جغرافیہ

ضیاء حیدری

محفلین
جغرافیہ

حساب اور جغرافیہ یہ دو مضامین ہمیشہ ہماری کمزوری رہے ہیں۔۔۔ خیر حساب و کتاب سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ایک تو ہمارا اکاؤنٹ خالی ہے دوسرا قرض کا حساب کیا رکھنا کونسا چکانا ہوتا ہے.

اب دیکھو، ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں دریا کہاں بہتا ہے یا فلاں پہاڑ کہاں کھڑا ہے، اور ہمارا جواب ہوتا ہے: "بھائی، جو جہاں ہے، وہیں ٹھیک ہے، ہم کیوں سر کھپائیں؟" لیکن جب آپ کا جغرافیہ بدل جائے، جب آپ کی سرحدیں کٹ جائیں، تب یہ علم اچانک اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمسایہ ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے ہمیں جغرافیہ کی اہمیت کا احساس کچھ دیر سے ہوا، لیکن جب ہوا، تب تک نقشے ہی بدل چکے تھے۔ اب بھی دشمن ممالک بلوچستان میں کارروائی ڈال رہے ہیں وہ ہمارا جغرافیہ مزید بدلنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں کیا فکر؟
میں صرف آئین بدلنے کی فکر ہے۔۔

جغرافیہ پڑھنا ہمیں یوں لگتا ہے جیسے کوئی کہہ رہا ہو: "یہ زمین کی تاریخ نہیں، تمہاری تاریخ ہے، جسے تم نظر انداز کر رہے ہو!" لیکن ہمارا نظر انداز کرنا کیا اور اس سے سبق لینا کیا؟ آئندہ آنے والی نسلوں کو مؤرخ خود بتا دے گا کہ ہمارا جغرافیہ بار بار بدلنے کی وجوہات کیا تھیں۔
یہ ہماری ہی پلاننگ تھی کہ کوریا ایشیئن ٹائیگر بن گیا مگر دنیا ہمیں ترقی کرنے نہیں دیتی ہے اور تو اور ایران سے پائپ لائن بھی لینے نہیں دیتی ہے۔
ہم نے زمین پر بسنے والے لوگوں کی تعداد اور ان کی حرکات و سکنات پر اتنی گہری نظر رکھی کہ خود زمین بھی حیران ہے کہ یہ کیسی قوم ہے خود ترقی نہیں کرتی الزام دوسروں پر دھرتی ہے۔۔ اب تو ہم چاند کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کہیں وہ بھی ہماری ترقی کی رفتار میں حائل نہ ہو جائے۔

ابن رشد کے فلسفے کا تو ذکر ہی کیا، ان کے مطابق ذہانت ہر انسان کے لیے یکساں ہوتی ہے، لیکن ہم نے اس ذہانت کو اپنے جغرافیے میں جھگڑے ڈالنے اور سرحدیں کھینچنے میں زیادہ استعمال کیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک خلاؤں میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں، اور ہم زمین پر اپنی آبادی میں اضافے کے جھنڈے گاڑتے جا رہے ہیں۔ ان کا جغرافیہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہے، اور ہمارا؟ بس یہی دعا ہے کہ اگر ہمارا جغرافیہ اچھا ہوجائے، تو ہم بھی شاید کہیں کے کہیں پہنچ جائیں۔۔

اب ہم جغرافیہ کے اس نکتہ پر آتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ درد دیتا ہے، یعنی کولمبس صاحب کا امریکہ دریافت کرنا۔ اب آپ سوچئے، اگر کولمبس اپنے گھر میں ہی رہتا، تو نہ امریکہ دریافت ہوتا، نہ آج دنیا اتنے بڑے جغرافیائی جھمیلوں میں پڑی ہوتی۔ لیکن وہ شخص بے صبرا تھا، جو غلطی سے امریکہ دریافت کر بیٹھااور ہم ای غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جو کچھ امریکہ کرتا ہے، اس کا سارا ثواب و عذاب کولمبس کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں صرف عذاب ہی عذاب ہوتا ہے جو دنیا بھگتی ہے۔ بالخصوص مسلم ممالک۔ ویسے کولمبس بھی پچھتاتا ہوگا۔ "یہ میں نے کیا کر دیا!
 
Top