جس دن سے میرا باغ میں جانا نہیں ہوتا غزل نمبر 27 برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
لوگوں کے لئے بند میخانہ نہیں ہوتا
بس میرے حصے میں ہی پیمانہ نہیں ہوتا

اس دن سے سارے پھولوں پہ چھائی ہے اداسی
جس دن سے میرا باغ میں جانا نہیں ہوتا

کچھ لوگ رزق ہوتے بھی کچھ کھا نہیں سکتے
کچھ کھانا چاہتے ہیں مگر کھانا نہیں ہوتا

انسان کو اخلاق ہی اچھا بناتا ہے
جو خود کو بڑا سمجھے وہ دانا نہیں ہوتا

وہ ُگل نہیں جس کا کوئی عاشق نہ ہو بلبل
شمع وہ کیا کہ جس کا پروانہ نہیں ہوتا

الفت میں ہر دیوانے کو لیلیٰ نہیں ملتی
ہر کوئی قیس جیسا دیوانہ نہیں ہوتا

شارؔق خدا کی یاد مقدر سے ملتی ہے
ہرشخص کی قسمت میں خزانہ نہیں ہوتا​
 
شارق میاں، اس غزل میں بھی بحریں گڑبڑا رہیں ہیں ۔۔۔
میخانہ اور پیمانہ میں ی ساقط نہیں ہوسکتی ۔۔۔ محض مخانہ تقطیع ہونا درست نہیں

جس دن سے میرا باغ میں جانا نہیں ہوتا
یہاں گرامر کے حساب سے ’’باغ میں جانا نہیں ہوا‘‘ کا محل ہے۔
 
Top