تعمیر
محفلین
سوال:
رؤف خلش صاحب ! آپ حیدرآباد میں جدید شاعری کے آغاز سے ہی اس رجحان سے وابستہ رہے ہیں ۔ آپ کا نام ہماری شاعری کے معتبر شعرأ میں سرفہرست آتا ہے ۔ آپ یہ بتلائیے کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے اس رجحان کی ابتدأ ہوئی؟
جواب:
روایتی شاعری کے ہر دور میں "جدید شاعری" کی اصطلاح عام ہوتی رہی ہے ۔ اس لحاظ سے غالب بھی اپنے عہد میں "جدید شاعر" رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے عہد کی روایتی شاعری کے اصول توڑے تھے ۔ یہ انیسویں صدی کی بات ہے ۔ بیسویں صدی میں اقبال اپنے وقت کے "جدید شاعر" تھے ۔ پھر 1936ء میں سجاد ظہیر "ترقی پسند ادب" کے میر کارواں رہے ۔ 1950ء کے آتے آتے "ترقی پسند ادب"، جسے بنیادی طور مارکسی ادب کہا جاسکتا ہے مارکسزم کی ادّعائیت سے متاثر ہوا اور اس کی جگہ نئے رجحانات اس میں داخل ہوئے جسے جدید ادب کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ صورتحال پورے ہندوستان میں ہر زبان کے ادب پر حاوی رہی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ادب پر "ازم" کا حاوی ہونا اور دوسری وجہ موضوعات اور لب و لہجہ کی تبدیلی۔
سوال:
حیدرآباد میں جدید رجحان سے جو شعرأ روز اول سے وابستہ رہے ہیں ان میں کون شامل تھے ؟
جواب:
نام گنواؤں تو شعرأ کو شکایت ہو گی۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خود ترقی پسند ادیب و شاعر اس میں شامل ہوئے جن میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، خورشید احمد جامی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ ان کے بعد آنے والے ادیب و شعرأ میں تاج مہجور، مصحف اقبال توصیفی، رؤف خلش، حسن فرخ، غیاث متین، مسعود عابد، اعظم راہی، ساجد اعظم، احمد جلیس، اعتماد صدیقی، انور رشید، علی ظہیر، طالب خوندمیری، علی الدین نویداور بعد میں آنے والوں میں محسن جلگانوی، مظہر مہدی، یوسف اعظمی، حکیم یوسف حسین خاں اور سنئیر شعرأ میں مضطر مجاز، شفیق فاطمہ شعریٰ، رضا وصفی وغیرہ شامل ہیں ۔ کوئی نام چھوٹ جائے تو معذرت خواہ ہوں ۔
سوال:
جدیدیت اور جدت پسندی کی مختلف تاویلات پیش کی جاتی ہیں ۔ کیا آپ اس باب میں کچھ تفصیل سے بتلانے کی زحمت کریں گے ؟
جواب:
جدیدیت اور جدت پسندی کی اصطلاحیں عموماً ترقی پسند ادب کے مقابل نئے لب و لہجے و نئے موضوعات کے طور پر رائج رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر ترقی پسند ادب کا غالب رجحان عوام کے مسائل کو ادب میں جگہ دینا رہا ہے جبکہ جدیدیت کے رجحان نے اس کے مقابل شخصی و نجی مسائل کو جگہ دی اور محبت و عاشقی کے فرسودہ موضوعات کو بدل دیا۔ ایسے احساسات اور رجحانات کو جو بدلتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہورہے تھے، ادب کا موضوع بنایا۔
سوال:
آج کے عہد کو مابعد جدیدیت کا عہد کہا جا رہا ہے ۔ اس مرحلہ پر میں آپ سے دو سوالات کرنا چا ہوں گا کہ کیا واقعی یہ عہد ما بعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہا ہے ؟ اور کیا جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا؟
جواب:
آج کا عہد ہر عہد کی طرح دونوں رجحانات کا حامل رہا ہے ۔ آج کے ادیب و شعرأ پورے کے پورے نہ جدید رجحان کے حامی رہے ہیں اور نہ روایتی رجحان کے ۔ پتہ نہیں "ما بعد جدیدیت" کی اصطلاح کس نے اختیار کی کیونکہ "جدیدیت" کوئی مخصوص عہد کی دین نہیں ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ہر عہد میں روایتی اور جدید دونوں رجحان رائج رہے ہیں ۔ اسلئے یہ کہنا درست نہیں کہ جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا۔
سوال:
آپ ما بعد جدید عہد کو رجحان سمجھتے ہیں یا تحریک اور اس کی موجودہ عہد میں کیا معنویت ہے ؟
جواب:
جب جدید عہد کا تعین ہی مشکل ہے تو ما بعد جدیدعہد کا تعین کس طرح کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے ترقی پسند ادب بھی ایک رجحان تھا جس کو تحریک کہا گیا البتہ موجودہ عہد میں موضوع اور لب و لہجہ کی تبدیلی کے لحاظ سے موجودہ ادب کی بڑی معنوعیت ہے۔ پھر بھی میرا یہ احساس اپنی جگہ قائم ہے کہ روایت اور جدیدیت ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں ۔
سوال:
نظم و غزل دونوں میں آپ کس صنف کو اہمیت دیتے ہیں اور کیوں ؟
جواب:
میری نظر میں غزل سے زیادہ نظم کی اہمیت ہے ۔ غزل کے سانچے تو بندھے ٹکے اور قافیہ ردیف کے حامل ہوتے ہیں اور ایک نو آموز شاعر بہ آسانی غزل کہہ سکتا ہے لیکن نظم کا فارم نسبتاً مشکل ہے اور شاعر نظم مقفیٰ، نظم غیر مقفیٰ اور حالیہ صنف "نثری نظم" میں اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسائل چاہے وہ رومانی ہوں ، غیر رومانی ہوں یا سیاسی ہوں ،غزل سے زیادہ نظم میں جگہ پا سکتے ہیں ۔
سوال:
خورشید احمد جامی کو جدید شاعری کا اولین سربراہ مانا گیا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں اگر ہاں تو کیوں ؟
جواب:
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ ہندوستان میں خورشید احمدجدید غزل کے اولین سربراہ ہیں ۔ اس کی وجوہات کئی ہیں، لیکن ایک اہم وجہ جامی صاحب کا برصغیر ہند و پاک کے جریدوں کا بہ نظرغائر مطالعہ ہے ۔ موصوف ان رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوتے تھے ۔ وہ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے لیکن ان کاذہن روایتی ڈھانچے کی غزلیہ شاعری سے مطمئن نہیں تھا۔ بطور نمونہ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو
یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا
ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے
سوال:
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود کو مشاعروں کی شہرت کی جانب راغب نہیں کیا۔ ایسا کیوں ؟
جواب:
مشاعروں میں جو شاعری پیش کی جاتی ہے وہ عام پسندیعنی عوام کی پسندیدہ ہوتی ہے اور شاعروں کو بھی اس کی سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے مشاعروں کی شہرت کی جانب رغبت نہیں ہوئی۔
سوال:
آپ نے اپنے کلام کی ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں اشاعت پر توجہ نہیں دی، کوئی خاص وجہ؟
جواب:
ایسی بات نہیں ہے ۔ کوئی ربع صدی قبل ہند و پاک میں بیسیوں ادبی رسائل وجرائد شائع ہوا کرتے تھے جن میں پابندی کے ساتھ میں اپنا کلام بغرض اشاعت بھیجا کرتا تھا اور مشاعروں میں کلام سنانے کو ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ ان دنوں آپ خود اندازہ لگائیے کہ کتنے ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں ؟ظاہر ہے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو گئی۔ رسائل بھی شائع ہونا کم ہو گئے ۔ البتہ عصر حاضر کی جدید تکنالوجی کے طفیل دنیا سمٹ کر "گلوبل ولیج" میں تبدیل ہو گئی ہے اور اب متبادل طور پر ای۔ میگزینس اور ادبی جرائد و رسائل کی اپنی ویب سائیٹس دستیاب ہیں ۔ بات اب اس عصری تکنالوجی کو اپنانے کی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے ، اب میرا بیشتر تازہ کلام میری ویب سائٹ پر لفظ!فقرہ کی تلاش کی سہولت کے ساتھ یونیکوڈ اردو میں دستیاب ہے ۔
جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ
رؤف خلش صاحب ! آپ حیدرآباد میں جدید شاعری کے آغاز سے ہی اس رجحان سے وابستہ رہے ہیں ۔ آپ کا نام ہماری شاعری کے معتبر شعرأ میں سرفہرست آتا ہے ۔ آپ یہ بتلائیے کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے اس رجحان کی ابتدأ ہوئی؟
جواب:
روایتی شاعری کے ہر دور میں "جدید شاعری" کی اصطلاح عام ہوتی رہی ہے ۔ اس لحاظ سے غالب بھی اپنے عہد میں "جدید شاعر" رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے عہد کی روایتی شاعری کے اصول توڑے تھے ۔ یہ انیسویں صدی کی بات ہے ۔ بیسویں صدی میں اقبال اپنے وقت کے "جدید شاعر" تھے ۔ پھر 1936ء میں سجاد ظہیر "ترقی پسند ادب" کے میر کارواں رہے ۔ 1950ء کے آتے آتے "ترقی پسند ادب"، جسے بنیادی طور مارکسی ادب کہا جاسکتا ہے مارکسزم کی ادّعائیت سے متاثر ہوا اور اس کی جگہ نئے رجحانات اس میں داخل ہوئے جسے جدید ادب کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ صورتحال پورے ہندوستان میں ہر زبان کے ادب پر حاوی رہی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ادب پر "ازم" کا حاوی ہونا اور دوسری وجہ موضوعات اور لب و لہجہ کی تبدیلی۔
سوال:
حیدرآباد میں جدید رجحان سے جو شعرأ روز اول سے وابستہ رہے ہیں ان میں کون شامل تھے ؟
جواب:
نام گنواؤں تو شعرأ کو شکایت ہو گی۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خود ترقی پسند ادیب و شاعر اس میں شامل ہوئے جن میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، خورشید احمد جامی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ ان کے بعد آنے والے ادیب و شعرأ میں تاج مہجور، مصحف اقبال توصیفی، رؤف خلش، حسن فرخ، غیاث متین، مسعود عابد، اعظم راہی، ساجد اعظم، احمد جلیس، اعتماد صدیقی، انور رشید، علی ظہیر، طالب خوندمیری، علی الدین نویداور بعد میں آنے والوں میں محسن جلگانوی، مظہر مہدی، یوسف اعظمی، حکیم یوسف حسین خاں اور سنئیر شعرأ میں مضطر مجاز، شفیق فاطمہ شعریٰ، رضا وصفی وغیرہ شامل ہیں ۔ کوئی نام چھوٹ جائے تو معذرت خواہ ہوں ۔
سوال:
جدیدیت اور جدت پسندی کی مختلف تاویلات پیش کی جاتی ہیں ۔ کیا آپ اس باب میں کچھ تفصیل سے بتلانے کی زحمت کریں گے ؟
جواب:
جدیدیت اور جدت پسندی کی اصطلاحیں عموماً ترقی پسند ادب کے مقابل نئے لب و لہجے و نئے موضوعات کے طور پر رائج رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر ترقی پسند ادب کا غالب رجحان عوام کے مسائل کو ادب میں جگہ دینا رہا ہے جبکہ جدیدیت کے رجحان نے اس کے مقابل شخصی و نجی مسائل کو جگہ دی اور محبت و عاشقی کے فرسودہ موضوعات کو بدل دیا۔ ایسے احساسات اور رجحانات کو جو بدلتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہورہے تھے، ادب کا موضوع بنایا۔
سوال:
آج کے عہد کو مابعد جدیدیت کا عہد کہا جا رہا ہے ۔ اس مرحلہ پر میں آپ سے دو سوالات کرنا چا ہوں گا کہ کیا واقعی یہ عہد ما بعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہا ہے ؟ اور کیا جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا؟
جواب:
آج کا عہد ہر عہد کی طرح دونوں رجحانات کا حامل رہا ہے ۔ آج کے ادیب و شعرأ پورے کے پورے نہ جدید رجحان کے حامی رہے ہیں اور نہ روایتی رجحان کے ۔ پتہ نہیں "ما بعد جدیدیت" کی اصطلاح کس نے اختیار کی کیونکہ "جدیدیت" کوئی مخصوص عہد کی دین نہیں ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ہر عہد میں روایتی اور جدید دونوں رجحان رائج رہے ہیں ۔ اسلئے یہ کہنا درست نہیں کہ جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا۔
سوال:
آپ ما بعد جدید عہد کو رجحان سمجھتے ہیں یا تحریک اور اس کی موجودہ عہد میں کیا معنویت ہے ؟
جواب:
جب جدید عہد کا تعین ہی مشکل ہے تو ما بعد جدیدعہد کا تعین کس طرح کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے ترقی پسند ادب بھی ایک رجحان تھا جس کو تحریک کہا گیا البتہ موجودہ عہد میں موضوع اور لب و لہجہ کی تبدیلی کے لحاظ سے موجودہ ادب کی بڑی معنوعیت ہے۔ پھر بھی میرا یہ احساس اپنی جگہ قائم ہے کہ روایت اور جدیدیت ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں ۔
سوال:
نظم و غزل دونوں میں آپ کس صنف کو اہمیت دیتے ہیں اور کیوں ؟
جواب:
میری نظر میں غزل سے زیادہ نظم کی اہمیت ہے ۔ غزل کے سانچے تو بندھے ٹکے اور قافیہ ردیف کے حامل ہوتے ہیں اور ایک نو آموز شاعر بہ آسانی غزل کہہ سکتا ہے لیکن نظم کا فارم نسبتاً مشکل ہے اور شاعر نظم مقفیٰ، نظم غیر مقفیٰ اور حالیہ صنف "نثری نظم" میں اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسائل چاہے وہ رومانی ہوں ، غیر رومانی ہوں یا سیاسی ہوں ،غزل سے زیادہ نظم میں جگہ پا سکتے ہیں ۔
سوال:
خورشید احمد جامی کو جدید شاعری کا اولین سربراہ مانا گیا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں اگر ہاں تو کیوں ؟
جواب:
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ ہندوستان میں خورشید احمدجدید غزل کے اولین سربراہ ہیں ۔ اس کی وجوہات کئی ہیں، لیکن ایک اہم وجہ جامی صاحب کا برصغیر ہند و پاک کے جریدوں کا بہ نظرغائر مطالعہ ہے ۔ موصوف ان رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوتے تھے ۔ وہ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے لیکن ان کاذہن روایتی ڈھانچے کی غزلیہ شاعری سے مطمئن نہیں تھا۔ بطور نمونہ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو
یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا
ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے
سوال:
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود کو مشاعروں کی شہرت کی جانب راغب نہیں کیا۔ ایسا کیوں ؟
جواب:
مشاعروں میں جو شاعری پیش کی جاتی ہے وہ عام پسندیعنی عوام کی پسندیدہ ہوتی ہے اور شاعروں کو بھی اس کی سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے مشاعروں کی شہرت کی جانب رغبت نہیں ہوئی۔
سوال:
آپ نے اپنے کلام کی ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں اشاعت پر توجہ نہیں دی، کوئی خاص وجہ؟
جواب:
ایسی بات نہیں ہے ۔ کوئی ربع صدی قبل ہند و پاک میں بیسیوں ادبی رسائل وجرائد شائع ہوا کرتے تھے جن میں پابندی کے ساتھ میں اپنا کلام بغرض اشاعت بھیجا کرتا تھا اور مشاعروں میں کلام سنانے کو ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ ان دنوں آپ خود اندازہ لگائیے کہ کتنے ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں ؟ظاہر ہے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو گئی۔ رسائل بھی شائع ہونا کم ہو گئے ۔ البتہ عصر حاضر کی جدید تکنالوجی کے طفیل دنیا سمٹ کر "گلوبل ولیج" میں تبدیل ہو گئی ہے اور اب متبادل طور پر ای۔ میگزینس اور ادبی جرائد و رسائل کی اپنی ویب سائیٹس دستیاب ہیں ۔ بات اب اس عصری تکنالوجی کو اپنانے کی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے ، اب میرا بیشتر تازہ کلام میری ویب سائٹ پر لفظ!فقرہ کی تلاش کی سہولت کے ساتھ یونیکوڈ اردو میں دستیاب ہے ۔
سوال:
آج کا علمی و ادبی منظر نامہ دھندلا گیا ہے ؟آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب:
بالکل صحیح ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو آج کے نوجوانوں میں مطالعہ کا فقدان ہے اور وہ دیگر غیر ادبی مصروفیات میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں ۔ کوئی ربع صدی قبل ایسا نہیں تھا۔ اب تو رسالے بھی شائع ہونا کم ہو گئے ہیں ۔ دوسری اہم وجہ موجودہ نسل کی اردو زبان و ادب سے دوری ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ کل کا قاری آج کا ناظر یا سامع بن گیا ہے ۔ وہ ادب کو راست کتاب کے ذریعہ پڑھنے کے بجائے اس کی ویڈیو فلم دیکھ لیتا ہے جو کسی افسانے یا ناول پر مبنی ہوتی ہے ۔ شاعری کی قرأت مجموعۂ کلام سے کرنے کے بجائے ٹیبلٹ پی.سی. یا اسمارٹ فون پر MP3پر سن لیتا ہے ۔ یہ تو خیر میرا اپنا خیال ہے لیکن جب میں اپنی اولاد اور ان کی ہمعصر نسل سے الکٹرانک سوشل میڈیا جیسے فیس بک [facebook] اور ٹویٹر [twitter] وغیرہ پر اردو شعر و ادب کی ترویج اور فروغ کی باتیں سنتا ہوں اور ایسے معاملات بھی میرے علم میں لائے جاتے ہیں کہ کس طرح عوامی سطح پر معروف و مقبول شعرا و ادبا کی معتد بہ تعداد سوشل میڈیا کے ان ذرائع سے معقول استفادہ کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کی ترویج میں مصروف بہ کار ہے ، اور کس طرح آج کے نوجوان جدید اور کلاسیکی ادب کو انٹرنیٹ پر اس طرح محفوظ کر رہے ہیں کہ انگلی کی ایک جنبش پر کسی بھی شاعر کی غزل یا کسی بھی مشہور شعر کے دونوں مصرعے تلاش پر سامنے آ جائیں ، تب خوشگوار احساس ضرور ہوتا ہے کہ اردو کے علمی و ادبی زخیرے کو جدید تکنالوجی کے ذریعے جس طرح محفوظ کیا جا رہا ہے ، وہ ممکن ہے ادبی تاریخ کا مستند حصہ بنے اور مستقبل کی نسل کی تحقیق کے کام آئے ۔ اس کے باوجود میری ہی نہیں بلکہ ہر سنجیدہ ادب دوست کی یہی خواہش رہے گی کہ نئی نسل میں بھی نئے مخدوم اور جامی پیدا ہوں اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ جہاں نئی نسل کو اپنے مطالعے کی گہرائی اور گیرائی کی سمت توجہ دیتے ہوئے اساتذہ سے تخلیقی سطح پر رہنمائی حاصل کرنا چاہیے وہیں شعر و ادب کے اساتذہ و ناقدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ حقیقی تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھیں ۔
جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ