محمد تابش صدیقی
منتظم
جشنِ بےچارگی
ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر
تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور
عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو
یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت
واللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت
نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا
بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا
اندوہ ٹپکتا تھا بشاشت کی نظر سے
مرجھائے سے رخسار تھے فاقوں کے اثر سے
کرتا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پرانی
مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جوانی
نوشاہ کے جو ساتھ آئے تھے دو چار براتی
ہر اک کی جبیں سے تھی عیاں نیک صفاتی
توقیر کے، الفت کے، شرافت کے مرقعے
ایثار کے، ایمان کے، غیرت کے مرقعے
ہمراہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا
مجمع تھا یہ جس خستہ و افسردہ مکاں پر
تھا بھیس میں شادی کے وہاں عالمِ محشر
دالان تھا گونجا ہوا رونے کی صدا سے
اک درد ٹپکتا تھا عرقناک ہوا سے
اماں کی تھی بیٹی کی جدائی سے یہ حالت
چیخوں میں ڈھلے جاتے تھے جذباتِ محبت
تھا باپ کا یہ حال کہ اندوہ کا مارا
اٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہارا
وہ آپ کہیں اور تھا اور جان کہیں تھی
سینے میں کوئی شے تھی جو قابو میں نہیں تھی
افلاس کے آرے جو جگر کاٹ رہے تھے
ارمان سب اپنا ہی لہو چاٹ رہے تھے
لڑکی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو سمیٹے
تھی پاؤں میں پازیب نہ پیشانی میں ٹیکا
اس خاکۂ افلاس کا ہر رنگ تھا پھیکا
انصافِ زمانہ تھا یا تقدیر کا چکر
ماں باپ کو آیا نہ تھا جوڑا بھی میسر
یوں کہنے کو دلہن تھی یہ مزدور کی دختر
اماں کا دوپٹہ تھا تو ابا کی تھی چادر
آخر نہ رہا باپ کو جذبات پہ قابو
تھرانے لگے ہونٹ ٹپکنے لگے آنسو
کہنے لگا نوشاہ سے اے جانِ پدر سن
اے وجہِ سکوں، لختِ جگر، نورِ نظر سن
گرچہ مری نظروں میں ہے تاریک خدائی
حاضر ہے مری عمر کی معصوم کمائی
کی لاکھ مگر ایک بھی کام آئی نہ تدبیر
مجبور ہوں مجبور یہ تقدیر ہے تقدیر
اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے
اس کے لئے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
بیٹی ہے مری دخترِ پرویز نہیں ہے
غربت میں یہ پیدا ہوئی غربت میں پلی ہے
خود داری و تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے
زنہار یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
ایسا نہ کرے گی کبھی ایسا نہ کرے گی
شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا
ہے صبر کی خوگر اسے فاقوں کی ہے عادت
ماں باپ سے پائی ہے وراثت میں قناعت
اسکی بھی خوشی ہو گی تمہاری جو رضا ہو
تم اس کے لئے دوسرے درجے پہ خدا ہو
پھر آ کے کہا بیٹی سے یہ نرم زباں سے
بچی مری رخصت ہے تو اب باپ سے ماں سے
اے جانِ پدر دیکھ وفادار ہی رہنا
آئے جو قیامت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا
دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
لاج اس مری داڑھی کی ترے ہاتھ ہے بیٹی
آیا جو نظر مجھ کو یہ جانکاہ نظارہ
احسان نہ آنکھوں کو رہا ضبط کا یارا
تپنے لگی ہر سانس مری سوزِ نہاں سے
اتنا ہے مجھے یاد کہ نکلا یہ زباں سے
اے خالقِ کونین یہ تو نے بھی سنا ہے
دنیا کا گماں ہے کہ غریبوں کا خدا ہے
تو جن کا خدا ان کا ہو گردش میں ستارہ
کیا تیرے کرم کو یہ ستم بھی ہے گوارا؟
کس طرح نہ ہو دل کو بھلا رنج و محن دیکھ
مزدور کے اس زندہ جنازے کا کفن دیکھ
احساس کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
انسان ہے انسان، خدا ہو نہیں سکتا
ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر
تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور
عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو
یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت
واللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت
نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا
بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا
اندوہ ٹپکتا تھا بشاشت کی نظر سے
مرجھائے سے رخسار تھے فاقوں کے اثر سے
کرتا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پرانی
مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جوانی
نوشاہ کے جو ساتھ آئے تھے دو چار براتی
ہر اک کی جبیں سے تھی عیاں نیک صفاتی
توقیر کے، الفت کے، شرافت کے مرقعے
ایثار کے، ایمان کے، غیرت کے مرقعے
ہمراہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا
مجمع تھا یہ جس خستہ و افسردہ مکاں پر
تھا بھیس میں شادی کے وہاں عالمِ محشر
دالان تھا گونجا ہوا رونے کی صدا سے
اک درد ٹپکتا تھا عرقناک ہوا سے
اماں کی تھی بیٹی کی جدائی سے یہ حالت
چیخوں میں ڈھلے جاتے تھے جذباتِ محبت
تھا باپ کا یہ حال کہ اندوہ کا مارا
اٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہارا
وہ آپ کہیں اور تھا اور جان کہیں تھی
سینے میں کوئی شے تھی جو قابو میں نہیں تھی
افلاس کے آرے جو جگر کاٹ رہے تھے
ارمان سب اپنا ہی لہو چاٹ رہے تھے
لڑکی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو سمیٹے
تھی پاؤں میں پازیب نہ پیشانی میں ٹیکا
اس خاکۂ افلاس کا ہر رنگ تھا پھیکا
انصافِ زمانہ تھا یا تقدیر کا چکر
ماں باپ کو آیا نہ تھا جوڑا بھی میسر
یوں کہنے کو دلہن تھی یہ مزدور کی دختر
اماں کا دوپٹہ تھا تو ابا کی تھی چادر
آخر نہ رہا باپ کو جذبات پہ قابو
تھرانے لگے ہونٹ ٹپکنے لگے آنسو
کہنے لگا نوشاہ سے اے جانِ پدر سن
اے وجہِ سکوں، لختِ جگر، نورِ نظر سن
گرچہ مری نظروں میں ہے تاریک خدائی
حاضر ہے مری عمر کی معصوم کمائی
کی لاکھ مگر ایک بھی کام آئی نہ تدبیر
مجبور ہوں مجبور یہ تقدیر ہے تقدیر
اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے
اس کے لئے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
بیٹی ہے مری دخترِ پرویز نہیں ہے
غربت میں یہ پیدا ہوئی غربت میں پلی ہے
خود داری و تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے
زنہار یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
ایسا نہ کرے گی کبھی ایسا نہ کرے گی
شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا
ہے صبر کی خوگر اسے فاقوں کی ہے عادت
ماں باپ سے پائی ہے وراثت میں قناعت
اسکی بھی خوشی ہو گی تمہاری جو رضا ہو
تم اس کے لئے دوسرے درجے پہ خدا ہو
پھر آ کے کہا بیٹی سے یہ نرم زباں سے
بچی مری رخصت ہے تو اب باپ سے ماں سے
اے جانِ پدر دیکھ وفادار ہی رہنا
آئے جو قیامت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا
دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
لاج اس مری داڑھی کی ترے ہاتھ ہے بیٹی
آیا جو نظر مجھ کو یہ جانکاہ نظارہ
احسان نہ آنکھوں کو رہا ضبط کا یارا
تپنے لگی ہر سانس مری سوزِ نہاں سے
اتنا ہے مجھے یاد کہ نکلا یہ زباں سے
اے خالقِ کونین یہ تو نے بھی سنا ہے
دنیا کا گماں ہے کہ غریبوں کا خدا ہے
تو جن کا خدا ان کا ہو گردش میں ستارہ
کیا تیرے کرم کو یہ ستم بھی ہے گوارا؟
کس طرح نہ ہو دل کو بھلا رنج و محن دیکھ
مزدور کے اس زندہ جنازے کا کفن دیکھ
احساس کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
انسان ہے انسان، خدا ہو نہیں سکتا