آصف شفیع
محفلین
غزل:
جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے
ایسا کردار کہانی سے نکلتا کب ہے
موجِ خود سر بھی اُسے مات نہیں دے سکتی
چاند اُجلے ہوئے پانی سے نکلتا کب ہے
بعد مرنے کے بھی دنیا نہیں جینے دیتی
آدمی عالمِ فانی سے نکلتا کب ہے
آنکھ بھی محو ہے اُس قرب کی سرشاری میں
دل بھی اُس شامِ سہانی سے نکلتا کب ہے
موج در موج نہاں ہے غمِ ہستی دل میں
درد اشکوں کی روانی سے نکلتا کب ہے
عشق اظہار تک آ جاتا ہے ورنہ، آصف
شعر ترتیبِ معانی سے نکلتا کب ہے
جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے
ایسا کردار کہانی سے نکلتا کب ہے
موجِ خود سر بھی اُسے مات نہیں دے سکتی
چاند اُجلے ہوئے پانی سے نکلتا کب ہے
بعد مرنے کے بھی دنیا نہیں جینے دیتی
آدمی عالمِ فانی سے نکلتا کب ہے
آنکھ بھی محو ہے اُس قرب کی سرشاری میں
دل بھی اُس شامِ سہانی سے نکلتا کب ہے
موج در موج نہاں ہے غمِ ہستی دل میں
درد اشکوں کی روانی سے نکلتا کب ہے
عشق اظہار تک آ جاتا ہے ورنہ، آصف
شعر ترتیبِ معانی سے نکلتا کب ہے