آئی سی یو میں آخری سانسیں لیتا ہوا یہ شخص اپنی زندگی کی بازی ہار رہا تھا۔ موت اْسے کسی وقت بھی اپنی آغوش میں لے سکتی تھی۔ دوسری طرف باہر ہال میں کھڑا اْس کا بیٹا مجید اپنے باپ کو بے قراری کے عالم میں آئی سی یو کے دروازے کی جھری سے دیکھ رہا تھا۔ اْس کے والد اشفاق احمد کسی وقت بھی موت کو گلے لگا سکتے تھے۔مجید کا چھوٹا بیٹا ارسلان بھی ہسپتال میں آنا چاہتا تھا تاکہ اپنے دادا ابو کو دلاسہ دے سکے لیکن مجید نے اْسے پیار سے سمجھایا کہ بچوں کا ہسپتال میں داخلہ ممنوع ہے۔آپ کے دادا ابو جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ اپنے پانچ سال کے بیٹے کو تواْس نے سمجھا دیا تھا لیکن خود کو وہ کسی طرح سمجھا نہیں پا رہا تھا۔ باپ کی سائے سے وہ محروم ہونے کے قریب تھا۔ کل صبح اشفاق احمد کی اچانک حالت بگڑی تھی اور اْنہیں پھر ایمبولنس میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اْس وقت سے اب تک اشفاق احمد کی حالت میں کوئی بہتری نہیں تھی۔ آج اْنہیں آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ڈاکٹروں کی ایک ٹیم مستقل طور پر اْن کا معائنہ کر رہی تھی۔ اِ س وقت سورج غروب ہو رہا تھا اور شاید مجید کے والد اور ننھے ارسلان کے دادا ابو کی زندگی کا سورج بھی غروب ہونے کے قریب تھا۔ مجید بے تابانہ نظروں سے آئی سی یو کی جھری سے اندر جھانک رہا تھا۔ تبھی ایک ڈاکٹر بجھے بجھے انداز میں باہر نکلا۔
آپ کے والد اشفاق احمد کا کنسر آخری سطح پر پہنچ چکا ہے ……اب اْن کا بچنا بہت مشکل ہے …… ہمیں فوراََ اْپریشن کرنا ہوگاجس کے لیے تقریباََ پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے …… آخری سطح کے کنسر کا علاج کچھ دنوں پہلے امریکہ کے ماہر ڈاکٹر نے دریافت کر لیا تھااور یہ حیرت انگیز ایجاد ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ہمارے ملک میں آئی ہے ……اِس حیرت انگیز ایجاد کے ذریعے اگر علا ج کیا جائے تو پچاس فیصدبچنے کی اْمید کی جا سکتی ہے …… یہ ٹیکنالوجی ابھی نئی ہے اِس لیے کافی مہنگی ہے …… آپ کو ہم سالوں سے جانتے ہیں اِس لئے صرف پچیس لاکھ روپے میں یہ علاج شروع کر سکتے ہیں ……آپ آج رات تک یہ پیسے جمع کرا دیں تاکہ آج رات ہی آپ کے والد کا اْپریشن ہو سکے بصورت دیگر اْن کی زندگی ختم ہو جائے گی ۔ڈاکٹر کے یہ الفاظ مجید پر پہا ڑ بن کر ٹوٹ رہے تھے۔ ایک ملازم پیشہ شخص کے لیے پچیس لاکھ روپے کا بندوبست کرنا آسان کام نہیں تھاوہ بھی آج رات تک۔ اب مجید کا چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا۔ ڈاکٹر سے بنا کچھ کہے وہ ہسپتال سے باہر نکل آیا اور ایک سڑک پر پید ل چلنے لگا۔ بار بار پیسوں کا خیال اْس کے دل میں آنے لگا۔ وہ کھوئے کھوئے انداز میں سڑک پر چل رہا تھا۔ تبھی ایک شخص پوری قوت سے اْس سے ٹکرایا۔دونوں دھڑام سے نیچے گرئے اور پھر ٹکرانے والاشخص بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔
مجھے معاف کیجئے …… شاید میرا دھیان کئی اور تھا ۔مجید سے ٹکرانے والا شخص شرمندگی سے بولا۔
کوئی بات نہیں ۔مجید نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ مجید سے ٹکرانے والا شخص بھی دوسری طرف چل پڑا۔ مجید پندرہ منٹ تک کھویا کھویا سا سڑک پر مٹر گشتی کرتا رہا۔ آخر اْس نے ایک رکشہ پکڑا اور اپنے گھر کا پتا بتایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہورہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی مجید کا پانچ سال کا بیٹا ارسلان اْس سے آکر لپٹ گیا۔
ابو …… دادا ابوکو ساتھ نہیں لائے ۔ارسلان نے معصومیت سے کہا جس پر مجید کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
نہیں بیٹا…… وہ جلد آجائیں گے ۔مجید نے جلدی سے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اْسے اپنے باپ کا چہرہ دکھائی دینے لگاجو آئی سی یو میں آخری سانسیں لے رہا تھا۔ دوسری طرف اْس کا پانچ سال کا بیٹا ارسلان بے تابی سے اپنے دادا ابو کا انتظا رکر رہا تھا۔ اِن حالات میں مجید کو اپنی جیب کچھ بھاری محسوس ہوئی۔ اْس نے بوکھلا کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جب ہاتھ جیب سے باہر نکلا تو اْس میں ایک کاغذ دکھائی دے رہا تھا۔ مجید نے بے قراری سے کاغذ کی تہ کھولی اور کاغذپر لکھی تحریرپڑھنے لگا۔ کا غذ پر لکھا تھا:۔
میں وہی ہو جو تم سے آج شام کو ٹکرایا تھا۔میں جانتا ہوں تمہیں اپنے باپ کی زندگی بچانے کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ میں تمہیں یہ پیسے دینے کو تیار ہوں اگر تم میرا ایک کام کر دو۔نیچے میرا فون نمبر لکھا ہے۔اگر اپنے باپ کی زندگی بچانا چاہتے ہو اور مجھ سے پچیس لاکھ روپے لینا چاہتے ہو تو مجھے فوراََ فون کرو۔
فون نمبر:۔۹۸۹۱۴۵
تمہارا ہمدرد۔
تحریر پڑھ کر مجید سوچ میں پڑ گیا۔ اْس کے آنکھوں کے سامنے کبھی اپنے ننھے بیٹے کا چہرہ تو کبھی اپنے بیمار باپ کا چہرہ گھومنے لگا۔ پھر اْس کے دماغ میں ننھے ارسلان کے الفاظ گونجنے لگے۔
ابو…… دادا ابو کو ساتھ نہیں لائے ۔ مجید کے ذہن میں بجلی سے کوندی۔ دوسرے ہی لمحے اْس کا ہاتھ فون کی طرف بڑھ گیا۔
مجید کے ہاتھ فون کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن کو معمول سے تیز محسوس کر رہا تھا۔ اپنے والدکی جان بچانے کے لئے وہ ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار تھا جو اْسے کرنے کے لئے کہا جائے ۔ ننھے ارسلان کا چہرہ بار بار اْس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا جو اپنے دادا ابو کو صحت یاب دیکھنا چاہتا تھا۔ اِن حالات میں مجید کے ہاتھ فون کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ کاغذ پر لکھے نمبروں کو ڈائل کرنے لگا ۔ دوسرے ہی لمحے سلسلہ مل گیا۔
"السلام علیکم !۔۔۔ میں مجید بات کر رہاہوں "مجید جلدی سے بولا۔
"مجید تمہارے والد کی جان خطرے میں ہے اور اْنہیں فوراََ اْپریشن کی ضرورت ہے ۔۔۔اْپریشن کے لئے ڈاکٹروں نے تم سے پچیس لاکھ روپے مانگے ہیں ۔۔۔ اِن حالات میں تم خود کو مجبور محسوس کررہے ہو ۔۔۔ میں یہ ساری باتیں جانتا ہوں اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم نے میرا کام کر دیا تو تمہیں پچیس لاکھ روپے مل جائیں گے "دوسری طرف سے کسی نے بھاری آواز میں کہا۔آواز سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اپنی آواز بنا کر بات کر رہا ہے۔
"تم کیا چاہتے ہو "مجید نے اْلجھ کر کہا۔
"تمہیں صرف میرا ایک کام کرنا ہے ۔۔۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم شہر کی مشہور سڑک جاپانی چوک پرجاؤ ۔۔۔ وہاں تمہیں کچھ نوٹ ملیں گے ۔۔۔ وہ نوٹ تم غریبوں میں صدقہ کر دو او ر پھر شہرکے مشہور رئیس افتخار عالم کے گھر کے ایک کمرے سے تمہیں پچیس لاکھ روپے مل جائیں گے ۔۔۔ وہ پیسے میں نے ہی وہاں رکھے ہونگے ۔۔۔ تم پر چوری کا الزام نہیں لگے گا اِس بات کی ذمہ داری میری ۔۔۔ تم میری بات سمجھ گئے ہو نہ "یہاں تک کہہ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
"میں تمہارے اِس کا م کا مقصد نہیں سمجھا۔۔۔ تم غریبوں میں پیسے صدقہ کرنا چاہتے ہو تو خود یہ کام کیوں نہیں کر لیتے "مجید نے اْلجھن کے عالم میں کہا۔
"اگر سوا ل کرو گے تو پیسے ہاتھ سے جائیں گے ۔۔۔ اور اگر پیسے ہاتھ سے جائیں گے تو تم جانتے ہو اپنے باپ کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔۔۔ اِس لئے جیسا کہا گیا ہے ویسا کرو ۔۔۔ا بھی اور اِسی وقت جاپانی چوک پہنچو اور پھر آج رات کو ہی پیسے غریبوں میں تقسیم کرکے سیٹھ افتخار عالم کے گھر پہنچ جانا "دوسری طرف سے کہا گیا ۔اگلے ہی لمحے سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مجید کی الجھن کا کیا پوچھنا ۔وہ حیران و پریشان کھڑا سوچ رہا تھا کہ فون کرنے والا آخر چاہتا کیا ہے ۔ سیٹھ افتخار عالم کے گھر میں ایسا کیا ہے جو وہ اْسے وہاں بھیجنا چاہتا ہے ۔ تبھی اْس کی نظر گھڑی پر پڑی۔ اِس وقت ساڑھے سات بج چکے تھے اور ڈاکٹر نے اْسے صرف آج رات تک کا وقت دیا تھا۔ اِن حالات میں اْس نے اپنی ساری الجھن کو اپنے دماغ سے نکال پھینکا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ننھے ارسلان کی نظر اْ س پر پڑی تھی اور وہ سوالیہ نظروں سے مجید کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجید اْس کی نظروں سے نظریں نہ ملا سکا اور گھبرا کر باہر نکل آیا۔ وہ ننھے ارسلان کو کیسے سمجھاتا کہ اْس کے دادا ابو زندگی اور موت کے درمیان لڑائی لڑرہے ہیں اور دوسری طرف اْس کا باپ اْن کو زندگی دلانے کے لئے حالات سے لڑائی کر رہاہے۔ مجید نے باہر نکل کر ایک رکشہ پکڑا اور ایک آخری باہر ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہسپتال پہنچ کر اْس نے آئی سی یو کے دروازے کی جھری میں سے اپنے والد اشفاق احمد کو دیکھا جو نہایت کمزور دکھائی دے رہے تھے ۔ اْن کی ناک پر سانس دینے والی مشین لگی تھی اور وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں بستر پر پڑے تھے ۔ مجید زیادہ دیر تک یہ منظر نہ دیکھ سکا اور ہسپتال سے نکل آیا۔ اب اْس کا رخ جاپانی چوک کی طرف تھا۔ اْس نے رکشہ روکنے کا سوچا لیکن پھر اْس کا ہاتھ جیب کی طرف رینگ گیا۔ اْس کی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ جاپانی چوک کے رکشے کا کرایا اداکر سکے ۔ مجبوراََ وہ پیدل ہی روانہ ہوگیا۔ مجید کی ماں تو بچپن میں ہی اْس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی اور خدا کے پاس پہنچ چکی تھی لیکن اْس کا باپ اب بھی اْس کے ساتھ تھا لیکن آج اْس کے والد بھی زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کر رہے تھے ۔ اِن سب خیالوں نے مجید کے قدم تیز کر دئیے ۔ وہ جلد سے جلد جاپانی چوک پہنچنا چاہتا تھا۔ اْس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ فون میں بات کرنے والاشخص اْس سے کوئی جرم نہیں کر ا رہا۔ خط پڑھ کر وہ یہ سمجھا تھا کہ اْسے کوئی سنگین جرم کرنے کے لئے کہا جائے گا اور اْس جرم کرنے کے بدلے پچیس لاکھ روپے دئیے جائیں گے لیکن فون پر تو غریبوں میں پیسے تقسیم کرنے کا کہا گیا تھا اور اِس کے بدلے میں سیٹھ افتخار عالم کے گھر سے پچیس لاکھ روپے وصول کرنے تھے ۔ مجید سمجھ گیا کہ اْسے فون کرنے والا ضرور سیٹھ افتخار عالم ہی ہے اور وہی اْس سے غریبوں میں پیسے تقسیم کرانا چاہتا ہے اور اِس کام کے بدلے اْسے پچیس لاکھ روپے دینا چاہتا ہے ۔ اْس کے ذہن میں خیال آیا کہ سیٹھ افتخار عالم نے اپنی زکوۃ کے کچھ پیسے نکالے ہونگے اورکسی طرح اْنہیں مجید کے حالات کی خبر ہوگئی ہوگی تو بس اْنہیں نے ایک چھوٹے سے کام کے بدلے میں مجید کو یہ زکوۃ کے پیسے دینے کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔اِس طر ح کام کرنے کے بدلے میں پیسے ملنے پر مجید کی عزت نفس بھی مجروع نہیں ہوگی ۔ یہ سب سوچ کر مجید پرسکون ہوگیا ۔ وہ دل ہی دل میں سیٹھ افتخار عالم کو دعائیں دینے لگا۔ تبھی اْسے سامنے جاپانی چوک نظر آگیا۔ وہ جلدی جلدی قدم اْٹھانے لگا۔ آخر عین چوک کے درمیان پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر اْس نے اِدھر اْدھر نظریں دوڑائیں ۔ چوک کے کونے پر اْسے کچڑہ کنڈی نظر آئی جہاں بے تحاشہ گندگی پھیلی ہوئی تھی۔ اْس نے ایک نظر اْس گندگی پر ڈالی ۔د وسرے ہی لمحے وہ چونک اْٹھا۔ گندگی کے ڈھیر میں پانچ پانچ سو کے نوٹ پڑے تھے ۔ مجید نے جلدی سے قدم اْٹھائے اورپھر گندگی کے پاس پہنچ کر پانچ پانچ سو کے دس کے قریب نوٹ اْٹھا لیے ۔ گویا یہ پانچ ہزار تھے ۔ مجید نے جلدی سے پیسے جیب میں ڈالے اور پھر اِدھر اْدھر نظریں دوڑائیں ۔ یہاں اْسے کوئی غریب یا بھکاری نظر نہ آیا۔ مجیدایک پل کے لئے سوچ میں پڑگیا او رپھر اْس نے پیدل ایک طرف کا رخ کیا۔ پندرہ منٹ تک چلنے کے بعد وہ ہسپتال میں داخل ہو رہا تھا۔ اْس نے سوچا تھا کہ ہسپتال میں اْس جیسے نہ جانے کتنے لوگ ہونگے جو اْپریشن کے پیسے ادا نہیں کر سکتے ہونگے ۔ سب سے پہلے اْس کی نظر ایک غریب حلیہ والے شخص پر پڑی۔ وہ بے تابی سے باہر ٹہل رہا تھا۔ مجید اْس کے قریب پہنچ گیا۔
"کیا ہوا بھائی ۔۔۔ آپ بہت پریشان دکھائی دیتے ہو "مجید نے نرم لہجے میں کہا۔
"ہاں بھائی ۔۔۔ میری ماں کی حالت بہت خراب ہے ۔۔۔ اْس کے گردے میں پتھری ہوگئی ہے ۔۔۔فوراََ اْپریشن کرنا پڑے گا۔۔۔ اْپریشن کے لئے ہسپتال والے پچیس ہزار مانگ رہے ہیں لیکن میرے پاس صرف بیس ہزار کے قریب پیسے ہیں ۔۔۔ میں پریشان ہوں کہ باقی پانچ ہزار کا بندوبست کیسے کرؤں "وہ آدمی روانگی کے عالم میں بولتا چلا گیا۔ مجید ایک پل کے لئے رکا اورپھر اچانک آہستہ سے اْس کی مٹھی کھولی اور اپنی بند مٹھی اْس کی مٹھی میں کھول دی اور پھر فوراََ اْس کی مٹھی بند کر دی۔ یہ سب اْس نے ایک سیکنڈ میں کیا تھا۔ وہ آدمی ہکا بکا رہ گیا۔ مجید کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ پھیل گئی اورپھر وہ اْس آدمی کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکل آیا۔مجید کے جانے کے بعد اْس شخص نے اپنی مٹھی کھولی تو اْس میں پانچ پانچ سو کے کڑک نوٹ تھے اور یہ پورے پانچ ہزار تھے ۔ اْس آدمی کی نظریں بے اختیار انہ طور پر اْوپر اْٹھ گئیں اور پھر وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔دوسری طرف مجید کا رخ اب سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی کی طرف تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ سیٹھ افتخار کی کوٹھی میں داخل ہو رہا تھا۔ کوٹھی کے باہر کوئی نہیں تھا۔ مجید کو اِ س بات پر بہت حیرت ہوئی لیکن پھر وہ اپنے ذہن کو جھٹک کر کوٹھی کے اندر داخل ہوگیا۔ کوٹھی میں گہری خاموشی تھی ۔ سردی کے دنوں میں لوگ آٹھ یا نوبجے سے ہی لحافوں میں دبک جاتے ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی مجید ایک بار پھر پرسکون ہوگیا۔ مجید نے ایک نظر کوٹھی پر ڈالی اور پھر اْسے سامنے ایک بڑا سا کمرے کادرواز ہ نظر آیا ۔ وہ ایک پل کے لئے رکا اور پھر دوسرے ہی لمحے اْس دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر مجید نے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ دروازہ کھلتا چلاگیا۔ مجید کمرے میں داخل ہوا اور پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ یہاں کوئی نہیں تھا۔ کمرے میں دو صوفے اور ایک میز رکھی ہوئی تھی ۔اِس کے علاوہ سگریٹ پینے کی آس ٹرے بھی میز پر رکھی ہوئی تھی۔ کمرے کی سامنے والی دیوار پر مختلف تصوریں لگی تھی جو زیادہ تر افریقہ اور دوسرے باہر ممالک کے جنگلوں کی تھیں ۔ مجید سمجھ گیا کہ یہ ڈرائنگ روم ہے ۔ تبھی اچانک مجید کے کانوں میں دل دوز چیخ کی آواز گونجی ۔ اْس کے چہرے کا رنگ اْڑ گیا۔ چیخ کی آواز میں گہری لرزش تھی جیسے کسی کی آخری چیخ ہو ۔ وہ گھبرا کر باہر نکل آیا اور چیخ کی سمت میں دیکھا۔ یہ ایک کمرہ کا دروازہ تھا۔ چیخ اِسی کمرے سے آئی تھی ۔ مجید جلدی سے اْس کمرے میں داخل ہوگیا اورپھر بری طرح چونک اْٹھا۔ سامنے امیرانہ لباس پہنا ایک شخص بری طرح تڑپ رہا تھا۔ اْس کے سینے میں دستے تک چاقوگھونپاہوا تھا۔خون نے اْ س کے شاہانہ کپڑے سرخ کردئیے تھے ۔ مجید حیران و پریشان کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ تبھی دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی ۔ مجید چونک کر مڑا تو سامنے دو آدمی ، دو بچے اور ایک عورت کھڑے اْسے بری طرح گھور رہے تھے ۔
"یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔ میرے شوہر کو کیوں مارا "وہ عورت چلائی ۔
"یہ سب چھوڑئیے بھابی ۔۔۔ افتخار بھائی کو فوراََ ہسپتال لے جانا ہوگا "وہاں کھڑا ایک شخص گھبرا کر بولا جو شایدفرش پر پڑے شخص یعنی سیٹھ افتخار عالم کا بھائی تھا۔ تبھی سیٹھ افتخار نے دم توڑ دیا۔مجید کے چہر ے کا رنگ سفید پڑ چکاتھا۔ دوسری طرف سیٹھ افتخار کی بیگم اپنے شوہر کی لاش کے پاس بیٹھ کر سسکیاں لے لے کر رو نے لگی ۔ سیٹھ افتخار کا بھائی بھی رونے لگا تھا۔ وہاں موجود دو بچے بھی زور و قطار رونے لگے۔ شاید وہ سیٹھ افتخار کے بیٹے تھے ۔ وہاں موجود دوسرا شخص بھی حسرت بھری نظروں سے سیٹھ افتخار کی لاش کو دیکھ رہا تھا۔ یہ لباس سے گھر کا ملازم لگ رہا تھا۔
"یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔ افتخار بھائی سے تمہیں کیا دشمنی تھی "سیٹھ افتخار کا بھائی روتے ہوئے بولا۔
"پولیس کو فون کریں جمیل بھائی ۔۔۔ یہ شخص رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے "بیگم افتخار عالم سسکیا ں لیتے ہوئے بولیں ۔ دوسرے ہی لمحے سیٹھ افتخا ر کے بھائی جمیل نے موبائل نکالا اورپولیس کو فون کرنے لگا۔ پندرہ منٹ بعد پولیس گھر میں داخل ہوگئی۔ اِ س دوران مجید بالکل خاموش کھڑا رہا تھا۔ شایدوہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے ۔تبھی ایک سب انسپکٹر کمرے میں داخل ہوا ۔ سب انسپکٹر کا نام تنویر غوری تھا۔سب انسپکٹر تنویر نے لاش کا جائزہ لیا اورپھر گھر والوں کی طرف مڑا۔
"آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے ۔۔۔ سیٹھ صاحب کو کس نے قتل کیا ہے "سب انسپکٹر تنویر نے سوال کیا۔
"قاتل رنگے ہاتھوں پکڑا گیاہے تنویر صاحب ۔۔۔ میں نے بھابی نے ہمارے ملازم شرفو نے اوربھائی صاحب کے دو بچے عبدالرحمان اورعمر نے یہ منظر صاف دیکھا ہے " سیٹھ افتخار کا بھائی جمیل بولتا چلاگیا۔
"کون ہے قاتل ۔۔۔ کون سے منظر کی بات کر رہے ہیں آپ "سب انسپکٹر تنویر نے اْلجھ کر کہا۔
"جب ہمیں بھائی صاحب کی چیخ کی آواز سنائی دی اْسی وقت ہم دوڑکر اْن کے کمرے میں آئے تو یہ شخص بھائی صاحب کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ اِس وقت تک یہ اپنا کام کر چکا تھا "جمیل نے وضاحت کی۔
"اوہ !۔۔۔ پھر تو تفتیش کی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔ کیس تو پہلے ہی حل ہو چکا ہے ۔۔۔ حوالدار قاتل کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دو "سب انسپکٹر تنویر نے خوش ہو کرسامنے کھڑے حوالدار سے کہا۔
"لیکن جناب ۔۔۔ میر ی بات تو سن لیں "مجید نے گھبرا کر کہا۔
"ہمیں کچھ نہیں سننا ۔۔۔ تم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو ۔۔۔ اب جو کچھ کہنا عدالت میں کہنا"سب انسپکٹر تنویر نے سخت لہجے میں کہا۔ دوسرے ہی لمحے ہتھکڑی کا جوڑا مجید کی طرف بڑھنا لگا اور وہ بے بسی کے عالم میں یہ منظر دیکھنے لگا۔
مجید کے والد اشفاق احمد کی سانسیں مدھم پڑتی جارہی تھیں۔ دوسری طرف مجید حوالات کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہاتھ مل رہا تھا۔ایسے میں اْس کی بیوی تھانے میں داخل ہوئی۔اِس وقت تھانے میں سب انسپکٹر تنویر ہی بیٹھا تھا۔ مجید کی بیوی کو دیکھ کر وہ چونک اْٹھا۔
"فرمائیے ۔۔۔ محترمہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں "سب انسپکٹر تنویر غوری نے چونک کر کہا۔
"میرے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔۔۔ میں پوچھتی ہوں کس جرم میں ۔۔۔ آخر اْن کا گناہ کیا ہے "مجید کی بیوی روتی ہوئی بولی۔
"پہلے آپ اپنا نام بتانا پسند کریں گی "سب انسپکٹر تنویر نے جھلا کر کہا۔
"میں ریشم ممتاز ہوں "مجید کی بیوی نے اپنا نام بتایا۔
"تو سنیے ریشم صاحبہ ۔۔۔ آپ کے شوہر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں ۔۔۔ اِنہیں سیٹھ افتخار عالم کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے "سب انسپکٹر تنویر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"لیکن میرے شوہر کسی کا قتل نہیں کر سکتے ۔۔۔ وہ تو اپنے والد صاحب کے اْپریشن کے لئے پیسے جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے "مجید کی بیوی ریشم ممتاز نے بوکھلا کر کہا۔
"میرا آپ کو ایک مشورہ ہے ۔۔۔کل تک آپ کو عدالت کا صمن مل جائے گا۔۔۔ میرے پاس وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی اچھے سے وکیل کے پاس جائیں کیونکہ میں کچھ نہیں کر سکتا "سب انسپکٹر تنویر نے ہاتھ کھڑے کر دئیے جس پر ریشم ممتاز اْسے گھور کر دیکھتی ہوئی تھانے سے نکل گئی۔ تھانے سے نکلتے ہی وہ سیدھا اپنی سہیلی بیگم عبدالباسط کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی ۔ وہ آئی جی عبدالباسط کو اچھی طرح جانتی تھی۔ آئی جی عبدالباسط کے گھر پہنچ کر اْس نے دروازے پر دستک دی ۔ دوسرے ہی لمحے دروازہ کھل گیا۔سامنے بیگم عبدالباسط کھڑی تھیں۔
"ارے ریشم ۔۔۔ تم یہاں کیسے "بیگم عبدالباسط حیران ہو کر بولیں۔
"بھائی صاحب گھر پر ہیں "ریشم ممتاز نے جلدی سے کہا۔
"وہ تو صدر مملکت کے پاس ہیں ۔۔۔ صدر مملکت نے انہیں فوراً طلب کیا ہے۔۔۔اس لئے اِس وقت وہ ایوان صدر میں ہیں "بیگم عبدالباسط بولتی چلی گئی۔
"اوہ !۔۔۔ اِن حالات میں میری مدد کون کرئے گا "ریشم ممتاز تقریباََ رو کر بولی۔
"آپ اندر آئیں اور مجھے ساری بات تفصیل سے بتائیں ۔۔۔ آخر معاملہ کیا ہے "بیگم عبدالباسط جلدی سے بولیں اور اْنہیں گھر کے اندر لے گئیں ۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ریشم ممتاز نے اْنہیں ساری بات تفصیل سے بتا دی ۔ وہ حیران ہوکر سنتی رہی ۔ آخر مکمل تفصیل سن کر ریشم ممتاز سے مخاطب ہوئیں۔
"اِن حالات میں تو آپ کو کسی کی مدد کی ضرورت ہے ۔۔۔ مجید بھائی کے والد صاحب زندگی او رموت کے درمیان لڑ رہے ہیں اور ایسے میں مجید بھائی کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے ۔۔۔ عبدالباسط بھی صدر مملکت کے پاس ایوان صدر گئے ہیں ۔۔۔ اِن حالات میں آپ کی مدد کون کرئے گا "بیگم عبدالباسط بولتی چلی گئیں۔
"میں نے سوچا شاید بھائی صاحب یہاں ہوں لیکن وہ بھی ایوان صدر چلے گئے "ریشم ممتاز مایوسی سے بولی۔
"خیر میں کچھ مشہور ومعروف لوگوں کو جانتی ہوں ۔۔۔ وہ عرفان برادرز کے نام سے مشہور ہیں ۔۔۔ اْن کے والد ایل ایل بی شہباز احمد کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔۔۔ ایل ایل بی شہباز احمد بہت اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں ۔۔۔ کہتے ہیں کہ و ہ آج تک ایک کیس بھی نہیں ہارے ۔۔۔ اور اْن کے بچے عرفان بردرز جاسوسی کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔۔۔ وہ پرائیوٹ جاسوس ہیں ۔۔۔اگر آپ کہیں تو میں آپ کو اْن کا پتا بتا سکتی ہوں "بیگم عبدالباسط بولتی چلی گئیں۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ مجھے جلدی سے اْن کے دفتر کاپتا بتا دیں "ریشم ممتاز جلدی سے بولیں۔
" شہر کی چوتھی سڑک کی پانچویں گلی کے پہلے مکان میں اْن کا دفتر ہے ۔۔۔ عرفان بردراز کا نام آج کل میں ہی مشہور ہوا ہے لیکن اْن کے والد ایل ایل بی شہباز احمد کافی جانے مانے وکیل ہیں ۔۔۔ پندرہ سال سے وکالت کررہے ہیں ۔۔۔ بے گناہوں کو بچانا اْن کا پیشہ ہے اور گناہ گاروں کو سزا دینا میں وہ بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔۔۔ اْن کی خاص بات یہ ہے کہ غریبوں کا کیس مفت میں لڑتے ہیں ۔۔۔ کیس کے سلسلے میں تفتیش کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کو جو عرفان برادرز کے نام سے مشہورہیں بھیج دیتے ہیں ۔۔۔ وہ سراغ لگاتے ہیں اور پھر عدالت میں ایل ایل بی شہباز احمد بے گناہ کو رہا کر ا کر گناہ گارکو سزا دلواتے ہیں ۔۔۔ میں اْن کے بارے میں اکثر اخبار میں پڑھتی رہتی ہوں "بیگم عبدالباسط بولتی چلی گئیں۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ اب میں چلتی ہوں ۔۔۔ دعا کریں وہ جلد رہا ہو جائیں ۔۔۔ اور اْنکے والد بھی جلد صحت یاب ہو جائیں "یہ کہتے ہوئے ریشم ممتاز اْٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں ضرور دعا کروں گی " بیگم عبدالباسط نے کہا ۔دوسرے ہی لمحے ریشم ممتاز آئی جی عبدالباسط کے گھر سے نکلتی چلی گئی۔اب اْس کا رخ ایل ایل بی شہباز احمد اور عرفان برادرز کے دفتر کی طرف تھا۔ اْس کی نظریں بار بار گھڑ ی کی طرف اْٹھ رہی تھی ۔ اِس وقت رات کے دس بج چکے تھے۔ سڑکیں سنسان ہو چکی تھیں۔ اِن حالات میں ریشم ممتاز عرفان برادرز کے دفتر کی طرف بڑھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہبا ز احمد عدالت میں کھڑے اپنی پرزور دلائل پیش کر رہے تھے۔مخالف وکیل ایم اے جیسوال ہار کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ ایم اے جیسوا ل کا خیال تھا کہ وہ پانچ منٹ کے اندر اندر ایل ایل بی شہباز کو شکست فاش دے دے گا لیکن جوں جوں جج ایل ایل بی شہباز کے دلا ئل سن رہے تھے وہ سچ کے قریب ہوتے جارہے تھے ۔ یہاں تک کہ جج نے اپنا فیصلہ سنا یا اور ایل ایل بی شہباز اپنی زندگی کا سوواں کیس جیت گئے ۔ سو کیس جیتنے کے بعد بھی آج تک کسی ایک کیس میں بھی اْنہیں ہار نہیں ہوئی تھی۔ دوسری طرف ایم اے جیسوال پہلی مرتبہ ایل ایل بی شہباز سے ٹکرایا تھا۔ اب تک اْس کا ریکارڈ تھا کہ اْسے بھی ہا ر کا منہ نہیں دیکھنا پڑ ا تھا لیکن آج پہلی مرتبہ وہ ایل ایل بی شہباز کے ہاتھوں اپنے ریکارڈ میں شکست کا اضافہ کر چکا تھا۔ عدالت سے باہر نکلتے وقت ایم اے جیسوال کا منہ دیکھنے لائق تھا۔
"آج پہلی مرتبہ مجھے شکست ہوئی ہے ایل ایل بی شہباز صاحب ۔۔۔ میں بہت جلد یہ بدلہ چکا دوں گا "ایم اے جیسوال کے چہرے پر جھلاہٹ تھی۔
"میں اْس دن کا بڑی بے چینی سے انتظا رکروں گا جیسوال صاحب "ایل ایل بی شہباز ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے اور عدالت سے باہر نکل آئے ۔ اب اْن کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا۔ اِ س وقت شام کے پانچ بج چکے تھے ۔ وہ گھر میں داخل ہوئے تو حسب معمول اْن کا استقبال نہایت گرم جوشی سے ہوا۔
"اباجان ۔۔۔ آج آپ سو واں کیس بھی جیت گئے ۔۔۔ اب آپ کو سو کیس جیتنے کی خوشی میں سو روپے کی مٹھائی کھلا نی چاہیے "سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
"اباجان ۔۔۔ آج آپ کی وکیل ایم اے جیسوال سے جھڑپ ہوئی ہے نہ "عمران نے ایل ایل بی شہباز کا چہرہ پڑھتے ہوئے کہا۔ وہ اِس کام میں بہت ماہر تھا۔
"یہ جھڑپ تو اْن کی ہر اْس وکیل سے ہوتی ہے جو اْن کے خلاف کھڑا ہوتا ہے "سادیہ مسکرائی۔
"ویسے اباجان کیس کیا تھا۔۔۔ کیا قتل کا کیس تھا "عدنان کی جاسوسی کی حس پھڑ ک اْٹھی۔
"اباجان کو کوئی جواب تو دینے دو "عرفان نے منہ بنایا۔ وہ ہمیشہ سنجیدہ رہتا تھا۔
"ہاں بھئی ۔۔۔ گھر میں داخل ہوا نہیں کہ تم لوگوں کے سوالات شروع ہوگئے "ایل ایل بی شہباز مسکرا کر بولے۔ آخر اْنہیں نے شام کی چائے پیتے ہوئے
سارا کیس سنا دیا۔ کیس دو کروڑ کی چوری کا تھا۔ اْن کے بچوں نے تجسس سے ساری کہانی سنی۔پھر اپنے کمرے کا رخ کیا۔ رات کے کھانے پر سلطان حسب معمول مذاق کا بھوت سوار لیے بیٹھا تھا۔
"اباجان ۔۔۔ آج تک مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی "عرفان سنجیدگی سے بولا۔
"شکر ہے باقی باتیں سمجھ میں تو آگئیں "سلطان مسکرایا۔
"تو کیا تم مجھے عقل سے پیدل سمجھتے ہو "عرفان نے جل کر کہا۔
"نہیں تو ۔۔۔ میں توتمہیں عقل کے گھوڑے پر ۔۔۔ بلکہ نہیں ۔۔۔ گھوڑوں کا زمانہ اب کہاں۔۔۔ میں تو تمہیں عقل کے ہوائی جہاز پر سوار سمجھتے ہوں۔۔۔ لیکن آج کل تو راکٹوں کا زمانہ ہے ۔۔۔ تو پھر میں تمہیں عقل کے راکٹ پر سوار سمجھتا ہوں "سلطان شوخ میں بولتا چلاگیا۔
"جب بولو گے بے تکا بولو گے "عمران منہ بنا کر بولا۔
"تو تم تک کی بات بول دو ۔۔۔ میں سن لوں گا "سلطان معصومیت سے بولا جس پر ایک قہقہہ گونج اْٹھا۔ تبھی عرفان کو پھر اپنی بات یادآگئی۔
"اباجان ۔۔۔ میں آپ سے کہنا چاہتا تھا کہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی "عرفان نے پھر سے اپنی بات دھرائی۔
"ہاں ہاں ۔۔۔ کہو۔۔۔ میں سن رہا ہوں "ایل ایل بی شہباز احمد نے اْسے دلچسپ نظروں سے دیکھا۔
"یہ ایم اے جیسوال آپ کی شہرت سے جلتاکیوں ہے ۔۔۔اور یہ شخص پانچ منٹ میں کیس حل کرنے کے خواب کیوں دیکھتا ہے "عرفان منہ بنا کر بو لا۔
"پہلے سوال کا جواب تو صاف اور سیدھا ہے ۔۔۔ جو شخص شہرت رکھتا ہے اْس کے ہمدرد بھی ہوتے ہیں اور کچھ اْس کی شہرت سے جلتے بھی ہیں ۔۔۔ جیسوال صاحب بھی کچھ ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں جو میری شہرت سے جلتے ہیں ۔۔۔ دوسرے سوال کا جواب بھی صاف ہے ۔۔۔ بات ۔۔۔ "ایل ایل بی شہباز احمد نے اتنا ہی کہا تھا کہ سلطان نے اْن کی بات کاٹ دی۔
"اباجان ۔۔۔ یہ جواب صاف کیسے ہے۔۔۔ کیاجواب میں دھول مٹی نہیں آتی "سلطان مسکرا کر بولاجس پر وہ سب بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
"مذاق کا بھوت ہر وقت سوار نہ رکھا کرو "سادیہ نے منہ بنا کر کہا۔
"تو کس وقت سوار رکھا کروں "سلطان فوراََ بولا۔
"اب تم سے کون مغز مارے "سادیہ جھلا اْٹھی۔
"جو چیز تمہارے پا س ہے ہی نہیں وہ مجھے کیسے ماروگی "سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
"بھئی ۔۔۔ میر ی بات تو پوری ہونے دی ہوتی ۔۔۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسوال جیسے لوگ جلد بازی کا شکار رہتے ہیں ۔۔۔ آج کل دنیا میں ایسے بہت لوگ ہیں جو راتوں رات امیر بننا چاہتا ہیں ۔۔۔ جیسے۔۔۔"اْن کے الفاظ درمیان میں رہ گئے ۔ اِسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی تھی ۔ وہ سب چونک اْٹھے ۔ ایل ایل بی شہباز نے عرفان کو اشارہ کیا جس پر وہ دروازہ کھولنے چلا گیا۔ واپس آیا تو اْس کے ساتھ ایک عورت کھڑی تھی۔ وہ ریشم ممتاز کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔
"کون ہیں یہ عرفان "ایل ایل بی شہباز احمد نے جلدی سے پوچھا۔
"یہ آپ سے ملنا چاہتی تھیں "عرفان نے بتایا۔
"جی فرمائیے "شہباز احمد جلدی سے بولے۔
"میں آپ کے پاس اپنے شوہر کا کیس لے کر آئی ہوں ۔۔۔ دو دن بعد اْن کی عدالت میں پیشی ہے ۔۔۔ مجھے عدالت کا صمن ابھی تک نہیں ملا لیکن سب انسپکٹر تنویرکا خیال یہی ہے کہ کل تک صمن بھی مل جائے گا۔۔۔ میں چاہتی ہوں آپ میرے شوہر کا کیس لڑیں ۔۔۔ اْن پر قتل کا الزام ہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کے قتل کا "ریشم ممتاز روانگی کے عالم میں بولتی چلی گئی۔ ایل ایل بی شہباز احمد اور اْن کے بیٹے حیران ہو کر اْسے دیکھنے لگے۔ ایک حیرت انگیز فضا وہاں چھا گئی تھی اور ریشم ممتاز بے بسی سے ایل ایل بی شہباز احمد کو گھوررہی تھی۔
ایل ایل بی شہباز احمد حیران و پریشان بیٹھے اس عورت کو دیکھ رہے تھے جو ابھی کچھ دیر پہلے اْن کے گھر میں داخل ہوئی تھی اور پھر فوراََ ہی اْس نے اپنے شوہر کا کیس لڑنے کی درخواست رکھ دی تھی۔ سیٹھ افتخار عالم کے قتل کی خبر وہ نیوز چینل میں سن چکے تھے اور نیوز چینلز میں بتایا جا رہا تھا کہ قاتل مجید رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اور گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب اُسی مجید کی بیوی اْن کے سامنے اپنے شوہر کے لئے کیس لڑنے کی فریاد کر رہی تھی۔ ایل ایل بی شہبا ز احمد نے کچھ سوچ کر سادیہ کو اشارہ کیا اور وہ مجید کی بیوی کو ڈرائنگ روم میں لے گئی ۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے بیگم کو اشارہ کیا اوروہ مہمان کے لئے چائے بنانے باورچی خانے میں چلی گئیں ۔ اب ایل ایل بی شہباز احمد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ڈرائنگ روم کا رخ کیا۔ اْن کے پیچھے وہ چاروں بھی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے ۔ جب وہ ڈرائنگ روم میں پہنچے تو سادیہ نے بیگم مجید کو باتوں لگا رکھا تھا۔ آخر صوفوں پر اطمینان سے بیٹھ کر وہ بیگم مجید سے مخاطب ہوئے۔
"اب بولئے ۔۔۔ آپ کیا چاہتی ہے ۔۔۔ بلکہ سب سے پہلے اپنا نام بتائیں "ایل ایل بی شہباز احمد نے کہا۔
"میرا نام ریشم ممتاز ہے ۔۔۔ میں مجید کی بیوی ہوں ۔۔۔ وہی مجید جسے قاتل سمجھ کر سب انسپکٹر تنویر نے گرفتار کر لیا ہے لیکن یہ بات صرف میں جانتی ہوں کہ میرے شوہر کسی کو قتل نہیں کر سکتے ۔۔۔ وہ توایک مچھر کو مارنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔۔۔ پھر وہ کسی انسان کا خون کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔ پولیس نے اْنہیں حوالات میں بند کر رکھا ہے ۔۔۔ دو دن بعد اُن کی عدالت میں پیشی ہے ۔۔۔ دوسری طرف اْن کے والد اشفاق احمد ہسپتال میں زندگی اورموت کے درمیان لڑ رہے ہیں ۔۔۔ وہ تو اُن کے اُپریشن کے لئے پیسے جمع کرنے نکلے تھے ۔۔۔ میں جانتی ہوں یہ اْن کے خلاف سازش کی گئی ہے "ریشم ممتاز ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ میں سب سے پہلے مجید کے والد صاحب کے لئے کچھ کرتا ہوں ۔۔۔ تاکہ اُن کا اُپریشن شروع ہو سکے ۔۔۔ پھر میں مجید سے ملوں گا اور یہ فیصلہ کر کے ہی اُس کا کیس لوں گا کہ وہ بے گناہ ہے یا نہیں "ایل ایل بی شہباز احمد نے کچھ سوچ کر کہا۔
"اچھی بات ہے ۔۔۔ آپ میرے ساتھ ہسپتال چلیں ۔۔۔ پھر تھانے میں چلئے جہاں مجید کو حوالات میں بند کر رکھا ہے "ریشم ممتاز اْٹھتے ہوئے بولی۔
"میرا خیال ہے آپ اپنے گھر جائیے اور یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیجئے ۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کو میں جانتا ہوں ۔۔۔ وہ میرا دوست بھی ہے ۔۔۔ بس آپ مجھے اُس ہسپتال کا پتا بتا دیجئے جس میں مجید کے والد صاحب ایڈمٹ ہیں"ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔ریشم ممتاز نے ہسپتال کا پتا بتا دیا ۔ اتنے میں بیگم شہباز چائے کا کپ لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور پھر ریشم ممتازکو چائے پیش کی گئی۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے اب وہاں رکنا مناسب نہ سمجھا اور گھر سے باہر دروازے کا رخ کیا۔ پانچوں بچے بھی اْن کے پیچھے باہر نکلے۔
"بھئی ۔۔۔ میرا خیال ہے تمہیں ابھی میرے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں "شہباز احمد نے مسکرا کر کہا۔
"ضرورت ایجاد کی ماں ہے اباجان ۔۔۔ اوراِس وقت ہماری ماں جیسی انٹی ریشم ممتاز پریشان ہیں تو ہم آپ کے ساتھ اْن کی پریشانی دور کرنے کیوں نہ چلیں"سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
"اِس بات میں یہ محاورہ کہاں سے ٹپک پڑا "عرفان حیران ہو کر بولا۔
"میری زبان سے "سلطان مسکرا یاجس پر عرفان برے برے منہ بنانے لگا۔ آخر وہ سب ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہسپتال پہنچ کر ایل ایل شہباز احمد فوراََ ڈاکٹروں سے ملے اور مجید کے والد اشفاق احمد کا اپریشن شروع کروا دیا۔ پچیس لاکھ روپے اْنہیں نے بعد میں ادا کرنے کا کہہ دیا تھا۔ ویسے بھی ڈاکٹر اُن کا گہرا دوست تھا او ر ایک بار انسانی عضا چوری کرنے کے کیس سے اُسے ایل ایل بی شہباز احمد نے بچایا تھا ۔ اُس دن سے ڈاکٹر ایل ایل بی شہباز احمد کا گہرا دوست بن گیا تھا۔ آج وہی دوستی مجید کے والد کے کام آرہی تھی۔اُپریشن شروع کر وا کر ایل ایل بی شہباز اور اُن کے بچے ہسپتال سے باہر نکل آئے۔اب اُن کا رخ تھانے کی طرف تھا۔ سب انسپکٹر تنویر بھی ایل ایل بی شہباز احمد کا دوست تھا۔ کیس کے سلسلے میں اُن کی ملاقات اکثر ہوتی رہتی ہے ۔ سب انسپکٹر تنویر نے شہباز احمد اور اُن کے بچوں کو دیکھا تو چونک اْٹھا اور پھر اُس کا چہرہ خوشی سے کھل اْٹھا۔
"رات کے اِس وقت میرے پاس۔۔۔ آج یہاں کا راستہ کیسے یاد آگیا "سب انسپکٹر تنویر خوش ہو کر بولا۔
"بس تنویر صاحب ۔۔۔ ایک کیس کے سلسلے میں آیا ہوں ۔۔۔ آپ تو جانتے ہی ہیں یہی پیشہ اب میرا فرض بن چکاہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کے قتل کیس میں آپ نے جس مجید کو گرفتار کیا ہے میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اُس سے ملنے کے بعد یہ فیصلہ کرؤں گا کہ اُس کا کیس لوں یا نہیں "شہباز احمد بولتے چلے گئے۔
"میر ا مشورہ مانیں یہ کیس ہرگز نہ لیں ۔۔۔ مجید کو میں نے خود رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کی بیوی اُن کے بچے اُن کا نوکر اور اُن کے بھائی جمیل نے بھی مجید کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ۔۔۔ اب اِس کیس میں کچھ اورکہنے سننے کے لئے نہیں بچا "سب انسپکٹر تنویر نے مشورہ دیا۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ کی بات بھی درست ہے لیکن میرا خیال ہے ایک بار مجید سے مل لینے میں کوئی برائی نہیں "شہباز احمد بولے اور حوالات کا رخ کیا۔ اْن کے ساتھ بچوں نے بھی حوالات کا راستہ طے کرنے کی ٹھانی۔حوالات میں اْنہیں مجید بے بسی کے عالم میں گھٹنوں میں سر رکھ کربیٹھا نظر آیا۔
"میں ایل ایل بی شہباز احمد ہوں ۔۔۔ تم سے ملنا آیا ہوں "شہباز احمد جلدی سے بولے۔اُن کی آواز سن کر مجید چونک اْٹھا اور حیران ہو کر اُنہیں اور اُن کے بچوں کو دیکھنے لگا۔
"میری بیوی نے آپ کو بھیجا ہے "مجید نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
"جی ہاں ۔۔۔ تم بے فکر رہو ۔۔۔ اگرتم بے گناہ ہو تو تمہیں اِس ملک کی کیا دنیا کی کوئی بھی عدالت سزا نہیں سنا سکتی ۔۔۔ تمہیں اپنے والد کے حوالے سے بھی فکر کر نے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اُن کا اُپریشن میں نے شروع کر وا دیا ہے "شہباز احمد روانگی کے عالم میں بولے۔
"آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میں بالکل بے قصور ہوں ۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا ۔۔۔ میں آپ کو شروع سے ساری بات بتاتا ہوں ۔۔۔ آج میرے والد کا اُپریشن تھا اور اُپریشن کے لئے مجھے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی ۔۔۔ میں ایک نوکری پیشہ آدمی ہوں ۔۔۔ اتنے سارے پیسے کہاں سے لاتا ۔۔۔ میں سڑکوں پر آوارہ پھرتا رہا ۔۔۔تبھی کوئی شخص مجھ سے ٹکرا کر آگے نکل گیا ۔۔۔ میں نے اُس وقت کوئی توجہ نہ دی ۔۔۔ جب میں گھر آیا تو میں نے اپنی جیب میں ایک لفافہ دیکھا ۔۔۔اُس میں ایک شخص کا فون نمبر لکھا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اپنے والد کو بچانا چاہتے ہو تو مجھے فوراََ فون کرو ۔۔۔ میں نے فون کیا تو اُس شخص نے مجھے ایک کام سونپا ۔۔۔ مجھے شہر کے ایک چوک میں جانے کا حکم دیا اور وہاں سے کچھ پیسے اُٹھانے کے لئے کہا۔۔۔ اْس نے یہ بھی کہا کہ وہ پیسے لے کر کسی غریب کو دے دوں اور پھر سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی میں سے پچیس لاکھ روپے لے لوں ۔۔۔ میں پہلے تو بہت حیران ہوا پھر میں سمجھا کہ میرے حالات جان کر مجھے یہ فون سیٹھ افتخار عالم نے ہی کسی کے ذریعے کروا یاہے اور مجھے اِس چھوٹے سے کام کے بدلے میں پچیس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے ۔۔۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھ سے کام اِس لئے لے رہا ہیں تاکہ میرانفس مجروع نہ ہو اور میں خوشی خوشی پیسے لے لوں ۔۔۔بس یہ سوچ کر میں نے وہ پیسے ایک غریب کو دے دئیے اور خود سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی کا رخ کیا ۔۔۔ جب میں کوٹھی میں داخل ہوا تو پوری کوٹھی خاموشی کی لپیٹ میں تھی۔۔۔اس پراسرار خاموشی کو دیکھ میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔۔۔ میں ابھی حیران ہی تھا کہ ایک دل دوز چیخ کی آواز سنائی دی ۔۔۔ میں دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوا ہے فوراََ چیخ کی سمت میں بھاگا تو وہاں سیٹھ افتخار عالم تڑپ رہے تھے۔۔۔اْن کے سینے میں چاقو گھونپا ہوا تھا ۔۔۔ ابھی میں خوف کے عالم میں اُنہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ گھر کے افراد چلاتے ہوئے آئے اور مجھے قاتل سمجھ کر گرفتار کروا دیا ۔۔۔ بس یہ ہے کل کہانی "یہاں تک کہہ کر مجید خاموش ہوگیا۔
"کیا تمہیں کوٹھی کا دروازہ کھلا ملا تھا "ایل ایل بی شہباز احمد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
"جی ہاں ۔۔۔ اور مجھے اِس بات پر حیرت بھی ہوئی تھی ۔۔۔ ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ درواز ے پر کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا ۔۔۔ ورنہ بڑی بڑی کوٹھیوں میں دروازے پر باوردی نگران کھڑے ہوتے ہیں "مجید بولتا چلا گیا۔
"عمران کیا یہ سچ کہہ رہا ہے "شہباز احمد نے عجیب سے لہجے میں پوچھا جس پر مجید چونک اْٹھا۔
"جی اباجان ۔۔۔ یہ بالکل سچ کہہ رہا ہے "عمران نے اْس کے چہرے اور آنکھوں پر نظر ڈال کر کہا۔
" آپ کا بیٹا کیا کالا جادو جانتا ہے "مجید نے حیران ہو کر کہا۔
"نہیں یہ کالا یا سفید یا سرخ کوئی بھی جادو نہیں جانتا ۔۔۔ بس یہ آنکھوں اور چہرے کو کتاب کی طرح پڑھ لیتا ہے "سلطان نے مذاق اْڑانے والے لہجے میں کہا۔
"اوہ !!!"مجید کے منہ سے حیرت کے عالم میں نکلا۔
"ٹھیک ہے مجید ۔۔۔ میں تمہارا کیس لڑنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔ فلحال تمہیں حوالات میں رہنا ہوگا ۔۔۔ عدالت میں پیشی تک میں اور میرے بچے تمہارے کیس میں اصل مجرم کا سراغ لگاتے رہے گے ۔۔۔ اور اِس دوران اگر ہم قاتل تک پہنچ گئے تو اُسے عدالت میں پیش کر دیں گے اورتمہیں رہا کر الیں گے "شہباز احمد نے کہا۔
"بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میں آپ یہ احسان یاد رکھوں گا"مجید کی آواز جذ بات تلے دب کر رہ گئی۔ شہباز احمد نے اْسے دلاسا دیا اور حوالات سے باہر نکل آئے۔
"کیوں ۔۔۔ کیا یہ کیس لے لیا آپ نے "سب انسپکٹر تنویر نے اُنہیں گھورا۔
"جی ہاں تنویر صاحب ۔۔۔ بے گناہوں کو انصاف دلانا ہی میرا پیشہ ہے "شہباز احمد مسکرا کر بولے اور تھانے سے باہر نکل آئے ۔ گھر پہنچے تو ریشم ممتاز اپنے گھر جا چکی تھی ۔ شہباز احمد تھکن کے مارے سیدھا اپنے کمرے میں گئے اور بستر پر نیم دراز ہوگئے ۔ پانچوں بچوں نے بھی اپنے کمرے کی راہ لی۔ صبح فجر کے وقت سب نماز کے لئے اُٹھے اور پھر چونک اُٹھے۔ موبائل پر کسی نے سات سے آٹھ مس کالیں دی تھیں لیکن وہ تھکن کی وجہ سے فون سن نہیں سکے تھے۔ ایل ایل بی شہباز نے اُس نمبر پر واپس فون کیا تو دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔
"مجید صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔۔ اْن کی میت لے جائیے "دوسری طرف کی بات سن کر شہباز احمد کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا اور اْن کی آنکھیں غم میں ڈوب گئیں ۔ یہ بات مجید کو بتانا از حد ضروری تھا ۔ وہ نماز پڑھ کر فوراََ حوالات کی طرف روانہ ہوگئے ۔ بچوں کو اُنہیں نے گھر پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ مجید نے یہ خبر سن کر کوئی رد عمل نہ دیا بلکہ حیران و پریشان چپ سادھے کھڑا رہا اور پھر اُس کی سسکیوں سے حوالات کی دیواریں گونج اْٹھیں۔ شہباز احمد کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مجید کو ایک بار پھر دلا سا دے کر وہ واپس لوٹ آئے ۔ گھر پہنچے تو ریشم ممتاز عدالت کا صمن لیے بیٹھی تھی ۔ اُسے بھی انتقال کی خبر مل چکی تھی اور وہ آنسو بہا رہی تھی ۔ عدالت کا صمن شہباز احمد نے کھولا اور پھر چونک اْٹھے ۔ مجید کی عدالت میں پیشی کل ہی تھی ۔ جسٹس جبران محمو د اِس کیس میں بطور جج فرائض انجام دے رہے تھے ۔ مخالف وکیل کا نام سن کر تو وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ایڈوکیٹ ایم اے جیسوال ہی تھا جو شہباز احمد نے از حد جلتا تھا۔ پانچ منٹ میں کیس حل کرنا اْس کا شوق تھا اور پچھلا کیس شہباز احمد سے ہارنے کے بعد تو وہ زخمی شیر بن چکا تھا۔اب تک وہ صر ف ایک کیس ہی ہارا تھا اور وہ پچھلا کیس تھا۔ شہباز احمد کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئیں۔ اْنہیں نے دلاسا دے کر ریشم ممتاز کو بھیج دیا اور خود اپنے دفتر میں آگئے۔ گھر کے بالکل ساتھ ہی اُن کا دفتر تھا۔اِس دفتر سے دوکام لئے جاتے تھے۔ پہلا کام تو شہباز احمد لیتے تھے ۔ بطور وکیل لوگ اُن سے کیس حل کرانے آتے تھے اور اِسی دفتر کے دوسرے کونے پر عرفان برادرز بیٹھتے تھے ۔ یہ پرائیوٹ جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ شہباز احمد اپنے دفتر میں آکر کرسی پر پرجمان ہوگئے اور کیس پر غورکرنے لگے۔ پھر اُنہیں نے سب انسپکٹر تنویر کو فون کرکے ایک کانسٹبل کے ذریعے سب انسپکٹر تنویر سے کیس کی فائل منگوائی اور فائل میں گم ہوگئے ۔ ناشتے کرنے کے بعد عرفان برادرز بھی دفتر میں آگئے تھے ۔ آج کل اُنہیں موسم سرما کی چھٹیاں تھیں۔دفتر میں بیٹھے بیٹھے وہ تنگ آگئے لیکن کوئی بھی نیا کیس لے کر نہ آیا۔ دوسری طرف شہباز احمد افتخار عالم قتل کی فائل میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ آخر عرفان نے تنگ آکر اخبار پر نظریں جما دیں۔ پہلے ہی خبر نے اُسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ خبر سیٹھ افتخار عالم قتل کیس کے بارے میں ہی تھی ۔ مکمل خبر پڑھنے کے بعد بھی اْسے کوئی نئی بات معلوم نہ ہوسکی۔تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ دفتر میں داخل ہونے والے کو دیکھ کر وہ چونک ہی سکتے تھے ۔ یہ ایڈوکیٹ ایم اے جیسوال تھااور دفتر کے دروازے پر کھڑا اُنہیں طنزیہ نظروں سے گھور رہا تھا۔
دفتر میں اُن کی ایم اے جیسوال سے کافی لمبی جھڑپ ہوئی۔ وہ اُنہیں پہلے سے ہی اپنے کیس جیتنے کی خوشی میں مٹھائی کھلانے آگیا تھا۔ایم اے جیسوال کا خیال تھا کہ شہباز احمد نے مجید کا کیس لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ ایل ایل بی شہباز احمد آخر تک مسکراتے رہے اور پھر اُسے مسکراتے ہوئے رخصت کر دیا۔ اِس طرح یہ دن بھی گزر گیا اور وہ کوئی خاص بات معلوم نہ کر سکے البتہ شہباز احمد سب انسپکٹر تنویر کو کچھ ہدایات دیتے رہے تھے۔ اگلے دن عدالت پہنچنے میں اُنہیں دیر نہ لگی۔ عدالت کے دروازے پر ایم اے جیسوال اُن کا منتظر تھا۔
"پانچ منٹ میں یہ کیس جیت جاؤں گا ۔۔۔ صرف پانچ منٹ میں "ایم اے جیسوال مسکرا کر بولا۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ اچھا ہی ہے عدالت کا وقت بچ جائے گا "شہباز احمد بدستور مسکراتے ہوئے بولے اور عدالت میں داخل ہو گئے۔ عدالت میں کرسیوں پر اِس کیس کے متعلقہ تمام لوگ موجود تھے۔اِن میں سیٹھ افتخار عالم کی سارے رشتہ دار بھی شامل تھے ۔ ایک طرف ایل ایل بی شہباز احمد کے بچے بھی بیٹھے تھے۔ وہ بھی آج پہلی مرتبہ عدالت آگئے تھے ۔ شہباز احمد وکیل والی کرسی پر بیٹھ گئے اور ایک بار پھر کیس کی فائل پڑھنے لگے ۔ تبھی ایک آواز نے اْنہیں چونکا دیا۔
"ہوشیار ۔۔۔ خبردار ۔۔۔ جج صاحب تشریف لا رہے ہیں "یہ آوازجج کی کرسی کے دائیں بائیں کھڑے باوردی آدمیوں کی تھی۔پھر سب کھڑے ہوگئے البتہ شہباز احمد نے کھڑے ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ جانتے تھے کہ رسو ل اکرم ﷺ نے تعظیم کے طور پر کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے ۔ جج صاحب نے بھی یہ بات محسوس کر لی اورمسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ ایل ایل بی شہباز کو اچھی طرح جانتے تھے اور کئی کیسوں میں اُن کا وکیل شہبا زاحمد سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ وہ اُن کی اِس عادت سے باخوبی واقف تھے۔ جج صاحب اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر بارعب آواز میں مخاطب ہوئے۔
"کیس کی کروائی شروع کی جائے "۔ سب چونکنے ہو کر بیٹھ گئے ۔
"رات سنسان تھی "ایڈوکیٹ ایم اے جیسوال نے کہنا شروع کیا۔"ہر طرف ہو کا عالم تھا او ر ایسے میں میرے قابل دوست شہباز احمد کے مؤکل مجید کو اپنے باپ اشفاق صاحب کا اُپریشن کروانا تھا ۔۔۔ اْن کے باپ کو کینسر کا مرض لا حق تھا ۔۔۔ پیسے جمع کرنے کے لئے ڈاکٹروں نے صرف رات تک کا وقت دیا تھا۔۔۔ مجید پریشان تھا کہ رات تک وہ پچیس لاکھ روپے کیسے جمع کرئے گا۔۔۔ اِس پریشانی میں وہ ایک جرم کر بیٹھا "ایم اے جیسوال نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہباز احمد اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
"میں اعتراض کرتا ہوں جج صاحب ۔۔۔ یہ عدالت ہے کوئی بچوں کے کھیل کود کی جگہ نہیں جہاں میرے قابل دوست جیسوال صاحب بچوں کی طرح ہمیں کہانی سنا رہے ہیں "شہباز احمد بولتے چلے گئے۔
"اعتراض مسترد کیا جاتا ہے ۔۔۔ عدالت یہ کہانی سنناپسندکرئے گی "جج صاحب نے بارعب لہجے میں کہا جس پر ایم اے جیسوال کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
"شکریہ جج صاحب ۔۔۔ تشریف رکھئے شہباز صاحب ۔۔۔ آپ کی باری بھی آئے گی۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مجید صاحب ایک جرم کر بیٹھے۔۔۔اُنہیں پیسے جمع کرنے کے لئے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو وہ شہرکے مشہور رئیس افتخار عالم کے پاس گئے ۔۔۔ اْن سے پیسوں کا مطالبہ کیا لیکن اُنہیں نے صاف انکار کر دیا۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غریبو ں کی دل کھول کر مدد کرتے تھے لیکن جب اُنہیں نے مجید کو پیسے دینے سے انکار کر دیا تو مجید کا دماغ گرم ہوگیا۔۔۔ اُسے یہ راستہ بھی بند ہو تا نظر آیا۔۔۔ غصے میں آکر اُس نے کمرے میں رکھا پھل کاٹنے کا چاقو اْٹھایا اور سیٹھ افتخار کے سینے پر گھونپ دیا۔۔۔اُن کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی جس پر سبھی گھر والے باہر سے دوڑے آئے ۔۔۔ سیٹھ افتخار تنہائی پسند کرتے تھے اِس لئے اُن کے کمرے میں کوئی بلا ضرورت نہیں آتا تھا۔۔۔ مجید گھر والوں کو دیکھ کر بوکھلا گیا لیکن فرار نہ ہو سکا۔۔۔ اُس وقت وہاں سیٹھ صاحب کے بھائی جمیل صاحب۔۔۔اُن کی بیگم ، اُن کے دو معصوم بچے عبدالرحمان اور عمر اور اِس کے علاوہ اُن کا گھریلو ملازم شرفو وہاں موجود تھا ۔۔۔ اُن سب نے مجید کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیااور پھر سب انسپکٹر تنویر کو فون کرکے اُسے گرفتار کر وا دیا۔۔۔ یہ ہے کل کہانی "یہاں تک کہہ ایم اے جیسوال خاموش ہوگیا۔
"چاقو کے دستے پر کس کے انگلیوں کے نشان ملے ہیں جیسوال صاحب "شہباز احمد نے اْٹھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"افسوس ۔۔۔ مجید نے گھر والوں کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی چاقو پرسے انگلیوں کے نشان صاف کر دئیے تھے"جیسوال نے سرد آہ بھری۔
"یعنی کے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے "شہباز احمد نے مسکر ا کہا۔
"ثبو ت نہیں تو کیا ہوا میرے پاس گواہ موجود ہیں"جیسوال جلدی سے بولا۔
"آپ کے گواہوں کو میں ایک ایک کر کے جج صاحب کے سامنے پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا "یہ کہتے ہوئے ایل ایل بی شہبا زنے جج صاحب کی طرف دیکھا۔
"اجازت ہے "جج صاحب باآواز بلند بولے۔ دوسرے ہی لمحے کٹہرے میں سب سے پہلے سیٹھ افتخا ر کا بھائی جمیل پیش ہوا۔ اُس سے قسم لی گئی اور پھر شہباز احمد اُس کی طرف بڑھے۔
"تو آپ نے مجید کو رنگے ہاتھوں پکڑا "شہباز احمد عجیب سے لہجے میں بولے۔
"جی ہاں ۔۔۔ یہ سچ ہے "جمیل مستحکم لہجے میں بولا۔
"تو کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے مؤکل مجید سیٹھ صاحب کو قتل کر رہے تھے "شہباز احمد نے اْسے گھورا۔
"جج ۔۔۔ جج ۔۔۔جی نہیں ۔۔۔ لیکن "جمیل نے کچھ بولنا چاہا لیکن شہباز احمد نے اْس کی بات کاٹ دی۔
"بس اب آپ جا سکتے ہیں "شہباز احمد مسکراکر بولے جس پر جمیل برے برے منہ بناتا ہوا اپنے کرسی پر جا بیٹھا۔
"اب میں سیٹھ صاحب کی بیگم کو کٹہرے میں بلانا کی اجازت چاہتا ہوں "شہباز احمد بلند آواز میں بولے۔
"اجازت ہے "جج صاحب نے کہا۔ایل ایل بی شہباز احمد نے بیگم افتخار سے بھی وہی سوال کیا جو جمیل سے کیا تھا اور اُس نے بھی وہی جواب دیا۔ ابھی وہ آگے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن شہباز احمد نے اُسے روک دیا اور وہ واپس اپنی سیٹ پر جابیٹھی۔ اِسی طرح سیٹھ صاحب کے ملازم نے بھی یہی جواب دیا۔ آخر میں سیٹھ صاحب کے دو نو عمر بچوں کو بلایا گیا۔ اُن سے شہباز احمد نے قدرے نرمی سے بات کی لیکن جواب اْن کا بھی وہی تھا کہ اْنہیں نے مجید کو قتل کرتے نہیں دیکھا۔ا ب ایل ایل بی شہباز جج صاحب کی طرف متوجہ ہوئے۔
"جج صاحب ۔۔۔ تو یہ تھے جیسوال صاحب کے گواہ جن میں سے کسی ایک نے بھی قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔ آخر ہم کیسے مان لیں کہ مجید ہی گناہ گار ہے "شہباز احمد کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔
"ہمیں سچ کو ماننا ہی پڑے گا شہباز صاحب ۔۔۔ گواہوں نے مجید کو وہاں موجود پایا تھا اور اُس وقت سیٹھ صاحب تڑپ رہے تھے ۔۔۔ اگر وہ اُس وقت مر چکے ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ کسی نے مجید کے خلاف سازش کی ہے اور جب مجید کمرے میں داخل ہوا تو اُس وقت قتل کیا جا چکا تھا لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے ۔۔۔ اُس چاقو کو سینے پر دستے تک گھونپ دیا گیا تھا۔۔۔ اِس کے بعد انسان صرف دو منٹ تک زندہ رہ سکتا ہے کیونکہ وہ ٹھیک دل کی نالیوں کے قریب گھونپا گیا تھا۔۔۔جب گھر والے داخل ہوئے تو سیٹھ صاحب تڑپ رہے تھے اور گھر والوں کے کمرے میں داخل ہونے کے ٹھیک ایک منٹ بعد سیٹھ صاحب نے دم توڑا۔۔۔ یہ بیان اْنہیں نے ریکارڈ کروایا ہے ۔۔۔یعنی گھر والوں کے کمرے میں داخل ہونے سے ایک منٹ پہلے کسی نے وہ چاقو سیٹھ صاحب کے سینے پر اتارا۔۔۔ ا ب آپ کی بات مانی جائے تو ایک منٹ پہلے وہ چاقو مارا گیا اور پھر چاقو مارنے کے ٹھیک ایک منٹ بعد مجید کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اْس وقت تک قاتل رخصت ہو چکا تھا اور اپنے انگلیوں کے نشان بھی چاقو پر سے مٹا چکا تھا۔۔۔ مجید کے کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی گھروالے بھی داخل ہوگئے ۔۔۔لیکن گھر والوں کا بیان ہے کہ اْنہیں نے وہاں مجید کو موجود پایا۔۔۔خود مجید نے یہ بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ اُس کے کمرے میں داخل ہونے کے ایک منٹ بعد گھروالے وہاں آئے۔۔۔اب اگر مجید کی بات مان لی جائے تو دو منٹ پہلے قاتل نے چاقو مارا اور اْس کے ایک منٹ بعدگھروالے وہاں پہنچ گئے ۔۔۔ اور گھر والوں کے پہنچے کے ایک منٹ بعد سیٹھ صاحب نے دم توڑ دیا۔۔۔ یعنی قاتل گھر والو ں کے کمرے میں آنے سے ایک منٹ پہلے وہاں موجود تھا۔۔۔ لیکن ایک منٹ پہلے تو مجید موجود تھا ۔۔۔ یعنی کے قاتل مجید ہے "یہاں تک کہہ کر جیسوال خاموش ہوگیا۔ ایک لمحے کے لئے شہباز احمد چکرا کر رہ گئے۔جیسوال کی دلیلوں میں مضبوطی تھی جبکہ شہباز احمد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ یہ بیان خود مجید کا تھا کہ اْس کے کمرے میں آنے کے ایک منٹ بعد گھر والے وہاں آئے اور گھر والوں کے آنے کے ایک منٹ بعد مقتول نے دم توڑ دیا۔ وہ چاقو دل کی نالیوں کے قریب گھونپا گیا تھا اِس لئے سیٹھ صاحب چاقو لگنے کے بعد صرف دو منٹ ہی زندہ رہ سکتے تھے۔ایک اور بات بھی حیرت انگیز تھی کہ قاتل اس قدر جلدی وہاں سے رخصت کیسے ہوگیااور وہ بھی اپنے انگلیوں کے نشان مٹا کر ۔یہ بات ماننا بہت مشکل تھا۔شہباز احمد دم بخود رہ گئے۔دوسری طرف جیسوال کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ گہر ی ہوتی جا رہی تھی۔
ریشم ممتاز اپنی سسر کی موت پر آنسو بہا رہی تھی۔ بیگم آئی جی عبدالباسط اُن کے ساتھ ہی تھیں۔ اِس وقت ریشم ممتاز کے گھر پر دوسرے رشتے دار بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرف انتقال پر افسو س کر رہے تھے اور دوسر ی طرف مجید کے جیل جانے پر حیرت بھی ظاہر کر رہے تھے۔عدالت میں شہباز احمد کے چہرے سے پسینے کے قطرے گر رہے تھے ۔ وہ کیس ہارنے کے قریب ہو چکے تھے ۔ ایم اے جیسوال نے واقعی پانچ منٹ میں اپنی چٹان جیسی مضبوط دلیل سے اْنہیں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ اب جج صاحب اپنا فیصلہ سنانے کے قریب تھے۔
"مجھے حیرت بھی ہے اور افسوس بھی ۔۔۔حیرت اِس بات پر ہے کہ شہباز احمد جیسے سچے وکیل نے آج ایک گناہ گار کی وکالت کی اور افسوس اس بات کا کہ شہباز احمد سو کیس جیتنے کے بعد آج کا کیس مکمل طور پر ہار گئے ۔۔۔ یہ عدالت مجید کو گناہ گار تسلیم کرتی ہے ۔۔۔ ایم اے جیسوال کی پر زور دلیلوں کے بنیاد پر یہ عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مجید نے سیٹھ افتخار کا قتل کیا ۔۔۔ اور اِس جر م میں اُسے ۔۔۔"جج صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہباز احمد نے پرجوش لہجے میں اُن کی بات کاٹ دی۔
"ایک منٹ جج صاحب ۔۔۔ "شہباز احمد کا لہجہ جوش سے تمتما رہا تھا۔ جج صاحب جس وقت فیصلہ سنا رہے تھے اُس وقت شہباز احمد کا اسسٹنٹ منظورپوسٹ مارٹم کی رپورٹ اُن کے پاس لایا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر نظر پڑتے ہی شہبازاحمد نے جج صاحب کو فیصلہ سنانے سے روک دیاتھا۔
"یہ آپ نے کیا بدتمیزی شروع کر دی شہباز صاحب ۔۔۔ مانتا ہوں شکست نے آپ کے دماغ کی چوہلیں ہلا کر رکھ دیں ہیں ۔۔۔ آپ کا دماغ بھائیں بھائیں کر رہا ہے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جج صاحب کو فیصلہ سنانے سے روکیں "ایم اے جیسوال مذاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔
"دماغ تو اب آپ کا ہل جائے گا جیسوال صاحب ۔۔۔ ایک اور ہار مبارک ہو "شہباز احمد پر جوش لہجے میں بولے۔
"یہ آپ کیا معما میں باتیں کر رہیں ہیں ۔۔۔ صاف صاف کہیے"جج صاحب ناراض ہو کر بولے۔
"صاف بات یہ ہے جج صاحب کہ یہ کیس قتل کا نہیں بلکہ خود کشی ہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار نے خود کشی کی ہے "شہباز احمد بولتے چلے گئے ۔
"کیا !!!"پوری عدالت ایک ساتھ چلا اُٹھی۔ دوسرے ہی لمحے وہاں ایسی خاموشی ہوگئی جیسے وہاں کوئی موجود ہی نہ ہو۔آخر اِس خاموشی کو جیسوال نے توڑا۔
"یہ کیا بکواس کر رہے ہیں آپ "جیسوال گرجا۔
"یہ بکواس نہیں حقیقت ہے جیسوال صاحب ۔۔۔ ہار کا مزا چکھنے کے لئے تیار ہوجائیے۔۔۔اب آپ کو میں پوری کہانی سناؤں گا۔۔۔ رات کے نو بجے چاقو سیٹھ افتخا رکے سینے پر گھونپا گیااورسیٹھ صاحب کی دلدوز چیخ سے گھر گونج اُٹھا ۔۔۔ مجید یہ چیخ سن کر فوراََ سیٹھ صاحب کے کمرے میں داخل ہوگیااور مجید کے کمرے میں داخل ہونے کے ایک منٹ بعد یعنی نو بج کر ایک منٹ بعد گھر والے داخل ہوئے اور نوبج کر دو منٹ پر سیٹھ افتخار نے دم توڑ دیا۔۔۔ اب جیسوال صاحب نے دلیلوں کے ذریعے یہ واضح کیا کہ نوبجے مجید کے علاوہ کوئی اور کمرے میں نہیں تھا اِس لئے قاتل مجید ہی ہے ۔۔۔لیکن مجید کے علاوہ وہاں ایک اور شخص بھی موجود تھا اور وہ خود سیٹھ صاحب تھے ۔۔۔ سیٹھ افتخار نے خو د چاقو اپنے سینے میں اْتارا او ر چیخ ما رکر گرئے جس پر مجید دوڑتا ہوا آیا۔۔۔ایک منٹ بعد گھر والے بھی وہاں پہنچ گئے اور اْنہیں نے مجید کو قاتل سمجھ کر گرفتار کر ادیا۔۔۔اب رہا یہ سوال کہ سیٹھ صاحب نے خود ہی اپنی جان کیوں لی ۔۔۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ سیٹھ صاحب ذہنی مریض تھے ۔۔۔ یہ میں نے کل سیٹھ صاحب کی رپورٹ میں پڑھا ہے۔۔۔کل کا پورا دن میں اِس کیس پر غور کرتا رہا ۔۔۔ مختلف فائلیں سب انسپکٹر تنویر سے منگواتا رہا اور اُس کا مطالعہ کرتا رہا۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سیٹھ صاحب ایک ذہنی مریض تھے ۔۔۔ اُنہیں اِس دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی ۔۔۔ اُن کی بیگم سے اْن کے تعلقات بھی کچھ خاص نہیں تھے ۔۔۔یہ بات مجھے گھر کے ملازم شرفو کا ریکارڈ کردہ بیان پڑھ کر پتا چلی ہے ۔۔۔سیٹھ صاحب کے اپنے بھائی سے بھی تعلقات خراب تھے ۔۔۔ آئے دن گھر میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔۔۔ سیٹھ صاحب نیند کی گولیاں کھانے لگے تھے ۔۔۔ آخر پرسوں رات سیٹھ صاحب نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ اپنے پاس پڑے چاقو سے سینے کو خون سے تر کر دیا۔۔۔ اُس چاقو کو سینے پر اُتار دیا۔۔۔مجید اُس رات اپنے والد کے لئے پیسے جمع کرنے میں مگن تھا۔۔۔ اِسی مقصد کے لئے وہ سیٹھ صاحب کے پاس آیا تھا۔۔۔ لیکن یہاں ایک اور کہانی بھی ہے ۔۔۔ کسی نے فون کرکے مجید کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ سیٹھ صاحب کے گھر جا کر پچیس لاکھ روپے لے آئے ۔۔۔ اب یہ بیان کس نے دیا تھا یہ میں واضح کرتا ہوں ۔۔۔ کسی زمانے میں سیٹھ صاحب جوان تھے اورجوانی میں وہ کسی سے محبت کر بیٹھے تھے ۔۔۔ اْس لڑکی سے اُنہیں نے شادی بھی کی تھی لیکن ایک رات وہ لڑکی اُنہیں لوٹ کر سار ے پیسے تجوری میں سے نکال کر فرار ہوگئی۔۔۔ اُس وقت سے سیٹھ صاحب زندگی سے روٹھ گئے تھے ۔۔۔دوستوں کے کہنے پر اُنہیں نے شادی تو کی لیکن کبھی خوش نہ رہے۔۔۔ اُس رات مجید کو فون بھی اُسی لڑکی نے کیا تھاجس سے کسی زمانے میں سیٹھ صاحب نے شادی کی تھی کیونکہ وہ لڑکی جانتی تھی کہ سیٹھ صاحب خودکشی کرنے والے ہیں ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ مجید اُن کے قتل کے کیس میں گرفتار ہو جائے ۔۔۔ مجید سے اُسے نہ جانے کیا دشمنی تھی لیکن یہ بات خود مجید نے مجھے بتائی ہے کہ اُس کی مجید سے آئے دن لڑائی رہتی ہے ۔۔۔وہ مجید کو ناکامیاب کہتی ہے اور وہ کوئی او رنہیں مجید کی بیوی ریشم ممتاز ہے "یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"واہ بھئی واہ۔۔۔ آج سے میں آپ کو ایل ایل بی شہباز احمد کے بجائے مصنف شہباز احمد کہوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا"جیسوال کی اِس بات پر قہقہہ گونج اْٹھا۔
"اُرڈر اُرڈر اُرڈر ۔۔۔ سائلنس اِن دا کورٹ پلیز"جج صاحب ہتھوڑالکڑی کی پلیٹ پر مار کر بلند آواز میں بولے ۔
"جج صاحب سنا آپ نے ۔۔۔ کیا کہانی بنائی ہے ہمارے شہباز احمد صاحب نے ۔۔۔ اب میں اْنہیں مصنف نہ کہوں تو اور کیا کہوں "ایم اے جیسوال ہنس کر بولا۔
"کمال ہے جیسوال صاحب ۔۔۔ سچ آپ کو کہانی لگ رہا ہے "شہباز احمد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور یہ مسکراہٹ اُن کی فتح کا چیخ چیخ کر اعلا ن کر رہی تھی۔
"شاید آپ کو پتانہیں شہباز صاحب ۔۔۔ عدالت کہانیوں پر نہیں ثبوتوں پر یقین کرتی ہے "جیسوال نے مذاق اْڑانے والے لہجے میں کہا۔
"ثبوت بھی ہے میرے پاس جیسوال صاحب ۔۔۔ سب سے پہلے تو پوسٹ مارٹم رپورٹ جو کہ ابھی ابھی موصول ہوئی ہے ۔۔۔ اِس رپورٹ کے مطابق چاقو اُوپر سے نیچے کی طرف مارا گیا ہے جبکہ اگر سیٹھ صاحب کا قتل ہوا ہوتا تو چاقو نیچے سے اُوپر کی طر ف مارا جاتا یا پھر سیدھا مارا جاتا ۔۔۔ دوسری بات کہ چاقو پر انگلیوں کے نشان نہیں ہیں ۔۔۔ اِس کا صاف جواب یہ ہے کہ اْس رات سردی کی وجہ سے سیٹھ صاحب نے دستانے پہن رکھے تھے ۔۔۔ ہم اِس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر گئے کیونکہ مجید کے ہاتھوں پر دستانے تو موجود تھے ہی نہیں پھر یہ قتل مجید کس طرح کر سکتاتھا۔۔۔تیسری بات یہ کہ اُس رات سیٹھ صاحب نے شرفو کے علاوہ تمام نوکروں کو چھٹی دے دی تھی تاکہ وہ آسانی سے خود کشی کر سکیں اور کوئی نوکر مداخلت نہ کر سکے۔۔۔یہی وجہ تھی کہ مجید بنا روک ٹوک گھر کے اندر داخل ہوگیا تھااو ر اُسے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں ملا تھا۔۔۔اب اگر کوئی اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں "آخر میں شہباز احمد نے مسکرا کر کہا۔
"میر ا خیال ہے اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔۔۔یہ عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سیٹھ افتخار نے خودکشی کی ہے ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے یہ بات واضح کر دی ہے ۔۔۔دوسری طرف مجید بالکل بے قصور ہے ۔۔۔ یہ عدالت مجید کی بیوی ریشم ممتاز کو گرفتار کرنے کا حکم دیتی ہے اور اُسے مجید کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں اور سیٹھ افتخار کی تجوری صاف کرکے فرار ہونے کے جرم میں ا ور سیٹھ افتخا ر کو دھوکا دے کر خود کشی پر مجبور کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سناتی ہے اور مجید کو باعزت بری کرتی ہے ۔۔۔ کیس ختم ہوتا ہے"جج صاحب نے فیصلہ سنایا۔ایک طرف مجید کے چہرے پر خوشی تھی تو دوسری طرف وہ اپنی بیو ی کی عمر قید کی سزا پر غمگین بھی تھا۔تبھی اُس کے ذہن میں یہ سوال گونجا کہ اُس رات راستے میں اْس سے ٹکرانے والا کون تھا لیکن پھر خود ہی اْس کے ذہن نے یہ جواب دیا کہ وہ ضرور اُس کی بیوی ریشم ممتاز کے لئے کام کرنے والا کوئی کرایے کا غنڈہ تھا۔ پھر یہ سوال اُس کے ذہن میں ہل چل مچانے لگا کہ اگر اُس کی بیوی ریشم ممتاز اُسے پھنسانا چاہتی تھی تو پھر وہ کیس لے کر شہباز احمد کے پاس کیوں آئی۔وہ اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے بے چین ہوگیا۔یہاں شہباز احمد مسکرا کر جیسوال کو دیکھ رہے تھے اور وہ جلا بھنا اْنہیں غصے سے گھور رہا تھا۔تبھی مجید اُن کے پاس آکھڑا ہوا۔
"شہباز صاحب ۔۔۔اگر میری بیوی مجھے پھنسانا چاہتی تھی تو پھر وہ میرا کیس لے کر آپ کے پاس کیوں آئی"مجید الجھن کے عالم میں بولا۔
"اِس سوال کا جواب کچھ مشکل نہیں ہے ۔۔۔ وہ آئی جی عبدالباسط کی بیگم کی سہیلی بھی تھی۔۔۔اگر وہ اپنے شوہر کے لئے کچھ نہ کرتی اور گھر میں مز ے اُڑاتی تو اْس پر ضرور شک کیا جاتا ۔۔۔اْس نے خود کو شک سے بری کرنے کے لئے یہ سارا ڈرامہ کھیلا"شہباز احمد نے وضاحت کی۔مجید اْ ن کا جواب سن کر مطمئن ہوگیا۔جیسوال جل بھن کر اُنہیں دیکھ کر رہا تھا۔
"بس کیجئے جیسوا ل صاحب۔۔۔ اب کیا آنکھوں ہی آنکھوں میں کھا جانے کا ارادہ ہے "شہباز احمد مسکرا کر بولے۔
"آج کا دن آپ کے نام رہا لیکن اگلی بار میں آپ کو پانچ منٹ میں ہرا کر کیس جیت جاؤں گا"جیسوال جل کر بولا اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ شہباز احمد نے اُسے جاتے دیکھ کر سردآہ بھری۔ اِدھر شہباز احمد کے بچے اُچھل کود کر کے شہباز احمد کے ایک سوایک ویں کیس جیتنے کا جشن منا رہے تھے۔