نوید ناظم
محفلین
تُو روشنی کا سوچ کے یوں ہی انا میں ہے
جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے
ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو
واعظ بتا ذرا جو کہ تیری قبا میں ہے
توحید میں ہیں دونوں ہے تھوڑا سا فرق یہ
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے
بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں
یہ دل غبار ہے کوئی یا پھر خلا میں ہے
کوئی سفید پوش ہے بوڑھا فقیر بھی
معلوم پڑ رہا ہے جو لرزش صدا میں ہے
منت کشِ وفا بھی میں ہو سکتا ہوں نوید
پر ایک لطف ہے جو کہ اُس کی جفا میں ہے
جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے
ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو
واعظ بتا ذرا جو کہ تیری قبا میں ہے
توحید میں ہیں دونوں ہے تھوڑا سا فرق یہ
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے
بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں
یہ دل غبار ہے کوئی یا پھر خلا میں ہے
کوئی سفید پوش ہے بوڑھا فقیر بھی
معلوم پڑ رہا ہے جو لرزش صدا میں ہے
منت کشِ وفا بھی میں ہو سکتا ہوں نوید
پر ایک لطف ہے جو کہ اُس کی جفا میں ہے