ماروا ضیا
محفلین
جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا
اُس آئینہ کو خاک میں اُس نے مِلا دیا
معشوق کو اگر دلِ بے مدعا دیا
پوچھے کوئی خُدا سے کہ عاشق کو کیا دیا
بے مانگے دردِعشق وغم جاںگزا دیا
سب کُچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا
ناوک ابھی ہے شست میں صیاد کے مگر
اُٹھتی ہیں اُنگلیاں وہ نشانہ اُڑا دیا
رکھتے ہیں ایسے چاند کو تو غیر بھی عزیز
یوسف کو بھائیوں نے کُنویں میں گرا دیا
ملتا ہے لختِ دل مجھے سرکار عشق سے
اچھی جگہ نصیب نے ٹُکڑا لگا دیا
صرف بنائے میکدہ اے شیخ کُچھ نہ پوچھ
اکثر اک اینٹ کے لیے مسجد کو ڈھا دیا
ملتے ہیں تیرے چاہنے والے میں تیرے ڈھنگ
جو تُجھ پہ مِٹ گیا مجھے اُس نے مِٹا دیا
مضمونِ شوق چُھپ نہ سکا اسکو کیا کروں
گو میں نے خط رقیب کے خط میں ملا دیا
دُنیا میں اک یہی ہے زیارت گہِ جنون
خانہ خرابیوں نے مرا گھر بنا دیا
لب خُشک ہو رہے ہیں کفِ دست سُرخ ہیں
لو سچ کہو کہ قول رقیبوں کو کیا دیا
تیر فراق داغ تمنا در شک غیر
دل ہو جگر ہوکھاتے ہیں سب آپ کا دیا
پیکانِ یار سینے سے کیونکر نِکال دوں
یہ ہی خُدا کی دین کہ دل دُوسرا دیا
تا حشر مُنکرینِ قیامت نہ مانتے
تُجھکو بنا کے اُس کا نمونہ دِکھا دیا
سمجھیں گے خوب اُس بُتِ ناآشنا سے داغ
گر ایک بار اور خُدا نے ملا دیا
مُحترم فاتح صاحب باقی آپ سمجھ تو گئے ہوں گے