جذبات کو پرکھنے کے زاویے

احساس اور عمل کو پرکھنے کے کئے زاویے ہیں۔ ایک ہی بات کو سائنسدان، فلاسفر، مذہبی عالم اور عاشق مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ انسانی جذبات، دماغ میں کیمیائی اور برقی عمل کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ دماغ حواسِ خمسہ اور پچھلے تجربہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔
ایک حیاتیاتی تجزیہ بتاتا ہے کہ لوگ صنفِ مخالف کی کن صفات سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کی توجیہ کیا ہے۔ سماجی مرتبہ کی تبدیلی سے کیسے پسندیدہ صفات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے، لوگ طویل المیعاد رشتے کیلئے کیسے لوگ منتخب کرتے ہیں اور دل لگی کیلئے لا شعوری طور پہ کس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔
فلاسفر ان کو انسانی تجربات اور اجتماعی عمل کی زاویہ سے دیکھتا ہے۔ مذہبی عالم اس کو اپنے عقیدہ کے نقطہ نظر سے ، تا کہ انسانی عمل کو عقیدہ اور مذہبی قواعد کے تابع کر دیا جائے۔ عاشق اس کو خدائی محبت کا مظہر سمجھتا ہے۔

ان میں سے کس کا نقطہ نظر حقیقت سے قریب تر ہے؟؟
 
ہمیں حقیقت چاہیے کیوں؟
غالباً اس لیے کہ ہمیں اس سے نفع کی امید ہے۔ اگر یوں ہے تو حقیقت خیر کا دوسرا نام ہوا۔ یا پھر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ حقیقت میں ہمیں کشش محسوس ہوتی ہے اور وہ اچھی لگتی ہے۔ اس طرح حقیقت اور حسن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں خیر جمع تفریق کا نام نہیں۔ ورنہ ملاؤں کی سلام کرنے پر ملنے والی دس نیکیاں ہی شمار کیوں نہ کی جائیں۔ حسن بھی اعداد کا پابند نہیں۔ ورنہ کمپیوٹر انسانوں سے اچھے فنکار بن جائیں۔ پیمائشیں حقیقت، خیر یا حسن کو گرفت میں لینے سے قاصر ہیں۔ پھر ہم انھیں کیسے پہچانیں گے؟
میرا خیال ہے ان اقدارِ ثلاثہ کا ایک ہی پیمانہ کام دے سکتا ہے اور وہ موضوعی ہے۔ یعنی پیمائش سے ماورا مگر قابلِ فہم۔ یہ پیمانہ توازن و تناسب کا ہے۔ کیا کوئی شے اس مقام پر ہے جس پر ہونی چاہیے؟ اگر ہاں تو وہ حقیقت بھی ہے، حسن بھی ہے اور خیر بھی۔ اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
ایک عقیدت آلود معاشرے میں جہاں سوال کو سرکشی خیال کیا جانے لگے، فلسفے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی جگہ ایک زاہدِ مرتاض کی بجائے فلسفی حقیقت، حسن اور خیر سے زیادہ قریب ہے۔ جہاں فکر کے نغمہ ہائے بےصوت لوگوں کی قوتِ عمل کو معطل کر دیں وہاں ارسطو سے زیادہ عظمت اس ان پڑھ کا حق ہے جو جہاد کے لیے اٹھتا ہے۔ جہاں خوشبو اتنی ہو کہ ناک اس کی قدر اور پہچان کھو بیٹھے وہاں ایک سڑا ہوا ٹماٹر گلاب سے بمراتب بہتر ہے۔
عاشق اس سماج میں حق پر ہے جہاں تصنع اور روایت حد سے گزر جائیں۔ فلسفی اس میں جس میں انسان ربی و ملا کے پنجۂِ ستم میں تڑپ رہا ہو۔ مذہبی عالم اس میں جس میں تصنع اور تظلم ایک ساتھ انسان کی جان کے لاگو ہو جائیں۔ ذاتی حیثیت میں بھی یہ پیمانہ اسی قدر لائقِ اعتنا ہے۔ میرا عمل حق تب ہے، حسین تب ہے، خیر کا تب ہے جب میں وہ میری ذات کی ضروریات کو پورا کرے۔
گویا حقیقت علمِ ریاضی کی کوئی شاخ نہیں جس کی ٹھیٹ معروضی پہچان ممکن ہو بلکہ زندگی کی طرح ایک سیال اور ہمہ دم متغیر شے ہے۔ زمان و مکان کے کسی خاص نکتے پر اس کی شناخت وہی کر سکتا ہے جس میں فہم اور بصیرت وافر ہو۔ ہر کسی کا یہ کام نہیں کہ وہ حقیقت کو پہچانے اور اس کے مطابق عمل کرے۔ زیادہ تر لوگ محض کائنات کے انتشار (entropy) کے مظاہر ہیں جو اینٹ پتھر کی طرح زمانے کے بہاؤ میں بہہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچے رب نے اکثر کو جہنمی قرار دیا ہے۔
 
آخری تدوین:
بہت خوبصورت بات کی ہے آپ نے۔ حقیقت کی ٹھیٹ معروضی پہچان ممکن نہیں اور شاید ضروری بھی نہیں۔ حقیقت کی تلاش میں یقیناً خیر کی تلاش کا جذبہ کارفرما ہے۔ اس خیر کے کئی پہلو ہیں، جو متلاشی کی ذہنی اپج اور تمنا پہ منحصر ہیں۔ سائنسدان اس کو پیش گوئی اور علاج کیلئے جاننا چاہتا ہے، فلاسفر اس کو معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے اور عاشق یہ جاننا چاہتا ہے کہ جلوۂ جانان فقط کائناتی انتشار (اینٹروپی) ہے یا خالق کی مرضی ( ڈیزائن) شامل ہے۔
 
Top