی اور لطیفی کردار کا یکسر معدوم ہونا ایک بدترین حادثہ ہے، کیونکہ وہ اُس کے سارے نام نہاد مکالمے، مخاطبے اور فکریاتی شِراکت اور مُداخلت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ ناقد کو بنیادی طور پر ذوق اندوز (رَسِک) اور ذوق پرور ہونا ناگزیر ہے۔ ذوقِ سلیم سے ہی تنقید میں فکر و دانش کی تخلیقیت اور معنویت پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ تنقید کو محض خشک فلسفیانہ فکریات میں تبدیل کرتے ہیں، اُن سے ادب کی تحسین، تفہیم اور تنویر میں کوئی خاص مدد نہیں مل پاتی ہے۔
تنقید کا بنیادی وظیفہ زندگی اور فن کے زندہ، نامیاتی اور متحرک رشتوں کی تلاش اور اُنھیں دکھا سکنے کی تنقیدی اہلیت اور عملی کارکردگی میں کارفرما ہوتا ہے۔ یہ تنقیدی فریضہ محض خام، مستعار اور بیجا فلسفیانہ مواد کی نمائش اور نیم اور دو نیم فلسفیانہ بُقراطیت بگھارنے سے ہرگز ادا نہیں ہوتا ہے۔ جو تنقید ہمیں کچھ دکھائے نہیں سوائے ناقد اور ادیب کے فکریاتی تعصبات، فلسفیاتی تاثرات اور پوشیدہ مفادات و تحفظات کی الجھنوں اور پیچیدگیوں بھری جھلک کے، وہ تنقید ہو ہی نہیں سکتی اور کچھ بھی کیوں نہ ہو؟ اس سفّاک صداقت کی بد ترین کم سواد مثال عمران شاہد بھنڈر کی نام نہاد کتاب" فلسفۂ ما بعد جدیدیت " ہے۔ وہ مغرب کے سامنے فلسفیانہ خود سُپردگی کی بُری لت کا عادی ہے۔ اس کُولاژ نُما بے ترتیب کتاب میں شعوری اور فکری چوکنّا پن اور ثروت انگیز نفسیاتی تناؤ بھی نہیں ہے اور نہ منطقی انتخابیت ہے۔ اس مانگے تانگے کے تاریکی نُما اُجالے میں جمہوری اختلافات کی گنجائش کے بجائے اندھی،گونگی اور بہری اِدّعائی اور اِذعانی فِسطائیت شروع سے آخر تک حاوی اور غالب ہے۔ گویا اُس کا فرمایا ہوا فرمانِ خُدا وندی کے مصداق ہے۔
اس ابو جہلی اور ابو لہبی طالبانہ اور لشکری فرمان کے بر خلاف اُردوئی ما بعد جدیدیت کے کئی جمالیاتی اور فکریاتی طریقۂ کار مشرقی سنسکرت شعریات اور مشرقی عربی اور فارسی شعریات میں موجود متون،اسالیب اور ہئتی و ساختیاتی تغیّرات سے مُماثل بھی ہیں۔ فیشن گزیدہ جدیدیت کے محض مغرب مرکوزہونے کی مُقلدانہ صورتِ حال میں ،یہ اُردوئی مابعد جدیدیت کا مُتبادل رجحان گہری انقلابی تبدیلی لاتا ہے اور اُس کے یکسانیت گزیدہ اور مغربی تقلیدیت گزیدہ جُغرافیہ کو تازہ کار اور نادرہ کار تنوع اور بو قلمونی عطا کر بیک وقت مقامی،قومی اور عالمی کردار عطا کرتا ہے۔وہ دبی اور غایب آوازوں اور مختلف حاشیوں پر ڈھکیل دئے گئے غیر موجود اور غیر حاضر (ABSENSE) اور خاموش (SILENCE)کردہ ذیلی اور ثانوی طبقات (1)تانیثی ڈسکورس(مُخاطبہ)(2) اقلیتی ڈسکورس (کلام) اور (3) دلِت ڈسکورس (مُدلل بیانیہ) کی طرف بھی بھرپور توجہ مرکوز کرتا ہے۔ جو جارحانہ اکثریت پسندی، فرقہ پرستی، فسطائیت پسندی، دہشت گردی، بُنیاد پرستی،سامراج پسندی،سرمایہ داری،بورژواژی اور بازار پسندی کے باعث سگِ پا (UNDER DOG)میں منقلب کردیے گئے ہیں۔ اُردوئی ما بعد جدید یت کا میلان اُن کے بد حال آثار،علائم،نشانات،کوائف اور مختلف کثیر اُصوات کو دیکھتا اور سُنتا ہے۔ تا ہم وہ اُس کے بر عکس فرسودہ اور سڑے گلے نظریات،باسی کڑھی کی اُبال کے مانند پھپھوند لگی تعمیمات،رسومیات اور ازکار رفتہ نیم جان عقائد و افکار پر بے محابا سُرخ سوالیہ نشان بھی لگاتا ہے۔ وہ زیادہ کُشادہ،جمہوری اور اِستبعادی(PARADOXICAL)کردار کا حامل ہے۔ وہ یکسانیت کے بجائے اِفتراق و اِلتوا(Differance)کو اہمیت دیتا ہے۔(عمران شاہد بھنڈر"فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں شروع سے آخر تک نہایت علمیاتی لاپرواہی سے "اِلتوا اور اِفتراق" لکھتا ہے۔ اس کے معانی اور مفاہیم ہی اُلٹ جاتے ہیں۔ یہ اُس کی بُنیادی فاش غلطی،لا علمی اور جہالت کا اشاریہ ہے۔ وہ ما بعدجدیدیت ،پس ساختیات اور ردتشکیل کی ابجد سے نا وا قفِ محض ہے۔) یہ صحیح معنوں میں جدیدیت کا مُتبادل ہے۔ کلاسیکی مارکسیت بذاتِ خود جدیدیت کے ایوان میں ایک مُتبادل تھی۔ ما بعد جدیدیت میں کئی عالمی حیثیت کے نومارکسیت پسند دانشور بھی ہیں۔ در حقیقیت ما بعد جدید تکثیریت کے تصوّر کی اپنی بُنیادی شرط کے مطابق ما بعد جدیدیت میں مُتبادلات کی کثرت ہے اور نو کشادہ مارکسی تنقید بھی اُن میں ایک ہے۔ ویسے تو آزادی کوش نظریات کی پوری رنگ مالا ہی اُس کے پیش منظر میں ہے۔ یہ آزادی جوئندہ (EMANCIPATORY) تھیوری ما بعد جدیدیت کو بڑی انقلاب انگیز دھار اور کاٹ عطا کرتی ہے۔اُردوئی ما بعد جدیدیت کے مُتنوّع اور بو قلموں نظریات اور تصوّرات آج اُردو ادب اور تنقید کو مالا مال کر رہے ہیں۔ یہ پچھلی تحریکات کے مانند ایک واحد رویہ اور نظریہ کے علمبردار نہیں ہے بلکہ یہ متعدد نئے نظریہ ہائے نقد کا انکشاف کرتی ہے۔
اُردوئی ما بعد جدیدیت کے بنیاد گزار پروفیسر گوپی چند نارنگ کی محبوبیت اور مقبولیت سے غیر معمولی حسد کے باعث ادھر کئی شخصیت کُش اور کردار شکن لچر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ بھی منصوبہ بند سازشی معاملہ ہے لیکن یہ بھی سورج آسا سچّائی ہے کہ وہ مابعدجدیدیت کے طوفان میں اُڑ کر غائب ہو رہی ہیں۔ اُنھیں میں عمران شاہد بھنڈر کی مغربی تناظر میں "فلسفۂ ما بعد جدیدیت" خالص علمیاتی اوسط زدگی،نیم فلسفیانہ سطحیت،مشکوک و غیر مرتب فلسفیانہ سمجھ،فکری پلپلے پن،اقداری کھوکھلے پن،غلیظ و کریہہ لجلجی ذہنی رعونت، انتہائی گھٹیا اور رذیل نا رواداری، مخاصمانہ عیب جوئی،شخصیت کُشی، کردار شکنی اور افترا پردازی کی شکار بے مغز اور بے مایہ کتاب ہے۔ اس زرد دو لخت نام نہاد مُتعلمانہ فلسفیاتی کتاب میں کُلّی صداقت تو کیا جُزوی صداقت کی رمق بھی موجود نہیں ہے۔ "فلسفۂ ما بعد جدیدیت ہوائی خلائی جھوٹ کا مضحکہ انگیز سچ ہے۔ جس جھوٹ کا رنگ جتنا ہی کوڑھ کے مانند سفید ہو، وہ دُنیا داری میں اُتنا ہی تیر بہدف اور چلتا ہوا دبنگ تصوّر کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی نے صداقت کے ساتھ جتنے تجربات کیے تھے عمران شاہد بھنڈر نے اُس سے کہیں زیادہ اکیسویں صدی کے سب سے "بڑے جھوٹ" کے ساتھ غیر اخلاقی اور بد عنوان تجربات کیے ہیں۔
دُنیائے ادب کے اندیشے میں مُبتلا قاضی اُلقضایہ نام نہاد شمس الفضلا کے حمّام کا یہ خرِ نا مُشخّص ذہنی ایذا دہی اور نفسیاتی ایذا پسندی کے مرض میں مُبتلا بد ترین نرگسیت کا چلتا پھرتا اشتہار ہے۔ گدھا ہزار بار حج کرنے کے بعد بھی حاجی نہیں "نازی گدھا" کہلانے کے خبط کا قتیل ہو سکتا ہے۔ کہاوت ہے کہ پٹھانوں کی عقل گُٹھنے میں ہوتی ہے اور بھنڈروں کی عقل ٹخنے میں ہوتی ہے۔ اب بدنامِ زمانہ محاورہ "مارو ٹخنہ پھوٹے آنکھ "کے مصداق عمران شاہد بھنڈر کُل اُردو ادب کی آنکھ کو پھوڑنے کے زُعم میں یکسر مخبوط الحواس ہو گیا ہے۔ اُس کو نہیں معلوم کہ گوپی چند نارنگ کی تیسری آنکھ (شیو نیتر) دھیان گیان کے باعث متحرک اور بیدار ہے اور وزیر آغا کی تو "چوتھی آنکھ" بھی وا تھی۔جو "قدم کی آنکھ" ہے۔ وہ بیک وقت "چشمِ جاں" اور" چشم اللہ "ہوتی ہے۔ یہ لوگ"قیدِ فکر و نظر" (PHILOSOPHIA) سے آگے "آزادئی فکر و نظر" (PHILOSIA) کے عارف ہیں۔ جس سے عمران شاہد بھنڈر اپنی بد ترین ادبی مُحسن کُشی اور فکری احسان ناشناسی کے باعث ابھی تو قطعاً محروم ہے۔ وہ اپنے جذباتی شور و شر اور طالبانی بُت شکنی کے مُجاہدانہ زُعم میں وزیر آغا کے مرحوم ہوتے ہی وہ اُن کے خلاف بھی تیغ زن ہو گیا ہے جب کہ اُن کی زندگی میں اُن کی قدم بوسی کو وہ اپنے لیے باعث فخر و ناز تصوّر کرتا تھا۔
مصلحت باختہ ہوا گیر اور ہنگامہ گیر بھنڈر کی جعل سازیوں کے شکار حیدر قُریشی نے اپنے "عمر لا حاصل کے حاصل" عمران شاہد بھنڈر کا جعلی تعارف نامہ اپنے جریدے "جدید ادب" میں تحریر کیا تھا کہ وہ ما بعد جدیدیت کی ادبی تھیوری پر ڈاکٹریٹ کر ہا ہے جب کہ ڈاکٹریٹ کیا وہ تو جاہل محض ہے۔ اس کو تو اتنا نہیں معلوم کہ ما بعد جدیدیت ثقافتی تھیوری کی علمبر دار ہے ۔ ادبی تھیوری تو فی زمانہ شہرِ ادب سے باہر ریٹایرڈ معشوق جدیدیت کی تھیوری تھی جو اوّل و آخر صرف ہیئتیت کو ہی مسجود سمجھتی تھی اور سماجی ثقافتی اقتصادی اور سیاسی تناظر کو اپنی "نگاریں چمّ و خم اور سگاریں زُعم کے سبب قطعاً غیر ادبی او ر غیر فنّی بدعت تصّور کرتی تھی۔ گوپی چند نارنگ نے تو ہندوستانی، تواریخی، عمرانی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں "اُردوئی ما بعد جدیدیت" کی طبعزادانہ طور پر تخلیق، تشکیل اور تعمیر کی ہے(اُن کا سارا کام ہی اُردوئی ثقافت پر ہے)۔ اُس میں اُردو کی پوری ما بعد جدید نسل کے شاعروں،افسانہ نگاروں اور ناقدوں کا خونِ جگر شامل ہے۔تمام خواتین قلمکاروں کا خونِ جگر بھی کارفرما ہے۔ اس خورشید آسا صداقت کی شاہدِ عادل نارنگ کی مرتب کردہ اہم اور معنی خیز راہ نُما کتاب "اُردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ " ہے۔ اس ضمن میں اُن کا دسمبر 1995ء کا غالب اکادمی سلور جُبلی توسعیی خطبہ "ترقی پسندی ،جدیدیت، ما بعد جدیدیت،"ادب کا بدلتا منظر نامہ"،سیمینار کا کلیدی خُطبہ "ما بعد جدیدیت اُردو کے تناظرمیں"،"ما بعد جدیدیت کے حوالے سے کُشادہ ذہنوں اور نوجوانوں سے کچھ باتیں "خصوصی طور پر قابلِ ذکر و فکر ہے۔ بعد کے یہ دونوں مقالات تو پہلے سہ ماہی "نیا ورق" ممبئی میں ہی شائع ہوئے تھے۔ البتہ انھوں نے صرف "علمیاتی بصیرتوں" کو پوری دُنیا کے تنقیدی ادبیات سے اپنے عالمی اورقومی سیاق و سباق میں نہایت تنقیدی اور بصیرتی تمیز و تہذیب کے ساتھ اُردوئی ما بعد جدیدیت میں استعمال کیا ہے۔ اس سلسلے میں اُن کا معنی خیز اہم آرٹکل "ما بعد جدیدیت عالمی تناظر میں "اس خورشید نیم روزی صداقت کا گواہ ہے۔ نارنگ کے ان تمام مقالات میں اُن کی منفرد تنقیدی بصیرت اور تخلیقی تخیّل کا بھر پور استعمال ہوا ہے۔ اُن کے اندر مختلف عالمی،مقامی اور قومی افکار کی تفہیم،تعبیر،تفسیر،تنویر اور معروضی تجزیہ کاری کی فکری اہلیت ہے۔ اس غیر معمولی تنقیدی لیاقت کی عملی اور اطلاقی کارکردگی کا مظہر اُن کا مقالہ "کیا تنقید کی بدلتی ترجیحات اور رویہ ہمیشہ نظریاتی اور اقداری نہیں ہوتے؟" "اطلاقی تنقید:نئے تناظر"مرتبہ گوپی چند نارنگ خصوصی طور پر معرکہ آرا ہے۔ جو اُن کی ادبی اخلاقیات،تعقلات اور اطلاقیات کی بھرپور ترجمان ہے۔ محولہ بالا ان دو کتابوں کی بُنیاد پر واقعتاً اُردو ادب میں ایک وقیع اور فکر انگیز مکالمہ شروع ہوا۔ اس معنویات افروز مخاطبہ کا جشنِ عالیہ ابھی تک قائم و دائم ہے۔ معاصر رجحان "اُردوئی ما بعد جدیدیت" پر دہلی اردو اکادمی اور ساہتیہ اکادمی متعدد سیمینار پہلے ہی کرا چکی ہیں۔ اُسی قدر اہم اور معنی خیز کتابیں بھی شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں۔
ان تمام زندہ،تابندہ اور پائندہ، لطیف اور رفیع تر تنقیدی اور ادبی حقائق سے نا واقف صرف نیم فلسفیانہ کج مج مغربی تعصبات و تاثرات سے مسحور اور مغلوب عمران شاہد بھنڈر اپنے نابالغ ذہنی زُعم اور جذباتی شور و شر میں مغربی تناظر میں خام مغربی" فلسفۂ ما بعد جدیدیت"اُردو کے قارئین کے لیے نہایت غیر سنجیدگی اور پھوہڑ پن سے پروس رہا ہے۔وہ شائد مغربی فلسفہ میں محض متعلمانہ سطح پر ایم ۔فل (1)تو کیا ایم اے بھی نہیں۔

(2)
گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری کے مفکرین کی نئی بصیرتوں کا سنسکرت شعریات کے مفکرین کے فلسفیانہ اور مفکرانہ بصائر کا جو لطیف اور رفیعی تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اُس کے عمیق تحلیل و تجزیہ سے جو نئے فکریاتی نتایج اخذکئے ہیں، وہ یکسر صاف و شفّاف نئے علمیاتی نتائج ہیں۔ وہ ما بعد جدید عالمی تنقید کی نو فکریاتی نتائجیت (NEW PRAMATICES) میں بھی قابلِ ذکر و فکر ہے۔ اُن نتائجیہ جہات(NEW PRAMATIC DIMENSION)سے انکار کرنا یکسر فکری بد دیانتی ہے۔ ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔ اِس بوطیقائی نُکتہ سے محرومِ بصیرت عمران شاہد بھنڈر ابھی قطعاً نا واقفِ محض ہے۔ وہ ما بعد جدید تنقید کے خاصانِ خاص بُصرا کے لیے بھی شئے لطیف ہے۔ ادبی دہشت پسندی کے اصلی سرغنہ کے نمائندہ نا بالغ ذہن بھنڈر کی بے بُنیاد غیر تنقیدی اور غیر ادبی اٹکلوں اور افواہوں سے بھڑکیلی اور بھڑکاؤ سنسنی خیز قابلِ فروخت نیوز تو بن سکتی ہے لیکن اُس میں حقیقت خُود کُشی کرتی ہے۔ صداقت ،انصاف اور تواریخی قوتیں گوپی چند نارنگ کے ساتھ ہیں۔ اُن میں پیچھے پن کی جانب جانے کے بجائے ہمیشہ نت نئے پن کے لیے ذہنی کُشادگی اور زبردست فوکس ہے۔ بھنڈر اپنے مٹّی کے پیروں پر کُلہاڑی مارنے میں چھوٹا اُستاد ہے۔ ایک دن اُس کو پتہ چلے گا کہ وہ "وِدراوے" ہو گیا ہے۔ نارنگ نے طرزِ کہن پر اڑنے اور آئینِ نو سے ڈرنے کے بجائے اُردو ادب کو تنقید کا نیا ماڈل عطا کر دیا ہے۔نتیجتاً نہ صرف ہندو پاک بلکہ اُردو کی نئی بستیوں میں نارنگ کے نام کا ڈنکا بج گیا ہے۔ نارنگ نے اپنے نو تواریخ ساز مقالے" تنقید کے نئے ماڈل کی جانب" کے اختتامیہ پر نہایت دور اندیشی سے حاضر اور نیم حاضر حاشیہ بوس اور حاشیہ پوش مُقتدرات کی رذیل ترین سازشوں اور بارودی سُرنگوں سے بچنے کے لیے دافع بلّیات الطاف حسین حالی کا نسخۂ نجات یا رُقعۂ آخرہ چسپا ں کر رکھا ہے۔
"لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے پرہی اکتفا کیا جائے اور خوبیوں کوبہ تکلّف بُرائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصوّر کریں گے۔"
(صفحہ 573،ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات : گوپی چند نارنگ)
بڑی دُور رس تخلیقی بصیرت اور تنقیدی ویژن پہلے سے ہی بڑی دُور رس پیش بندی اور زائچہ بندی کر لیتی ہے اور ہر نوعیت کے منفی رویوں کو اپنی ادبی زندگی کی پوری کھلاوٹ کے لیے اُنھیں زر خیز کھاد میں منقلب کر لیتی ہے۔ تھیوری کے فکریاتی مسئلہ کو نارنگ نے قدیم ہندوستانی شعریاتی روایت کے وسیع تر پس منظر میں اُس کے مختلف فکری پہلوؤں کی تائید اور تردید کا غیر معمولی تجزیاتی مُحاسبہ کیا ہے۔ اُس سے ہمیں مستقبل میں مشرقی اور مغربی بوطیقائی روایات کے ما بین باہمی فکریاتی تعامُل کی ضرورت محسوس ہو گی۔مزید براں ہمیں ایک عظیم اور قدیم تر لسان (Langue)کی وساطت سے دونوں مُخاطبوں کے ناقابلِ تقسیم ہونے کا بھی احساس اور عرفان ہوگا۔جس سے دو عظیم تر شعریاتی روایات اپنے اپنے مخصوص طریقوں سے نئے سوالات اورمکالمات(PAROLE) کا اپنے مخصوص تناظر میں حل تلاش کرنے کی اہل ہو سکیں گی۔
عمران شاہد بھنڈر کا بے سروپا فلسفیاتی مقدمہ تو اُسی وقت خارج ہو جاتا ہے اور اُس کی لا یعنی کتاب بھی ساقطِ المعیار ہو جاتی ہے، جب یہ نیو کلیائی انکشاف ہوتا ہے کہ نارنگ نے تو ہندوستانی تناظر میں "اُردوئی ما بعد جدیدیت" کی طبعزادانہ اور خلّاقانہ طور پر تخلیق،تشکیل اور تعمیر کی ہے اور "اُردو ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ" نام سے ایک اہم کتاب بھی مُرتب کی ہے۔اُس پر ایک عظیم الشان کُل ہند و پاک سیمینار بھی منعقد کرا چکے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کی دُکھتی مُتعصبانہ یرقان زدہ آنکھیں اس سورج آسا حقیقت کی تاب نہیں لا پاتی ہیں۔ وہ اپنی ژولیدہ کتاب "فلسفۂ ما بعد جدیدیت" میں "اُردو" لفظ کو نہایت شیطانیت سے اُڑا کر محض "ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ" کا نہایت شاطرانہ طور پر بار بار استعمال کرتا ہے۔ اُس کی ذہنی بد دیانتی اور ریا کاری کا یہ عبرت ناک عالم ہے کہ آخیر میں اپنی کتاب کے "حوالہ جات" میں بھی مزید غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے صرف "ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ" کا ہی اندراج کرتا ہے۔ (حوالہ جات صفحہ 475،فلسفۂ ما بعد جدیدیت) ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مہا جھوٹ کی دھُول کی رسّی بٹنے والا تارکِ ذہن،تارکِ شعور اور تارکِ ایمان شخص ہے اور اپنے پیر و مرشد شمس الفضلا کے مانند ہی کافور خور فاطن ہے۔وہ اپنی گھسی پٹی عیّا رانہ سوچ کی بِل سے باہر نہیں آتا ہے۔نفسیاتی طور پر یہ سفید جھوٹ کی رسّی اُس کو شدید احساسِ جرم کی وجہ سے بے محابا ڈس کر بے نیل و مرام کر گئی ہے۔ وہ نارنگ شکنی کے واہمہ اور فریبِ نظر کا شکار ہو کر خود شکنی اور خُود افگنی کا مُرتکب ہو گیا ہے۔ یہ نفسیاتی خُود کشی کے مُترادف ہے۔
عمران شاہد بھنڈر اپنی انانیت گزیدہ کتاب میں بار بار اپنی فکری بے دست و پائی اور اخلاقی شکست خوردگی کے باعث اپنے مضمحل اور مدقوق غیر معروضی ذاتی عصبیتوں اور قضیوں کو نہایت جذباتی اور ہذیانی انداز میں پیش کرتا ہے۔ تاہم وہ مقدمہ ہارے ہوئے نفسیاتی مریض اور اوہام گزیدہ شخص کے مانند اپنی کتاب میں بار بار پیترے بدل بدل کر ایک ہی بات کو دُہرا رہا ہے کی نارنگ مُترجم ہیں یا سارق! اُس کا نیک خیال ہے کہ کاذبانہ طور پر تکرارِ محض کی سمع خراشی سے اُس کی مفروضہ اور واہمہ زدہ من گھڑت بات سچ مان لی جائے گی۔ اس بے بُنیاد الزام تراشی کے بر خلاف نارنگ نہ تو مترجم ہیں اور نہ سارق۔ وہ نت نئی "ادبی بصیرتوں کے اوّل و آخر جوئیندہ و یابندہ ہیں۔ وہ اُن کو اپنے اُردوئی تناظر میں منقلب کرنے والے ایک اہم اور منفرد نظریہ ساز اور کیمیا گر ہیں۔اُن کو مٹّی کو سونا بنانے کی خوش ہُنری اور خوب ہُنری آتی ہے تو ہی "ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات"نئی اُردوئی بوطیقا کے روپ میں وجود پذیر ہوئی ہے اور اُس کو قبولیت اور محبوبیت بھی نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ کے اس غیر معمولی فکریاتی کیمیائی عمل سے اُردوئی تناظر کو،ہندوستانی تناظر کو اور دیسی تناظر کو یکسر نئی شاداب زندگی اور نئی سر سبز روح نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ اپنی نت نئی بصیرت جوءِندگی اور یا بندگی کے باعث فی زمانہ ہندوستانی ما بعد جدید تناظر میں "نئے عہد کی تخلیقیت "تک پہنچ گئے ہیں، جس سے عمران شاہد بھنڈر کے فرشتے بھی ابھی تک نا واقفِ محض ہیں۔ جیسے پنڈت رتن ناتھ سرشار کے "فسانہ آزاد " میں بات بات پر "افیون زدہ خوجی" "لانا تو ذرا میری قرولی" کا افیونی نعرہ بُلند کرتا تھا، بعینہ "سرقہ کی نفسیاتی مشروطیت کا شکار" بھنڈر اپنی کتاب میں بار بار "لانا تو ذرا میرے سرقہ کا تڑکا" کا آسمان کی طرف اپنا منھ بلند کر بے تکان بھونکتا چلا جاتا ہے، جیسے ہوا اور خلا میں مسلسل صوتی نقش بافی کر رہا ہو جس کااوّل و آخر مقدّر فنا ہے۔
اس کوتاہ نظر اور کوتاہ بیں بھنڈر کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اُس میں باقاعدہ اُردو ادب شناسی اور اُردو ادب فہمی قطعاً کمیاب تو کیا نایاب ہے۔ وہ پوری والہانہ جذباتی سُپردگی اور ناقابلِ تسخیر پورے حوصلے اور ولولے کے ساتھ نارنگ کے مانند معاصر اُردوئی شعر و ادب اور تنقید و تحقیق کے منظر نامہ میں قطعی شریک نہیں ہے بلکہ وہ اُن سے بالکل نا بلد ہے۔ اب وہ خود ہی اپنے اُستاد معنوی حیدر قریشی کے لکھے ہوئے اپنے مختصر فرضی تعارف نامہ کو مسترد کر اپنا باقاعدہ تعارف کرا رہا ہے کہ اُس نے 2007ء میں "فلسفۂ انگریزی ادب میں" ایم۔اے کیا ہے اور 2009ء میں سُولی ہل کالج سے ایجوکیشن میں سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے بعد برطا نیہ میں ہی شعبۂ تعلیم سے وابسطہ ہو گیا ہے۔(2)
شعبۂ تعلیم میں گھٹنے کے بل چلنے والا،شعبۂ تعلیم کی ہمالیائی چوٹی ہمادری گوپی چند نارنگ کی شان میں گُستاخی کرنے والا، ادب کے ساتویں آسمان پر تھوکنے کی بیجا جسارت کرنے والا بھنڈر آج خود اپنے اُوپرواپس ہوتے ہوئے تھوک کو بار بار نگل اور اُگل رہا ہے۔اُس کی بچکانا اور طالب علمانہ تعارفی کتاب مغربی تناظر میں فلسفۂ ما بعد جدیدیت اُس کی بچکانی فکریاتی جُگالی کی اُگالدان ہے۔اِس پیک دان میں تو اپنے موضوع کی روشناسی بھی نہیں کار فرما ہے۔ صحیح علمیاتی روح شناسی کے لیے تو اُس کو "دوسری پیدائش " درکار ہے۔

(3)
صحیح تر علمیاتی روح فہمی کے ضمن میں نارنگ کا فکریاتی عطیہ یہ ہے کہ انھوں نے ما بعد جدید اور ما بعدنوآبادیاتی عہد کی ترجیحات کا حقیقی احساس و عرفان حاصل کرتے ہوئے ما بعد جدید دور کے اصل مسائل کو ہندوستانی تناظر میں جاننے اور پہچاننے کا پہلی بار ٹھوس قدم اُٹھایا ہے۔ جب کہ اُن کے دوسرے ترقی پسند اور جدیدیت پسند معاصرین اپنے اپنے مخصوص اور محفوظ گھونسلوں میں منقارِ زیر پر تھے۔ اس فکریاتی پیش قدمی نے معاصر اُردو ادب اور اُردو تنقید کو ادراک معنی کا عظیم الشان منظر نامہ فراہم کر دیا ہے۔ اس نئے ڈسکورس(مُخاطبہ) کا درخشاں نتیجہ ہے کہ ہم عالمی ادب اور تنقید کا ہی نہیں بلکہ اپنی زندہ اور متحرک روایت،تاریخ،ادب و ثقافت اور تمام برصغیری زبانوں کا اکیسویں صدی کے نئے تناظر میں از سرِنو تنقیدی مُحاسبہ اور مُحاکمہ کر سکنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس مغربی تناظر میں بھنڈر کی فلسفۂ ما بعد جدیدیدت، کاغذ، قینچی اور گوند کی کرشمہ سازی سے تیار کردہ مُنتشر تنقیدنگاری کا نظر بند اور فریبِ نظر پرور طلسماتی ایبسرڈ تھیٹر ہے۔ اُس میں باز گزیدہ نقطۂ نظر سے نئے مغربی اور مشرقی فلسفیانہ نظام کے کُشادہ اشتراک اور جامع اِفہام و تفہیم کے موزوں اور مناسب نقطوں کو نہایت کور نظری سے جارحانہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور دیدہ و دانستہ شباہتِ کِذبی(SIMULCRA) کے ذریعہ مصنوعی،فرضی اور جعلی سرقہ اندوزی کا بے بُنیاد مقدمہ"پوشیدہ سازشی مفادات" کے تحت گڑھ کر ادبی دہشت خیزی، جماعتی فرقہ واریت اور طالبانیت و لشکریت کو فروغ دیا گیا ہے۔ نارنگ نے اُردو دُنیا کی علمیاتی فیض رسانی کے لیے "ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات" کے مصادر کتاب (کتابیات) پر "ستارے کے نشان" منقوش کر دیے ہیں۔ اُس سے مُراد یہ ہے کہ وہ مآخذ جس سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے۔ نارنگ کے اس غیر معمولی اخلاقی احسان اور امداد کو یکسر نظر انداز کرکے بھنڈر نے اس نام نہاد فلسفیاتی جنگ نامہ میں اس "ستارے کے نشان" سے نارنگ کے خلاف اسٹار وار شروع کر دی ہے۔ یہ ایک اچھّی اور معنی خیز روایت کو مُنہدم کرنے کی غیر انسانی رذیل ترین شخصیت شکن اور کردار کُش کوششِ ناکام ہے۔ اس مجنونانہ اور کاذبانہ شباہت افروزی کی رنگ بھومی میں نیم بلوغت زدہ فکریاتی سُراغ رسانی اور بیکار کی میلوڈرامائی جارحیت کی ڈان کویکزیٹی رزم آرائی کے احمقانہ مظاہر نہایت بے ڈھب اور لچر ڈھنگ سے مرتب کیے گئے ہیں۔(3)یہ کہیں کے نام نہاد فلسفیاتی اینٹ اور کہیں کے علمیاتی روڑے کا مضحکہ انگیز غیر فکریاتی اور غیر فلسفیاتی بھانو متی کا پٹارا ہے۔ یہ ادھ کچرے اور دو لخت فلسفیانہ سیلانِ شعوراور یہاں وہاں سے مسروقہ مضحکہ خیز سرقہ آرائی کا نام نہاد فکریاتی رزم نامہ ہے۔ بھنڈر کی پوری غیر علمیاتی فاضل اور فضول کتاب ترسیل کے المیہ کا بد ترین کنسُرا بھونپو ہے۔ وہ اپنے شمس الفضلا کی "ہز ماسٹر وائس" ہوکر خاصہ مُضحک ہو گیا ہے۔ اُس کی مضحکہ انگیز کج مج گُنجلک تحریر کا صرف ایک سبُک اور رکیک نمونہ خاطر نشیں ہو۔ جو اُس کی پوری فضولیاتی اور فلسفیاتی کتاب کی ژولیدہ اور مُنحنی تحریر کی نُمائندگی کر رہا ہے :
" مغربی سامراج "بُعد" کے اس گھناؤنے عمل کا انہدام نہیں ،اُس کا تسلسل چاہتا ہے۔ وہ "بُعد" کے اس تضاد کو حل نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وہ خود "بُعد" کا شکار ہے۔ "بُعد" اُس کے لیے ازلی حقیقت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ "بُعد" اُس کے وسط میں بھی موجود ہے۔ جب کہ اُس کا انہدام کُل بحران کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔"
(صفحہ 472،فلسفۂ ما بعد جدیدیت)
ہمہ صفت موصوف میں تذکیر اور تانیث شناسی تک کی حس معدوم ہے۔
نعش خورگدھ کی نگاہ ہمیشہ مُردار پر ہوتی ہے۔ اس خار پُشت(کانٹے دار) نیم مُردہ چوہے کی کم نگاہی(MYOPIC VISION)آج بھی کلاسیکی مارکسیت پر مرکوز ہے۔ فی زمانہ عالمی اور قومی تناظر میں اُس کی دھجّیاں اُڑ گئی ہیں۔ آج دُنیا کے نقشے سے کلاسیکی مارکسیت غائب ہو گئی ہے۔ سویت روس جس کی ایک گھُڑکی پر امریکہ کی سٹّی پٹّی گُم ہو جایا کرتی تھی، وہ ایک معمولی سا مُلک رہ گیا ہے۔ مشرقی یورپ کے آمرین تنکے کے مانند ہوا میں اُڑ گئے ہیں اور سب سے بڑی بات جو مارکسیت فیشن ہوا کرتی تھی، (اور جو اوّل و آخر روایت گزیدہ ترقی پسندی کا پیمانہ تھی) وہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں آؤٹ ڈیٹیڈ،ذہنی دْقیا نوسیت،عملی مجہولیت،افیونیت اور جمود کی بدترین علامت بن گئی ہے، خود ہندوستان میں یہ شعور سوز سورج آسا سچائی ہے کہ کلاسیکی کمیونزم کے گڑھ مغربی بنگال اور کیرل میں کمیونسٹ مورچہ کو ملی انتخابی شکست کے بعد تقریباً وہی کفن آلود ماحول ہے جیسا کہ 1991ء میں سویت یونین کے زوال کے بعد تھا۔ آج مارکسیت مُخالفین کے جوش و خروش کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ اُن کی رائے میں اب بائیں بازو کی سیاست کو ایسی پٹخنی مل گئی ہے کہ اُس کا پھر سے اُٹھنا دُشوار ہے۔ درحقیقت کلاسیکی کمیونسٹ فکری نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو اظہار اور سیاسی عمل کی آزادی صرف اپنے لیے چاہئے۔ یعنی جب وہ اقتدار کی مُخالفت میں ہو ں لیکن خود اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ آزادیاں دوسروں کو ہرگز نہیں دینا چاہتے۔مزید عبرت کے لیے بھنڈر کا ایک اور اقتباس خاطر نشان ہو۔ اس سے اُس کی ذہنی کوتاہئی پرواز اور محدود فکری رینج کا اندازہ ہو گا :
" تیسری دُنیا کے پسے ہوئے عوام کو یہ جنگ اجتماعیت کی بُنیاد پر لڑنی ہے۔ اگر مُمکن ہو سکے تو فرانز فینن کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی دفاع اور اپنی بقا کے لیے تشدد کا دامن تھامنا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ تشدد اور دہشت سامراج کے ہتھیار ہیں۔ سامراج اپنے عہد کے اعلیٰ ترین سائنسی علم و ٹکنک کو قتّال کے عمل کو ممکن بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تیسری دُنیا کے عوام کو تشدد کا جواب دینے کے لیے "مہاتما گاندھی کی منافقت پر مبنی مکروہ اخلاقیات" کا سہارا لینے کے بجائے ایک سچّے انقلابی کے مانند لڑنا ہے۔ اس عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس تھیوری کو وضع کرنا ضروری ہے جو اجتماعی مفاد کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ جسے سماج کے حقیقی تقاضوں یعنی انسان کے عمل کی سطح کو سامنے رکھ کر وضع کیا جائے اور وہ عمل میں اپنی سچّائی کو ثابت کرے۔ عہد حاضر میں جنم لینے والی یہ محرومی مادی جدلیت کے علاوہ اور کوئی فلسفہ سر انجام نہیں دے سکتا ہے۔ یہی ایک ایسا فلسفہ ہے جسے کسی بھی طوفان،بدلتی صورتِ حال اور اقدار کی شکست و ریخت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سماجی تغیّر ہی سے اُس کی نشو نُما ممکن ہو سکتی ہے کیوں کی تغیّر ہی اُس کی روح ہے۔تیسری دُنیا کے استحصال زدہ لوگوں کے پاس اپنی بقا کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
(فلسفۂ ما بعد جدیدیت: ص 474)
اس نہایت کٹّر و مُتشدد اور اندھے بند راستے کے بر خلاف صحیح معنوں میں ما بعد جدید ادب اور تنقید کو نئی کُشادہ مارکسیت (NEW OPEN MARXISM) نئی نتائجیت(NEW PRAMATICES)اور ثنوتیت(BINARISM)نے نہایت آزادانہ طور پر پروان چڑھایا ہے۔ اُس کی اساس تکثیری فلسفوں پر اُستوار ہے۔ وہ اپنی ماہیت میں بُنیادی تغیّر پسند(RADICAL)ہے۔ وہ علمی اور اخلاقی نوعیت کی بھی امین ہے۔ جو معاصر زندگی،تہذیب و تمدّن کی تکثیریت کو نمایاں کر ہرنوعیت کے افتراقات کو بھرپور طور پر عیاں کرتی ہے اور بیک وقت فکر و فن کی نئی جہات، مُضمرات اور مُمکنات کو فروزاں کرتی ہے۔اُردوئی ما بعد جدیدیت بھی کسی ازم پرزور نہیں دیتی ہے اور اکیسویں صدی کے نئے عہد کی تخلیقیت کو یکسر آزاد کرنا چاہتی ہے۔ مغرب کے نو مارکسی ناقدین اور اُدباء اس شِق کی معنویت کو خوب سمجھتے ہیں اور اُن کے یہاں ایسے سیّال تخلیقی رویے اور برتاؤ کے تسلیم کرنے میں کہیں کوئی دُشواری حائل نہیں ہے۔ اُس کا غالب سبب یہ ہے کہ مارکسی فکر کا جوہر اصل نو کُشادہ مارکسی فکریات میں منقلب ہو کر حقائق کی نئی صورتیں پیش کر رہا ہے۔(4)
عمران شاہد بھنڈر ما بعد جدیدیت کے سمندر کا ساحل بوس اور ساحل پوش ادنیٰ تماشہ گر تیراک ہے۔ مثلاً وہ اپنی پوری کتاب میں بار بار مستقل طور پر لا تشکیل کی تھیوری یا فلسفیانہ لا تشکیل کا نہایت غبّیانہ طور پر استعمال کرتا ہے۔یہ بُنیادی احمقانہ فرو گذاشت ہے جو شمس الرحمٰن فاوقی، قاضی افضال حسین سے بھنڈر تک کرتے ہیں۔ در حقیقت یہ تمام لوگ دارُالاحمقا میں محض ذوقِ تماشا کے خو گر ہیں اور سچّے غواص نہیں ہیں۔ اُن کی ذہنی حماقتوں کے بر خلاف بُنیادی شِق یہ ہے کہ اگر لسانی تشکیل (LINGUISTIC ICON)نہیں ہو گی تو ردِ تشکیل کس کی کی جائے گی؟ "لا تشکیل" بنیادی طور پر قطعاً غلط اور بے معنی اصطلاح ہے۔ آپ کیسے اکبری تحریر(ARCH WRITING)تک پہونچئے گا جو ردِتشکیل کی منزلِ مقصود ہے۔ اب تو(SUPRA ARCH WRITING)کو بھی کھوج نکالا گیا ہے۔ پھر ڈی کنسٹرکشن کے معنی فرانسیسی زبان میں"نئی معنویات کی طرف" ہے جس سے ژاک دریدا کے بیشتر انگریزی کے مترجم بھی چوک گئے ہیں۔ بھنڈر کی فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں تو سرے سے اکبری تحریر کا تذکرہ بھی نہیں ملتا ہے۔ بُنیادی مبادیات سے ناواقفیت کے باوجود بھی اُس کے شکستہ و ریختہ اور دو پارہ(اسکیزو فرینک)فلسفیانہ دعاوی آسمان گرد ہے۔ نتیجتاً اُس کا انجام اوّل و آخر پشیمانی صد پشیمانی ہے یا اُس کے اپنے رول ماڈل شمس الفضلاکے مانند چرکین کی برازیات اور امیر حمزہ و عمر و عیار کی صاحبقرانی،ریاکاری،عیّاری و مکّاری کی پناہ گاہوں میں رو پوشی ہے۔


(4)
اکیسویں صدی کے ما بعد جدید منظر نامہ پر اُردو کے اَپ ٹو ڈیٹ با خبر،با شعور اور با ذوق قاری کے لیے بھنڈر کی "فلسفۂ مابعد جدیدیت" نہایت پیچیدہ،گُنجلک،غیر مرتب اور مضحکہ انگیز غیر تحقیقی اور غیر تنقیدی کتاب ہے۔ جو اُس کے غیر منظم یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے خام مواد (کلاس میں دیے جانے والے "Notes & Queries") کی غیر منطقی پیوند کاری سے وجود میں آئی ہے۔ اس ڈھیلی ڈھالی مسکی ہوئی پیوند کاری میں بھی غیر متعلقہ واہی تباہی باتوں کی بھر مار ہے۔ جن کا بُنیادی مسئلہ سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اس غیر متعلق بیانیہ رپورٹنگ میں علمیاتی صداقت کا فقدان ہے۔اُس کا عندیہ ہی اسفل ہے۔ جونیتھن سوئفٹ کی بابت جارج آرول نے اظہارِ خیال کیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ اور انسانی فطرت کے مشاہدہ کے ضمن میں جزوی طور پر اندھا تھا۔ اُس نے آدمی کے منفی ،نحوست آگیں،ظلمت پسند رویہ اور غلیظ ابتدال پرور برتاؤ اور عمل کو ضرور دیکھا تھا۔ مگر اُس نے کبھی بھی انسان کے لطیف اور رفیع پہلو کو دیکھنے اور اُس پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔ عمران شاہد بھنڈر اپنے اسی منفی اور غیر انسانی رویہ کے باعث مغربی فلسفۂ ما بعد جدیدیت کے مِنی سرکس کا "مضحکہ انگیز کردار" اور "نک چڑھا مسخرا" بن کر رہ گیا ہے۔ اس ڈھیلے ڈھالے رکیک نیم فلسفیاتی اور فضولیاتی مُنّی سرکس میں کہیں بھی "سرکسی عناصر" اور "سرکشی اجزا" میں قطعاً "ظہورِ ترتیب" مفقود ہے۔وہ اوّل و آخر نیم جان فلسفیانہ اجزائے پریشاں کا نہایت مبہم،مغلق اور غیر صاف و شفّاف ملگجی آئینہ خانہ ہے۔ جو نیم رس فکریاتی اِبہام ،اہمال اور اِشکال کی لا یعنی نیم سُفت منطق کا"کِل کِل کانٹا گھر" میں منقلب ہو گیا ہے۔ اُس کی دو لخت انتہائی نمائشی سنجیدگی نُما مسخرگی،بے معنویت،مُہملیت اور سفاّک منفیت کے پسِ منظر میں اکرم نقّاش ،اذکار،بینگلور کا چبھتا ہوا اہم سوال اور گوپی چند نارنگ کا دو ٹوک،بے لاگ اور مُسکت جواب خاطر نشیں ہو:
اکرم نقاش:بڑی شخصیتیں متنازعیہ بھی ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس مفروضے سے خود کو مُستشنیٰ سمجھتے ہیں؟ حال ہی میں آپ کی کتاب "ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات "کے بارے میں کچھ تحریریں منظرِ عام پر آئی ہیں۔ کیا اُن تحریروں کا جواب خاموشی ہی ہو سکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ: آپ نے وہ مثل تو سنی ہی ہوگی"جوابِ جاہلاں باشد خموشی"۔ میری کتاب کے ابواب کوچھپے ہوئے آج چوبیس پچیس برس ہو گئے ہیں۔ آپ نے میری کتاب پڑھی ہوگی۔اگر پڑھی ہے تو اُس کا دیباچہ بھی دیکھا ہوگا۔ انتساب بھی دیکھا ہوگا۔جملہ کتابیات کی فہرستیں بھی دیکھی ہوں گی۔ تعجب ہے کہ بات"واوین" اور "قوسین" کی کی جا رہی ہے۔ کتاب کے مباحث اُن کی عمدگی یا کمی کی نہیں۔ اگر کوئی بات بر بنائے خلوص کہی جائے تو اُس پر غور کرنا فرض ہے لیکن جب معلوم ہو کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بربنائے سازش اور فریب دہی ہے ہے یا بدترین کردار کُشی، عصبیت یا خُوردہ گیری کی مُہم کا حصّہ ہے تو اُس کے بارے میں وہی کہا جاسکتا ہے جو میں نے اُوپر عرض کیا ہے۔
"ادب میں اختلافات ہمیشہ رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔خرابی وہاں ہوتی ہے جب لوگ نظریاتی یا فکریاتی سطح پر اپنے تصورّات کا دفاع نہیں کر سکتے تو اوچھے ہتھیار اپنانے لگتے ہیں۔ یہ گندگی پہلے نہیں تھی۔ واضح رہے کہ گالی کمزور فریق کا ہتھیار ہے۔جب دلیل کو دلیل سے نہیں کاٹا جا سکتا تو لوگ مُغلظات بکنے لگتے ہیں یا در پردہ فرقہ، برادری،مسلک کا سہارا لے کر اپنے احساس کمتری کو سہلاتے ہیں۔اختلافات کو برداشت کرنا اور اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا بڑپّن اور عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ میری شدید خواہش ہے کاش ایسا ہو لیکن ظرف چھوٹے ہو گئے ہیں اور شخصیتیں کوتاہ!"
(دیکھنا تقریر کی لذّت،صفحہ 534،ترتیب و تہذیب مُشتاق صدف)
"بات سچ ہو تو ایک بار کہنا کافی ہے۔البتہ جھوٹ کے لیے بار بار کہنا ضروری ہے۔ یہاں تو کھُلی عصبیت، اِفترا پردازی اور کردار کُشی ہے۔ممبئی کے ایک کرم فرما نے جو کچھ لکھا تھا اُن کا مسئلہ ذاتی ہے۔ جو سب کو معلوم ہے اور جسے میں دُہراانا نہیں چاہتا۔ان لوگوں کا مسئلہ بھی علمی نہیں ذاتی ہے۔ پھر بھی تین برس پہلے جب نند کشور وکرم اپنی کتاب چھاپ رہے تھے تو اُن کے پوچھنے پر میں نے صاف صاف کہا تھا اور یہ چھپا ہوا موجود ہے:
"جب میں نے تھیوری پر کام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احساس تھا کہ فلسفہ میں بُنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے۔ میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات تو فلسفہ کی کرتے ہیں لیکن جلد تخیل کے پروں سے اُڑنے لگتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہو کر انشائیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ،معنی سے لبریز اور گُنجلک ہے کہ اُسے سائینسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ ہے۔ اصل متن کی دُرستگی(PRECISENESS) اور زور و صلابت (RIGOUR) بنائے رکھنے کے لئے بے حد ضروری ہے کہ افہام اور تفہیم میں ہر ممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفہ کے ڈسپلن کی رُو سے تخیّل کی رنگ آمیزی سے اور موضوعی خیال بافی سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں حصّے تشریحی نوعیت کے ہیں۔مشرقی شعریات اور اختتام والے حصّوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اور اُن کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں میں نے اخذو قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔ جہاں ضروروی تھا وہاں تلخیص و ترجمہ بھی کیا ہے۔بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے مقولات(QUOTATIONS) بھی جگہ جگہ دینے پڑے تاکہ فلسفیانہ نُکتہ یا بصیرت پوری قوت سے اُردو قاری تک منتقل ہو سکے۔ ہر حصّے کے ساتھ اُس کے جملہ مآخذ اور کُتبِ حوالہ کی فہرست دی ہے(مصادر) اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا ہے یا جن سے زیادہ مدد لی ہے، ماخذ کی فہرست میں اُن ناموں پر اِسٹار(*)کا نشان بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ خیالات سُوسئیر ،لیوی اسٹروس،رومن جیکب سن،لاکاں،دریدا،بارتھ،فوکو،کرسٹیوا،شکلووسکی،باختن وغیرہ یا اُن کے شارحین کے ہیں۔ میرے نہیں۔ اس لیے کتاب کا انتساب اُن سب فلسفیوں اور مُفکروں کے نام ہے، جن پر کتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیباچہ میں کر دی گئی ہے کہ"خیالات اور نظریات فلسفیوں کے ہیں۔ اِفہام و تفہیم اور زبان میری ہے"۔ان فلسفیوں کو سمجھنا اور انھیں اُردو میں لے آنا اور اُردو میں اس طرح لے آنا کہ دوسرے بھی اس افہام اور تفہیم میں شریک ہو سکیں اور جن کو اشتیاق ہو وہ چاہیں تو اصل کتابوں سے بھی رجوع ہوں اور اُن بصیرتوں سے آگاہ ہو سکیں۔ میرے لیے مفکرین کی معروضی اِفہام و تفہیم بہت بڑا چیلیج تھا۔ میں اُس سے عہدہ برأ ہو بھی سکا یا نہیںیا اُردو میں کسی دوسری کتاب یا کسی دوسرے نے یہ تاریخی ضرورت پوری کی۔ اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
(گوپی چند نارنگ : بین الا قوامی اُردو شخصیت،مرتبہ نند کشور وکرم، دہلی 2008 صفحہ 145)
"ان ساری باتوں کی تفصیل میں نے دیباچہ میں دے دی ہے اور سب مآخذ کے نام کتابیات میں درج ہیں۔ کم و بیش ہر صفحہ فلسفیوں کے زریں اقوال اور اُن کے نام سے روشن ہے۔ مصادر میں بیسیوں کتابوں پر خاص نشان ہے۔ جن سے میں نے جی بھر کر فیضان حاصل کیا۔ مُعترضین افکار و نظریات پیدائش سے ساتھ لاتے ہوں گے۔ میں نے تو جو کچھ حاصل کیا۔ کتابوں سے حاصل کیا۔ اُن کے نام بھی دے دیے اور اُن کو نشان زد بھی کر دیا ۔اِدّعا میرا مزاج نہیں۔ پھر بھی میں چیلیج کر سکتا ہوں کہ ایک ماخذ یا کسی ایک مصنّف کا نام اب بتا دیں جس کا حوالہ میری کتابیات میں نہ ہو۔ میں نے اُوپر کہا ہے کہ میں نے بے دھڑک استفادہ کیا ہے۔ ان بیچاروں کو تو لفظ سرقہ کے معنی بھی نہیں معلوم ۔ ایک لفظ کہیں دیکھ لیا اُس کا راگ الاپنے لگے۔ میں صاف کہہ چکا ہوں کہ افکار و خیالات نظریہ سازوں اور نقادوں کے ہیں۔ فقط ترسیل میری ہے۔ میں نے جی بھر کے اِفہام و تفہیم بھی کی اور اخذ و استفادہ بھی کیا۔ جہاں سے جو کچھ لے سکتا تھا ڈنکے کی چوٹ پر لیا۔ البتہ اُن افکار سے موتیوں کی جو مالا بنائی ہے۔ اُس میں موتی تو کہاں کہاں کے ہیں۔مگر وہ مالا میرے ذہن نے میں نے پروئی ہے۔"
"میری کتاب کے شروع کے دونوں سیکشن تشریحی ہیں۔ جس میں ساختیاتی اور پس ساختیاتی مُفکرین اور نظریہ سازوں کے خیالات کو جیسا میں نے سمجھا اُنھیں غیر ضروری خیال آرائی سے بچا کر حددرجہ معروضی انداز میں اپنے فہم و ادراک کے مطابق اپنی زبان میں بیان کر دیا۔
"میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیالات اوریجنل میرے ہیں۔ البتہ جو نظریاتی مرقع بنایا ہے وہ بھلا بُرا میرے ذہن و شعور نے یعنی میں نے ہی بنایا ہے۔ اتنا جانتا ہوں کہ سرقہ ورقہ،چوری وغیرہ یہ سازشی مہم بازی کا حصّہ ہے۔ میری کتاب تو ایک معمولی کتاب ہے۔ یہ کیڑے ڈال کر اُس کی توقیر بڑھاتے ہیں۔خُود اُس سے بہتر کتاب کیوں نہیں لکھ دیتے۔ یا ایک نام بتا دیں جس کو میں نے نشان زد نہ کیا ہو؟میں ایک معمولی مصنّف ہوں۔ اتنا جانتا ہوں کہ بڑے مصنّف چھوٹی موٹی چوری نہیں بڑا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ کالی داس نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا۔ اُن کا ہر شاہکار مہابھارت اور پُرانوں سے ماخوذ ہے۔شیکسپئر نے بھی ہیرڈیٹس پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ غالب نے بھی بیدل پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ ورنہ یاس یگانہ چنگیزی زندگی بھر غالب شکنی کا جوکھم نہ اُٹھاتے۔ اقبال پر بھی قُرۃالعین طاہرہ کا الزام عائد کیا گیا۔ میں نے تو اپنے دیباچہ میں قاری کو اصل مآخذ سے رجوع ہونے کو بھی کہا ہے اور میری کتاب سے آگے نکل جانے کی دعوت بھی دی ہے۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے۔ مجھے خوشی ہوگی ایک دن ایسا آئے گا جب معترضین میں سے کوئی ذاتیات سے ہٹ کر دل سوزی،خلوص اور نیک نیتی سے ایسا کام کرے کہ میرا کام ردہو جائے۔ خُدا کرے ایسا ہو۔"
"کچھ تو ایسا ہے کہ خود شمس الرحمٰن فاروقی نے کہا تھا کہ . . ."اِدھر تنقید کی سطح پر ایک زبردست وقوعہ ظہور پذیر ہوا ہے۔ وہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ہے۔یہ کتاب دیر تک اور دور تک اُردو تنقید کو متاثر کرے گی۔"پھر یہ فرمایا کہ "یہ ایک بین العلومی کتاب ہے۔ جس کی قدر زمانہ کرے گا۔" (آن ریکارڈ)اگر اس کا دس فیصد بھی سچ ہے تو یہ مجھ نا چیز پر اُن کا کرم ہے۔ (اب وہ دوسری طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں حسد کی وجہ سے ان کا رویہ اب نارمل نہیں رہا، واللہ عالم بالصواب)"
"اکرم نقاش صاحب ،کیونکہ ادھر آپ نے سب کچھ نہیں پڑھا۔ میں چاہوں گا کہ آپ ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب"جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ "کا آخری باب "معترضین نارنگ پر ایک نظر" جو چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔اُسے ضرور ملاحظہ فرما لیں اور ذیل کے دو مضامین بھی جو اُس کے بعد انھوں نے لکھے ہیں۔اُن کو بھی دیکھ لیں۔ہر بات کا جواب مل جائے گا۔
1. ''Charge of Plagiarism:Myth or Reality''
www.outlookindia.com
2. ''The Courtiers and Clowns''
www.outlookindia.com
اکرم نقاش: آج جب انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ساری دُنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے غلبہ میں ہے ایسے میں کچھ دیوانوں کے جنون کے سہارے زبان و ادب بالخصوص اُردو کی نیّا کنارے تک پہنچ سکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ: اُردو کے مسائل تاریخ اور سیاست نے تو پیدا کیے ہی ہیں۔خود ہم نے بھی پیدا کیے ہیں۔ جس کا اشارہ اُوپر کیا گیا ہے۔ بیشک سائنس اور ٹیکنا لوجی کے غلبہ سے دُنیا کی رفتار بدل رہی ہے۔ سماج بدل رہا ہے۔ انسان بدل رہا ہے۔ زندگی بدل رہی ہے۔ زبانیں بدل رہی ہیں۔ تو اُردو میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ افسوس کہ ہماری زبان بُحران کی زد میں ہے۔ یہ بُحران سیاسی بھی ہے۔ لسانی بھی او ر تہذیبی بھی۔ ادب بیشک جنون کا کھیل ہے لیکن ایسی دیوانگی کا جو عشق کی فرزانگی سے سرشار ہو۔ فقط منفی مسائل میں نہ اُلجھیں۔ آنے والے زمانے کو نئے پریم چند، نئے منٹو، نئے بیدی،نئی قرۃالعین حیدر ،نئے فیض، نئے فراق، نئے ناصر کاظمی اور نئے اختر الایمان کی ضرورت ہے تاکہ نئے آفاق روشن ہو سکیں۔ ادب کی پہچان تغیرپذیر تخلیقیت سے ہے۔"
(جولائی،اگست، ستمبر2010 ،"دیکھنا تقریر کی لذّت"ترتیب و تہذیب مشتاق صدف)
گذشتہ صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی وصفی اور کمیتی لحاظ سے گہری اور دور رس اثر کو چھوڑنے والی ہے۔یہ "اُردوئی مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک" کی امین ہے۔ جو اکیسیوں صدی پر محیط ہوگی۔ حالات خواہ کتنے ہی بحران آگیں ہوں۔ مسائل کتنے ہی چیلیج آگیں ہوں۔ کسی بھی نوعیت کے ادبی طالبان اور تہذیبی لشکران کتنے ہی شخصیت،فکر و فن کُش ہوں۔ کیا زندگی اور ادب میں نت نئی تبدیلی کی زندہ رہنے کی آرزو دم توڑ دے گی؟ ایسا نامیاتی سطح پر ممکن نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں کیا صرف منفی طاقت ہی طاقت ہوگی؟کیا کوئی اثبات آگیں چیخ نہ ہوگی۔للکار نہ ہوگی۔ چُنوتی نہ ہوگی؟
دم سے آگے بم کبھی جاتا نہیں
جان دے کر بم کو دکھلاؤں گا میں
خاک مجھ کو ہر سفر میں ساتھ رکھ
ذہن افروزی کے کام آؤں گا میں
(مقیم اثر)
زندگی اور ادب نت نئے تخلیقیت افروز ممکنات اور مُضمرات سے مملو ہے۔ نت نئی تخلیقیت اور معنویت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں۔ یہ ہر لمحہ جواں،ہر لمحہ جُرات آزما،ہر لمحہ تازہ کار اور ہر لمحہ تبدیلی آشنا ہے۔ نارنگ کی خیالی ادبی موت کو ڈبل ٹَیپ(موت مُتعین کرتے ہوئے)فلسفۂ ما بعد جدیدیت کو دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا غیر ادبی مقدّر اوّل و آخر ازلی و ابدی،زبونی اور خرابئی بسیار ہے۔ یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہو گئی۔ نارنگ آج بھی ہمہ رُخی، فکریاتی روشنی کے مینار ہیں۔ اُن کا ہر ورقِ دل"کاغذِ آتش زدہ" (مطبوعہ 2011) ہے۔
عمران شاہد بھنڈر گوپی چند نارنگ کے جوتے میں اُبھر آئی ہوئی نا خواستہ ایک فضول نوعیت کی اذیت دِہ اُلٹی کیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو وقت کی ایک گردش کے بعد نیست نابود ہو جائے گی۔ اُس کا مخبوط الحواس دل و دماغ نیم پُخت، غیر مرتب اور غیر مُدوّن ادھ کچری نیم فلسفیاتی کثافتوں سے بُری طرح آلودہ ہے۔(5) اُس میں فکریاتی لطافت نابود ہے۔ وہ زندگی ، ادب اور فن کے کسی بھی نوعیت کے لطیفے سے قطعاً عاری، یکسر کلبیت زدہ رو بوئی کثیفہ ہے۔ اُس میں چند ذاتی تعصبات، مکروہ تاثرات اور پوشیدہ مفادات اور سازشات مشروط کر دیے گئے ہیں۔ وہ اوّل و آخر کاذبانہ شباہت انگیزی اور التباس آفرینی کے ذریعہ نا رنگ کے خلاف مُُنتقمانہ طور پر مسلسل مصنوعی واہماتی جنگ برپا دکھانے کے بد ترین زرد اور زعفرانی خبط میں مبتلا ہے۔ درحقیقت وہ مانگے تانگے کے مارکسی مُکھوٹے میں نہایت منفی سطح پر طالبانی اور لشکری جنگ جو شناخت کا سرغنہ بننا چاہتا ہے۔ وہ غیرادبی لشکری نوعیت کے طالبانی "مالیخولیا" میں مبتلا ہے۔ وہ اس غیر ادبی دہشت پسندی کو بڑھاوا دینے والا کچرا ہے۔ اُس کو صحیح جگہ پہونچانے کی ضروروت ہے۔ اُس کے لیے مخالفِ ادبی دہشت گردی کی تدبیر نا گزیر ہے۔ اُس کی "فلسفۂ ما بعد جدیدیت" تخلیقی توانائی،تخلیقی فوکس،تخلیقی تخیّل اور تخلیقی شعور و آگہی کی موت ہے۔آرٹ اِسپی گیل من نے 9/11کے حادثے پر منحصر جب اپنی شاہکار کہانی تخلیق کی تو انھوں نے اُ س کو " اِن دَ شیڈو آوف نو ٹاورس" سے موسوم کیا۔ وہ واقعی ایک دلآویز مثبت اور تخلیقیت افروز سوچ تھی۔ کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے برجوں کی موجودگی نے نا اُمیدی کا سامراج نہیں کھڑا کیا تھا بلکہ یہ روح فرسا تاریکی اُن کی غیر موجودگی کے باعث پھیلی تھی۔ یہ اُردو ادب اور تنقید کی سعادت ہے کہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت کی جانب ہم گوپی چند نارنگ کی غیر معمولی مُثبت اور تخلیقیت کُشا شخصیت اور فکر و فن کے عظیم تر اور وسیع تر دائرہ نور میں خوب سے خوب ترین منزلوں کی طرف مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
ماخذ
 

فاتح

لائبریرین
جدیدیت کیا ہے، کیا نہیں؟

از قلم: سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی)

دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اصولاً منشور بنیادی حقوق کے تحت ایسی حاکمیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستانی معاشرہ ابھی جدید نہیں ہوسکا ابھی روایات اور مذہب کے شکنجوں میں ہے لہٰذا مجبوراً مذہب کو بھی عوام کی اجازت سے دستور میں عارضی طور پر حاکمیت دی گئی ہے مگر یہ حاکمیت حتمی نہیں عوام جب چاہیں کثرت رائے سے حاکمیت الہ کی اس شق کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ 2009ء میں یہ حادثہ ہوچکا ہے جب ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں دستور سے خدا کی حاکمیت کی شرط ختم کرنے کے لیے قرار داد پیش کی قرارداد کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی نے کی۔ رائے شماری ہوئی تو خدا کی حاکمیت دو ووٹوں کی برتری سے برقرار رہی۔ ایک پاکستانی اخبار نے سرخی لگائی “خد ا کی حاکمیت دو ووٹوں کی اکثریت سے بچ گئی” جدید انسان قائم بالذات، فاعل مختار مطلق، ہدایت میں خود کفیل، خارجی ذریعۂ ہدایت سے بے نیاز اور ماوراء اپنے فیصلے خود کرنے کا حقیقی مجاز، ہر خارجی بیرونی ذریعۂ علم کی حاکمیت و رہنمائی سے ماورائ، خیر و شر خلق کرنے کا اختیار رکھنے والی ہستی، ہر ایک کی عبادت سے بے نیاز اپنے معبد میں خوداپنی عبادت میں مصروف لا فانی، نورانی، حیوانی وجود ہے۔ لہٰذا جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ خدا مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust( دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth( پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔ جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages( قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے کے انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی جدیدیت کے خیال میں اصل انسان تو روشن خیالی کے فلسفے کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ جدید انسان ہی حقیقی معنوں میں صاحب علم ہستی ہے جو روشنی سے منور ہے کیونکہ اس نے جہالت کی تاریخ کا انکار کرکے مذاہب سے بغاوت کرکے اپنے لیے زندگی کا راستہ اپنی ہی روشنی اپنی ہی رہبری و رہنمائی میں خود طے کرنے کا فیصلہ کیا ۔نشاة ثانیہ، روشن خیالی، جدیدیت انسان کی اسی خود کفالت، فارغ البالی، خود انحصاری، خود مختاری اور آزادی کامل کا نام ہے جدید انسان کو زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے سواکسی اور ذریعہ سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جدیدیت، جدید انسان کا یہ دعویٰ کہ عقلیت آفاقی ہوتی ہے اور عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار آفاقی نظام آفاقی اخلاقیات وضع کی جاسکتی ہے پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم( نے رد کردیا اس نے بتایا کہ عقل اپنی تاریخ تہذیب ثقافت میں محصور و مقید مسدود محدود ہوتی ہے مغرب میں اب اس رائے پر عمومی اتفاق ہے اس موقف کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کو دیکھیے:

Towards the understanding of Rationality Habermass.
Reading in the philosophy of social science.Mclntyre J. Gray.
Madness and civilization Focault.
False Dawn J. Gray.
Enlightement wake. J.Gray
contegency, Irony and Solidrity Rorty.
Hideger and Progress Rorty.
Relativity objectivity philosophical papers vol II Rorty.

جدیدیت مغربیت، جدید انسان، جدید فلسفے، جدید تعقل غالب کو سمجھنے کے لیے افلاطون و ارسطو، ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔
ہیوم اور کانٹ نے جدیدیت کے فکری اور عملی تسلط میں مرکزی کردار ادا کیا ہے کانٹ کا کمال یہ ہے کہ اس نے عقلیت اور تجربیت کو ملا کر جدید سائنسی انقلاب کی فکری اساس کو ممکن بنایا اور سائنسی طبعی تجربی علمیت کو ہی اصل العلوم قرار دے کر ان تمام علوم کو دائرے سے خارج کردیا جو عقلیت اور تجربیت کے مادی حسی طبعی معیارات پر پورا نہیں اترتے اس طرح جدیدیت نے تمام ما بعد الطبیعیاتی سوالات کا انکار کردیا اور ایک نئی ما بعد الطبیعیات جنم دی جو علمیت (Epistomology( سے ما بعد الطبیعیات(Metaphysics( نکالتی ہے۔ لہٰذا ڈیکارٹ، ہیوم اور کانٹ کی علمیت سے جو ما بعد الطبیعیات نکلی وہ ہائیڈیگر کے الفاظ میں حاضر و موجود کی مابعد الطبیعیات Metaphysic of Presence تھی۔
جدیدیت کو سمجھنے کے لیے جدید تصور نفس، جدید شخصیت، جدید معاشرت، جدید ریاست، جدید ما بعد الطبیعیات کے نظریات سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور جدید انسان کی پیدائش کا تاریخی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے وہ کون سے تاریخی عوامل و اسباب تھے جنہوں نے جدیدیت اور آزادی کے عقائد کو ابھرنے پنپنے کا موقع دیا۔ روایتی معاشرہ کمرشل معاشرے میں کیسے تبدیل ہوا کا مرس اور لبرٹی کے تصورات نے روایتی زندگی پر کیا اثرات ڈالے۔ جمہوریت، سرمایہ داری، بنیادی حقوق کے قافلے کس طرح وجود میں آئے۔ جدیدیت سے پہلے مغرب عیسائیت کی آغوش میں تھا لہٰذا جدیدیت کے ظہور، فروغ اور ارتقاء کو سمجھنے کے لیے، عیسائیت کی تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے۔ عیسائیت میں مذہب اور ریاست کی تفریق تھی کیونکہ عیسائیت کے پاس شریعت نہیں تھی لہٰذا عیسائی رومن ایمپائر نے ریاست کے لیے قوانین رومی قوانین سے لیے رومة الکبریٰ دو حصوں میں تقسیم تھی شہر خدا City of God اور شہر انسان City of man ۔ ایک جگہ خدا کا یعنی انجیل کا کلیسا کا اور پوپ کا حکم چلتا تھا دوسری جگہ ریاست جہاں بادشاہ کا رومی قانون چلتا تھا۔ پوپ زمین پر خدا کا نمائندہ تھا لہٰذا اس کی رائے مذہبی معاملات میں قطعی حتمی رائے تھی اس رائے سے کسی کو اختلاف کی اجازت نہ تھی لہٰذا عیسائیت میں کسی مذہبی مکتب فکر کو پنپنے کی اجازت نہیں دی گئی جس مکتب فکر نے پوپ کی رائے سے اختلاف کیا اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کلیسا نے رومی ریاست کے انتظامی ڈھانچے کی اتباع میں اپنے مذہبی ڈھانچے کو رومی بیوروکریٹک اسٹرکچر میں تبدیل کردیا پادریوں کے مناصب مرتبے قائم کردیے گئے ان مناصب سے گزر کر ہی سب سے اونچے منصب پوپ تک کوئی پہنچ سکتا تھا لہٰذا پادریوں میں دائمی مسابقت پیدا ہوگئی۔ گیارہویں صدی میں پوپ گریگوری VII Pope Gregoryکو جب اپنے اقتدار کی گرفت کمزور محسوس ہوئی اور اسے اندازہ ہوا کہ فرانس، جرمنی، برطانیہ کی بادشاہتیں آزاد ہونے کی کوشش کررہی ہیں تو اس نے ان ریاستوں کی بغاوت کو کچلنے کے بجائے بغاوت کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ کر عالمی صلیبی جنگوں کا آغاز کرادیا اس نے تمام عیسائی بادشاہتوں کے سامنے امت مسلمہ کا نام نہاد خطرہ دکھا کر ان سب کو عظیم مذہبی جنگ پر آمادہ کیا ان جنگوں کے لیے سرمایہ بادشاہوں نے کلیسا سے سود پر حاصل کیا جس نے کلیسا کے تقدس کو نقصان پہنچایا یہ مذہبی جنگ پانچ سوسال تک جاری رہی جس میں تمام یوروپی بادشاہوں کے کئی سو بیٹے بھانجے بھتیجے عیسائی مذہبی ریاست کے غلبہ کی راہ میں مارے گئے اس طرح پوپ نے پانچ سو سال تک عالمگیر جنگ برپا کراکے کلیسا کے خلاف بغاوت کا رخ عالم اسلام کے خلاف موڑ دیا Jonathan Lyons کی کتاب Islam through western Eyes کے باب سوم کا مطالعہ پوپ کے بارے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے چونکانے والے انکشافات کرتا ہے۔
THE WESTERN IDEA OF ISLAM
In a separate appeal dated March 1, 1074, to “all who are willing to defend the Christian faith;’ the pope reports that a visitor from “the lands beyond the seas” had informed him that “a race of pagans has strongly prevailed against the (Eastern( Christian empire and with pitiable cruelty has already almost up to the walls of the city of Constantinople laid waste and with tyrannical violence seized everything; it has slaughtered like cattle many thousand Christians” (2002:55(. This statement was almost surely a belated reference to the decisive defeat of the Byzantines at Manzikert two and a half years earlier at the hands of the Muslim Seljuq Turks. A further sense of the pope’s military ambitions may be seen in a letter to Henry IV of Germany three months later. Gregory here announces that he has already succeeded in rousing “Christians everywhere. . . that they should seek by defending the law to lay down their life for their brothers.” He says that fifty thousand “men from Italy and from beyond the Alps” are ready to march at his command, and he asks Henry to safeguard the church during his planned absence (123(. According to traditional historical accounts, Pope Gregory’s general commitment to the idea of holy war, his zeal in expanding papal prerogatives by force if necessary, his emphasis on indulgence for Christian holy warriors, his desire to extend Rome’s influence eastward, and his denunciations of pagans and Saracens alike cast him in the role of father of the anti-Muslim Crusades launched two decades later by Pope Urban II (r. 1088-1099(, his former aide and protege. The literature on the origins of the Crusades is, of course, extensive. Writing in the eighteenth century, Edward Gibbon (1910:6, 35( sees Gregory as animating the entire enterprise against the Muslims. Steven Runciman’s classic History of the Crusades praises the pope’s “imaginative statesmanship” in laying out the new policy of holy warfare (1951-1954, 1:99(. Recent studies take a somewhat more measured and nuanced view (Riley-Smith 1986; Asbridge 2004; Tyerman 2006(.
Gregory VII, then, becomes a significant link in a logical-and chronological-chain of events culminating in Urban’s call to the anti-Muslim Crusade. in November 1095 in the French town of Clermont. Thus Jonathan Riley Smith opens The First Crusade and the Idea of Crusading with the following summary of Western historical consensus: “There is general agreement that the (First( Crusade was the climacteric of a movement in which the eleventhctentury Church reformers, locked in conflict with ecclesiastical and secular opponents, turned to the knights of the Christian West for assistance. Pope Urban’s message to the faithful at clermont is believed to have been the synthesis of ideas and practices already in existence-holy war, pilgrimage, the indulgence” (1986:1(.
On the level of archaeological analysis, however, things look quite different, especially if, following Michel Foucault, we suspend the overriding search for historical unities. First of all, we can see from his official correspondence that Gregory VII is clearly casting the Saracens as a threat to individual Christians-even “many thousand Christians” -but never as an existential danger to Christendom as whole. Second, he is often confused about the nature of the enemy and assigns the adversary, whether described as “pagan” or “Saracen,” no particular ideological content beyond a general hostility to Christian interests. For example, he accuses the “pagans” who now rule most of Spain of “ignorance of God” (1990:6-7(, clearly not recognizing their direct religious and ethnic affinities with the Muslim Arabs and Berbers of North Africa, home to his interlocutor Anazir.
More confusion arises when we see how Gregory elsewhere distinguishes Saracens and pagans as he bemoans the levels to which the church has sunk of late: “Its ancient colors are changed, and it has become the laughingstock, not only of the Devil, but of Jews, Saracens, and pagans” (1990:195(. He is also more than prepared to paint rivals closer to home-the Normans, the Lombards, or even the troublesome citizens of his adopted Rome-as far greater concerns than any pagan or Saracen and to blame Europe’s secular rulers for fostering a culture of violence, instability, and war for profit: But now everyone, as if smitten with some horrible pestilence, is committing every kind of abominable crimes without any impelling cause. They regard neither divine nor human law; they make nothing of perjury, sacrilege, incest or mutual betrayal. Fellow citizens, relatives, even . brothers, capture one another for the sake of plunder, extort all the property of their victims and leave them to end their lives in misery, a thing unknown anywhere else on earth. Pilgrims going to or returning from the shrines of the Apostles are captured, thrust into prison, tortured worse than by any pagan and often held for a ransom greater than all they have. (39-40(
( Jonathan Lyons, Islam Through Western Eyes: From the Crusades to the war on Terrorism, Chapter 3, page 46 and 47, 2012, Columbia Press, USA. New York(
عیسائی دنیا پر پوپ کے ظلم و تشدد inquisition، جادو گری کے الزام میں ہزاروں عورتوں کے قتل عام وغیرہ کے نتیجے میں جرمنی میں پروٹسٹنٹ ازم کا ظہور ہوا کیلون ازم اور پیورٹن ازم برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں کیتھولک کلیسا کی حاکمیت کے خلاف بغاوت کے مظاہر تھے اس کے نتیجے میں پورے یورپ میں عیسائی مذہبی فرقوں کے درمیان سالہا سال تک خوفناک مذہبی جنگیں ہوئیں اسی عہد میں قوم پرست ریاستوں کا ظہور ہوا اور قومی چرچ بھی وجود میں آنے لگے کلیسا کی عالمی حیثیت مجروح ہوئی مذہبی بنیاد پر ریاستوں کے خاتمے کا معاہدہ آگیا مذہبی جنگیں بند ہوگئیں۔
سولہویں صدی میں یوروپی عیسائی حکومتوں نے پوری دنیا پر یلغار کی اور دنیا کے بہت بڑے حصہ کو غلام بنالیا۔ کولونیل ازم کے ذریعے یوروپ میں سونے کے دریا بہنے لگے، مال و دولت کا سیلاب آگیا اسی سیلاب نے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے وسائل کا انبار مہیا کردیا اور ایجادات کے فکری و نظری انقلاب کو عملی انقلاب میں تبدیل کردیا۔ عیسائی یوروپی جب دنیا بھر کو تاخت و تاراج کررہے تھے تو کلیسا نے انہیں کوئی سرزنش نہیں کی کلیسا کی جانب سے لوٹ مار کی اس حرام دولت پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا یوروپ کے تقریباً ہر گھر نے لوٹ مارکی اس دولت سے استفادہ کیا۔ سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرت، حکومت، ریاست کی تعمیر میں لوٹ مار کی اس دولت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب وہ شخصیت، انفرادیت، معاشرت، ریاست، حکومت وجود میں آگئی جس کا اصل سبب پوپ اور چرچ کی غفلت تھا تو لبرل انقلاب نے عیسائی مذہبی حاکمیت کے خلاف زبردست بغاوت کردی دنیا دار دین کی پابندیاں کیسے برداشت کرسکتا ہے جب کلیسا نے لوگوں کے دنیا دار بننے پر کسی رد عمل، افسوس، دکھ کا اظہار نہیں کیا تو اس نے لوگوں کی گناہ گار زندگی کو عملاً سند جواز مہیا کردی……. انہیں لبرل آزاد خیال…… اخلاقیات سے بے پروا بنانے میں کلیسا نے مجرمانہ کردار ادا کیا اگر ہیبر ماس کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو گرجا کی خاموشی مجرمانہ خاموشی (Criminal Silence( تھی۔ امریکہ و یوروپ کے لوگ روحانی طور پر دیوالیہ ہوچکے تھے کالونیل ازم کے ذریعے ان کے ضمیر سیاہ، غیرت، مذہب اخلاق سے محروم ہوگئے تھے جبر و تشدد اور دوسری قوموں پر بہیمانہ مظالم نے ان کی عیسوی مذہبی شناخت انفرادیت، مذہبیت، کو پارہ پارہ کردیا تھا مگر تاریخی روایتی طور پر وہ عیسائی ہی تھے لیکن ان کا طرزِ فکر، طرزِ حیات بدل چکا تھا اور کیتھولک عیسائی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھا لہٰذا اس خلاء کو جدید فلسفے نے پُر کردیا اور گناہ گار، خبیث زندگی کا، اخلاقی، علمی، منطقی، فلسفیانہ، عقلی جواز “آزادی” کے فلسفے کے ذریعے دیا گیا اس بدلے ہوئے انسان کی نفس پرستی کا مذہبی جواز پروٹسٹنٹ ازم نے دیا اور اس جدید مادہ پرست مذہب کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے اسکاٹش انلائٹنمنٹ نے ارتکاز سرمایہ اور سرمایہ میں مسلسل اضافے کا فلسفیانہ جواز مہیا کیا تاکہ آزادی و لذت میں اضافہ کیا جاسکے۔ حالات ساز گار تھے موسم اچھا تھا لہٰذا آزادی، بے راہ روی، عقلیت پرستی، لذت پرستی، شہوت اندوزی نے مغرب کے تمام علاقوں میں جڑ پکڑ لی یہی جدیدیت کا تاریخی ارتقاء ہے جدیدیت کے وجود اس کے ارتقاء اور اس کے اظہار کے پس منظر کو جانے بغیر ہم جدیدیت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔
جدیدیت کے دو بڑے اور اہم ترین مظاہر کانٹ اور اسکاٹش انلائٹنمنٹ ہیں جدیدیت کے فکر کو کانٹ کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا ان دونوں مظاہر پر اصل غلبہ پروٹسٹنٹ ازم کا ہے کانٹ پروٹسٹنٹ عیسائی تھی اور اسکاٹش انلائٹنمنٹ بھی پروٹسٹنٹ ازم کے زیر اثر تھی جس کے ذریعے جدید معاشیات (ماڈرن اکنامکس( کا ظہور ہوا۔ اسکاٹش انلائٹنمنٹ کے ذریعے سادگی، فقر، درویشی، دنیا سے گریز اور کم سے کم تمتع کی تاریخی روحانی صفات کو قابل ملامت بنادیا گیا بہترین آدمی وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ دولت رکھتا ہے لہٰذا جینٹل مین (Gentle man( اسکاٹش انلائٹنمنٹ میں اس شخص کو قرار دیا گیا جو دولت مند ہو یہ سبق پروٹسٹنٹ ازم نے دیا تھا کہ جو دنیا میں کامیاب ہے وہی آخرت میں بھی کامیاب ہوگا جو یہاں ناکام ہے اس کا آخرت میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے لہٰذا جدید معیشت نے انسان کا جو تصور پیش کیا وہ خالص مادہ پرستانہ ہے جس کا مقصد اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ ہے تا کہ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرکے اپنی آزادی میں اضافہ کرسکے زندگی کے ہر شجر سے خوشی کے خوشے چن سکے اس کا مقصد لذت، معیار زندگی، میں مسلسل اور مستقل اضافہ ہے۔ اسی لیے جدیدیت میں سرمایہ اور آزادی لازم و ملزوم ہیں سرمایہ آزادی کے براہ راست متناسب ہے سرمایہ جتنا بڑھتا ہے آزادی کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوتا ہے آزادی کے دائرے کی وسعت لامحدود ہے کیتھولک ازم فقر وفاقہ، درویشی، رہبانیت، سادگی اور سیدھی سادی زندگی کو حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی اتباع میں قابل فخر طرز زندگی کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن کالونیل ازم کے بعد جب یوروپی لوگوں کا طرز زندگی، معاشرت، انفرادیت تبدیل ہوئی تو ان کی گناہگار زندگی کیتھولک ازم کے بجائے پروٹسٹنٹ ازم سے ہم آہنگ ہوگئی لہٰذا لوگ یا تو دہریے، ملحد مذاہب سے آزاد ہوگئے یا کیتھولک ازم سے نکل کر لوتھر کی عیسائیت میں داخل ہوگے جہاں ہر شخص کو انجیل کی تشریح کا اختیار تھا کیتھولک کلیسا کی غفلت، لا پرواہی اور کالونائزیشن کے خلاف دانستہ خاموشی نے آزادی، ترقی اور معیار زندگی میں مسلسل و مستقل اضافے کی اقدار کو یورپ کے عیسائیوں کے لیے ایک فطری طرز زندگی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جدیدیت کے اہم مفکرین ڈیکارٹ، اسپینوزا، لائبنز، لاک، برکلے، ہیوم، ہیگل مارکس، فخٹے، روسو، والٹیر، ٹاکو ویلی ہابس، کانٹ وغیرہ ہیںکانٹ نے ہیوم سے اثر پذیر ہو کر تجربیت و عقلیت کے آمیزے سے وہ فلسفہ علم پیش کیا جس کے نتیجے میں سائنٹفک میتھڈ کے معیار پر نہ اترنے والے علوم علم کی اقلیم سے خارج کردیے گئے اس نے ما بعد الطبیعیات کا انکار نہیں کیا صرف یہ کہا کہ ہمارے پاس وہ ذرائع اسباب وسائل ہی نہیں ہیں جن سے ہم ماوراء طبیعیاتی امور تک رسائی حاصل کرسکیں۔ جدیدیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
1) The dilecties of Enlightement Adarno
2) One dimensional man. Marcuse
3) what is enlightement. Kant (Article(
4) What is enlightenment? Focault (Article(
5) Cultural Contradictions of Capitalism Danial bell
6) The betrayal of Tradition Hana Arent.
اٹھارہویں صدی سے پہلے دنیا قدیم تھی جو اٹھارہویں صدی کے بعد ایک دم جدید ہوگئی اس جدید دنیا کے بنیادی اعتقادات، نظریات، ایمانیات کیا تھے مختصراً دیکھ لیتے ہیں۔
جدید انسان اٹھارہویں صدی سے قبل/جدید انسان اٹھارہویں صدی کے بعد
1۔ ہر تہذیب کا انسان کسی نہ کسی بالاتر و برتر اعلیٰ ہستی کی پرستش کرتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی پرستش کرنے لگا۔
2۔ علم باہر سے، خارجی ذریعے سے، روایت سے، وحی سے یا آسمان سے آتا تھا۔ / علم خود انسان سے عقل سے میسرآنے لگا۔
3۔ انسان علم کے لیے خارج کا محتاج تھا۔ / انسان علم کے لیے کسی خارج کا نہیں صرف داخل کا، عقلیت کا محتاج ہے۔
4۔ کائنات خدا کا مرکز تھی۔ / کائنات انسان کا مرکز ہوگئی۔
5۔ اصل علم حقیقت الحقائق کا علم تھا۔ / اصل علم سرمایے میں اضافے کا علم قرار پایا۔
6۔ ما بعد الطبیعیات پہلے تھی علمیت مابعد الطبیعیات سے نکلتی تھی۔ / علمیت پہلے آگئی کہ ہمارے ذرائع علم کیا ہیں اور ہم ان سے کیا جان سکتے ہیں کیا نہیں جان سکتے اس علمیت سے ما بعد الطبیعیات نکالی گئی لہٰذا ما بعد الطبیعیات کا علم علمیت کے دائرے سے باہر ہوگیا اور جہالت شمار کیا گیا۔
7۔ انسان روشنی رہنمائی کے لیے خارج، آسمان، وحی، نبی، بڑے آدمی کی طرف دیکھتا تھاکیونکہ ہر آدمی علم میں خود کفیل نہ تھا۔ / انسان اپنی رہنمائی کے لیے صرف اپنی طرف دیکھنے کا پابند ہوا تمام خارجی ذرائع علم لا یعنی ٹھہرے انسان پیغمبر باطن کے ذریعے ذاتی علم میں خود کفیل ہوگیا۔ ریاست کا علم فلاسفہ سے لینے لگا۔
8۔ ما بعد الطبعیات کا علم اہم ترین تھا۔ / اب طبیعیات کا علم اہم ترین ہوگیا۔ لہٰذا Metaphysics of Presence وجود میں آئی۔
9۔ دنیا غیر اہم آخرت سب سے اہم تھی۔ دنیا کو انسان آخرت کی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ / صرف دنیا اہم تر ہوگئی آخرت خارج ہوگئی خدا ختم کردیا گیا مذاہب کو جہالت قرار دیا گیا۔
10۔ علم اور زندگی کا مقصد آخرت میں کامیابی تھا۔ / علم اور زندگی کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں کامیابی رہ گیا۔
11۔ انسان خدا کی عبادت کرتا تھا۔ اس کے لیے عبادت گاہ جاتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی عبادت کرنے لگااور کسی عبادت گاہ میں جانے کی ضرورت نہ رہی۔
12۔ انسان علوم نقلیہ کو اہم علوم عقلیہ کوغیر اہم سمجھتا تھا علوم عقلیہ یعنی مال کمانے کے علم کو علوم کی تلچھٹ سمجھا جاتا تھا۔ مال جمع کرنا زیادہ سے زیادہ تمتع فی الارض کرنا غیر اخلاقی کام تھے ہر تہذیب کے بڑے لوگ انبیائ، فلاسفہ ،علماء سادہ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے فقر پر فخر کرتے تھے۔ / صرف علوم عقلیہ اہم قرار پائے سب سے اہم علم وہ جس سے سب سے زیادہ مال کمایا جاسکے مذہب، علوم نقلیہ علوم کی تلچھٹ میں بھی شمار نہیں کیے گئے انھیں علم کے دائرے سے باہر نکال دیا گیا۔ اعلیٰ معیاری عالیشان زندگی گزارنا اصل مقصد ہوگیا۔
13۔ علم کی بنیاد یقین تھی۔ / علم کی بنیاد ڈیکارٹ کے بعد شک پر رکھی گئی ایسا طریقہ علم جو شک سے یقین تک پہنچائے لہٰذا ڈیکارٹ کے بعد تمام فلسفی ریب و شک میں ہی گرفتار رہے۔
14۔ ما بعد الطبیعیات پانچ بنیادی سوالات سے بحث کرتی تھی۔ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جاؤں گا، مجھے کس نے پیدا کیا، میرا انجام کیا ہے؟ / ما بعد الطبیعیاتی سوالات کی جگہ حاضر و موجود دنیا کی ما بعد الطبیعیات Metaphysic of Presence آگئی۔
15۔ حفظ مراتب کی تہذیب تھی مراتب وجود متعین تھے مغربی مساوات نہ تھی۔ / فرد آزاد ہوگیا سب افراد مساوی ہوگئے۔ کسی کے لیے تکریم باقی نہ رہی۔
16۔ ترقی معیار زندگی میں اضافہ قابل قدر کام نہیں تھے۔ / ترقی اور معیار زندگی میں اضافہ ہی اصل قابل قدر کام قرار پائے۔
17۔ نفس انسانی روحانی Soul تھا۔ / نفس انسانی میں Soul کی جگہ اسپرٹ، مائنڈ، شعور، ذہن، سائیکی نے لے لی۔
18۔ علمی تناظر بتاتا تھا کہ حقیقت کا ڈھانچہ موجود ہے ہمارا ذہن اگر اسے اسی طرح پہچان لے جیسا کہ حقیقت ہے تو ہم حقیقت کو پہچان لیں گے حقیقت موجود ہے انسان خالق حقیقت نہیں نہ حقیقت خلق ہوسکتی ہے۔ / کانٹ نے بتایا کہ حقیقت کا کوئی ڈھانچہ کائنات میں موجود نہیں اصل حقیقت تو میرا ذہن ہے جو حقیقت کو ڈھانچے مہیا کرتا ہے۔ انسان حقیقت کا حامل ہی نہیں حقیقت کا خالق و عالم بھی ہے میں جو خلق کرتا ہوں وہی حقیقت ہے میں دنیا کو ویسا بنادوں گا جیسا بنانا چاہوں گا۔
19۔ دنیا عارضی تھی۔ / دنیا ابدی (Eternal( ہوگئی۔
20۔ لوگ خدا کی پرستش اور آخرت کی جستجو کرتے تھے۔ / لوگ اپنی پرستش اور سرمایہ و دنیا کی جستجو کرنے لگے۔
21۔ انسان تسخیر قلوب کرتا تھا۔ / انسان تسخیر کائنات میں مصروف ہوگیا۔
22۔ خیر و شر کے پیمانے متعین تھے۔ / خیر و شر ذہن انسانی عقلیت سے دریافت کرسکتا ہے ہر زمانے کے خیر و شر مختلف ہوسکتے ہیں۔
23۔ خدا کو تسلیم کرنے کے باعث لوگ ثواب اور عذاب کے قائل تھے گناہ کا وجود تھا اور ہر گناہ Guilt خلش ہوسکتا تھا۔ / خدا کو خارج کردیا گیا تو گناہ و ثواب بھی بے معنی ہوگئے گناہ Sin کی جگہ Guilt خلش نے لے لی۔ واضح رہے کہ ہر خلش گناہ نہیں ہوتی۔
24۔ گناہ گار لوگ نیک لوگوں سے رجوع کرتے تھے اور اعتراف گناہ کرتے تھے عبادت گاہ مثلاً کلیسا جاتے تھے وہاں عالم موجود ہوتا تھا۔ / خلش میں مبتلا لوگ کلیسا کے بجائے نفسیاتی ماہرین اور ان کے کلینک سے رجوع کرنے لگے دین کے عالم کی جگہ یہاں سائیکو تھراپسٹ آگیا۔
25۔ عورت حیا دار تھی عفت و عصمت اس کا زیور تھا۔ / حیاء کی جگہ شرم (Shame( اور خلش (Guilt( نے لے لی۔ حیاء (Modesty( تہذیب سے خارج ہوگئی۔
26۔ آزادی معیار، منہاج اور قدر نہیں صرف صلاحیت تھی۔ / آزادی معیار، منہاج، قدر، اصول، عقیدہ اورایمان بن گیا۔
27۔ انسان اقدار و روایات، اساطیر، الہام، وحی، مذہب، اتھارٹی کا پابند تھا۔ / انسان پبلک لائف میں صرف ارادہ عامہ General will کا تابع ہوگیا اور ذاتی زندگی کے دائرے میں مطلق آزاد خود مختار ہوگیا۔
28۔ بندگی قدر تھی لوگ عبد تھے کسی کو جواب دہ تھے۔ / آزادی قدر ہوگئی لوگ خود خدا ہوگئے اور کسی کو جواب دہ نہیں رہے۔
29۔ علوم نقلیہ کو عروج ملا عالم وہ کہلاتا تھا جو حقیقت الحقائق اور ما بعد الطبیعیات کا عالم ہو۔ / علوم عقلیہ کو رواج ملا عالم وہ کہلایا جو زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکے سب سے زیادہ پیسہ سٹے باز، بینکر، اور تفریحات فلم کی صنعت کے لوگ کماتے ہیں۔
30۔ لوگ خدا کی معرفت، قربت، خوشنودی کو سب سے اہم کام سمجھتے تھے۔ / لوگ دولت سرمایہ کے حصول اور خواہش نفس کی تکمیل کو سب سے اہم کام سمجھنے لگے۔
31۔ لوگ کسی خیر کسی الحق اور نجات کے لیے جیتے تھے۔ / لوگ اب صرف خود کے لیے جیتے ہیں۔
32۔ لوگ ایثار قربانی، خدمت، محبت میں لذت محسوس کرتے تھے۔ / لوگ ان اقدار کو احمقانہ سمجھنے لگے۔
33۔ فرد خاندان، قبیلے، گروہ میں رہ کر اجتماعیت کے ذریعے اپنا اظہار کرتا تھا اس کی شناخت وہ خود نہیں تھا۔ / ہر فرد آزاد ہوگیا ہے انفرادیت پرستی نے سب کو جدا جدا کردیا اب لوگوں کی شناخت پیشے سے ہوتی ہے انجینئر، ڈاکٹر، سائنس داں، پروفیسر، ٹیچر، وغیرہ اسی لیے لوگ وزیٹنگ کارڈ مانگتے ہیں۔
34۔ عالم اسے کہا جاتا تھا جس کی صحبت میں بیٹھ کر خدا یاد آئے۔ دنیا، دنیا کی لذتیں، نعمتیں حقیر نظر آنے لگیں اور خدا کی محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے۔ / عالم اسے کہا جاتا ہے جو دنیا کا علم سکھاسکے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے اس کے سوا تمام علوم جن سے پیسہ نہ ملے وہ جہالت قرار پائے۔
35۔ آزادی، ترقی، مال سے مال بنانا مقصد تھا نہ اصول نہ ضرورت ہر عمل کی بنیاد صرف آخرت میں نجات تھا، آزادی آخرت کی نفی ہے ترقی کا اصول نفس غیر مطمئنہ کے حصول کا سبب ہے مال سے مال بنانا نجات کے منافی تھا۔ / آزادی ترقی اور سرمایہ سے سرمایہ کمانا ہی مقصد اصول ہدف ہے ہر عمل کی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس سے آزادی میں لذت میں اضافہ ہوا یا نہیں۔
جدیدیت میں انسان پرستی کی مختلف شکلیں
انفرادی انسان پرستی Individual human worship۔ لبرل ازم، لیبریٹرین۔ اس مکتب فکر میں فرد کی آزادی کے دائرے کو وسیع کرنا سب سے اہم قدر ہے اس مکتب فکر کے یہاں آزادی کا انفرادی دائرہ اجتماعی دائرے کے مقابلے میں اہم ہے لہٰذا یہ مکتب فری مارکیٹ پر یقین رکھتا ہے۔ آزادانہ مقابلہ کا قائل ہے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق مارکیٹ سے حصہ ملنا چاہیے Each according to his ability اس مکتب کے یہاں منفی آزادی (Negative Freedom( کا تصور ملتا ہے۔
اجتماعی انسان پرستی Collective human worship، نیشنل ازم (قوم (۔ سوشل ازم ( کلاس( ۔ فاشزم (فرد کی پرستش اجتماعیت کے لیے (۔ریس ازم ( نسل ( ، کمیونزم (کمیونٹی ( ۔ Feminism عورت (Gender(
فاشزم اجتماعیت کی وہ شکل ہے جہاں اجتماعیت کسی ایک فرد میں حلول کرجاتی ہے فرد کی پرستش اس اجتماعیت کی راست پرستش ہے اجتماعیت کا اظہار کسی ایک فرد کی پرستش کی صورت میں ہوتا ہے جو نجات دہندہ ہوتا ہے۔ مسولینی، اسٹالن، الطاف حسین اس کی مثال ہیں۔
انسان پرستی کی یہ دونوںشکلیں اصلاً آزادی کے تصور کی دو شکلیں ہیں انفرادی آزادی جسے Negative Freedom کہا جاتا ہے دوسرا اجتماعی آزادی جسے Positive Freedom کہا جاتا ہے لبرل ازم وغیرہ منفی آزادی کے حامل ہیں جہاں فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جاتی ہے مثبت آزادی کے حاملین میں انارکزم، فیمن ازم، نیشنل ازم، فاشزم، سوشلزم وغیرہ ہیں جہاں اجتماعیت کے ذریعے کسی گروہ یا طبقے یا صنف یا نوع یا نسل کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کے علمیاتی اظہارات
1۔ عقلیت، 2۔ تجربیت۔ دونوں کا اختلاط ہوا جس سے سائنٹفک میتھڈ لوجی نکلی جو جدیدیت کی علمی توجیہ ہے۔ 2۔ رومانی تحریک Romanticism۔ 3۔ پس جدیدیت پوسٹ ماڈرن ازم۔
جدیدیت کی ما بعد الطبیعیاتی تشریحات
Materialism – Idealism – Realism وغیرہ وغیرہ ان سب میں مشترک قدر انسان پرستی ہے under the condition of humanism ۔All isms لیکن کوئی مابعدالطبیعات علمی بنیادوں پر یقینی دعویٰ نہیں کر سکتی لہٰذا ما بعدالطبیعات کی علمی بنیاد ہی نہیں رہی۔
ماخذ
 

فاتح

لائبریرین
تصور جدیدیت
تحریر: محمد جان رحمت جان

جدیدیت اور تبدیلی کی اصطلاحات سن کر آج کل ہر شخص کے خیال میں بہت بڑا تناؤ پیدا ہوتا ہے، سوچ اور فکر کی لہریں طوفانی صورت اختیار کرتی ہیں۔ جب انسان اپنی معاشرتی و مذہبی فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے، عبادت گاہوں میں، گھریلو زندگی میں، کاروبار میں ثقافتی زندگی میں، کھانے پینے میں ، کھیل کود میں اور سیاسی تناظر میں ان دونوں اصطلاحات کے معنی کچھ اور ہی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غاروں اور جنگلوں کی زندگی سے موجودہ زندگی کے اسٹائل، زراعت میں انقلابی مشینی اوزار کا استعمال، صنعت میں ترقی سیاست کا انداز، کھیل کود اور انسانی زندگی کے دوسرے عوامل انسان کو اس دنیا میں آئے لاکھوں سال گزر گئے مگر تبدیلی ارتقائی طریقے سے روبہ عمل ہوئی۔ آج انسان تبدیلی کے طوفان سے نہ صرف نبرد آزما ہونے کی سعی کرتا ہے بلکہ تبدیلی کے اس عمل میں اپنے کردار و انجام سے خائف نظر آتا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے ان اصطلاحات کی مزید وضاحت کی کوشش کی جاتی ہے۔
تبدیلی کو انگریزی میں Changeاور جدیدیت کو modernityکہتے ہیں۔ تبدیلی کے عمل میں سب پر نظر ڈالنے کے بجائے پہلے ہم صرف سماجی تبدیلی کے بارے میں ماہرین کے نظریات کا مشاہدہ کریں گے۔ عمرانی شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین سماجی تبدیلی کے تین نظریات رکھتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ تبدیلیEvolutionary change ،دوری یا گردشی تبدیلی Cyclical Change اور تقابلی یا نظریہ تصادمConflict theory۔ ارتقائی نظریہ تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جو آرام آرام سے درجہ بدرجہ ترقی کے مدارج طے کرتی ہے۔ اس مرحلے میں توہم پرستی، مابعد الطبیعات اور مثبت سائنسی کار ہائے نمایاں شامل ہیں۔ یعنی وہ ترقی جو ترقی کے بعد اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔ مثلاً USSRکا ٹوٹنا، سوشلسٹ نظریہ اور نظام کا عروج تھا۔ بعض اوقات معاشرے کا اور پیچیدہ ہو جانا۔ اس نظریے کا دفاع کرنے والوں میں August ComeاورHurtbart Spenserشامل ہیں۔
دوری یا گردشی نظریہ تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جو سماج میں جنم پانے کے بعد عروج کی طرف جاتا ہے۔ یعنی پیدائش، جوانی، بڑاپا وغیرہ۔ اس کی ایک اور مثال مصر، ٹیکسلا، ہڑپہ، یونان، روم اور دیگر تہذیبیں ہیں جو کسی زمانے میں دنیا کے مختلف حصوں میں شروع ہوکر عروج و زوال سے ہمکنار ہوئے۔ یعنی درجہ بدرجہ ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہونا۔
تقابلی تبدیلی سے مراد معاشرے میں رہنے والے گرہوں کا مقابلاتی ترقی، مارکسزم اس نظریے کے روح رواں تھے جسے امیر و غریب، اونچے اور نچلے درجے اور ذاتیات وغیرہ۔ ان تینوں نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تبدیلی کے تین مدارج ہیں ارتقائی، دوری یا گردشی اور مقابلہ جاتی۔ ان کے علاوہ معاشرے کی تبدیلی میں انقلابی تبدیلی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مثال کے طور پر صنعت اور مشین، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا، یہ وہ جدید ترین چیزیں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں راتوں رات تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنگل اور زراعت کے زمانے کے لوگ بھی مختصر عرصے میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئیں۔
تبدیلی کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عددی تبدیلیNumerical Change اور صفاتی تبدیلیCharactical change، عددی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جس سے ہم اعداد و شمار میں گن سکتے ہیں جیسے انسانی آبادی، درخت، دُکانیں، گھر وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کی تبدیلی کمی یا اضافے کو ہم دیکھ سکتے ہیں، گن سکتے ہیں اور اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ صفاتی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جس میں جوہر وہی رہتا ہے لیکن شکل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ جیسے H2O، کیمیائی تعاملات، مہمان نوازی، حسن سلوک وغیرہ۔
مائیکل فولن کہتے ہیں کہ”Every improvement is change but every change is not improvement.“ ’ہر (کسی چیز کی صفات اور جسامت یا شکل میں) بہتری کو تبدیلی اور اور ہر تبدیلی کو بہتری نہیں کہتے ہیں،۔
تبدیلی اور جدیدیت کا عمل ازل سے ہے اور ہر زمانے کے لوگ اپنے آپ کو جدید کہتے رہے ہیں اور کہتے رہیں گے۔ لب و لہجے میں فرق کے ساتھ ہر زمانے کے ادیبوں، اور مصنفین نے ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جیسے اس صدی کے نامور شخصیت سمویل ہنٹینگٹن کہتے ہیں ”جدیدیت میں صنعت، شہری زندگی، خواندگی کا معیار، تعلیم و صحت، سماجی انتظامی ڈھانچہ، رویے، اقدار، علم اور لوگوں کی ثقافت شامل ہیں۔ یہ چیزیں جدید معاشروں میں اور روایتی معاشروں باہم مختلف ہیں۔ جدید مغربی معاشرے اور روایتی معاشرے میں دو وجوہات کی بنا پر امتیاز کیا جاتا ہے۔ (اوّل) جدید معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے علم و عمل کے ذریعے ایک مشترکہ ثقافت تو نہیں لا سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے سیکھتے ضرور ہیں۔ (دوم) روایتی معاشرہ زراعت پر مبنی ہے جبکہ جدید معاشرہ صنعت پر مبنی ہے“۔
انہی خیالات کو جب ہم ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی کتاب ’اسلام اور جدیدیت، میں پڑھتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاق و سباق کے امتزاج کو سمجھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی از سر نو تشکیل میں راہ فراہم کرنا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیم جدید دانشورانہ اور روحانی ماحول میں کس طرح با معنی ہو سکتی ہے اس لئے نہیں کہ مذہب کو جدیدیت سے دور بچا کے رکھا جائے بلکہ اس لئے کہ جدید انسان کو مذہب کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے“۔
پرنس کریم آغا خان فرماتے ہیں کہ” اور جب ہم لوگ سوال کرتے ہیں کہ جدید معاشرے کی حدود کہاں تک ہیں تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جدید سائنس کی کوئی حدود نہیں ہیں کیونکہ اللہ خالق ہے اور جب سائنسدانوں کے دماغوں میں غرور کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں کوئی غیر معمولی چیز دریافت کی ہے تو حقیقت میں وہ جو کچھ بھی دریافت کرتے ہیں وہ اللہ کی تخلیق کی قدرتِ کاملہ کی طرف ایک اشارہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اہم ہے امت کے بچوں کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار سکتے ہیں جس کو ہم جدید کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ سو سال پہلے بھی لوگ اپنے معاشروں کو جدید کہتے تھے۔ لیکن در حقیقت یہ ہے کہ اسلام پر عمل اور جس معاشرے میں ہم زندگی گزارتے ہیں، کے درمیان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بارے میں اسلام کا ایک ٹھوس اور واضح جواب موجود ہے“۔ (موائنزہ تنزانیہ 42 نومبر2891)
قرآن مجید میں اس حوالے سے کئی آیات موجود ہیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ رحمٰن میں فرماتے ہیں ”جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس سے سوال کرتا ہے اور ہر روز وہ ایک شان میں ہوتا ہے“ (55:29)۔ قرآن پاک کے نزول کے وقت بھی اللہ پاک نے وقت اور حالات کے مطابق آیات نازل فرمائی۔ ’ جو آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کی یاد اٹھا لیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی قسم کی لے آتے ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے“ (02: 106)۔
ایک انگریز pipe، path of Godمیں لکھتا ہے کہ ”اسلام اور جدیدیت میں کوئی اختلاف نہیں، مسلمان سائنس، صنعت اور جدید اسلحہ کا صحیح استعمال جانتے ہیں۔ جدیدیت کے لئے کسی سیاسی نظریے، انتظامی ڈھانچے جیسے الیکشن، قومی حدود، شہری تعاون اور دوسرے مغربی معیار اور معیشت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی شریعت بھی کہتی ہے کہ جدیدیت صرف زراعت سے صنعت، دیہات سے شہر، سماجی استحکام سے سماجی بہاﺅ ہے، نہ کہ ان معاملات میں متصادم جیسے تعلیم عامہ، بہتر مواصلاتی ترقی، نئے زرائع آمد و رفت اور صحت عامہ“۔
جدیدیت اور تبدیلی وقت کی ضرورت ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عقائد، اقدار، رویے، اور اخلاقی معیار بھی تبدیل ہوں گے اس معاملے کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی کن کن شعبوں میں آتی ہے۔ تبدیلی اور جدیدیت انسانی معاشرے میں رہن سہن، لباس، زبان، تعمیرات، آسائشات، ڈیزائن، صنعت و حرفت اور اشکال میں ممکن ہے۔ چیزوں کا اصل جوہر وہی رہتا ہے اور شکلیں بدلتی ہیں یہی وہ مضامین ہیں کہ جنہیں فزکس بحث کرتا ہے۔ مثلاً کپڑے اور مکان کا اصل کام اور مقصد جسم ڈھانپنا اور پناہ گاہ ہے بیشک ان کی ڈیزائن اور اشکال میں جتنی بھی تبدیلی کیوں نہ آئے۔
اس تمام بحث کے بعد ہم تبدیلی کے اہم محرکات کے بارے میں سوچیں گے جو کہ درجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔ آب و ہوا، جغرافیائی حالات، سیاسی حالات، معیشت، میڈیا، زبان اور مذہب۔
آب و ہوا: کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں موسمی تبدیلیاں جن میں خشک سالی، بارشیں اور طوفان شامل ہیں، کی وجہ سے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنی زبان، لباس، مذہب، ثقافت اور عادات سے دوسرے معاشروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جغرافیائی حالات: جغرافیائی حالات بھی معاشرتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ زلزلے، طوفان، سیلاب اور دوسرے عوامل انسانوں کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
سیاسی تبدیلی: سیاسی حالات بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ جیسے سلطنتیں، بادشاہتیں، ممالک، اور قبائلی نظام انسانی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں جن میں خانہ جنگی، ملکی حالات اور دوسرے مسائل جنم لیتے ہیں مثلاً USSRکا ٹوٹنا، نئے ممالک کا وجود میں آنا وغیرہ۔ 9/11کا واقعہ اور اس کے بعد امریکی اتحادی افواج کا مختلف ملکوں میں مداخلت کرنا۔
معیشت: کسی معاشرے کی ترقی اور تبدیلی کا انحصار اس کی معیشت پر ہے۔ معیشت خراب ہونے کی وجہ سے ملک میں بے تحاشا مسائل جنم لیتے ہیں جیسے غربت، افلاس، بے روزگاری، سمگلنگ، احتجاج، تعلیم اور صحت عامہ جیسی مشکلات سے معاشرہ مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ معیشت مضبوط ہو تو اس معاشرے میں زندگی کا انداز ہی کچھ وار ہوتا ہے پرامن ماحول، خوشحالی، اور معیار زندگی کے نتیجے میں صحت مند معاشرے وجود میں آتے ہیں۔
میڈیا: تبدیلی کے عمل میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کے مناظر اور خبریں پل بھر میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی ثقافتوں اور روایات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ ایک دوسرے کو اتنا متاثر ہیں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں میوزک کی ایک نئی اور مشترکہ سمت سامنے آ رہی ہے۔ میری نظر میں سب سے زیادہ میڈیا معاشرے پر اثرانداز ہے۔
زبان: زبان بھی معاشرتی ترقی کا ضامن ہے۔ ہم عصر زبان کی وجہ سے لوگ علم و عمل میں بہت آگے گئے ہیں۔ اب ہر ایک چیز کی سمجھ زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ زبان وہ آلہ ہے جو نہ صرف ایک انسان کا دوسرے سے رابطہ بنتا ہے بلکہ زبان ہی تاریخ و ثقافت کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انگلش اور دنیا کی دیگر بڑی زبانیں دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ لوگ بین الااقوامی زبانوں کے نام سے اپنے زبانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ زبان سے مراد یہاں بولی ہی نہیں بلکہ وہ تمام ادبی خزانہ جو کسی قوم کی ترقی اور زوال کی یادگار ہیں۔ زبان اپنے ساتھ ثقافت اور روایات بھی نئی معاشروں میں متعارف کراتا ہے۔
مذہب: مذہب بھی معاشرتی تبدیلی میں بہت بڑا عنصر ہے۔ اسلام آنے کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اسلام نے اپنے تعلیمات اور روایات سے عربوں کو بہت متاثر کیا۔ اس طرح عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت، شنتو مت، سنگھ مت، پارسی اور دیگر ادیان نے معاشروں کو بہت متاثر کیا۔ ان مذاہب کی وجہ سے لوگوں کی عادتیں اور رہن سہن بدل گئیں۔ رویوں میں تبدیلی آئی اور علم و عمل میں بھی ان کا اثر رہا۔
ایجادات اور دریافتوں کے زمانے میں تبدیلی اور جدیدیت کوئی نئی بات نہیں۔ کسی معاشرے میں جب کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا دریافت ہوتی ہے تو فوراً لوگ اس کو اپنی قوم یا ملک کے لیے فخر اور عزت سمجھتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ وہ اس عمل کو اپنے مذہب اور قوم کے لئے اعزاز کے طور پر متعارف کراتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے معاشرے کے لوگ اِس چیز کو اختیار کرنے میں جیجک کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یوں یہ عمل معاشرتی تقسیم اور تبدیلی کا سبب بنتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لاﺅڈ سپیکر انگریزوں کی ایجاد ہے پہلے پہل مسلمانوں نے اس کو اذان کے لئے استعمال کر نے میں کافی ہچکچاہٹ محسوس کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کا استعمال کرنے لگیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں مسلمانوں کی ترقی مثالی تھی لیکن یورپ نے ان کے علم و عمل سے بہت فائدہ اٹھایا۔
ہز ہائی نس آغا خان چہارم فرماتے ہیں کہ ”ہم آج ایسے معاشروں کی بات کرتے ہیں جو بیک وقت تکثیری اور پرامن ہیں ایک ایسی منزل مقصود جو اہم ہے لیکن مشکل الحصول بھی۔ یہاں تک کہ استحکام کو جدیدیت کے ساتھ ملانے کے لئے ہماری کوششیں بھی مستقل طور پر خلل انداز رکاوٹوں کا شکار نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ رکاوٹیں ٹیکنالوجیز سے آتی ہیں۔ انٹرنٹ بلاکس سے بائیو جینیٹکس تک اور دوسری رکاوٹیں مظاہر فطرت سے پھوٹتی ہیں یعنی موسمی کیفیتوں میں تبدیلی وائرسز کا منقلب ہونا۔ تاہم کچھ رکاوٹیں سماجی تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً خاندانی زندگی کے نئے انداز اور لوگوں کا ایک جگے سے دوسری جگہ ہجرت کرنا۔۔۔ مثلاً فرانس اور آسٹریلیا جیسے توانگر ممالک میں سول انتشار، جیسا کہ لوویز پانا میں طوفان، کشمیر میں زلزلہ کی صورت حال، نیوکلیئر توانائی کا استعمال، ڈارفور جیسی جگہوں میں معذوری کا احساس، کرۂ ارض پر ہجوم ہوتا جا رہا ہے اور وسائل کم۔ امیر اور غریب میں خلا وسیع ہوتا جا رہا ہے لوگ برائیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن تبدیلی اگر آتی بھی تو تکلیف دہ حد تک آہستہ اور کھبی کبھار یوں لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف پھسل رہے ہیں“۔ (ایورا یونیورسٹی پرتگال میں سمپوزیم سے خطاب 21 فروری 6002ء)
موجودہ عالمی حالات و واقعات میں معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں 11 ستمبر کا واقعہ ہویا7/7کا نشتر پارک میں عید الاضحیٰ کے مبارک دن دہشت گردی وغیرہ یہ تمام وہ عناصر ہیں جو ہمارے معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان واقعات کا فائدہ اٹھا کر طاقتور ممالک اور اقوام اتحادی گروہ تشکیل دے رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ ایک بار پھر تقسیم کا شکار ہونے لگا ہے۔ D/8ہو یا G/8، آسیان ہو یا او آئی سی، شنگھائی تنظیم ہویا نیٹو یہ تمام وہ گروہ ہیں جو اس معاشرے میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہ مخصوص مفادات کے حصول میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بدلتے حالات میں دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی جانب دواں دواں ہے۔
تبدیلی اور جدیدیت کے اس تناظر میں مذاہب بھی محفوظ نہیں۔ میڈیا، جغرافیائی حالات، سیاسی اتار چڑھاﺅ، معیشت اور تعلیمی نظام بھی مذاہب عالم پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنی اپنی صفوں میں پھر سے اتحاد پیدا کر رہے ہیں۔ ان تمام مذاہب کے راہنما نئے نئے ذمہ داریوں کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ تبلیغ کے پرانے طریقے بدل رہے ہیں اور نئے طریقے متعارف ہو رہے ہیں۔ آن لائن بحث و مباحثے کی وجہ سے نوجوانوں میں مختلف سوالات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ تاریخ کا یہ المیہ یونانی، رومی، عیسائی، یہودی، مسلمان، اور زرتشتیوں کے نظریات کے تصادم کے نتیجے میں ابھرا تھا(قرون وسطیٰ میں) اور اب بھی عالمی میڈیا کے یہ بڑے موضوعات ہیں۔
سموئل ہنٹگٹن کے بقول مغرب میں ان حالات میں اور جدیدیت کی وجہ سے بہت اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن میں کلاسیکی ترکہ، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا وجود، یورپی زبانیں، دینی و دنیاوی اختیارات کا الگ ہونا، حکومتیں اور قانون سازی، سماجی تکثیریت، نمائندہ جماعتیں اور خاص طور پر انفرادیت انہی معاشرتی عوامل اور دیگر تہذیبوں کے تاریخی پس منظر کے مطالعے کے بعد موصوف نے ان حالات و واقعات کو تہذیبوں کا تصادم قرار دیا ہے۔ ایک مغربی ہم عصر اسکالر کرن ارم سڑانگ بھی اپنی کتاب ’خدا کے لیے جنگ، میں ان حالات کو بنیاد پرستی قرار دیتی ہیں۔ مولانا حاضر امام اپنے تقاریر اور مباحث میں ان حالات کو تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ جہالت کا تصادم کہتے ہیں کیونکہ قومیں ایک دوسرے کو نہ جاننے کی وجہ سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹکراؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
مشرق میں خاص کر اسلام میں روشن خیالی، جدیدیت اور تبدیلی کے موضوعات گزشتہ چند سالوں کی پیداوار نہیں بلکہ ایک عرصے سے یہ مباحثوں اور تذکروں کا سبب بنے ہیں۔ علما، دانشور، حکمران، اور اخبارات ان معاملات پر برملا بولتے رہتے ہیں۔ ہمیں ان حالات میں ان اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ خود سمجھ کر اپنی قوم کو بھی سمجھا سکیں۔ ان حالات میں چند تجاویز بھی دئیے جاتے ہیں؛
٭ تکثیری ماحول کا قیام اور اس کا احترام
٭ گوناگونیت اور مختلفیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اقدار پر عمل
٭ سول سوسائٹی کا قیام اور ہر ایک کا ان میں کردار
٭ تعلیمی نظام کی درستگی اور متوازن نظام تعلیم کو اجاگر کرنا
٭ اسلامی اقدار، روایات، رویّوں اور تعلیمات کی تجدید
٭ طاقتور میڈیا کا قیام اور ان کی بقا کے لئے تعاون تاکہ ہم بھی دنیا کے سامنے اپنے عقائد و رسومات کی نمائندگی کر سکیں۔
حوالہ جات:
٭ قرآن پاک
٭ اسلام اور جدیدیت از ڈاکٹر فضل الرحمٰن
٭ تہذیبوں کا تصادم اور ورلڈ آڈر از پی۔ سمائل ہنٹنگٹن
٭ میڈیا اور اخبارات
٭ ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان کی تقاریر
٭ خدا کے لئے جنگ از کرن ارم سٹرنگ

ماخذ
 

الف عین

لائبریرین
واہ، ای بک کے لئے مواد!!!
میرے ذاتی خیال میں ادب اور شاعری محض ادب و شاعری ہوتی ہے، اسے خانوں میں تقسیم نہیں کیاجا سکتا۔تخلیقی ادب سچا یا جھوٹا ہو سکتا ہے، قدیم، جدید یا ما بعد جدید نہیں ہو سکتا۔
 
دا
واہ، ای بک کے لئے مواد!!!
میرے ذاتی خیال میں ادب اور شاعری محض ادب و شاعری ہوتی ہے، اسے خانوں میں تقسیم نہیں کیاجا سکتا۔تخلیقی ادب سچا یا جھوٹا ہو سکتا ہے، قدیم، جدید یا ما بعد جدید نہیں ہو سکتا۔
دادا جانی کے خیال سے متفق ہوں
 

فرحان عباس

محفلین
زبردست.
جدیدیت اور اٹھارویں صدی سے پہلے کے بارے میں انکے جو گھٹیا نظریات ہیں وہ تو سمجھ آگئے لیکن یہ ما بعد جدیدیت کیا بلا ہے؟
 
Top