جدید ٹیکنالوجی ۔۔۔ فوائد اور نقصانات

ایس ایم شاہ

محفلین
جدید ٹیکنالوجی ۔۔۔ فوائد اور نقصانات
n00522174-b.jpg


اسلام ٹائمز: پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا اپنے لئے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی زیر نظر ہوتا تھا، جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا کا پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جا رہا ہے۔ طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جا رہی ہے۔ گھروں کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جا رہی ہے اور آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانیت کو دن بدن فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔ انہی سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ ثقافت ہماری پاکیزہ ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں۔

تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی

گلوبل ویلج کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا، یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔ آج جدید ٹیکنالوجی نے سچ مچ میں ہماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔ ماضی کی مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ہوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا، پہلے دنیا ومافیہا سے لوگ بے خبر ہوتے تھے، لیکن آج ان سہولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پہلے سالوں کی مسافت اب ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پہلے جس کام کے انجام دینے کے لئے دسیوں افراد درکار ہوتے تھے، اب ایک جدید مشین ان سب سے بہتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔ ٹیلی فون اور موبائل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ہوتے تھے، اب جہاں جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بہت سارے مسائل کو حل اور فاصلوں کو بہت حد تک کم کر دیا ہے، وہاں بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اور تربیتی حوالے سے بہت ہی خطرناک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

پہلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، آج کل وہ عملی صورت پر رونما ہو رہے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ہوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سہاروں کا سہارا بنتے تھے، مریضوں کی تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ہر اہم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ہونے کے باوجود خوشحال رہتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنا بھی دور کی بات تھی، طور اطوار اب سے بہت ہی مختلف تھے، ناموس کا احترام بہت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔

موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی جوں جوں ترقی کر رہی ہے، انسان کی انسانیت و اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ہمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ہو رہی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رہا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پہلے یہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔ انسانیت کی جگہ اب مادیت لے رہی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رہی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ہوتی جا رہی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کر رہا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم و فریب شب خوں مار رہا ہے، رحمت و ہمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ہوتی جا رہی ہے۔ علماء کی ہمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگا کر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کے ایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔

پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا اپنے لئے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی زیر نظر ہوتا تھا، جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا کا پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جا رہا ہے۔ طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جا رہی ہے۔ گھروں کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جا رہی ہے اور آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانیت کو دن بدن فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔ انہی سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ ثقافت ہماری پاکیزہ ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں۔

نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال 67 لاکھ بالغ افراد نے منشیات استعمال کی۔ 42 لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے بھی کم افراد کے لئے علاج معالجے کی سہولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا 4 فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ہزار افراد افیون استعمال کر رہے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے، جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریباً سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔﴿۱﴾ یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لئے ترس رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت حال ہی میں اٹلی میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لئے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾

آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اعتقادات کی کمزوری، اسلامی اقدار سے ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا چی چرانا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں، جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے، تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذہنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار ان کے ذہنوں پر حاکم رہیں گے، تب خود بخود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ہوجائیں گے، تب ثقافتی یلغار انھیں منحرف نہیں کرسکے گی۔

کائنات میں اللہ تعالٰی نے کوئی چیز بری خلق نہیں کی ہے۔ ہر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لئے ہے۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پہلو نہیں بلکہ اس کے فوائد بھی ناقابل انکار ہیں۔ کیا ہم صرف اس کی منفی جہت کو دیکھ کر اس کے قریب ہی نہ جائیں؟ نہیں نہیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿البتہ کم عمری میں بچوں کا کمپیوٹر استعمال کرنا ان کی ذہنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لئے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ہونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾ ہماری کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ہوتے جائیں گے، اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رہے گا، خواہ وہ خود زندہ ہو یا مر چکا ہو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رہے گا۔

اسی طرح کوئی اچھی بات وہاں شیئر کرتا ہے، تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے، اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا شریک رہے گا، خواہ وہ قید حیات میں ہو یا ابدی سفر پر روانہ ہوچکا ہو۔ جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نہیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نہیں، کلہاڑا کوئی دردناک چیز نہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں، تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھا، جس ہتھیار کو اپنے ملک دشمن کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لئے بروکار لانا چاہیے تھا، جس کلہاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاہیے تھی، اب اگر ان سے کسی مسلمان کا گلا کاٹیں، کسی بے گناہ کی جان سے کھیلیں اور کسی عزیز کا خون بہائیں تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔

بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں، لیکن جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے ہماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔ جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور ان کی پاک آل کا پیغام دنیا تک پہنچ سکتا ہے، ہمارے اعتقادات سے دنیا کو آشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھا کر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لئے استعمال کریں، تب یہ معاشرے، گھر اور ملک بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدین، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں، بہنوں کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں، بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی، ان کے ہاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ہی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ہاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لہذا ان کو ہمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔ آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پا رہا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لہذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشروں سے جرم کا تدارک نہ ہوسکے۔ اس لئے جوابدہی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔(3) بنابریں جہاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے، وہاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔
حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، ۱۵ فروری ۲۰۱۶
2: چینل1، ایران، ۳۰ جنوری۲۰۱۶
3:HAMARI WEB OSAMA SHOAIB, ALIG, DEHLI
 
Top