الف نظامی
لائبریرین
جس کسی کو ہو جوگ کا سودا
ہر تعلق کو خیر بادکہے
ترکِ دنیا ہے رمزِ لاہوتی
بس الف اور میم یاد رہے
×××
یہ صنم خانے اور یہ ناقوس
کاش ہٹ جائیں تیری راہوں سے
دیکھ ساجن تجھے بلاتا ہے
اپنا دامن بچا گناہوں سے
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اے بشر فکر این و آں سے بھاگ
تجھے نورِ ازل بلاتا ہے
بھاگ ہر اک غمِ جہاں سے بھاگ
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
تجھے لازم ہے نفس کا ایثار
جسم مندر ہے اور دل حجرہ
جوگ میں ہیں یہی ترے گھر بار
در بدر ڈھونڈھتا ہے تو جس کو
جلوہ گر تیرے دل میں ہے وہ نگار
×××
چھوڑ دے وہم کے صنم خانے
بھول جا آرزو کے افسانے
تیری راہِ طلب میں حائل ہیں
بستیاں ،شہر ، دشت ، ویرانے
در بدر اس کی جستجو تجھ کو
اس سے روشن دلوں کےافسانے
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اپنی ہستی کو غرقِ وحدت کر
عشق کی دھونیاں رما دل میں
نفس کو بیخ و بن سے غارت کر
یاد رکھ مدعائے ذکرِ خفی
صرف اسی ایک سے محبت کر
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
محرمِ حسنِ جاوداں ہو جا
نہ رہے فرقِ آستان و جبیں
سر بسر خاکِ آستاں ہو جا
وہ ابلتے ہیں نور کےچشمے
سوئے مشرق رواں دواں ہو جا
بن کےراز آشنائے ذکرِ خفی
خلوتِ خاص میں نہاں ہو جا
تیری منزل ہے عالمِ لاہوت
بے نیازِ غمِ جہاں ہو جا
تیرا مسلک غمِ محبت ہے
اپنے مسلک کا پاسباں ہو جا
مستقل اپنے دل کی آگ میں جل
آپ ہی اپنا امتحاں ہو جا
×××
اجنبی بستیوں سے تو منہ موڑ
آئے دن کا یہ رونا دھونا چھوڑ
جوگ لے اس کے گاوں میں جاکر
توڑ دنیا سے اپنے ناتے توڑ
×××
جوگ لینا ہے تو زمانے سے
ہر تعلق کو توڑلے پہلے
جسم کو چھوڑ ، روح کا رشتہ
ذاتِ واحد سے جوڑ لے پہلے
جس طرف منزلِ محبت ہے
رخ ادھر اپنا موڑ لے پہلے
×××
(جاری ہے)
"شاہ جو رسالو" اردو ترجمہ اشاعت اول جون 1963 ، شائع کردہ سندھ یونیورسٹی حیدر آباد سندھ
شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ، بسعی و اہتمام سندھ یونیورسٹی و وزارت تعلیم حکومت پاکستان
مترجم: شیخ ایاز
محمد یعقوب آسی
ہر تعلق کو خیر بادکہے
ترکِ دنیا ہے رمزِ لاہوتی
بس الف اور میم یاد رہے
×××
یہ صنم خانے اور یہ ناقوس
کاش ہٹ جائیں تیری راہوں سے
دیکھ ساجن تجھے بلاتا ہے
اپنا دامن بچا گناہوں سے
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اے بشر فکر این و آں سے بھاگ
تجھے نورِ ازل بلاتا ہے
بھاگ ہر اک غمِ جہاں سے بھاگ
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
تجھے لازم ہے نفس کا ایثار
جسم مندر ہے اور دل حجرہ
جوگ میں ہیں یہی ترے گھر بار
در بدر ڈھونڈھتا ہے تو جس کو
جلوہ گر تیرے دل میں ہے وہ نگار
×××
چھوڑ دے وہم کے صنم خانے
بھول جا آرزو کے افسانے
تیری راہِ طلب میں حائل ہیں
بستیاں ،شہر ، دشت ، ویرانے
در بدر اس کی جستجو تجھ کو
اس سے روشن دلوں کےافسانے
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اپنی ہستی کو غرقِ وحدت کر
عشق کی دھونیاں رما دل میں
نفس کو بیخ و بن سے غارت کر
یاد رکھ مدعائے ذکرِ خفی
صرف اسی ایک سے محبت کر
×××
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
محرمِ حسنِ جاوداں ہو جا
نہ رہے فرقِ آستان و جبیں
سر بسر خاکِ آستاں ہو جا
وہ ابلتے ہیں نور کےچشمے
سوئے مشرق رواں دواں ہو جا
بن کےراز آشنائے ذکرِ خفی
خلوتِ خاص میں نہاں ہو جا
تیری منزل ہے عالمِ لاہوت
بے نیازِ غمِ جہاں ہو جا
تیرا مسلک غمِ محبت ہے
اپنے مسلک کا پاسباں ہو جا
مستقل اپنے دل کی آگ میں جل
آپ ہی اپنا امتحاں ہو جا
×××
اجنبی بستیوں سے تو منہ موڑ
آئے دن کا یہ رونا دھونا چھوڑ
جوگ لے اس کے گاوں میں جاکر
توڑ دنیا سے اپنے ناتے توڑ
×××
جوگ لینا ہے تو زمانے سے
ہر تعلق کو توڑلے پہلے
جسم کو چھوڑ ، روح کا رشتہ
ذاتِ واحد سے جوڑ لے پہلے
جس طرف منزلِ محبت ہے
رخ ادھر اپنا موڑ لے پہلے
×××
(جاری ہے)
"شاہ جو رسالو" اردو ترجمہ اشاعت اول جون 1963 ، شائع کردہ سندھ یونیورسٹی حیدر آباد سندھ
شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ، بسعی و اہتمام سندھ یونیورسٹی و وزارت تعلیم حکومت پاکستان
مترجم: شیخ ایاز
محمد یعقوب آسی