جمہوریت بہترین انتظام ہے

جاسم محمد

محفلین
جمہوریت بہترین انتظام ہے
Yv0DOA0r_400x400.jpg
عمار مسعود
Nawaz.jpg

ایک زمانے میں آصف زرداری بڑے دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اسی زمانے میں بزرگ یہ فرماتے تھے کہ بری جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ہمیں بھی بہت شوق تھا کہ اس ملک میں خوب جمہوریت پنپے۔ عوام کے ووٹ کو توقیر ملے۔ سول سپریمیسی کا نعرہ بلند ہو۔ دو جمہوری ادوار جیسے تیسے گزر گئے ہیں اب تیسرا دور آئے گا اور پھر راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی سے اس نام نہاد دور جمہوری نے ذہن سے پارلیمان کی بالا دستی کا سارا فتور ہی ختم کر دیا۔ عوام کے مینڈیٹ کی حرمت والا سارا خناس ہی ختم کر دیا۔ اب اس دور میں جمہوریت ایک نظام نہیں ہے یہ ایک ڈھال ہے جس کے پردے میں مطلق العنانیت جلوہ افروز ہے۔ جس کی آڑ میں آمریت قہقہے لگا رہی ہے۔

اگر تیسرے جمہوری دور میں اقتدار کی منقلی کے لئے انتخابات متنازعہ نہ ہوتے، الیکشن سے پہلے میڈیا پر پانچ سال تک کرپشن، غداری اور کفر کے فتوے نہ لگتے، دھونس اور دھانلی سے ‘الیکٹیبلز’ کو ایک نو آموز پلیٹ فارم پر اکھٹا نہ کیا جاتا، سیاسی جماعتوں کی قیادت کی برسرعام پکڑ دھکڑ نہ شروع کی جاتی، الیکشن میں انتخاب منصفانہ ہوتا، فارم پینتالیس میسر ہوتا، دھاندلی کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے چل رہے ہوتے، آر ٹی ایس مبینہ طور پر کام کرنا چھوڑ نہ دیتا، انتخابات کے بعد متنازعہ حلقوں کی ری کاؤنٹنگ کی اجازت دے دی جاتی، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے نتائج میں تعطل نہ ہوتا، نامعلوم اشاروں پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو اکھٹا کر کے الائنس نہ بنائے جاتے، ووٹنگ کی رفتار کو حد سے زیادہ سست نہ بنایا جاتا تو ہم اس حکومت اور اس اسمبلی پر ایمان لاتے اور جمہوریت کے سفر کے ایک اور مرحلے کو صدق دل سے قبول کرتے۔

اس سارے عمل میں جو کچھ ہوا یہ نہیں کہ کسی کو اس کا علم نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے، کیسے ہوا ہے، کب ہوا ہے، کس نے کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس سب کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی جرأت نہیں ہے۔ ایوان لوٹوں سے بھر دیا گیا ہے، میڈیا اس معاملے پر خاموش تماشائی بنا کھڑا ہے۔ سچ بولنے والوں کو اب نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں، نظام کی قلم سے حفاظت کرنے والے اب بچوں کی فیسوں کے لئے ادھار پکڑ رہے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والوں کے لئے یہ لفظ طعنہ بنا دیا گیا ہے۔ نیب سے غلط فیصلوں کا پوچھیں تو کہتے ہیں کہ جمہوریت ہے اور اس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عدالتوں کے متنازعہ فیصلوں کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ جمہوریت ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ غیر جمہوری اداروں کی پاریلمانی امور میں مداخلت پر بات کریں تو سب جمہوریت کی ڈھال کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ عثمان بزادر کی نااہلی کا ذکر کریں تو جمہوریت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں زہر سے ہی زہر کو مارا جاتا ہے۔ اسی جمہوریت کے لئے لوگ قربانیاں دیتے تھے اسی کے لئے پھانسی پر لٹکتے تھے، اسی کی خاطر کوڑے کھاتے تھے، اسی کے نام کے نعرے لگاتے تھے، اس کی خاطر ملک بدر ہوتے تھے اور ایسے تمام فتنہ پردازوں کے لئے یہی جموریت ایک کلنک کا ٹیکہ بنا دی گئی ہے۔

وہ جو آصف زرادری کہا کرتے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے وہ کسی اور زمانے اور ملک کی باتیں ہوں گی۔ اب جو جمہوریت ہمارے یہاں نافذ ہے یہ اگر کسی سے انتقام لے رہی ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ جمہوریت پسند ہے۔ عوام کی سپریمیسی کا نعرہ بلند کرنے والے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔

اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نام ضرور جمہوریت ہے مگر نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اب وہی دور آمریت ہے، اب وہی سیاسی جماعتوں کے خلاف انتقام کی صورت ہے، اب پھر آزادی اظہار پابند سلاسل ہے۔ اب وہی سیاسی قیادت سے انتقام ہے جو آمریت کے ادوار کی روایت ہے۔

اس دور تاریک کا المیہ یہ ہے سسک سسک کر جہاں جمہوری اداروں نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تھی وہ جگہ پھر مقبوضہ ہو چکی ہے۔ ہم مقبو ضہ جہموریت، مقبوضہ میڈیا اور مقبوضہ پارلیمان کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ دور ایسا ہے جہاں سانس لینے کے لئے بھی اجازت چاہیے ، جہاں بات کہنے کے لئے بھی اذن درکار ہے۔ جہاں سوال کرنے کے لئے جان پر کھیلنا مقدر ہو گیا ہے، جہاں لفظوں، خوابوں اور آوازوں پر پابندی ہے۔ جمہوریت پسند ایک دوجے کا منہ تک رہے ہیں۔ ہکا بکا ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔

اب میاں صاحب چاہے جیل میں عوام کے ووٹ کی عزت کا نعرہ لگائیں، یا آصف زرادری بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیوں کی مثالیں دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب ایک نیا دور جمہوری ہے جو دراصل جمہوریت کا لبادہ ہے۔ جس کے پیچھے وہی قوتیں خندہ زن ہیں جو اس قوم ماضی میں بھِی آئین کی بے توقیری کر چکی ہیں۔ اب جمہوریت اس ملک میں نہ نظام ہے، نہ انتقام ہے۔ اب یہ بس ایک مخصوص حلقے کے لئے بہترین انتظام ہے۔
جمہوریت بہترین انتظام ہے
 

جاسم محمد

محفلین
دو جمہوری ادوار جیسے تیسے گزر گئے ہیں اب تیسرا دور آئے گا اور پھر راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں۔ ایک طرف موصوف تسلیم کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جمہوری ادوار بد ترین تھے۔ ساتھ میں یہ یقین بھی ہے کہ تیسرا جمہوری دور جس میں پھر وہی دو پارٹیاں اقتدار میں ہوں گی اور راج کرے گی خلق خدا۔ چونکہ ایسا ہوا نہیں کیونکہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کر دی ۔ اس لئے پاکستان میں اب "جمہوریت" نہیں رہی۔
 

فرقان احمد

محفلین
آمریت کسی طور جمہوریت سے بہتر نظام نہیں ہے؛ اس حوالے سے اصولی بحث کی جا سکتی ہے۔ سیاست دان اچھے ہوں یا برے ہوں، یہ اصول بہرصورت برقرار رہتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر ہمیں اصولی اعتراض ہے۔ کیا یہ طے شدہ اصول ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے ہی 'مداخلت'کرتی ہے؟ اور ہاں، اپنے کانسپٹ درست کر لیجیے۔ جمہوریت کا دفاع کرپٹ سیاست دانوں کا دفاع نہیں ہوتا ہے۔ کرپٹ عناصر تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہوں گے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر ہمیں اصولی اعتراض ہے۔
جمہوریت کا دفاع کرپٹ سیاست دانوں کا دفاع نہیں ہوتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر اصولی اختلاف ہونا بنتا ہے۔ مگر وہاں جہاں ووٹر تعلیم یافتہ اور باشعور ہو۔ اسے غلط صحیح کی تمیز ہو۔ ایسے میں اگر فوج انتخابی مداخلت کرتی ہے تو یہ سرار غلط اور عوامی نمائندگی پر ڈاکہ شمار ہوگا۔
پاکستانی انتخابات میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ووٹر کو یہ تو نظر آجاتا ہے کہ اس کے ووٹ کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے۔ مگر یہ نظر نہیں آتا کہ جس کو وہ پچھلے 30 سالوں سے ووٹ دیتا چلا جا رہا ہے۔ اس نے عوامی نمائندگی کا کتنا حق ادا کیا ہے؟ کیا سندھ میں پیپلز پارٹی کو مسلسل انتخابی عمل کے تحت اقتدار دئے رکھنے سے وہاں کے مسائل حل ہو گئے؟ اندرون سندھ میں سکولوں، ہسپتالوں کی حالت زار، تھر میں مرتے بچے، کراچی کی سیکورٹی صورت حال کیا پیپلز پارٹی بار بار اقتدار میں آکر حل کر پائی؟ اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ اور اس بار انتخابات میں ان کو پہلے سے زیادہ ووٹ پڑا ہے۔
پنجاب میں ن لیگ کا یہی حال ہے۔ وہ بھی تحریک انصاف سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے مگر حکومت نہ بنا سکے۔ کیا ن لیگ کو بار بار پنجاب میں اقتدار دئے رکھنے سے پنجاب پولیس بہتر ہو گئی؟ تعلیم و صحت جیسے بنیادی محکموں نے کام کرنا شروع کر دیا؟ پنجاب کے کسانوں اور صنعتکاروں کے مسائل درست ہو گئے؟ جب یہ سب نہیں ہوا اور اسکے باوجود ن لیگ اکثریتی ووٹ لے کر کامیاب رہی۔ اس کا مطلب مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کا نہیں ووٹر میں ہے۔ ووٹر اگر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرے اور ایسی لیڈرشپ منتخب کرے جو واقعتا ملک کے مسائل حل کر سکے۔ تو فوج کو کسی سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد فوج نے سیاسی جماعتوں کو فری ہینڈ دیا۔ اس کے بدلہ میں ان جمہوریوں نے ملک کو کیا دیا؟ قرضے، کرپشن، نا اہلی، معاشی بدحالی۔ اس کے بعد مشرف نے این آر او دے کر دوبارہ فری ہینڈ دیا۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں نے اپنی ٹرمز پوری کی۔ کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ جواب میں ملک کو کیا ملا؟ تاریخ کا بلند ترین اقتصادی خسارہ۔ تمام ادارے تباہ و برباد۔ پانامہ، ڈان، میموگیٹ۔ کیا کامیاب جمہوریتیں ایسی ہوتی ہیں؟ ان کو فری ہینڈ دو تو ملک تباہ۔ نہ دو تو سیاسی شہید۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر اصولی اختلاف ہونا بنتا ہے۔
ہمارا نکتہ یہیں تک تھا۔ ویسے ایسا بھی نہیں کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہوتا ہے۔ اگر اُن کے بس میں سب کچھ ہوتا تو یہ ملک قائم کیسے رہتا پھر ۔۔۔! یوں بھی ان کو اور بھی بہت سے امور نپٹانے ہوتے ہیں۔ اپنے من پسند سیاست دانوں کو لانچ کرنے کے بعد وہ اضافی وقت میں بنکوں، رئیل اسٹیٹ، گالف کلبوں سے لے کر سیمنٹ اور بجری ریت کے بھاؤ تاؤ بھی کرتے ہوں گے۔ بہرحال، رہنے دیجیے، ہم آف ٹاپک ہو جائیں گے۔ بس جو بات آپ نے مان لی ہے، وہی ہمیں منوانا تھی؛ باقی سب قصے کہانیاں ہیں۔ ہمیں عسکریوں اور ان کے پلانٹ کردہ سیاست دانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ ہمیں عسکریوں اور ان کے پلانٹ کردہ سیاست دانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
شکر ہے اس معاملہ میں ہم ایک پیج پر ہیں :)
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں اینٹری جنرل ایوب کی سلیکشن کا نتیجہ تھا جبکہ نواز شریف کی اینٹری جنرل ضیاء الحق کی سلیکشن تھی۔ آج ان کی تیار کردہ ساسی جماعتیں جمہوریت کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آپ ان دونوں جماعتوں سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
شکر ہے اس معاملہ میں ہم ایک پیج پر ہیں :)
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں اینٹری جنرل ایوب کی سلیکشن کا نتیجہ تھا جبکہ نواز شریف کی اینٹری جنرل ضیاء الحق کی سلیکشن تھی۔ آج ان کی تیار کردہ ساسی جماعتیں جمہوریت کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آپ ان دونوں جماعتوں سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں۔
صاحب! شکر کا مقام ہے کہ ہم کبھی بوٹوں کے عشق میں مبتلا نہیں رہے۔ :) اس معاملے پر بھی ہم ایک پیج پر ہوتے تو زیادہ خوشی ہوتی ۔۔۔!
 

جان

محفلین
ملکی تاریخ میں بے جا اور بے تحاشا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے ملکی سیاست سے دل اچاٹ ہو گیا ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ ہمیں کسی ملکی سیاست کے مراسلے میں ٹیگ کر کے خود کو تسلی اور ہمیں تکلیف دینےکی قطعی ضرورت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
صاحب! شکر کا مقام ہے کہ ہم کبھی بوٹوں کے عشق میں مبتلا نہیں رہے۔
بوٹ والوں کے سلیکٹڈ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے ساتھ ماضی میں عشق مٹکے کی کہانیاں آپ خود ہی یہاں بیان کر چکے ہیں۔ وہ تو شکر ہے زرداری کی کرپشن کی وجہ سے یہ عشق کی داستان ختم ہو گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملکی تاریخ میں بے جا اور بے تحاشا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے ملکی سیاست سے دل اچاٹ ہو گیا ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ ہمیں کسی ملکی سیاست کے مراسلے میں ٹیگ کر کے خود کو تسلی اور ہمیں تکلیف دینےکی قطعی ضرورت نہیں۔
آپ کا شاید سیاست میں دل صرف اس وقت لگتا ہے جب نواز شریف ضیا الحق کی کابینہ میں یا جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں بٹھا کر ملک کی سیاست میں لانچ کیا جائے۔ یہ سلیکٹڈ لوگ آپ کے نزدیک جمہوری لیڈر تھے۔ مگر عمران خان نہیں ہے جو آج تک کسی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں نہیں بیٹھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
بوٹ والوں کے سلیکٹڈ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے ساتھ ماضی میں عشق مٹکے کی کہانیاں آپ خود ہی یہاں بیان کر چکے ہیں۔ وہ تو شکر ہے زرداری کی کرپشن کی وجہ سے یہ عشق کی داستان ختم ہو گئی۔
ہم ڈکٹیٹر شپ کے سخت خلاف ہیں۔ اس عفریت کے خلاف جس نے بھی جس حد تک سیاسی جدوجہد کی ہے، ہم اُس کے اس حد تک حامی ہیں اور اس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں۔ حتیٰ کہ اگر خان صاحب بھی اس طرف قدم بڑھائیں گے تو ہمیں اُن کا ساتھ دے کر خوشی ہو گی۔ ہمارے ذہن و دل میں اس حوالے سے تعصب ہے، اور نہ ہی کوئی تذبذب ہے۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
بالکل درست ہے۔ اصل جمہوریت واقعی بہترین انتقام اور انتظام ہے۔
لیکن اس وقت جس جمہوریت کا انتظام کیا گیا یے وہ بناسپتی جمہوریت ہے۔ اور اس بناسپتی جمہوریت کے بنانے والوں میں سے کسی کو یہ کہتے سنا تھا کہ اب ہم سامنے آئے بغیر کنٹرول کریں گے۔

برسبیل تذکرہ: معلوم نہیں کیوں لیکن مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر حمایتی آمریت کو درست مانتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حتیٰ کہ اگر خان صاحب بھی اس طرف قدم بڑھائیں گے تو ہمیں اُن کا ساتھ دے کر خوشی ہو گی۔
۔ صرف ان کی ہی حکومت رہی ہے ہمیشہ
مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر حمایتی آمریت کو درست مانتے ہیں۔
انصافی عسکری اداروں کے حامی ہیں آمریت کے نہیں۔ انصافی تسلیم کر تے ہیں کہ ماضی میں فوج کے چند کرپٹ جرنیلوں نے مارشل لگا کر اپنی کابینہ سے کٹھ پتلی وزیر اعظم جیسے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف وغیرہ کو لانچ کیا تھا۔ اور اپنے غیر آئینی اقتدار کو طوالت دینے کیلئے احتساب کی جگہ کرپٹ سیاست دانوں کو این آور او بھی دیا تھا۔ تاہم اب اس حوالہ سے موجودہ سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں تبدیلی آ چکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سابقہ حکومتوں کے برعکس عسکری اداروں پر اپنی رٹ قائم کرنے کی بجائے ان کو پارٹنر بنا لیا ہے۔ گو کہ مغربی جمہوریتوں میں فوجی ادارے سول حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اور اصولا ایسا ہونا بھی چاہئے۔ مگر پاکستان مغربی جمہوریت نہیں ہے۔ یہاں کے فوجی ادارے سول اداروں کی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ اس خراب تناسب کو ٹھیک کرنے کے لئے پہلے سول اداروں کو اہلیت کے قابل اورطاقتور بنانا پڑے گا۔ تب ہی سول حکومت کی فوجی اداروں پر کھوئی ہوئی رٹ قائم ہو سکے گی۔ جو کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے جمہوریوں کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ مگر سول اداروں میں منظم کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
انصافی عسکری اداروں کے حامی ہیں آمریت کے نہیں۔ انصافی تسلیم کر تے ہیں کہ ماضی میں فوج کے چند کرپٹ جرنیلوں نے مارشل لگا کر اپنی کابینہ سے کٹھ پتلی وزیر اعظم جیسے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف وغیرہ کو لانچ کیا تھا۔ اور اپنے غیر آئینی اقتدار کو طوالت دینے کیلئے احتساب کی جگہ کرپٹ سیاست دانوں کو این آور او بھی دیا تھا۔ تاہم اب اس حوالہ سے موجودہ سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں تبدیلی آ چکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سابقہ حکومتوں کے برعکس عسکری اداروں پر اپنی رٹ قائم کرنے کی بجائے ان کو پارٹنر بنا لیا ہے۔ گو کہ مغربی جمہوریتوں میں فوجی ادارے سول حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اور اصولا ایسا ہونا بھی چاہئے۔ مگر پاکستان مغربی جمہوریت نہیں ہے۔ یہاں کے فوجی ادارے سول اداروں کی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ اس خراب تناسب کو ٹھیک کرنے کے لئے پہلے سول اداروں کو اہلیت کے قابل اورطاقتور بنانا پڑے گا۔ تب ہی سول حکومت کی فوجی اداروں پر کھوئی ہوئی رٹ قائم ہو سکے گی۔ جو کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے جمہوریوں کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ مگر سول اداروں میں منظم کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
موجودہ صورت حال دیکھ کر تو کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ سول ادارے مضبوط ہوں گے۔
باقی رہی آپ کی عسکری اداروں کی حمایت کی بات تو آپ کے قائد کھلے لفظوں انھی عسکری اداروں کی حمایت کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے ہیں وزیر اعظم بننے سے پہلے ۔ کون سے بیان کو درست مانا جائے؟
 

جاسم محمد

محفلین
انھی عسکری اداروں کی حمایت کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے ہیں
قصوروار عسکری ادارے نہیں وہاں موجود کالی بھیڑیں ہیں۔ فوج کی ٹاپ کمانڈ یعنی چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت کچھ سالوں کی ہوتی ہے۔ اور 1947 سے یہاں بیسیوں جرنیل آ چکے ہیں۔ اس کے باوجود مارشل لا لگانے والے یا قومی سیاست میں مداخلت کرنے والے جرنیل چند ایک ہی ہیں۔ ان کی بنیاد پر پورے کہ پورے ریاستی اداروں کے خلاف برستے رہنے اور سیاست کرنا درست رویہ نہیں ہے۔ اگر ن لیگ اپنے دور حکومتوں میں صرف ایک پنجاب پولیس کا محکمہ بہتر کر دیتی۔ یا پیپلز پارٹی سندھ میں تمام شہریوں تک پینے کا صاف پانی ہی مہیا کر دیتی توشاید یہ فوجی اداروں کے خلاف تنقید کا حق رکھتے۔
اپنی نا اہلی کا حال یہ ہے کہ بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود ملک کا ایک سول ادارہ ٹھیک سے چلا نہیں سکے ۔ اُلٹا جو چل رہے تھے ان کو تباہ برباد کر گئے۔ اور جو فوجی ادارے ان جمہوریوں کی تباہی سے بچ گئے ہیں۔ ان پر صبح شام تنقید کرتے ہیں کہ یہ ملک چلنے نہیں دیتے۔ حد ہو گئی منافقت کی۔
 

عباس اعوان

محفلین
موجودہ صورت حال دیکھ کر تو کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ سول ادارے مضبوط ہوں گے۔
باقی رہی آپ کی عسکری اداروں کی حمایت کی بات تو آپ کے قائد کھلے لفظوں انھی عسکری اداروں کی حمایت کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے ہیں وزیر اعظم بننے سے پہلے ۔ کون سے بیان کو درست مانا جائے؟
کیا سوال اداروں کی تباہی عسکری اداروں نے کی ؟
میرا نہیں خیال کہ پی آئی اے، سٹیل ملز، پاکستان پوسٹ اور دیگر کی بحالی و مضبوطی میں عسکری ادارے حائل ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرا نہیں خیال کہ پی آئی اے، سٹیل ملز، پاکستان پوسٹ اور دیگر کی بحالی و مضبوطی میں عسکری ادارے حائل ہیں۔
سول محکموں کو ٹھیک کرنے کیلئے نجکاری کی بجائے ٹاپ مینجمنٹ نجی سیکٹر سےاہلیت کی بنیاد پر لانا ضروری ہے۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ادارے پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک کے ساتھ چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ ہر جگہ نا اہل، سفارشی اور سیاسی لوگ بھرتی کئے گئے ہیں۔ پی آئی اے کا حالیہ سی ای او بھی کوئی ایئر مارشل ہے غالبا۔
 

جان

محفلین
آپ کا شاید سیاست میں دل صرف اس وقت لگتا ہے جب نواز شریف ضیا الحق کی کابینہ میں یا جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں بٹھا کر ملک کی سیاست میں لانچ کیا جائے۔ یہ سلیکٹڈ لوگ آپ کے نزدیک جمہوری لیڈر تھے۔ مگر عمران خان نہیں ہے جو آج تک کسی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں نہیں بیٹھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھی اپنے لیڈر کے طریق پہ چل پڑے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ بھی مراسلہ کرتے وقت عقل سے کام نہیں لیتے اور جو جی میں آتا ہے یہاں داغ دیتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی عقل کا استعمال کرتے ہوئے میرے اسی مراسلے کا جس پہ آپ نے یہ تبصرہ کیا ہے، دوبارہ غور سے پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں نے کہا کیا ہے۔ آپ کی آسانی کے لیے وہ دوبارہ یہاں حاضر کیے دیتا ہوں۔
ملکی تاریخ میں بے جا اور بے تحاشا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے ملکی سیاست سے دل اچاٹ ہو گیا ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ ہمیں کسی ملکی سیاست کے مراسلے میں ٹیگ کر کے خود کو تسلی اور ہمیں تکلیف دینےکی قطعی ضرورت نہیں۔
یاد رہے کہ ملکی تاریخ میں صرف عمران خان ہی واحد سیاستدان نہیں ہے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ تو مانتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آئے وہ نا اہل تھے لیکن یہ ماننے پہ راضی نہیں کہ جو اب آیا ہے وہ بھی نا اہل ہی ہے۔ تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لینے سے آپ درست نہیں ہو جاتے۔ آپ یہ تو کہتے ہیں کہ عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتی تو اس لیے اسٹیبلشمنٹ سیاسی انجینئرنگ کرتی ہے لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عوام بعد میں ووٹ دیتی ہے، انہیں پہلے اسٹیبلشمنٹ ہی اپنے اقتدار کو مضبوط اور طول دینے کے لیے سیاست میں لے کر آتی ہے۔ یہاں تین باتیں سامنے آتی ہیں اول یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے لائے ہوئے مہرے تاریخ میں درست ثابت نہیں ہوئے، دوم اسٹیبلشمنٹ ہی اپنے من پسند سیاستدانوں کو متعارف کرواتی ہے جنہیں جب عوام بعد میں ووٹ ڈالتی ہے تو آپ کہتے ہیں عوام بے وقوف ہے۔ سوم جب انہی کے لائے ہوئے مہرے انہی کے خلاف ہو جاتے ہیں تو وہی نا اہل سیاستدان قرار دے دیے جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی ڈائری میں لکھ لیں کہ عمران خان کا حال مستقبل میں بھٹو اور نواز شریف جیسا ہی ہونا ہے کیونکہ تاریخ سے سبق نہ لینے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
آزادی کی قدر و منزلت محکوم قوم کبھی نہیں جان سکتی جب تک وہ آزادی کا مزہ چکھ نہ لے۔ جمہور کی رائے چاہے وہ کتنی ہی گھٹیا ہو آمریت کے ہر درجے سے بہتر ہے کیونکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ خود کو ارتقاء کی طرف لے جانے کی صلاحیت بلٹ ان موجود ہوتی ہے۔ یہ آمریت کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہم آزادی کے ستر سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں۔ اس لیے یہ عوام کی ہی مرضی ہے اور ان ہی کا حق ہے جس کو چاہے منتخب کرے اور اسٹیبلشمنٹ عوام سے زیادہ خود کو سیانا اور محب وطن ثابت کرنے کے لیے مداخلت سے گریز کرے تبھی ہم آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
سول اداروں میں منظم کرپشن
سول اداروں میں غیر منظم کرپشن ہوتی ہے تبھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ جہاں منظم کرپشن ہوتی ہے اس کا تذکرہ کرنا تو کجا، آنکھ اٹھا کر کسی کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:
Top