کاشفی
محفلین
جذباتِ عالیہ
(حضرت امجد حیدر آبادی)
کام، کب حسبِ مُدّعا نہ ہوا
اُس کے فضل و کرم سے کیا نہ ہوا
ہم تو اک بار اُس کے ہوجائیں
وہ، ہمارا ہوا ، ہوا نہ ہوا
ڈھونڈتا ہوں میں ہر نفس اُس کو
اک نفس مجھ سے جوجُدا نہ ہوا
اب سویرے حضور جاگے ہیں
قافلہ، رات ہی روانہ ہوا
کیا مِلا وحدتِ وجودی سے
بندہ، بندہ رہا ، خدا نہ ہوا
ایسے آقا کا ہے غلام امجد
جس کے مانند دوسرا نہ ہوا