محسن وقار علی
محفلین
چند روز قبل جنرل مشرف کے حوالے سے میراکالم چھپا تو ایک بزرگ اور سابق جرنیل کا فون آیاجنہیں فوج سے ریٹائر ہوئے عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ جنرل صاحب ان نظریاتی پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کی جھلک دیکھی ہے اور جنہیں قائد اعظم سے گہری عقیدت ہے۔ وہ آج کے جرنیلوں کی داستانیں سن سن کر پریشان ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں کپتانی سے لے کرجرنیلی تک فقط ایک پلاٹ ا لاٹ ہوا تھا جس پر وہ گھر بنا کر آباد ہوگئے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ جنرل مشرف کے حوالے سے میرا کالم پڑھ کر وہ قدرے اداس اور کبیدہ خاطر تھے لیکن ایک بہادر اور بااصول انسان کی مانند ان کا موقف تھا کہ جس نے جو بویا ہے اسے وہ کاٹنا بھی ہوگا اس لئے تم ٹھیک کہتے ہو کہ یہ مکافات عمل ہے اور یہ بھی درست ہے کہ یہ عبرت کا مقام بھی ہے۔ میں نے گفتگو کا کینوس وسیع کرتے ہوئے عرض کیاکہ جنرل صاحب دراصل یہ دنیا اور زندگی مکافات عمل بھی ہے اور عبرت کامقام بھی۔ آپ غور کریں اور صاحب نظر ہوں تو آپ کو زندگی کے قدم قدم پر عبرت کے مقامات نظر آئیں گے لیکن مسئلہ فقط اتنا سا ہے کہ کیاآپ بصیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں؟
دراصل ظاہر کی نگاہ سے دیکھیں تو بہت سے واقعات، حادثات، حرکات اور تغیر و تبدل آپ کو محض تماشا لگے گا لیکن اگر تھوڑی دیر کے لئے آپ اس تماشے پر غور کریں اور تیسری آنکھ سے دیکھیں تو یہ آپ کو سامان عبرت نظر آئے گا اور یہ آپ کو مکافات عمل نظر آئے گا، اگر آپ کو یہ عبرت کا مقام لگے گا تو آپ خود بھی ایسی حرکات سے گریز کریں گے جو آپ کو سامان عبرت بناسکتی ہیں لیکن اگر آپ تماشائی بنے ظاہر بیں آنکھ سے نظر ڈالتے اور لطف اندوز ہوتے آگے گزر جائیں گے تو یہی منظر آپ کو محض تماشہ، کھیل اور ناٹک لگے گا۔ جنرل صاحب نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دیکھئے کل تک جنرل پرویز مشرف اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، اس کے چہرے مہرے چلنے پھرنے سے غرور اور تکبر ٹپکتا تھا،ہزاروں خوشامدی، درباری اور مداری اس کے ارد گرد کھڑے اس کے نخرے اٹھاتے اور وفا کی قسمیں کھاتے تھے۔ آج وہی جنرل مشرف اپنے گھر کے دو چھوٹے کمروں میں قیدی بنا فون کمپیوٹر ،ٹی وی وغیرہ کے بغیر وقت کاٹ رہا ہے۔ نہ اسے کسی سے ملنے کی اجازت ہے اور نہ کسی کو اس سے ملنے کی اجازت ہے۔ بہترین کھانے کھانے والا آج جیل مینوئل کے مطابق کھانا کھارہا ہے۔ کیا یہ مقام عبرت نہیں؟ جنرل صاحب نے زور دے کر کہا ڈاکٹر صاحب اکثر لوگوں کے لئے پھانسی چڑھنا بھی مقام عبرت نہیں ہوتا چنانچہ وہ بار بار وہی کام کرتے رہتے ہیں لیکن صاحبان نگاہ کے لئے پاکستان آرمی کے سابق چیف اور سابق صدر کا یوں عدالتوں کی خاک چھاننا ،دھکے کھانا، لہراتے جوتے دیکھنا اور اپنے ہی محل نما گھر کے دو چھوٹے کمروں میں پھڑپھڑانا بہت بڑا مقام عبرت ہے۔ اس سے کون سبق سیکھتا اور کون نہیں سیکھتا یہ اپنی اپنی تربیت اور اپنا اپنا ظرف ہے۔ رہا مکافات عمل تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ لاتعداد مقدمات قطار میں کھڑے جنرل پرویز مشرف کا انتظار کررہے ہیں، اگر وہ پاکستان میں رہا اور کسی این آر او کے تحت ملک سے بھگانہ دیا گیا تو باقی زندگی عدالتوں کے برآمدوں میں گزار دے گا۔مختصر یہ کہ لال مسجد کے شہیدوں، سردار اکبر بگٹی کے لواحقین، میاں نواز شریف کے خاندان ،جاوید ہاشمی اور ان تمام حضرات کے لئے یہ مکافات عمل یا”مکافات اعمال“ ہے جنہوں نے مشرف کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ چاہیں تو اس میں جنرل ضیاء الدین بٹ کا نام بھی شامل کرلیں جسے جنرل مشرف نے کئی برس ایک چھوٹے سے کمرے میں قید تنہائی میں رکھا اور پنشن سے بھی محروم کردیا۔
اس کا قصور فقط یہ تھا کہ اسے و زیر اعظم نے بلا کرآرمی چیف بنایا اور اس کے کندھوں پر ستارے سجا دئیے۔گفتگو کرتے کرتے جنرل صاحب رکے اور دھیمے سے انداز میں کہنے لگے ویسے ڈاکٹر صاحب مکافات عمل اور مقام عبرت میں چھ فٹ کا فاصلہ حائل ہوتا ہے کیونکہ انسانی قبر عام طور پر چھ فٹ کی ہی ہوتی ہے۔ مشرف کا مکافات عمل، جتنا تھوڑا بہت دیکھنے میں آیا ہے ان لوگوں کے لئے مقام عبرت ہے جو اقتدار کی ہوس رکھتے ہیں یا آئین کو پامال کرنے کی آرزو پالتے ہیں اور خاص طور پر ایسے حضرات جو غرور، تکبر، نخوت اور طاقت کے نشے میں چور ہیں۔ المتکبر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے جو شخص تکبر کا شکار ہوتا ہے وہ شرک کرتا ہے اور میرا مشاہدہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تکبر کرنے والے”متکبر“ کو ہماری آنکھوں کے سامنے ہی عبرت کا سامان بنادیتے ہیں۔
یہ بزرگ جنرل صاحب تنہائی کے مارے ہوئے ہیں اس لئے جب بھی گفتگو کریں بس دریا بہاتے ہیں، شبنم کی مانند قطرہ قطرہ نہیں برستے۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ دانشور لکھے جاتے ہو کہ آرمی چیف کو بدلنا وزیر اعظم کا آئینی اختیار تھا اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن خدا کے لئے یہ بھی سوچئے کہ وزیر اعظم ملک کا اعلیٰ ترین اور سب سے زیادہ باوقار عہدہ ہوتا ہے۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قوم کے دئیے گئے اختیارات نہایت باوقار انداز سے استعمال کرے گا اور انتظامیہ کے لئے رول ماڈل بنے گا۔سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کو بیرون ملک سے آتے ہوئے ہوا میں لٹکا کر برخاست کرنا اور اس کی جگہ نہایت سازشی انداز سے کسی کا تقرر کرنا باوقار طریقہ ہے؟ کیا یہ وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے؟ ہاں ! میں یہ وضاحت کردوں کہ میرا مقصد ہرگز مشرف کے اقدام کا جواز مہیا کرنا نہیں۔ اس نے آئین کی خلاف ورزی کی اس لئے وہ بہرحال قومی مجرم ہے لیکن میاں صاحب تو قوم کے لیڈر تھے۔ لیڈر سمجھوتے کرکے بھاگا نہیں کرتے۔ لیڈر اپنے موقف اور اصول پر ڈٹ جاتے ہیں لیکن میاں صاحب معاہدے پر دستخط کرکے بیرون وطن چلے گئے اور اپنے کارکنوں کو جیلوں میں گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ گئے۔ پہلے انہوں نے ہر قسم کے معاہدے سے انکار کیا، پھر کہا معاہدہ پانچ برس کا تھا حتیٰ کہ سعودی شہزادہ آیا اور معاہدہ ہوا میں لہرا کر انکشاف کیا کہ معاہدہ دس برس کا تھا پھر وہ انہیں اپنے طیارے میں قیدی بنا کر لے گیا۔کیا غلط بیانی کسی قومی لیڈر کو زیب دیتی ہے؟جنرل صاحب جرنیلی موڈ میں تھے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم تو غیر جانبدار ہو ہمیشہ گھاٹے میں رہو گے۔ دیکھ لینا میاں صاحبان کے اقتدار میں آتے ہی ان کے خوشامدی کس طرح عہدوں پر جھپٹیں گے اور مراعات سے جیبیں بھریں گے۔
چلو چھوڑو اس بات کو میرے ایک سوال کا جواب دو، اگر کوئی رکن اسمبلی جعلی ڈگری کے جرم کا ارتکاب کرے تو جھوٹ کی سزا پاکر جیل میں جائے اور آئین کی شقوں 62/63کی زد میں آکرنااہل قرار پائے لیکن اگر کوئی بڑا لیڈر غلط بیانی کرے تو عدالتیں اور لوگ نظریں دوسری طرف پھیرلیں، گویا ہمارے ملک میں عام لوگوں کے لئے قانون الگ ہے اوربڑے لوگوں کے لئے کوئی قانون نہیں۔ یہ اصول صرف مشرف پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ ہمارے ملک میں ہر بڑے آدمی پر لاگو ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک معاشی بحران میں مبتلا ہے قوم قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں ۔لوڈ شیڈنگ، غربت، مہنگائی اور بے کاری نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے لیکن ہمارے قائدین ووٹ لینے کے لئے قوم کو جھوٹے خواب دکھارہے ہیں۔ ان میں وعدے پورے کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ ڈاکٹر صاحب مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے سے جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم ہوچکی ہے، عام شہری سے لے کر قائدین تک سبھی اس مرض میں مبتلا ہیں اور جو اس مرض میں مبتلا نہیں وہ معاشرے میں اپنی قدر و قیمت کھو چکے ہیں کیونکہ وہ سکہ رائج الوقت کا حصہ نہیں۔
جنرل صاحب تو اپنا کتھارسس کرکے اور اپنا غصہ نکال کر فون بند کرگئے لیکن میں خاصی دیر تک سوچتا رہا کہ اگرچہ جنرل صاحب کی باتیں تلخ تھیں لیکن سچ تھیں۔ سچ بہر حال کڑوا ہوتا ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ