جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
6088dd289885f.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ آپ ہمت کرو آپ کرسکتے ہو۔

مزید پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

بشیر میمن نے بتایا کہ تب تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور کس کے خلاف ہمت کریں۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے بتایا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس میں خود لڑوں گا۔

تحریر جاری ہے‎
بشیر میمن نے کہا کہ ‘میں نے ان پر واضح کیا کہ ایف آئی اے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی اور مقدمہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: ‘خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا’

ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ میرے مؤقف پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مل کر کر لیں گے، آپ اور ایف بی آر مل کر کرلیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

تحریر جاری ہے‎
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے فروغ نسیم پر واضح کردیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر ہم تحقیقات کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشفاق احمد آمادہ تھے کہ وہ اور آیف بی آر مل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے کہا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اوپن انکوائری کرالی جائے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ ملاقات کے چند ماہ بعد شہزاد اکبر نے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی ٹریول ہسٹری کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا لیکن میں نے مثبت جواب نہیں دیا تو شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہوگا۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا۔

بشیر میمن نے کہا کہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بد عنوانی کے الزام میں پیٹرولیم ڈویژن کے دو افسران برطرف

یہ طعنہ کس نے دیا تھا کہ دیکھیں نیب کو ایک فون کیا اور اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگئے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالہ دے کر کہا کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ان کے احکامات کو رد نہیں کرتا اور تم مجھے کہتے ہو کہ آئین اور قانون یہ کہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوریت جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، یہاں عدالتیں آزاد ہیں جہاں ہمیں کسی کو گرفتار کرکے مقرر وقت میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی شواہد کی بنیاد پر کیس تیار کرنا ہوتا ہے’۔

بشیر میمن نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہونے والے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ایف آئی اے کو قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اس سے قبل ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا تھا کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔
 
فروغ نسیم، شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بیان کی تردید کردی
ویب ڈیسک | جاوید حسیناپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60893b718baad.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیےوزیر اعظم عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے دباؤ ڈالا تھا۔

تاہم بشیر میمن کے الزامات کو متعلقہ افراد نے فوری طور پر مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں:جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

تحریر جاری ہے‎
وزیر قانون نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بشیر میمن کے لگائے گئے 'بے بنیاد الزامات' کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بشیر میمن سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بارے میں کسی بھی معاملے پر کبھی بات نہیں کی۔



فروغ نسیم نے کہا کہ اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی بھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن سے کوئی بات چیت کریں۔



دوسری جانب شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایسی کسی بھی میٹنگ سے متعلق دعووں کی تردید کی۔

شہزاد اکبر نے بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو 'کوڑا کرکٹ' قرار دیا۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر وزیر اعظم سے کوئی ہدایت نہیں ملی نہ میں نے کبھی ملاقات کی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر قانون اور بشیر میمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی جیسا کہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے دعویٰ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح انہیں کبھی بھی کسی خاص فرد کے خلاف کوئی مقدمہ شروع کرنے کی بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ایف آئی اے کو صرف ایک کیس بھیجا گیا جس میں بغاوت کا الزام تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ میں نے ذاتی حیثیت میں وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اس کی بہتان کے لیے قانونی کارروائی کرے۔

دیرینہ مؤقف کی تائید ہے، شہباز شریف
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بشیر میمن کے انکشافات پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کے ہوشربا انکشافات نے میرے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کر دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ بہت پہلے کہا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ قائم ہے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے اور اس کے قائدین کو جیل بھجوانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

مزیدپڑھیں: ’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘

انہوں نے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کی حقیقت اور احتساب کے نام پر جاری ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بشیر میمن کے عمران نیازی کے بارے میں انکشافات انتہائی شرمناک، تشویشناک ، افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فسطائیت اور منتقم مزاجی کی انتہا ہے جس کی تحقیقات کرائی جائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ملوث کرداروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے اور دیدہ و دانستہ اپنے ہی ملک کو افراتفری اور انتشار کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

بشیر میمن کے الزامات
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا تھا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

بشیر میمن نے بتایا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
فروغ نسیم، شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بیان کی تردید کردی
ویب ڈیسک | جاوید حسیناپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60893b718baad.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیےوزیر اعظم عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے دباؤ ڈالا تھا۔

تاہم بشیر میمن کے الزامات کو متعلقہ افراد نے فوری طور پر مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں:جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

تحریر جاری ہے‎
وزیر قانون نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بشیر میمن کے لگائے گئے 'بے بنیاد الزامات' کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بشیر میمن سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بارے میں کسی بھی معاملے پر کبھی بات نہیں کی۔



فروغ نسیم نے کہا کہ اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی بھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن سے کوئی بات چیت کریں۔



دوسری جانب شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایسی کسی بھی میٹنگ سے متعلق دعووں کی تردید کی۔

شہزاد اکبر نے بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو 'کوڑا کرکٹ' قرار دیا۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر وزیر اعظم سے کوئی ہدایت نہیں ملی نہ میں نے کبھی ملاقات کی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر قانون اور بشیر میمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی جیسا کہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے دعویٰ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح انہیں کبھی بھی کسی خاص فرد کے خلاف کوئی مقدمہ شروع کرنے کی بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ایف آئی اے کو صرف ایک کیس بھیجا گیا جس میں بغاوت کا الزام تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ میں نے ذاتی حیثیت میں وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اس کی بہتان کے لیے قانونی کارروائی کرے۔

دیرینہ مؤقف کی تائید ہے، شہباز شریف
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بشیر میمن کے انکشافات پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کے ہوشربا انکشافات نے میرے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کر دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ بہت پہلے کہا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ قائم ہے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے اور اس کے قائدین کو جیل بھجوانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

مزیدپڑھیں: ’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘

انہوں نے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کی حقیقت اور احتساب کے نام پر جاری ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بشیر میمن کے عمران نیازی کے بارے میں انکشافات انتہائی شرمناک، تشویشناک ، افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فسطائیت اور منتقم مزاجی کی انتہا ہے جس کی تحقیقات کرائی جائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ملوث کرداروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے اور دیدہ و دانستہ اپنے ہی ملک کو افراتفری اور انتشار کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

بشیر میمن کے الزامات
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا تھا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

بشیر میمن نے بتایا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
شہزاد اکبر نے تو لیگل نوٹس بھی بھجوا دیا ہے۔ اب ان الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا یا جھوٹ بولنے پر غیر مشروط معافی مانگنی پڑے گی۔ بصورت دیگر بھاری جرمانہ ہوگا
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
6088dd289885f.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ آپ ہمت کرو آپ کرسکتے ہو۔

مزید پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

بشیر میمن نے بتایا کہ تب تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور کس کے خلاف ہمت کریں۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے بتایا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس میں خود لڑوں گا۔

تحریر جاری ہے‎
بشیر میمن نے کہا کہ ‘میں نے ان پر واضح کیا کہ ایف آئی اے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی اور مقدمہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: ‘خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا’

ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ میرے مؤقف پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مل کر کر لیں گے، آپ اور ایف بی آر مل کر کرلیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

تحریر جاری ہے‎
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے فروغ نسیم پر واضح کردیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر ہم تحقیقات کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشفاق احمد آمادہ تھے کہ وہ اور آیف بی آر مل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے کہا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اوپن انکوائری کرالی جائے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ ملاقات کے چند ماہ بعد شہزاد اکبر نے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی ٹریول ہسٹری کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا لیکن میں نے مثبت جواب نہیں دیا تو شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہوگا۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا۔

بشیر میمن نے کہا کہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بد عنوانی کے الزام میں پیٹرولیم ڈویژن کے دو افسران برطرف

یہ طعنہ کس نے دیا تھا کہ دیکھیں نیب کو ایک فون کیا اور اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگئے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالہ دے کر کہا کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ان کے احکامات کو رد نہیں کرتا اور تم مجھے کہتے ہو کہ آئین اور قانون یہ کہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوریت جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، یہاں عدالتیں آزاد ہیں جہاں ہمیں کسی کو گرفتار کرکے مقرر وقت میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی شواہد کی بنیاد پر کیس تیار کرنا ہوتا ہے’۔

بشیر میمن نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہونے والے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ایف آئی اے کو قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اس سے قبل ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا تھا کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
6088dd289885f.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ آپ ہمت کرو آپ کرسکتے ہو۔

مزید پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

بشیر میمن نے بتایا کہ تب تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور کس کے خلاف ہمت کریں۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے بتایا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس میں خود لڑوں گا۔

تحریر جاری ہے‎
بشیر میمن نے کہا کہ ‘میں نے ان پر واضح کیا کہ ایف آئی اے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی اور مقدمہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: ‘خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا’

ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ میرے مؤقف پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مل کر کر لیں گے، آپ اور ایف بی آر مل کر کرلیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

تحریر جاری ہے‎
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے فروغ نسیم پر واضح کردیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر ہم تحقیقات کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشفاق احمد آمادہ تھے کہ وہ اور آیف بی آر مل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے کہا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اوپن انکوائری کرالی جائے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ ملاقات کے چند ماہ بعد شہزاد اکبر نے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی ٹریول ہسٹری کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا لیکن میں نے مثبت جواب نہیں دیا تو شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہوگا۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا۔

بشیر میمن نے کہا کہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بد عنوانی کے الزام میں پیٹرولیم ڈویژن کے دو افسران برطرف

یہ طعنہ کس نے دیا تھا کہ دیکھیں نیب کو ایک فون کیا اور اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگئے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالہ دے کر کہا کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ان کے احکامات کو رد نہیں کرتا اور تم مجھے کہتے ہو کہ آئین اور قانون یہ کہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوریت جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، یہاں عدالتیں آزاد ہیں جہاں ہمیں کسی کو گرفتار کرکے مقرر وقت میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی شواہد کی بنیاد پر کیس تیار کرنا ہوتا ہے’۔

بشیر میمن نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہونے والے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ایف آئی اے کو قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اس سے قبل ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا تھا کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔
عمران خان کو یوٹرن کے طعنے مارنے والے آج اپنے الزامات سے یوٹرن لے رہے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
فروغ نسیم، شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بیان کی تردید کردی
ویب ڈیسک | جاوید حسیناپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60893b718baad.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیےوزیر اعظم عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے دباؤ ڈالا تھا۔

تاہم بشیر میمن کے الزامات کو متعلقہ افراد نے فوری طور پر مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں:جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

تحریر جاری ہے‎
وزیر قانون نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بشیر میمن کے لگائے گئے 'بے بنیاد الزامات' کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بشیر میمن سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بارے میں کسی بھی معاملے پر کبھی بات نہیں کی۔



فروغ نسیم نے کہا کہ اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی بھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن سے کوئی بات چیت کریں۔



دوسری جانب شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایسی کسی بھی میٹنگ سے متعلق دعووں کی تردید کی۔

شہزاد اکبر نے بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو 'کوڑا کرکٹ' قرار دیا۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر وزیر اعظم سے کوئی ہدایت نہیں ملی نہ میں نے کبھی ملاقات کی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر قانون اور بشیر میمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی جیسا کہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے دعویٰ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح انہیں کبھی بھی کسی خاص فرد کے خلاف کوئی مقدمہ شروع کرنے کی بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ایف آئی اے کو صرف ایک کیس بھیجا گیا جس میں بغاوت کا الزام تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ میں نے ذاتی حیثیت میں وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اس کی بہتان کے لیے قانونی کارروائی کرے۔

دیرینہ مؤقف کی تائید ہے، شہباز شریف
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بشیر میمن کے انکشافات پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کے ہوشربا انکشافات نے میرے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کر دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ بہت پہلے کہا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ قائم ہے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے اور اس کے قائدین کو جیل بھجوانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

مزیدپڑھیں: ’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘

انہوں نے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کی حقیقت اور احتساب کے نام پر جاری ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بشیر میمن کے عمران نیازی کے بارے میں انکشافات انتہائی شرمناک، تشویشناک ، افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فسطائیت اور منتقم مزاجی کی انتہا ہے جس کی تحقیقات کرائی جائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ملوث کرداروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے اور دیدہ و دانستہ اپنے ہی ملک کو افراتفری اور انتشار کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

بشیر میمن کے الزامات
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا تھا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

بشیر میمن نے بتایا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
عدالتی نوٹس ملتے ساتھ ہی بشیر میمن نے اپنے الزامات واپس لے لئے :)
 
عمران خان کو یوٹرن کے طعنے مارنے والے آج اپنے الزامات سے یوٹرن لے رہے ہیں :)
تحریک انصاف اور ان کے لفافہ چینلز نے جھوٹ بولنے میں گوئیبلز کو بھی مات دے دی ہے۔ آخر کو یو ٹرن اعظم کے پیروکار ہیں۔

بشیر میمن آج بھی وہی کہہ رہا ہے جو اس نے پہلے دن اپنے ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف اور ان کے لفافہ چینلز نے جھوٹ بولنے میں گوئیبلز کو بھی مات دے دی ہے۔ آخر کو یو ٹرن اعظم کے پیروکار ہیں۔

بشیر میمن آج بھی وہی کہہ رہا ہے جو اس نے پہلے دن اپنے ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا۔
الزامات تو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ عدالت میں ثابت ہونے تک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف اور ان کے لفافہ چینلز نے جھوٹ بولنے میں گوئیبلز کو بھی مات دے دی ہے۔ آخر کو یو ٹرن اعظم کے پیروکار ہیں۔

بشیر میمن آج بھی وہی کہہ رہا ہے جو اس نے پہلے دن اپنے ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا۔
مبارک ہو۔ آپ کے سب سے پسندیدہ دیسی لبرل اخبار نے تحریک انصاف جائن کر لی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملاقات میں جسٹس قاضی فائز کا نام نہیں لیا، بشیر میمن - Pakistan - Dawn News
 

سید ذیشان

محفلین
آپ اگر تھوڑی سے زحمت فرما کر بشیر میمن کا پہلا والا انٹرویو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ ہوبہو وہی بات ہے جو بشیر میمن نے اس انٹرویو میں کہی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ اگر تھوڑی سے زحمت فرما کر بشیر میمن کا پہلا والا انٹرویو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ ہوبہو وہی بات ہے جو بشیر میمن نے اس انٹرویو میں کہی تھی۔
بشیر میمن مختلف انٹرویوز میں سو الزامات لگائیں۔ ان میں سے دو الزامات آگے پیچھے میچ کر جائیں تو ہو بہو وہی بات کی ہے؟ وزیر اعظم یا ان کے مشیروں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو عدالت جائیں۔ وہاں قاضی فائز عیسی اپنے خلاف جھوٹا ریفرنس بنانے پر حکومت کو سزا دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا ہے؟ ثبوتوں کیساتھ عدالت جائیں۔ میڈیا ٹرائل کیوں کر رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ اگر تھوڑی سے زحمت فرما کر بشیر میمن کا پہلا والا انٹرویو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ ہوبہو وہی بات ہے جو بشیر میمن نے اس انٹرویو میں کہی تھی۔
بشیر میمن نے پروگرام میں کہا کہ وہ اس حق میں ہیں کہ عدالتی کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو اس معاملے کو دیکھے اور 'اگر میں جھوٹا ہوں تو بھی ثابت ہوگا اور اگر میں سچا ہوں تو ثابت ہوجائے گا'۔
چونکہ یہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور یہاں مستقبل کے چیف جسٹس کا معاملہ ہے تو عدالت کو چاہیے کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنا دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ قاضی فائز عیسی نے تو ایک واٹس ایپ میسج پر عمران خان کیخلاف عدالتی کاروائی شروع کر دی تھی۔ یہاں تو ان کے پاس بہت مضبوط کیس ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فروغ نسیم، شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بیان کی تردید کردی
ویب ڈیسک | جاوید حسیناپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60893b718baad.jpg

—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیےوزیر اعظم عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے دباؤ ڈالا تھا۔

تاہم بشیر میمن کے الزامات کو متعلقہ افراد نے فوری طور پر مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں:جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

تحریر جاری ہے‎
وزیر قانون نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بشیر میمن کے لگائے گئے 'بے بنیاد الزامات' کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بشیر میمن سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بارے میں کسی بھی معاملے پر کبھی بات نہیں کی۔



فروغ نسیم نے کہا کہ اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی بھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن سے کوئی بات چیت کریں۔



دوسری جانب شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایسی کسی بھی میٹنگ سے متعلق دعووں کی تردید کی۔

شہزاد اکبر نے بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو 'کوڑا کرکٹ' قرار دیا۔

تحریر جاری ہے‎
انہوں نے کہا کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر وزیر اعظم سے کوئی ہدایت نہیں ملی نہ میں نے کبھی ملاقات کی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر قانون اور بشیر میمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی جیسا کہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے دعویٰ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح انہیں کبھی بھی کسی خاص فرد کے خلاف کوئی مقدمہ شروع کرنے کی بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ایف آئی اے کو صرف ایک کیس بھیجا گیا جس میں بغاوت کا الزام تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ میں نے ذاتی حیثیت میں وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اس کی بہتان کے لیے قانونی کارروائی کرے۔

دیرینہ مؤقف کی تائید ہے، شہباز شریف
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بشیر میمن کے انکشافات پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کے ہوشربا انکشافات نے میرے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کر دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ بہت پہلے کہا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ قائم ہے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے اور اس کے قائدین کو جیل بھجوانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

مزیدپڑھیں: ’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘

انہوں نے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کی حقیقت اور احتساب کے نام پر جاری ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بشیر میمن کے عمران نیازی کے بارے میں انکشافات انتہائی شرمناک، تشویشناک ، افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فسطائیت اور منتقم مزاجی کی انتہا ہے جس کی تحقیقات کرائی جائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ملوث کرداروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے اور دیدہ و دانستہ اپنے ہی ملک کو افراتفری اور انتشار کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

بشیر میمن کے الزامات
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا تھا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں۔

بشیر میمن نے بتایا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
یہ فروغ نسیم کے ساتھ کون بیٹھا ہے؟
 
عمران خان کو یوٹرن کے طعنے مارنے والے آج اپنے الزامات سے یوٹرن لے رہے ہیں :)

عدالتی نوٹس ملتے ساتھ ہی بشیر میمن نے اپنے الزامات واپس لے لئے :)

تحریک انصاف اور ان کے لفافہ چینلز نے جھوٹ بولنے میں گوئیبلز کو بھی مات دے دی ہے۔ آخر کو یو ٹرن اعظم کے پیروکار ہیں۔

بشیر میمن آج بھی وہی کہہ رہا ہے جو اس نے پہلے دن اپنے ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا۔


آپ اگر تھوڑی سے زحمت فرما کر بشیر میمن کا پہلا والا انٹرویو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ ہوبہو وہی بات ہے جو بشیر میمن نے اس انٹرویو میں کہی تھی۔

بشیر میمن نے جو بات پہلے دن کہی تھی اسی پر قائم ہے لیکن تحریک جھوٹ اور اس کے حواری چینلز نے جھوٹ میں گوئیبلز کو بھی مات دی دی یہ کہہ کر کہ بشیر میمن نے یوٹرن لے لیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میڈیا پر جمہوڑی انقلابی چورن بک رہا ہے ، سب صحافیوں کو انصافی حکومت نے لفافے پکڑا دئیے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بشیر میمن نے جو بات پہلے دن کہی تھی اسی پر قائم ہے لیکن تحریک جھوٹ اور اس کے حواری چینلز نے جھوٹ میں گوئیبلز کو بھی مات دی دی یہ کہہ کر کہ بشیر میمن نے یوٹرن لے لیا۔
یوٹرن صرف عمران خان لیتا ہے۔ باقی سب کے سب اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ بشیر میمن اتنا بڑا جمہوری انقلابی تھا تو فائز عیسی کیس کے دوران بطور گواہ حکومت کیخلاف شواہد عدالت کو دیتا۔ اس کی زبان عین اسوقت کھلی جب فائز عیسی کیس کے حتمی فیصلے پر سوشل میڈیا میں ایک طوفان برپا تھا۔
 

زیک

مسافر
آپ اگر تھوڑی سے زحمت فرما کر بشیر میمن کا پہلا والا انٹرویو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ ہوبہو وہی بات ہے جو بشیر میمن نے اس انٹرویو میں کہی تھی۔
اگر انٹرویو دیکھتے تو بیسیوں ٹرول مراسلے کرنے کا وقت کیسے ملتا؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگر انٹرویو دیکھتے تو بیسیوں ٹرول مراسلے کرنے کا وقت کیسے ملتا؟
عمران حکومت پر لگنے والا ہر الزام بالکل درست ہے۔ کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ ہر الزام لگانے والا سو فیصد سچ بول رہا ہے۔ عائشہ گلالئی، ریحام خان کے عمران خان پر الزامات بھی بالکل درست ثابت ہوئے۔ جو اس سے اختلاف کرتا ہے وہ ٹرول ہے اور اسے منفی ریٹنگ ملے گی۔
 
Top