سید لبید غزنوی
محفلین
سید منورحسن جماعت اسلامی کے اس لحاظ سے خوش نصیب سربراہ ہیں کہ اُن کے دورِ امارت میں جماعت اسلامی کے چہرے سے ایک داغ دھل گیا ہے۔ سید منورحسن نے مشکل حالات میں امارت کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔ ان کے لیے یہ مشکل بھی تھی کہ قاضی حسین احمد جیسے سیاسی طور پر انتہائی متحرک، سیاسی قیادتوں میں مقبول اور عوامی سطح پر ہردلعزیز امیر کے بعد انہیں امارت سنبھالنا پڑی، جس کے لیے انہوں نے ابتدائی طور پر معذرت بھی کی اور اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں (اُن کی اپنی نظرمیں) کا ذکر بھی کیا، لیکن شوریٰ نے ان کی معذرت قبول نہ کی۔ چنانچہ سید صاحب نے شوریٰ کے سامنے سرنڈ کردیا اور سر جھکا کر اپنا کام شروع کردیا۔
ان کے امارت سنبھالنے کے بعد میڈیا میں یہ باتیں آتی رہیں کہ قاضی حسین احمد کے بعد انہیں جماعت کے اندر اور باہر بہت سی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ یہ بات زیادہ تر ایسے حلقوں کی جانب سے سامنے آئی جو جماعت کے مزاج اور تربیتی نظام کو گہرائی سے نہیں جانتے۔ جماعت اسلامی میں اطاعتِ امیر سیاسی ضرورت نہیں دینی تقاضا ہے۔ یہاں امیر کی اطاعت بھی زیادہ اخلاص سے کی جاتی ہے اور اس کا احتساب بھی بہت کڑے انداز میں ہوتا ہے۔ یہاں نہ اطاعت کے پیچھے کوئی لالچ یا منفعت ہوتی ہے اور نہ احتساب اور تنقید کے پیچھے سیاسی مقاصد … شاید یہی کڑا نظام ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی اندرونی طور پر کبھی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور باہر یہ تاثر موجود رہا کہ جماعت اسلامی انتہائی منظم جماعت ہے۔ عوامی سطح پر اس کی پذیرائی کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے لیکن اس کے نظم و ضبط، اخلاص و قربانی کے دوست دشمن سب قائل رہے۔
اپنے سیاسی سفر کے دوران دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی کو بھی بہت سے الزامات کا سامنا رہا اور مختلف ادوار میں اس کے دامن کوداغ دار کرنے کے لیے پراپیگنڈے اور الزامات کے چھینٹے اڑائے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی پر عوامی سطح کا پہلا الزام پاکستان کی مخالفت کا لگایاگیا۔ کہا گیا کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ یہ الزام اس قدر تواتر سے لگایا گیا کہ ناواقفوں کو یہ الزام سچ لگنے لگا۔ حالانکہ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ میں دو قومی نظریے کو مسلم لیگ سے بھی زیادہ اچھے انداز میں پیش کیا تھا، اور تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ نے مولانا کی اس کتاب کے بعض اقتباسات عوام میں تقسیم بھی کرائے تھے۔ البتہ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی نے مسلم لیگی قیادت پر جن تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ نہ صرف بعد میں سچ ثابت ہوئے بلکہ خود مسلم لیگ کے اندرونی حلقوں نے مولانا مودودیؒ سے بڑھ کر اپنی قیادت پر تنقید کی اور الزامات لگائے۔
تحریکِ پاکستان کے دوران جماعت اسلامی پر یہ الزام لگا کہ مولانا مودودی نے قائداعظم کو ’’کافراعظم ‘‘قرار دیا تھا۔ اور یہ الزام ابھی تک بعض نام نہاد دانشور اور میڈیا پر چھائے ہوئے لوگ اپنی کم علمی بلکہ بے علمی کے باعث لگا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ الزام مولانا مودودی یا جماعت اسلامی نے کبھی نہیں لگایا۔ یہ الزام مجلس احرار کے شیعہ رہنما مرزا مظہرعلی اظہرنے (جو بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اس وجہ سے ان کے کسی سمجھدار مخالف نے مرزا اِدھر علی اُدھر کا نام دیا تھا) اپنے ایک شعر میں لگایا تھاجسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ عذر گناہ بدتر از گناہ
یہ الزام چونکہ واقعاتی طور پر غلط تھا، بعد میں پاکستان کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے سیاسی مؤقف اور رول نے اس الزام کو خود دھو دیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد جماعت اسلامی پر الزام لگا کہ بانیٔ جماعت نے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی بار بار اس کی وضاحت کرتے رہے، لیکن کسی نے نہ سنی۔ بعد میں جہادِ کشمیر میں جماعت اسلامی نے جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس میدان میں گراں قدر قربانیاں دیں انہوں نے اس الزام کی اصل حقیقت عوام کے سامنے کھول رکھ دی کہ جس جماعت پر جہادِ کشمیر کو حرام قرار دینے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اُس کے کارکن تو کشمیر میں جاکر جانی قربانیاں دے رہے ہیں، اور جو لوگ دن رات یہ الزامات لگا رہے تھے وہ مذمتی بیانات سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے۔
1964ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر جماعت اسلامی پر الزام لگا کہ وہ عورت کی حکمرانی کی قائل ہے، حالانکہ اسلام میں عورت کی حکمرانی اور سربراہی کا تصور نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے ان ہی دنوں اس کی وضاحت کردی تھی کہ یہ ایک بڑی اور ایک چھوٹی برائی کی موجودگی میں چھوٹی برائی کو قبول کرنے کی بات ہے۔ لیکن یار لوگوں نے اپنے الزامات کا سلسلہ جاری رکھا… بعد میں اس معاملے میں سب سے زیادہ تنقید کرنے والوں نے بے نظیر کی قیادت کو اپوزیشن اور حکومت دونوں حیثیتوں میں قبول کیا۔ اس طرح اس الزام کی اصل حقیقت عوام کے سامنے آگئی۔
ضیاء الحق کے دور کے بعد جماعت اسلامی پر مسلسل یہ الزام لگتا رہا کہ وہ فوج کی بی ٹیم ہے۔ یہ الزام لگانے والے خود تو فوج کی اے ٹیم کے طور پر کام کرتے رہے لیکن جماعت اسلامی کو بی ٹیم ہونے کا طعنہ دیتے رہے۔ یہ الزام 1977ء سے 2013ء تک لگتا رہا۔ اس دوران چونکہ 2002ء میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ ہونے کی وجہ سے شریکِ اقتدار بھی رہی، اس لیے یہ الزام زیادہ شدت اختیار کرگیا۔ لیکن خدا نے یہ داغ دھونے کا موقع سید منور حسن کو فراہم کردیا کہ اُن کے ایک ٹی وی انٹرویو پر ایسی لے دے ہوئی کہ فوج کے ترجمان ادارے کو اس پر باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فوج کے ترجمان ادارے نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف باقاعدہ بیان جاری کیا، یہ الگ بات ہے کہ فوج کے اس حساس ادارے نے اصل بات کو سمجھے بغیر ہی اس پر اپنا ردعمل جاری کردیا اور جماعت اسلامی اور سید منورحسن سے اس پر معافی مانگنے اور بیان واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ حالانکہ سید منورحسن نے اپنی اس ٹی وی گفتگو میں پاکستانی فوجیوں کو غیر شہید قرار نہیں دیا تھا۔ انہوں نے تو صرف ایک سوال اٹھایا تھا اور اس بارے میں رائے مانگی تھی، جس پر میڈیا کے ایک گروپ نے طوفان کھڑا کردیا اور اپنے خاص مقاصد کے تحت جماعت اسلامی اور امیر جماعت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی۔ آئی ایس پی آر کا بیان بھی شاید اس میڈیا گروپ کے صحافتی دبائو ہی کے باعث منظرعام پر آیا تھا…یہ ایک مشکل وقت تھا۔ ایک طرف فوج اور اس کی پشت پر موجود طاقتور میڈیا اور فوج کی ایجنٹی پر تیار سیاسی جماعتیں تھیں، اور دوسری جانب الزامات کے دبائو میں بے چاری جماعت اسلامی… لیکن سلام ہے جماعت اسلامی پر کہ اس کی قیادت ڈٹ گئی۔ بیان واپس لینے اور معافی مانگنے کے بجائے انہوں نے خود آئی ایس پی آر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کو خط بھی لکھ دیا کہ وہ اس سیاسی مداخلت کے خلاف کارروائی کریں۔ ایک طرف جماعت اسلامی سیاسی بلوغت اور سیاسی جرأت کا مظاہرہ کررہی تھی تو دوسری جانب وزیراعظم اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگ بلاوجہ بچھے جا رہے تھے… اس صورت حال نے اور اس میں جماعت کی قیادت کی جرأت اور بالغ نظری نے دہائیوں سے لگا ہوا یہ داغ دھو ڈالا کہ وہ فوج کی بی ٹیم ہے۔ اس ماحول میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فوج کی اصل ٹیمیں (A سے Z تک) کون سی ہیں۔ سید منور حسن نے جماعت سے یہ پالیسی منظور کرائی تھی کہ وہ اپنی سیاسی قوت پر بھروسا کرے گی۔ ایجنسیوں کے ذریعے سیاست کرنے سے انکار کردینا چاہیے، چاہے اس میں اس کا کچھ نقصان ہی کیوں نہ ہو… بعد میں انہوں نے کھل کر اس کا اظہار اس موقع پر کیا جب انتخابات سے ذرا قبل تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کررہی تھیں۔ ایم کیو ایم سے بہت سے زخم کھانے کے باوجود سید منور حسن نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور کہا کہ فوج آپ کے کہنے پر آ تو جائے گی لیکن واپس اپنی مرضی سے ہی جائے گی۔ اس جرأت مندانہ فیصلے سے سید منور حسن کا سیاسی قد بڑھا اور آئی ایس پی آر کے حملے کے سامنے سپر ڈالنے سے انکار پر ان کا سیاسی قد بہت زیادہ بڑھ گیا، اور اب لگتا ہے کہ 1977ء میں کراچی کے گلی کوچوں میں جو نعرہ گونجتا تھا کہ صبح منور شام منور… روشن تیرا نام منور۔
اب یہ نعرہ کراچی سے نکل کر پورے ملک میں گونج سکتا ہے بشرطیکہ جماعت اسلامی اس کے لئے مناسب ہوم ورک اور تیاری کر لے ۔
ان کے امارت سنبھالنے کے بعد میڈیا میں یہ باتیں آتی رہیں کہ قاضی حسین احمد کے بعد انہیں جماعت کے اندر اور باہر بہت سی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ یہ بات زیادہ تر ایسے حلقوں کی جانب سے سامنے آئی جو جماعت کے مزاج اور تربیتی نظام کو گہرائی سے نہیں جانتے۔ جماعت اسلامی میں اطاعتِ امیر سیاسی ضرورت نہیں دینی تقاضا ہے۔ یہاں امیر کی اطاعت بھی زیادہ اخلاص سے کی جاتی ہے اور اس کا احتساب بھی بہت کڑے انداز میں ہوتا ہے۔ یہاں نہ اطاعت کے پیچھے کوئی لالچ یا منفعت ہوتی ہے اور نہ احتساب اور تنقید کے پیچھے سیاسی مقاصد … شاید یہی کڑا نظام ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی اندرونی طور پر کبھی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور باہر یہ تاثر موجود رہا کہ جماعت اسلامی انتہائی منظم جماعت ہے۔ عوامی سطح پر اس کی پذیرائی کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے لیکن اس کے نظم و ضبط، اخلاص و قربانی کے دوست دشمن سب قائل رہے۔
اپنے سیاسی سفر کے دوران دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی کو بھی بہت سے الزامات کا سامنا رہا اور مختلف ادوار میں اس کے دامن کوداغ دار کرنے کے لیے پراپیگنڈے اور الزامات کے چھینٹے اڑائے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی پر عوامی سطح کا پہلا الزام پاکستان کی مخالفت کا لگایاگیا۔ کہا گیا کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ یہ الزام اس قدر تواتر سے لگایا گیا کہ ناواقفوں کو یہ الزام سچ لگنے لگا۔ حالانکہ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ میں دو قومی نظریے کو مسلم لیگ سے بھی زیادہ اچھے انداز میں پیش کیا تھا، اور تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ نے مولانا کی اس کتاب کے بعض اقتباسات عوام میں تقسیم بھی کرائے تھے۔ البتہ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی نے مسلم لیگی قیادت پر جن تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ نہ صرف بعد میں سچ ثابت ہوئے بلکہ خود مسلم لیگ کے اندرونی حلقوں نے مولانا مودودیؒ سے بڑھ کر اپنی قیادت پر تنقید کی اور الزامات لگائے۔
تحریکِ پاکستان کے دوران جماعت اسلامی پر یہ الزام لگا کہ مولانا مودودی نے قائداعظم کو ’’کافراعظم ‘‘قرار دیا تھا۔ اور یہ الزام ابھی تک بعض نام نہاد دانشور اور میڈیا پر چھائے ہوئے لوگ اپنی کم علمی بلکہ بے علمی کے باعث لگا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ الزام مولانا مودودی یا جماعت اسلامی نے کبھی نہیں لگایا۔ یہ الزام مجلس احرار کے شیعہ رہنما مرزا مظہرعلی اظہرنے (جو بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اس وجہ سے ان کے کسی سمجھدار مخالف نے مرزا اِدھر علی اُدھر کا نام دیا تھا) اپنے ایک شعر میں لگایا تھاجسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ عذر گناہ بدتر از گناہ
یہ الزام چونکہ واقعاتی طور پر غلط تھا، بعد میں پاکستان کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے سیاسی مؤقف اور رول نے اس الزام کو خود دھو دیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد جماعت اسلامی پر الزام لگا کہ بانیٔ جماعت نے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی بار بار اس کی وضاحت کرتے رہے، لیکن کسی نے نہ سنی۔ بعد میں جہادِ کشمیر میں جماعت اسلامی نے جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس میدان میں گراں قدر قربانیاں دیں انہوں نے اس الزام کی اصل حقیقت عوام کے سامنے کھول رکھ دی کہ جس جماعت پر جہادِ کشمیر کو حرام قرار دینے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اُس کے کارکن تو کشمیر میں جاکر جانی قربانیاں دے رہے ہیں، اور جو لوگ دن رات یہ الزامات لگا رہے تھے وہ مذمتی بیانات سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے۔
1964ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر جماعت اسلامی پر الزام لگا کہ وہ عورت کی حکمرانی کی قائل ہے، حالانکہ اسلام میں عورت کی حکمرانی اور سربراہی کا تصور نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے ان ہی دنوں اس کی وضاحت کردی تھی کہ یہ ایک بڑی اور ایک چھوٹی برائی کی موجودگی میں چھوٹی برائی کو قبول کرنے کی بات ہے۔ لیکن یار لوگوں نے اپنے الزامات کا سلسلہ جاری رکھا… بعد میں اس معاملے میں سب سے زیادہ تنقید کرنے والوں نے بے نظیر کی قیادت کو اپوزیشن اور حکومت دونوں حیثیتوں میں قبول کیا۔ اس طرح اس الزام کی اصل حقیقت عوام کے سامنے آگئی۔
ضیاء الحق کے دور کے بعد جماعت اسلامی پر مسلسل یہ الزام لگتا رہا کہ وہ فوج کی بی ٹیم ہے۔ یہ الزام لگانے والے خود تو فوج کی اے ٹیم کے طور پر کام کرتے رہے لیکن جماعت اسلامی کو بی ٹیم ہونے کا طعنہ دیتے رہے۔ یہ الزام 1977ء سے 2013ء تک لگتا رہا۔ اس دوران چونکہ 2002ء میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ ہونے کی وجہ سے شریکِ اقتدار بھی رہی، اس لیے یہ الزام زیادہ شدت اختیار کرگیا۔ لیکن خدا نے یہ داغ دھونے کا موقع سید منور حسن کو فراہم کردیا کہ اُن کے ایک ٹی وی انٹرویو پر ایسی لے دے ہوئی کہ فوج کے ترجمان ادارے کو اس پر باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فوج کے ترجمان ادارے نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف باقاعدہ بیان جاری کیا، یہ الگ بات ہے کہ فوج کے اس حساس ادارے نے اصل بات کو سمجھے بغیر ہی اس پر اپنا ردعمل جاری کردیا اور جماعت اسلامی اور سید منورحسن سے اس پر معافی مانگنے اور بیان واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ حالانکہ سید منورحسن نے اپنی اس ٹی وی گفتگو میں پاکستانی فوجیوں کو غیر شہید قرار نہیں دیا تھا۔ انہوں نے تو صرف ایک سوال اٹھایا تھا اور اس بارے میں رائے مانگی تھی، جس پر میڈیا کے ایک گروپ نے طوفان کھڑا کردیا اور اپنے خاص مقاصد کے تحت جماعت اسلامی اور امیر جماعت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی۔ آئی ایس پی آر کا بیان بھی شاید اس میڈیا گروپ کے صحافتی دبائو ہی کے باعث منظرعام پر آیا تھا…یہ ایک مشکل وقت تھا۔ ایک طرف فوج اور اس کی پشت پر موجود طاقتور میڈیا اور فوج کی ایجنٹی پر تیار سیاسی جماعتیں تھیں، اور دوسری جانب الزامات کے دبائو میں بے چاری جماعت اسلامی… لیکن سلام ہے جماعت اسلامی پر کہ اس کی قیادت ڈٹ گئی۔ بیان واپس لینے اور معافی مانگنے کے بجائے انہوں نے خود آئی ایس پی آر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کو خط بھی لکھ دیا کہ وہ اس سیاسی مداخلت کے خلاف کارروائی کریں۔ ایک طرف جماعت اسلامی سیاسی بلوغت اور سیاسی جرأت کا مظاہرہ کررہی تھی تو دوسری جانب وزیراعظم اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگ بلاوجہ بچھے جا رہے تھے… اس صورت حال نے اور اس میں جماعت کی قیادت کی جرأت اور بالغ نظری نے دہائیوں سے لگا ہوا یہ داغ دھو ڈالا کہ وہ فوج کی بی ٹیم ہے۔ اس ماحول میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فوج کی اصل ٹیمیں (A سے Z تک) کون سی ہیں۔ سید منور حسن نے جماعت سے یہ پالیسی منظور کرائی تھی کہ وہ اپنی سیاسی قوت پر بھروسا کرے گی۔ ایجنسیوں کے ذریعے سیاست کرنے سے انکار کردینا چاہیے، چاہے اس میں اس کا کچھ نقصان ہی کیوں نہ ہو… بعد میں انہوں نے کھل کر اس کا اظہار اس موقع پر کیا جب انتخابات سے ذرا قبل تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کررہی تھیں۔ ایم کیو ایم سے بہت سے زخم کھانے کے باوجود سید منور حسن نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور کہا کہ فوج آپ کے کہنے پر آ تو جائے گی لیکن واپس اپنی مرضی سے ہی جائے گی۔ اس جرأت مندانہ فیصلے سے سید منور حسن کا سیاسی قد بڑھا اور آئی ایس پی آر کے حملے کے سامنے سپر ڈالنے سے انکار پر ان کا سیاسی قد بہت زیادہ بڑھ گیا، اور اب لگتا ہے کہ 1977ء میں کراچی کے گلی کوچوں میں جو نعرہ گونجتا تھا کہ صبح منور شام منور… روشن تیرا نام منور۔
اب یہ نعرہ کراچی سے نکل کر پورے ملک میں گونج سکتا ہے بشرطیکہ جماعت اسلامی اس کے لئے مناسب ہوم ورک اور تیاری کر لے ۔