محمد علم اللہ
محفلین
باسمہ تعالیٰ
(مع پس منظر و تفصیلات)
الف) تعارف
دستوری اعتبار سے ہندوستان، پارلیمانی طرز حکومت کا حامل خود مختار، سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ دستور ہند میں ایک ایسے ملک کی تعمیر کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کے خمیر میں عدل، آزادی اور مساوات کی قدریں شامل ہیں۔چنانچہ اب یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ دستور کے ان بنیادی مقاصد کی تکمیل کو یقینی بنائے ۔ اس سلسلے میں ریاست عوام کے سامنے جوابدہ ہے عوام ووٹ کے ذریعہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ عوام کے لئے ووٹ کے استعمال کا دستوری معیار یہی تصور ہے۔ اس تصورکو معیار بناکر ووٹ کی طاقت کا استعمال متوقع ہے۔
لیکن تعمیر کایہ تصور، آزادی کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں بری طرح مجروح ہواہے۔ ترقی کے ناقص منصوبے نے ایک ایسی عدم مساوات کو جنم دیا ہے جس کی مثال نہیںملتی۔ شہریوں کے درمیان دیہی و شہری کا فرق موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ذات پات فرقے، مذہب اور نسل کے حوالے سے بھی تفریق پیدا ہو چکی ہے۔
ملکی سماج کے کمزور طبقات اور اقلیتیں آج بھی انصاف کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ حکومتی اداروں اور معاشی وسائل سے استفادہ کے عمل میں ان کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہے۔عوام پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور اکثر اوقات یہ زیادتی اُنہی اداروں کی جانب سے ہوتی ہے جو عوام کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ملک کے سب سے محروم طبقہ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ عدم تحفظ کے شدیداحساس کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مسلمان بجا طور پر فرقہ پرستانہ فسطائیت کو اپنے تہذیبی تشخص کے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی ریاست ایک غیر جانب دار، غیر متعصب اور منصف و محافظ ادارے کا کردار ادا کرنے اور اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فسطائی و کلیت پسند سیاسی تحریکات کا عروج ملک کے لئے سم قاتل ہے۔ یہ مظہر دستور کی اچھی قدروں اور ملک کے تکثیری و جمہوری ڈھانچے کے لئے شدید خطرہ ہے اور ملک کے اتحاد اور سا لمیت اور ہندوستان کے تصور کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کرپشن رفتہ رفتہ ایک بے قابو عفریت کا روپ اختیار کرچکا ہے جس کے آگے پورا نظام بے بس نظر آتا ہے۔ سیاسی ادارے ہر سطح پرکرپشن کا شکار ہیں۔ اس کے تباہ کن اثرات نے نوکر شاہی کو مفلوج کردیا ہے اور اب میڈیا و عدلیہ بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ خوفِ خدا اور اخلاق و روحانیت وہ عوامل ہیں جو ایک کامل اور منضبط سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہب کا استعمال زیادہ تر اختلافات کو ہوا دینے، سماج میں تفرقہ برپا کرنے اور کمزوروں کا استحصال کرنے کے لئے کیا گیا ہے، جب کہ مذہب کی حقیقی روح بیدار کی جائے توہندوستان جیسے مذہبی سماج میں مذہبی و روحانی اقدار ایک صحتمند سماجی انقلاب برپا کرنے میں تعمیری کردار اد اکر سکتی ہیں۔
2014 کے انتخابات، عوام کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ دستورِ ہند میں تسلیم شدہ تعمیری اقدار کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کریں۔
ب)حکومت کا فرضِ منصبی
ایک تکثیری، ترقی پسند اور وسیع الظرف (inclusive) ہندوستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے درج ذیل نکات کو ہر سنجیدہ سیاسی پارٹی کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے:
۱) تمام شہریوں کے لئے خوراک، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور باوقار زندگی کی ضمانت نیز منصفانہ تصورِ ترقی پر مبنی فلاحی ریاست کا قیام۔
۲) درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، مسلمانوں، سماج کے دیگر محروم طبقات دیہی علاقوں، ملک کے محروم خطوں کی ہمہ جہت ترقی اور استقلال (empowerment) پر خصوصی توجہ دے کر ملکی فضا میں صحت مند تبدیلی لانا۔
۳) دہشت گردی کے عوامل کا موثر تدارک، دہشت گردی کا ازالہ تاکہ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہو سکے۔ ظلم، تشدد، ریاستی مظالم اور فرقہ وارانہ فسادات کا موثرانسداد، غریبوں، عورتوں ، مسلمانوں اور ملک کے غیر محفوظ طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
۴) کرپشن بے حیائی جنسی جرائم، اقربا پروری، سیاست میں مجرمانہ عناصر کے نفوذ،ناروا امتیازات اور تفرقہ اندازی جیسی برائیوں کے خلاف موثر اقدام ،دیانت و امانت ،عفت و عصمت اوروسعت نظر کی قدروں کا فروغ ہر کمیونٹی کے تشخص کا احترام ریاستی مشینری اور سیاسی ڈھانچہ کو اخلاقی اقدار کا پابند بنانا۔
ج)پالیسی سازاقدامات
درج بالا مقاصد کے حصول کے لئے ہم عوام کی تائید کی متمنی پارٹیوں سے کہتے ہیں کہ وہ واضح الفاظ میں درج ذیل قانونی و پالیسی ساز اقدامات پر مبنی 15 نکاتی پروگرام کے نفاذ کا وعدہ کریں۔
۱) دستور کے حصہ سوم میں مناسب ترمیم کی جائے جس کے ذریعہ ملک کے تمام شہریوں کے ضروریاتِ زندگی کے حق "right to livelihood"کو تسلیم کیا جائے اس کے تحت خوراک، کپڑے، گھر، تعلیم اور صحت جیسی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت ہو۔
۲) رنگناتھ مشرا کمیٹی رپورٹ کو نافذ کیا جائے۔ تعلیم اور ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے ریزرویشن دیا جائے ، جس میں دس فیصد ذیلی کوٹا مسلم اقلیت کے لئے محفوظ ہو۔
۳) سچر کمیٹی رپورٹ کے مجوزہ ’ اشاریہ تنوع‘ Diversity Index Concept کو حکومتی و نجی شعبوں میں نافذ کیا جائے تاکہ دلتوں، مسلمانوں و دیگر محروم طبقات کو بہتر مواقع میسر آسکیں۔ تمام حکومتی امداد و گرانٹز اس Diversity Index Concept پر مبنی ہوں۔
۴) MNREGA دیہی روزگارقانون میں ترمیم کے ذریعہ سال کے پورے 365 دن روزگار کی ضمانت ہو اسی طرح کا ایک قانون شہروں میں رہنے والے غرباء کے لیے بنا یا جائے۔سماجی بہبود Corporate Social Responsibility کے اصول کے تحت قانون بنا کر نجی شعبے کو دیہی علاقوں میں روزگار پیدا کرنے کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
۵) نیشنل ایڈوائزری کونسل کی جانب سے پیش کردہ فرقہ وارانہ فسادات (حفظ ماتقدم، انسداد اور متاثرین کی باز آبادکاری)بل کو معقول ترمیمات کے ساتھ پیش اور منظور کیا جائے۔ اس قانون کے ذریعہ نوکرشاہی کو اپنے کاموں کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جائے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کو حقیقی انصاف فراہم کیا جائے۔
۶) مرکزی سطح کے تمام سیکورٹی قوانین مثلاً NIA, AFSPA, UAPAاوراس طرح کے ریاستی قوانین، نیزانفارمیشن ٹکنالوگی (IT) , Act 2000 IPCو دیگر قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ بین الاقوامی قانون file:///C:/Users/ALAMISLAHI/Downloads/JIH%20Manshoor%20ka%20Khulasa%20(1).inpاورInternational Covenant of Civil and Political Rights کے بیان کردہ اصولوں سے ہم آہنگ قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح Convention against Torture and other Cruel, Inhuman, or Degrading Treatment or Punishment اور اس کے اختیاری پروٹوکول یعنی International Convention for the Protection of All Persons from Enforced Disappearance کی توثیق کی جائے اور ان کنونشنس کے مطابق ملکی قوانین میں مناسب ترمیم ہو۔
۷) ایک آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کے ذریعہ تخریب کاری کے واقعات اور الزامات کی منصفانہ تحقیق ہو۔ دہشت گردی کے مقدمات کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کے قیام کی راہ ہموارکی جائے۔ نا معقول قوانین اور دھاندلی کے شکار متاثرین کے لئے تلافی کا نظم کیا جائے اور فرضی مقدمات کے ذریعہ بے گناہوں کو پھنسانے والوں کو سزا دی جائے۔
۸) نجی کارپوریشنز اور غیر سرکاری اداروں (NGOs) کو Jan Lokpal Bill کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے اس Bill کو منظورکیا جائے۔ بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات ہوں۔ قانونِ حق معلومات (RTI) میں ترمیم کر کے اس کی خامیوں پر قابو پایا جائے۔ سبھی سرکاری کاموں اور معاملات میں مکمل شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے e-governance کو رائج کیا جائے۔
۹) پولس فورس کو مستعد (Professional) اور انسان دوست بنانے کے لئے قومی پولس کمیشن کی سفارشات نافذ کی جائیں اور پولس نظام میں ہمہ گیر اصلاح کی جائے۔ پولس فورس کو سب کی نمائندہ اور غیر متعصب بنانے کے لئے اس فورس میں اقلیتوں کے لئے ۲۵ فی صد ریزرویشن ہو۔قومی کمیشن برائے اقلیت کی سفارشات نافذ کی جائیں۔
۱۰) خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت اور جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کی جائے قانونی ترمیمات کے ذریعہ مجرمین کے لیے سخت سزا کو یقینی بنایا جائے۔ سماج میں اخلاقی اقدار اور عفت و عصمت(discipline) کو فروغ دینے کے لئے تعلیمی پالیسی میں مناسب ترمیم ہو۔ میڈیا، فلم اور لٹریچر کے ذریعہ فحاشی کے فروغ کو روکا جائے۔ اس سلسلے میں censor کے قوانین و ضوابط میں بھی مناسب ترمیم ہو۔
۱۱) بجٹ میں تعلیم کیلئے قومی آمدنیGDP کی 8 فی صد اور صحت کے لئے GDP کی 5 فی صد رقم مختص کی جائے اور اس میں ممکنہ اضافہ کیاجائے۔
۱۲) زرعی سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور اس کا نفاذ ہو۔کسانوں کے لیے قومی کمیشن کی سفارشات نافذ ہوں۔ کارپوریٹ کھیتی اورموہوم سودوں Future selling کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ فصل کے نقصان کی صورت میں کسانوں کی مدد کے لئے Calamity Fund کے طرز پر فنڈ قائم کیا جائے۔
۱۳) سماجی و انسانی فلاح و بہبود میں حکومتی رول کو بڑھاکر اقتصادی پالیسی میں اصلاحات کی جائے۔ مالدار طبقہ پر ٹیکس زیادہ ہو بالواسطہ ٹیکسوں کے مقابلے میں بلاواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ بجٹ کو سماج کے محروم طبقات مثلاً دلت، آدی واسی و مسلمان آبادی، خواتین، دیہی علاقوں ، شہرکے غریب باشندوں اور معذورین کی خدمت کا ذریعہ بنایا جائے۔ پنج سالہ منصوبوں میں ایک ’’مسلم کمپوننٹ پلان‘‘ شامل ہو۔
۱۴) بینکنگ میں غیر سودی مالیات کو متعارف کرایا جائے۔ ڈاکٹر رگھورام راجن کی سرکردگی میں پلاننگ کمیشن کی Financial Sector Reforms کمیٹی نے اس امر کی سفارش کی ہے،موجود قوانین میں مناسب ترمیم کی جائے تاکہ ملک کے محروم طبقات اور اقلیتیں مجموعی ترقی inclusive growth کے ثمرات سے فیضیاب ہوسکیں۔
۱۵) دستور میں مناسب ترمیم کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی اہم عالمی معاہدے کے انعقاد یا ملک کی خارجہ پالیسی میں اساسی تبدیلی کے لئے پارلیمینٹ کی توثیق ضروری ہو۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی آزاداور منصفانہ ہو، استعمار مخالف ہو، جمہوریت اور انسانیت دوستی کے اصولوں پر مبنی ہو،اس پالیسی کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوں، جنوبی خطے میں تعاون South-South Cooperation کی راہ ہموار ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی اور دستوری اقدار میں ہم آہنگی پائی جائے ۔
٭٭٭
موصول از : ای میل
(مع پس منظر و تفصیلات)
الف) تعارف
دستوری اعتبار سے ہندوستان، پارلیمانی طرز حکومت کا حامل خود مختار، سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ دستور ہند میں ایک ایسے ملک کی تعمیر کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کے خمیر میں عدل، آزادی اور مساوات کی قدریں شامل ہیں۔چنانچہ اب یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ دستور کے ان بنیادی مقاصد کی تکمیل کو یقینی بنائے ۔ اس سلسلے میں ریاست عوام کے سامنے جوابدہ ہے عوام ووٹ کے ذریعہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ عوام کے لئے ووٹ کے استعمال کا دستوری معیار یہی تصور ہے۔ اس تصورکو معیار بناکر ووٹ کی طاقت کا استعمال متوقع ہے۔
لیکن تعمیر کایہ تصور، آزادی کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں بری طرح مجروح ہواہے۔ ترقی کے ناقص منصوبے نے ایک ایسی عدم مساوات کو جنم دیا ہے جس کی مثال نہیںملتی۔ شہریوں کے درمیان دیہی و شہری کا فرق موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ذات پات فرقے، مذہب اور نسل کے حوالے سے بھی تفریق پیدا ہو چکی ہے۔
ملکی سماج کے کمزور طبقات اور اقلیتیں آج بھی انصاف کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ حکومتی اداروں اور معاشی وسائل سے استفادہ کے عمل میں ان کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہے۔عوام پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور اکثر اوقات یہ زیادتی اُنہی اداروں کی جانب سے ہوتی ہے جو عوام کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ملک کے سب سے محروم طبقہ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ عدم تحفظ کے شدیداحساس کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مسلمان بجا طور پر فرقہ پرستانہ فسطائیت کو اپنے تہذیبی تشخص کے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی ریاست ایک غیر جانب دار، غیر متعصب اور منصف و محافظ ادارے کا کردار ادا کرنے اور اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فسطائی و کلیت پسند سیاسی تحریکات کا عروج ملک کے لئے سم قاتل ہے۔ یہ مظہر دستور کی اچھی قدروں اور ملک کے تکثیری و جمہوری ڈھانچے کے لئے شدید خطرہ ہے اور ملک کے اتحاد اور سا لمیت اور ہندوستان کے تصور کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کرپشن رفتہ رفتہ ایک بے قابو عفریت کا روپ اختیار کرچکا ہے جس کے آگے پورا نظام بے بس نظر آتا ہے۔ سیاسی ادارے ہر سطح پرکرپشن کا شکار ہیں۔ اس کے تباہ کن اثرات نے نوکر شاہی کو مفلوج کردیا ہے اور اب میڈیا و عدلیہ بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ خوفِ خدا اور اخلاق و روحانیت وہ عوامل ہیں جو ایک کامل اور منضبط سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہب کا استعمال زیادہ تر اختلافات کو ہوا دینے، سماج میں تفرقہ برپا کرنے اور کمزوروں کا استحصال کرنے کے لئے کیا گیا ہے، جب کہ مذہب کی حقیقی روح بیدار کی جائے توہندوستان جیسے مذہبی سماج میں مذہبی و روحانی اقدار ایک صحتمند سماجی انقلاب برپا کرنے میں تعمیری کردار اد اکر سکتی ہیں۔
2014 کے انتخابات، عوام کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ دستورِ ہند میں تسلیم شدہ تعمیری اقدار کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کریں۔
ب)حکومت کا فرضِ منصبی
ایک تکثیری، ترقی پسند اور وسیع الظرف (inclusive) ہندوستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے درج ذیل نکات کو ہر سنجیدہ سیاسی پارٹی کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے:
۱) تمام شہریوں کے لئے خوراک، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور باوقار زندگی کی ضمانت نیز منصفانہ تصورِ ترقی پر مبنی فلاحی ریاست کا قیام۔
۲) درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، مسلمانوں، سماج کے دیگر محروم طبقات دیہی علاقوں، ملک کے محروم خطوں کی ہمہ جہت ترقی اور استقلال (empowerment) پر خصوصی توجہ دے کر ملکی فضا میں صحت مند تبدیلی لانا۔
۳) دہشت گردی کے عوامل کا موثر تدارک، دہشت گردی کا ازالہ تاکہ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہو سکے۔ ظلم، تشدد، ریاستی مظالم اور فرقہ وارانہ فسادات کا موثرانسداد، غریبوں، عورتوں ، مسلمانوں اور ملک کے غیر محفوظ طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
۴) کرپشن بے حیائی جنسی جرائم، اقربا پروری، سیاست میں مجرمانہ عناصر کے نفوذ،ناروا امتیازات اور تفرقہ اندازی جیسی برائیوں کے خلاف موثر اقدام ،دیانت و امانت ،عفت و عصمت اوروسعت نظر کی قدروں کا فروغ ہر کمیونٹی کے تشخص کا احترام ریاستی مشینری اور سیاسی ڈھانچہ کو اخلاقی اقدار کا پابند بنانا۔
ج)پالیسی سازاقدامات
درج بالا مقاصد کے حصول کے لئے ہم عوام کی تائید کی متمنی پارٹیوں سے کہتے ہیں کہ وہ واضح الفاظ میں درج ذیل قانونی و پالیسی ساز اقدامات پر مبنی 15 نکاتی پروگرام کے نفاذ کا وعدہ کریں۔
۱) دستور کے حصہ سوم میں مناسب ترمیم کی جائے جس کے ذریعہ ملک کے تمام شہریوں کے ضروریاتِ زندگی کے حق "right to livelihood"کو تسلیم کیا جائے اس کے تحت خوراک، کپڑے، گھر، تعلیم اور صحت جیسی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت ہو۔
۲) رنگناتھ مشرا کمیٹی رپورٹ کو نافذ کیا جائے۔ تعلیم اور ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے ریزرویشن دیا جائے ، جس میں دس فیصد ذیلی کوٹا مسلم اقلیت کے لئے محفوظ ہو۔
۳) سچر کمیٹی رپورٹ کے مجوزہ ’ اشاریہ تنوع‘ Diversity Index Concept کو حکومتی و نجی شعبوں میں نافذ کیا جائے تاکہ دلتوں، مسلمانوں و دیگر محروم طبقات کو بہتر مواقع میسر آسکیں۔ تمام حکومتی امداد و گرانٹز اس Diversity Index Concept پر مبنی ہوں۔
۴) MNREGA دیہی روزگارقانون میں ترمیم کے ذریعہ سال کے پورے 365 دن روزگار کی ضمانت ہو اسی طرح کا ایک قانون شہروں میں رہنے والے غرباء کے لیے بنا یا جائے۔سماجی بہبود Corporate Social Responsibility کے اصول کے تحت قانون بنا کر نجی شعبے کو دیہی علاقوں میں روزگار پیدا کرنے کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
۵) نیشنل ایڈوائزری کونسل کی جانب سے پیش کردہ فرقہ وارانہ فسادات (حفظ ماتقدم، انسداد اور متاثرین کی باز آبادکاری)بل کو معقول ترمیمات کے ساتھ پیش اور منظور کیا جائے۔ اس قانون کے ذریعہ نوکرشاہی کو اپنے کاموں کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جائے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کو حقیقی انصاف فراہم کیا جائے۔
۶) مرکزی سطح کے تمام سیکورٹی قوانین مثلاً NIA, AFSPA, UAPAاوراس طرح کے ریاستی قوانین، نیزانفارمیشن ٹکنالوگی (IT) , Act 2000 IPCو دیگر قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ بین الاقوامی قانون file:///C:/Users/ALAMISLAHI/Downloads/JIH%20Manshoor%20ka%20Khulasa%20(1).inpاورInternational Covenant of Civil and Political Rights کے بیان کردہ اصولوں سے ہم آہنگ قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح Convention against Torture and other Cruel, Inhuman, or Degrading Treatment or Punishment اور اس کے اختیاری پروٹوکول یعنی International Convention for the Protection of All Persons from Enforced Disappearance کی توثیق کی جائے اور ان کنونشنس کے مطابق ملکی قوانین میں مناسب ترمیم ہو۔
۷) ایک آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کے ذریعہ تخریب کاری کے واقعات اور الزامات کی منصفانہ تحقیق ہو۔ دہشت گردی کے مقدمات کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کے قیام کی راہ ہموارکی جائے۔ نا معقول قوانین اور دھاندلی کے شکار متاثرین کے لئے تلافی کا نظم کیا جائے اور فرضی مقدمات کے ذریعہ بے گناہوں کو پھنسانے والوں کو سزا دی جائے۔
۸) نجی کارپوریشنز اور غیر سرکاری اداروں (NGOs) کو Jan Lokpal Bill کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے اس Bill کو منظورکیا جائے۔ بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات ہوں۔ قانونِ حق معلومات (RTI) میں ترمیم کر کے اس کی خامیوں پر قابو پایا جائے۔ سبھی سرکاری کاموں اور معاملات میں مکمل شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے e-governance کو رائج کیا جائے۔
۹) پولس فورس کو مستعد (Professional) اور انسان دوست بنانے کے لئے قومی پولس کمیشن کی سفارشات نافذ کی جائیں اور پولس نظام میں ہمہ گیر اصلاح کی جائے۔ پولس فورس کو سب کی نمائندہ اور غیر متعصب بنانے کے لئے اس فورس میں اقلیتوں کے لئے ۲۵ فی صد ریزرویشن ہو۔قومی کمیشن برائے اقلیت کی سفارشات نافذ کی جائیں۔
۱۰) خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت اور جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کی جائے قانونی ترمیمات کے ذریعہ مجرمین کے لیے سخت سزا کو یقینی بنایا جائے۔ سماج میں اخلاقی اقدار اور عفت و عصمت(discipline) کو فروغ دینے کے لئے تعلیمی پالیسی میں مناسب ترمیم ہو۔ میڈیا، فلم اور لٹریچر کے ذریعہ فحاشی کے فروغ کو روکا جائے۔ اس سلسلے میں censor کے قوانین و ضوابط میں بھی مناسب ترمیم ہو۔
۱۱) بجٹ میں تعلیم کیلئے قومی آمدنیGDP کی 8 فی صد اور صحت کے لئے GDP کی 5 فی صد رقم مختص کی جائے اور اس میں ممکنہ اضافہ کیاجائے۔
۱۲) زرعی سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور اس کا نفاذ ہو۔کسانوں کے لیے قومی کمیشن کی سفارشات نافذ ہوں۔ کارپوریٹ کھیتی اورموہوم سودوں Future selling کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ فصل کے نقصان کی صورت میں کسانوں کی مدد کے لئے Calamity Fund کے طرز پر فنڈ قائم کیا جائے۔
۱۳) سماجی و انسانی فلاح و بہبود میں حکومتی رول کو بڑھاکر اقتصادی پالیسی میں اصلاحات کی جائے۔ مالدار طبقہ پر ٹیکس زیادہ ہو بالواسطہ ٹیکسوں کے مقابلے میں بلاواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ بجٹ کو سماج کے محروم طبقات مثلاً دلت، آدی واسی و مسلمان آبادی، خواتین، دیہی علاقوں ، شہرکے غریب باشندوں اور معذورین کی خدمت کا ذریعہ بنایا جائے۔ پنج سالہ منصوبوں میں ایک ’’مسلم کمپوننٹ پلان‘‘ شامل ہو۔
۱۴) بینکنگ میں غیر سودی مالیات کو متعارف کرایا جائے۔ ڈاکٹر رگھورام راجن کی سرکردگی میں پلاننگ کمیشن کی Financial Sector Reforms کمیٹی نے اس امر کی سفارش کی ہے،موجود قوانین میں مناسب ترمیم کی جائے تاکہ ملک کے محروم طبقات اور اقلیتیں مجموعی ترقی inclusive growth کے ثمرات سے فیضیاب ہوسکیں۔
۱۵) دستور میں مناسب ترمیم کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی اہم عالمی معاہدے کے انعقاد یا ملک کی خارجہ پالیسی میں اساسی تبدیلی کے لئے پارلیمینٹ کی توثیق ضروری ہو۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی آزاداور منصفانہ ہو، استعمار مخالف ہو، جمہوریت اور انسانیت دوستی کے اصولوں پر مبنی ہو،اس پالیسی کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوں، جنوبی خطے میں تعاون South-South Cooperation کی راہ ہموار ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی اور دستوری اقدار میں ہم آہنگی پائی جائے ۔
٭٭٭
موصول از : ای میل