راجہ صاحب

محفلین
جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈالا عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہانِ خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کامک رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سش سبب اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں
 
جلتا ہوں ہجرِ شاہد و یادِ شراب میں - حکیم مومن خان مومن

جلتا ہوں ہجرِ شاہد و یادِ شراب میں
شوقِ ثواب نے مجھے ڈالا عذاب میں

کہتے ہیں تجھ کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں

پھیلی شمیمِ یار میرے اشکِ سرخ سے
دل کو غضب فشار ہوا پیچ و تاب میں

رہتے ہیں جمع کوچہء جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں

بدنام میرے گریہء رسوا سے ہو چُکے
اب عذر کیا رہا نگاہِ بے حجاب میں

مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
حسرت بھی نہیں دلِ ناکامیاب میں

ناکامیوں سے کام رہا عمر بھر ہمیں
پیری میں یاس ہے جو ہوس تھی شباب میں

پیہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں

حکیم مومن خان مومن
 

راجہ صاحب

محفلین
بدنام میرے گریہء رسوا سے ہو چُک
اب عذر کیا رہا نگاہِ بے حجاب میں

مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
حسرت بھی نہیں دلِ ناکامیاب میں


خوبصورت انتخاب ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا لاجواب غزل ہے، ایک ایک شعر لا جواب ہے۔ شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!

بدنام میرے گریہء رسوا سے ہو چُک
اب عذر کیا رہا نگاہِ بے حجاب میں

یہ 'چکے' ہے شاید، درست کر دیا ہے!

مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
حسرت بھی نہیں دلِ ناکامیاب میں

یہاں سے کچھ محذوف ہے شاید، کیا آپ پھر دیکھ سکتے ہیں پلیز!
 

محمد وارث

لائبریرین
مزید یہ کہ 'چکے' والے شعر کے دوسرے مصرعے میں 'نگاہِ' کی بجائے شاید 'نگۂ' ہے، پلیز یہ بھی دیکھیے گا اگر ممکن ہو تو، نوازش!
 
مزید یہ کہ 'چکے' والے شعر کے دوسرے مصرعے میں 'نگاہِ' کی بجائے شاید 'نگۂ' ہے، پلیز یہ بھی دیکھیے گا اگر ممکن ہو تو، نوازش!

محترم وارث بھائی میرے پاس یہ غزل اسی طرح ہے جس طرح لکھی ہے ۔ باقی آپ کی رائے میرے لئے معتبر ہے ۔
شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ بھائی، ویسے اس سے مذکورہ اشعار میں وزن بگڑ رہا ہے اس لیے لکھ دیا، فرخ صاحب (سخنور) کے پاس بھی شاید کلیات مومن موجود ہیں اگر وہ دیکھ سکیں تو نوازش انکی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب آپ حکم دیں نوازش کی کیا بات ہے۔ :) یہ لیجیے مکمل غزل اغلاط سے پاک شدہ۔

جلتا ہوں ہجرِ شاہد و یادِ شراب میں
شوقِ ثواب نے مجھے ڈالا عذاب میں

کہتے ہیں تم کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں

پھیلی شمیمِ یار میرے اشکِ سرخ سے
دل کو غضب فشار ہوا پیچ و تاب میں

چینِ جبیں کو دیکھ کے دل بستہ تر ہوا
کیسی کشودِ کار کشادِ نقاب میں

ہم کچھ تو بد تھے جب نہ کیا یار نے پسند
اے حسرت اس قدر غلطی انتخاب میں

رہتے ہیں جمع کوچہء جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں

آنکھ اُس کی پھر گئی، دل اپنا بھی پر گیا
یہ اور انقلاب ہوا انقلاب میں

بدنام میرے گریہء رسوا سے ہو چُکے
اب عذر کیا رہا نگہِ بے حجاب میں

مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
حسرت بھی اب نہیں دلِ ناکامیاب میں

گویا کہ رو رہا ہوں رقیبوں کی جان کو
آتش زبانہ زن ہوئی طوفانِ آب میں

ناکامیوں سے کام رہا عمر بھر ہمیں
پیری میں یاس ہے جو ہوس تھی شباب میں

ہے اختیارِ یار میں سود و زیاں مگر
فاضل تھے ہم جہاں سے قضا کے حساب میں

ناصح ہے عیب جوے و دل آزار اس قدر
گویا ثواب ہے سخنِ ناصواب میں

دونوں کا ایک حال ہے یہ مدعا ہو کاش
وہ ہی خط اس نے بھیج دیا کیوں جواب میں

تقدیر بھی بری، مری تدبیر بھی بری
بگڑے وہ پرسشِ سبب اجتناب میں

کیا جلوے یاد آئے کہ اپنی خبر نہیں
بے بادہ مست ہوں میں شبِ ماہتاب میں

ہے منتوں کا وقت شکایت رہی رہی
آئے تو ہیں منانے کو وہ پر عتاب میں

تیری جفا نہ ہو تو ہے سب دشمنوں سے امن
بد مستِ غیر، محو دل اور بخت خواب میں

پیہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں
 

کاشفی

محفلین
راجہ صاحب اردو محفل والے، پیاسا صحرا صاحب اور فرخ منظور صاحب۔۔غزل شیئر کرنے کے لیئے شکریہ۔
 
Top