جلتا سسکتا غزہ۔۔۔۔۔۔ اور اسرائیل

فلسطینی شاعرسمیع القاسم کی ایک نظم



ترجمہ:امجد اسلام امجد



نہیں سلاخوں کے بس میں مجھ کو ہلاک کرنا
فصیلِ زنداں نہ روک پائے گی راہ میری
فضول ہے یہ شبِ سیہ کی تباہ کاری
کہ میرے خوں میں چمکتے دن کی نفیریاں ہیں
نظر میں اپنے ہی رنگ چھائے ہیں
اور ہونٹوں پہ جو صدا ہے وہ حرف جاں ہے
گئے ہوؤں کی عزیز روحو!
کبھی تو برزخ کی سرحدوں سے نکل کے آؤ
کبھی تو میرے زفاف کی شب میں مجھ کو دیکھو
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے فنا کی شب میں
جبین اپنی بلند رکھی
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے
سپیدئہ غم میں جانے والوں کی مغفرت کی دعائیں مانگیں
مغنیوں کی صدائیں راتوں میں گونجتی ہیں
لرز رہے ہیں تمام سازوں کے تار جیسے
کبھی نہ سوئیں گے اہل نغمہ
مرے وطن، اے متاع ہستی۔۔۔ کبھی تو سن لے
کہ ذرہ ذرہ تری سماعت کا منتظر ہے
قبول کرلے ہمارا نغمہ
جو پھول بن کر نواحِ زنداں کی شور مٹی میں کھل اٹھاہے
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
اور ایک بے باک قہقہہ ہے یہ گیت ان پر
جو اس کی بندش کے مدعی ہیں
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
میں ان کے آخر کے ظلم صفحوں کو ایک اک کر کے پھاڑتا ہوں
کبھی کبھی جب مری بصیرت شکست کھاتی ہے،
اور سوچیں، جہت بھلا کر بھٹکنے لگتی ہیں،
میری آنکھوں میں کوندجاتا ہے اپنے والد کا وہ تبسم
جو موت لمحے میں اس کے چہرے پہ ضو فگن تھا
دکھائی دیتے ہیں قاتلوں کے سیاہ چہرے
جو خوف ودہشت کے سرد جالے میں کانپتے ہیں
مجھے قفس کے محافظوں سے خطرہی کیا ہے
کہ ان کے بس میں نہ گیت میرے نہ پھول میرے،
نہ میری چاہت
مجھے قفس کے محافظوں سے خطر ہی کیا ہے!
کہ دستر س میں نہیں ہیں ان کی
وہ کنجیاں، جن سے میری جیبیں بھری ہوئی ہیں
مجھے کسی عارضے کا ڈر ہے،
نہ ان فیصلوں میں بربریت کے شاہکاروں کاخوف کوئی
کہ جب بھی چاہوں
نئی مسرت سے پرزمینوں کی سرخ مٹی میں منہ چھپانا
ہے میرے بس میں
نہیں ہے کہ کچھ بھی سلاک زنداں کی دسترس میں
کہ میری ساری حیات لمحہ ہے۔۔۔ ایک لمحہ
زمان چاہت کے لاکھ قرنوں میں ایک لمحہ
یہ قیدمیری ، مرے لیے ہے فقط تماشا
قضا ہے جس طرح کھیل کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہ شکریہ : عمران اسلم
 

شمشاد

لائبریرین
باباجی مجھے آپ کے جذبات کا پورا پورا احترام ہے۔ آپ ہی نہیں ہر درد مند دل کے یہی جذبات ہیں، لیکن غیرمناسب الفاظ استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
 

سید زبیر

محفلین
ساجد بھائی ! اس پر تبصرہ نہیں ماتم ہی کیا جا سکتا ہے امت مسلمہ علم و فن سے بے بہرہ ، خوف خدا کی بجائے دنیاوی فرعونوں سے خوفزدہ ہے اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہے ایک تمثیل ہے
ایک ماں اپنےمعصوم بچے کو نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہناتی ہے ۔آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے ۔بال بناتی ہے اور اسے باہر کھیلنے کے لیے بھیج دیتی ہے مگر تاکید کرتی ہے کہ گندگی کے قریب مت جانا ۔ بچہ باہر نکل کر گندگی میں کھیلتا ہے کپڑے اور جسم غلاظت سے آلودہ کر لیتا ہے ماں دروازے سے جھانک کر جب اپنے نور نظر کا یہ حال دیکھتی ہے تو وہ غصے میں باہر نکلتی ہے بچے کو خوب مارتی ہوئی گھرلے جاتی ہے پھر خود بھی روتی ہے ،بچے کو دوبارہ نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرتی ہے پیار سے اس کے آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے بال سنوارتی ہے اور پھر اسے دوبارہ کھیلنے کے لیے باہر بھیج دیتی ہے ۔
 

باباجی

محفلین
باباجی مجھے آپ کے جذبات کا پورا پورا احترام ہے۔ آپ ہی نہیں ہر درد مند دل کے یہی جذبات ہیں، لیکن غیرمناسب الفاظ استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
بس شمشاد بھائی
ایسی بربریت دیکھ کر
اور خاص طور سے َ امتِ مسلمہ کی بے حسی دیکھ جگر کٹ گیا ہے
میں معذرت کرتا ہوں ا پنے غیر مناسب لفظوں کی
مجھے یہ بات بہت کھل رہی ہے کہ اب وہ لوگ کہاں ہیں بھائی
جو اسرا ئیل کی لے پالک اولاد "امریکہ" کے حامی ہیں

اور مجھے پتا ہے وہ لوگ یہ دھاگہ ضرور دیکھیں گے
اور یہ بھی پتا ہے کہ وہ مسکراتے ہوئے اس دھاگے کو نظر انداز کردیں گے
 

arifkarim

معطل
اسرائیل کا وجود عالمی بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کی زندہ مثال ہے اور اس کی طرف سے معصوم اور مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نہ صرف بربریت و درندگی کی بدترین نظیر ہیں بلکہ مسلمان ریاستوں کے مخنث حکمرانوں کی بےبسی اور بےحسی کا عالمی سطح پر بھانڈہ پھوڑ رہے ہیں۔
اللھم نصر المجاہدین علی کل مکان! آمین یا رب العالمین
اگر غزہ کے لوگ صیہونی جارحیت کو روکنا چاہتے ہیں تو صیہونی آبادیوں کی طرف بے لگام راکٹ داغنا چھوڑ دیں۔ یہ آپریشن شروع ہی اسی لیئے ہوا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ہزاروں راکٹس جو قریباً ۱۰ سال سے صیہونی آبادیوں پر گر رہے ہیں کی روک تھام کی جائے!
http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Pillar_of_Cloud

ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ھے ان یہودیوں نے۔جوان بوڑھے عورتیں اور خصوصاّ بچے نا حق مارے جا رھے ھیں مگر نہ اسلام کے بڑے بڑے ٹھیکہ داروں کو کوئی پرواہ ھے اور نہ ان کو جو ایک ملالہ پر قاتلانہ ھونے پر سیخ پا ھو گئے تھے۔
بقول حماس کی اسلامی سوچ کے ’’تمام جنگ میں مرنے والے شہداء ہیں‘‘۔ یعنی جب انکو فکر ہی نہیں کہ اگر ہم صیہونی آبادیوں پر راکٹ داغیں گے تو اسکے جواب میں وہ بھی ہماری آبادیوں پر راکٹ ماریں گے اور اسکے نتیجہ میں کتنے بے گناہ لوگ ہلاک ہوں گے، تو پھر ایسے میں اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ پہلی تبدیلی سوچ کی تبدیلی ہے۔

خبروں میں سننے اور کسی اخبار میں چند سطری تحریر پڑھنے سے لگتا ہے جیسے یہ کوئی معمول کی کاروائی ہو رہی ہے اور ہوتا رہتا ہے یہ۔ فلسطینی بھی تو باز نہیں آتے راکٹ مارنے سے ، اب اسرائیل نے بھی تو اپنے "معصوم" شہریوں کے دفاع کے لیے اقدامات کرنے ہیں، جس کے لیے محترم اوبامہ نے کہا بھی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کا امن عمل فسلطینی میزائیلوں کے داغنے کی روک تھام سے شروع ہوتا ہے۔
فلسطینی بھلا کیوں باز آئیں گے راکٹ مارنے سے؟ انہی کے تو کرتوتوں کی تو سزا مل رہی ہے ان بے گناہوں کو جنکا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے!
صیہونیوں نے کئی بار دھمکی دی ہے کہ اگر آج غزہ کے فلسطینی انکی آبادیوں پر راکٹ داغنا بند کر دیں تو وہ اپنا آپریشن ختم کر دیں گے۔ لیکن ان جہادیوں کے کان پر تو شاید جوں بھی نہیں رینگتی۔ اتنی تباہی کے باوجود آج مزید راکٹ فائر کئے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Pillar_of_Cloud#20_November

ساجد بھائی ! اس پر تبصرہ نہیں ماتم ہی کیا جا سکتا ہے امت مسلمہ علم و فن سے بے بہرہ ، خوف خدا کی بجائے دنیاوی فرعونوں سے خوفزدہ ہے اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہے ایک تمثیل ہے
ایک ماں اپنےمعصوم بچے کو نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہناتی ہے ۔آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے ۔بال بناتی ہے اور اسے باہر کھیلنے کے لیے بھیج دیتی ہے مگر تاکید کرتی ہے کہ گندگی کے قریب مت جانا ۔ بچہ باہر نکل کر گندگی میں کھیلتا ہے کپڑے اور جسم غلاظت سے آلودہ کر لیتا ہے ماں دروازے سے جھانک کر جب اپنے نور نظر کا یہ حال دیکھتی ہے تو وہ غصے میں باہر نکلتی ہے بچے کو خوب مارتی ہوئی گھرلے جاتی ہے پھر خود بھی روتی ہے ،بچے کو دوبارہ نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرتی ہے پیار سے اس کے آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے بال سنوارتی ہے اور پھر اسے دوبارہ کھیلنے کے لیے باہر بھیج دیتی ہے ۔
صیہونیوں کی کل تعداد: 60لاکھ
http://en.wikipedia.org/wiki/Demographics_of_Israel
امت مسلمہ کی کل تعداد: 1،62 ارب
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_Muslim_population
اگر ہم سارے ملکر بھی صرف 60 لاکھ صیہونیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو کون سی امت مسلمہ اور کونسا اسلام؟
 

سید زبیر

محفلین
اگر غزہ کے لوگ صیہونی جارحیت کو روکنا چاہتے ہیں تو صیہونی آبادیوں کی طرف بے لگام راکٹ داغنا چھوڑ دیں۔ یہ آپریشن شروع ہی اسی لیئے ہوا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ہزاروں راکٹس جو قریباً ۱۰ سال سے صیہونی آبادیوں پر گر رہے ہیں کی روک تھام کی جائے!
http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Pillar_of_Cloud


بقول حماس کی اسلامی سوچ کے ’’تمام جنگ میں مرنے والے شہداء ہیں‘‘۔ یعنی جب انکو فکر ہی نہیں کہ اگر ہم صیہونی آبادیوں پر راکٹ داغیں گے تو اسکے جواب میں وہ بھی ہماری آبادیوں پر راکٹ ماریں گے اور اسکے نتیجہ میں کتنے بے گناہ لوگ ہلاک ہوں گے، تو پھر ایسے میں اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ پہلی تبدیلی سوچ کی تبدیلی ہے۔


فلسطینی بھلا کیوں باز آئیں گے راکٹ مارنے سے؟ انہی کے تو کرتوتوں کی تو سزا مل رہی ہے ان بے گناہوں کو جنکا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے!
صیہونیوں نے کئی بار دھمکی دی ہے کہ اگر آج غزہ کے فلسطینی انکی آبادیوں پر راکٹ داغنا بند کر دیں تو وہ اپنا آپریشن ختم کر دیں گے۔ لیکن ان جہادیوں کے کان پر تو شاید جوں بھی نہیں رینگتی۔ اتنی تباہی کے باوجود آج مزید راکٹ فائر کئے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Pillar_of_Cloud#20_November


صیہونیوں کی کل تعداد: 60لاکھ
http://en.wikipedia.org/wiki/Demographics_of_Israel
امت مسلمہ کی کل تعداد: 1،62 ارب
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_Muslim_population
اگر ہم سارے ملکر بھی صرف 60 لاکھ صیہونیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو کون سی امت مسلمہ اور کونسا اسلام؟
برادر عزیز arifkarim !قصور کس کا ہے ؟ اسلام کا یا ہم جیسے ننگ ملت اور ننگ دین کا ؟ جن میں دنیاوی محبت اس قدر سرائت کر گئی کہ دشمن سے جنگ کرنے سے گھبراتے ہیں اور خوفزدہ ہیں
آئیے دعا کرتے ہیں اللہ ہمیں قوت ایمانی اور اتحاد عطا فرمائے تا کہ پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ " سارے مسلمان ملکر بھی صرف 60 لاکھ صیہونیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے "
 
Top