اس آسمان کے شامیانے کے نیچے زمین کی فرش پر، آفتاب کو قندیل بنا کرچاند کو شمع بنا کر ایک سوال کیا جائے کہ بتاؤ سب سے پیارا لفظ کونسا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں
کہ سب کا جواب ہوگا "رحم"۔
قدرت بھی بڑی چیزعلم بھی بڑی چیز, سخاوت بھی بڑی چیز ، صنعت بھی بڑی چیزاور دانائی بھی بڑی چیز ، مال ودولت بھی بڑی چیز، حکومت بھی بڑی چیز مگر یہ کسی کے مخالف ہونگے اورکسی مواقف۔ ان سے ایک نے زندگی پائی ہوگی توسینکڑوں نے موت کا پیغام ، ہزاروں ان کے زندہ کئے ہونگے تو لاکھوں ان کے مارے ہوئے ہونگے ۔ ان کے قتیل ہونگے ، ان کے شہید ہونگے، ہزاروں ان کی تعریف کرنے والے ہونگے تو لاکھوں کو ان سے گلہ ہوگا ۔
حکومت کو لیجئے حکومت کتنوں کی محافظ ہے لیکن کتنے لوگوں کی زندگی سے کھیلتی ہے ، اس نے کتنے خون کے دریا بہائے ، کشتیوں کے پشتے لگائے ، کتنی کھتیاں اس نے جلا کر سیاہ کر دیں ۔
کتنے ملکوں کے چراغ گل کر دئیے ۔ کتنے خاندانوں کا بیج دنیا سے ختم کر دیا ۔۔۔۔۔۔علم کو لیجئے ، علم نے کہیں روشنی پیدا کی ، تو کہیں ظلمت پیدا کی ، علم نے کہیں حفاظت کا گر سکھایا تو کہیں قفل شکنی اور نقب زنی کا فن سکھایا ، علم نے کہیں تعمیر کا پیغام دیا تواس سے زائد تخریب کا پیغام دیا ، علم نے اگر تیر بنائی توعلم نے تلوار بھی بنائی ۔۔ علم نے اگرگرتوں کو سنبھالا تو کتنے ٹھیرے ہوؤں کو گرایا ، کوئی ایسی چیز نہیں جس کے دو پہلو نہ ہوں ، اور جس کی دھار، جس کاعمل بالکل صحیح اور بالکل پورا اترے ۔
لیکن ایک ایسی چیز کا دنیا میں کوئی شاکی نہیں ، کوئی اس کا فریادی نہیں ، کوئی اس پر تنقید کرنے والا نہیں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کا مارا ہوا ہوں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا زخمی ہوں اور وہ ہے صرف رحم دل ، وہ ہے صرف رحم ۔
(حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی تحریر سے اقتباس)
کہ سب کا جواب ہوگا "رحم"۔
قدرت بھی بڑی چیزعلم بھی بڑی چیز, سخاوت بھی بڑی چیز ، صنعت بھی بڑی چیزاور دانائی بھی بڑی چیز ، مال ودولت بھی بڑی چیز، حکومت بھی بڑی چیز مگر یہ کسی کے مخالف ہونگے اورکسی مواقف۔ ان سے ایک نے زندگی پائی ہوگی توسینکڑوں نے موت کا پیغام ، ہزاروں ان کے زندہ کئے ہونگے تو لاکھوں ان کے مارے ہوئے ہونگے ۔ ان کے قتیل ہونگے ، ان کے شہید ہونگے، ہزاروں ان کی تعریف کرنے والے ہونگے تو لاکھوں کو ان سے گلہ ہوگا ۔
حکومت کو لیجئے حکومت کتنوں کی محافظ ہے لیکن کتنے لوگوں کی زندگی سے کھیلتی ہے ، اس نے کتنے خون کے دریا بہائے ، کشتیوں کے پشتے لگائے ، کتنی کھتیاں اس نے جلا کر سیاہ کر دیں ۔
کتنے ملکوں کے چراغ گل کر دئیے ۔ کتنے خاندانوں کا بیج دنیا سے ختم کر دیا ۔۔۔۔۔۔علم کو لیجئے ، علم نے کہیں روشنی پیدا کی ، تو کہیں ظلمت پیدا کی ، علم نے کہیں حفاظت کا گر سکھایا تو کہیں قفل شکنی اور نقب زنی کا فن سکھایا ، علم نے کہیں تعمیر کا پیغام دیا تواس سے زائد تخریب کا پیغام دیا ، علم نے اگر تیر بنائی توعلم نے تلوار بھی بنائی ۔۔ علم نے اگرگرتوں کو سنبھالا تو کتنے ٹھیرے ہوؤں کو گرایا ، کوئی ایسی چیز نہیں جس کے دو پہلو نہ ہوں ، اور جس کی دھار، جس کاعمل بالکل صحیح اور بالکل پورا اترے ۔
لیکن ایک ایسی چیز کا دنیا میں کوئی شاکی نہیں ، کوئی اس کا فریادی نہیں ، کوئی اس پر تنقید کرنے والا نہیں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کا مارا ہوا ہوں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا زخمی ہوں اور وہ ہے صرف رحم دل ، وہ ہے صرف رحم ۔
(حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی تحریر سے اقتباس)