جس قدر شکوے تھے، سب حرفِ دُعا ہونے لگے - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور )

جس قدر شکوے تھے، سب حرفِ دُعا ہونے لگے
ہم کسی کی آرزو میں‌کیا سے کیا ہونے لگے!

بیکسی نے بے زبانی کو زباں کیا بخش دی
جو نہ کہہ سکتے تھے، اشکوں سے ادا ہونے لگے!

ہم زمانہ کی سخن فہمی کا شکوہ کیا کریں؟
جب ذرا سی بات پر تم بھی خفا ہونے لگے!

رنگِ محفل دیکھ کر دنیا نے نظریں‌پھیر لیں
آشنا جتنے بھی تھے، نا آشنا ہونے لگے!

ہر قدم پر منزلیں کچھ دور یوں ہوتی گئیں
راز ہائے زندگانی ہم پہ وا ہونے لگے

سربریدہ ، خستہ ساماں، دل شکستہ، جاں بلب
عاشقی میں‌سُرخ رُو، نامِ خدا ہونے لگے!

آگہی نے جب دکھائی راہِ عرفانِ حبیب
بُت تھے جتنے دل میں، سب قبلہ نما ہونے لگے

عاشقی کی خیر ہو سرور کہ اب اس شہر میں
وقت وہ آیا ہے بندے بھی خُدا ہونے لگے!


gg-jisqadarshikwe.jpg
 
Top