محسن وقار علی
محفلین
11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات رُکتے نظر نہیں آ رہے۔ مگر ان کا خیر و عافیت سے ہو جانا اب عام لوگوں کو شاید مطمئن نہ کر سکے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کونسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی۔ اصل سوال تو یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ تقریباَ تمام سیاسی جماعتوں نے نظر بظاہر ایسے لوگوں کو امیدوار بنایا ہے جن کی بے پناہ اکثریت ہمارے بہت ہی مستعد میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ٹیکس ادا کرنے میں بخل اور دغا بازی سے کام لیتی ہے۔ وہ محلات نما گھروں میں رہتے ہیں۔
ان کے پاس جدید اور مہنگی ترین گاڑیاں ہیں اور خدمت پر مامور ملازمین کی فوجِ ظفر موج۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنے گوشواروں میں ٹیکس کے نام پر جو ادائیگیاں ظاہر کیں، وہ مضحکہ خیز دِکھ رہی ہیں۔ سات بجے شام کے بعد ہاتھ میں ریموٹ لے کر ٹیلی وژن اسکرین پر توجہ مرکوز کر لیجیے۔ ہمارے نیک نام اینکروں کی اکثریت سیاپا کر رہی ہو گی کہ عادی ٹیکس چور، بینکوں سے بڑے قرضے لے کر ہڑپ کر جانے والے اور ریاستی خزانے سے عیش و عشرت کرنے والے ایک بار پھر ’’عوامی مینڈیٹ‘‘ کے نام پر ہمارے سروں پر سوار ہونے والے ہیں۔
فخرو بھائی کا الیکشن کمیشن ایسے لوگوں کو روک نہیں سکا۔ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سے ہماری جان تو اعلیٰ عدلیہ نے چھڑوائی ہے۔ مگر وہ کس کس کو روکے۔ فی الوقت تو جنرل مشرف بھی قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کے اہل قرار پا چکے ہیں۔ حالانکہ انھیں سپریم کورٹ نے باقاعدہ طلب کرنے کے بعد یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ کیوں نہ ان کے خلاف غداری کے جرم کا مقدمہ چلایا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کس کس کو روکے؟
خدارا میرا اعتبار کر لیجیے گا۔ اپنے نیک نام اینکروں کی سیاپا فروشی کے بعد میں کینیڈا سے آئے شیخ الاسلام جناب ڈاکٹر طاہر القادری سے دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہو رہا ہوں۔ وہ بیچارے تو کئی برسوں تک غیر ممالک میں اسلام کے فروغ کی کاوشوں میں دن رات ایک کر رہے تھے۔ خدا جانے کتنے ہزار غیر مسلموں نے ان کے ذریعے ہمارے دین کی حقانیت کو سمجھا اور اس پر ایمان لائے۔ اپنے اس ارفع مشن کو وقتی طور پر بھلا کر ڈاکٹر صاحب دسمبر 2012ء میں پاکستان آئے اور یہاں کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس ملک میں رائج انتخابی نظام کے تحت صادق اور امین لوگ اسمبلیوں میں نہیں جا سکیں گے۔
انھوں نے اپنے لاکھوں پیروکاروں اور عقیدت مندوں کے ساتھ اس یزیدی نظام کو للکارا اور سابقہ حکومت سے وعدہ لیا کہ وہ آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں کے کاغذاتِ نامزدگی کی تفصیلی پڑتال کے مواقع ضرور فراہم کرے گی۔ حکمران اشرافیہ کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی بھلا دیا گیا۔ پاکستان کے تمام لوگوں کو تقریباَ 25 ہزار سے زائد امیدواروں کے کوائف کا جائزہ لینے کے لیے صرف سات دن ملے۔ الیکشن کمیشن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیدواروں کے تمام کوائف انٹرنیٹ پر مہیا کرے گا۔ لوگ اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کھولے بٹنوں سے کھیلتے رہے۔
میں کمپیوٹر سے اتنا واقف نہیں جتنا پاکستان کے عوام کی اکثریت کو سمجھ لیا گیا ہے۔ میں یہ کالم لکھنے تک بارہا کوششوں کے باوجود ہرگز نہیں جان پایا کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھ کر اپنی دیانت اور لگن سے ’’فرزند ِپاکستان‘‘ بن جانے والے شیخ رشید احمد صاحب نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں کیا معلومات دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ بھی الیکشن کمیشن کی اس کوتاہی پر بہت چراغ پا ہے۔ شیخ رشید کے حوالے سے نہیں تمام امیدواروں کے کوائف انٹرنیٹ پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے۔
ہمارے مستعد اور نیک نام صحافیوں کو اس بات پر بھی بہت دُکھ محسوس ہو رہا ہے کہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور نیب جیسے اداروں نے بھی ہمارے امیدواروں کی اکثریت کو کلین چٹ دے دی ہے۔ سیاپا فروشی میں اپنے چہروں اور سینوں پر دوہتڑ مارنے والے ہمارے نیک نام اینکرز پتہ نہیں لوگوں کو کیوں نہیں بتا رہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہر رکن کو ہر سال ستمبر کے مہینے میں اپنے گوشوارے الیکشن کمیشن کو باضابطہ بھجوانے ہوتے تھے۔ الیکشن کمیشن انھیں وصول کرنے کے بعد ہمیشہ اپنی ویب سائٹس پر ڈالا کرتا تھا۔
اسی کی بدولت ہماری اسکرینوں پر ’’سب سے امیر اور سب سے غریب‘‘ عوامی نمایندوں کی کہانیاں چلا کرتی تھیں۔ ہم نے ہر سال باقاعدگی سے فراہم کردہ ان معلومات کی بناء پر ہمارے ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کو اس بات پر مجبور کیوں نہیں کیا کہ وہ ہمیں اس بات کا یقین دلائیں کہ کسی عوامی نمایندے نے اپنے جو گوشوارے جمع کروائے ہیں وہ اس کی جانب سے ادا کردہ ٹیکسوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ نیک نام اینکروں کا اس ضمن میں آج کل کا سیاپا پشتو کے ایک محاورے والا وہ گھونسہ ہے جو بعد میں یاد آتا ہے اور جسے اپنے ہی منہ پر مارنا چاہیے۔
میرے جیسے اینکروں کو مگر اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا اعتراف کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ہم تو خدائی فوجدار ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں گند کی بالٹیاں ہیں جو ہمیں دوسروں کے اوپر اُلٹا کر اپنا دھندا چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہم تو پچھلے پانچ برسوں سے جمشید دستی کو جعلی ڈگری والوں کی علامت کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اب اور کسی نے نہیں ہائیکورٹ کے ایک جج نے طے کر دیا ہے کہ اس پر لگا یہ الزام بالکل غلط تھا۔ ایاز امیر ایک دوسرے حوالے سے عبرت کی مثال بنتے بنتے بچے۔
ان دونوں واقعات کے بارے میں ذرا سا بھی شرمندہ ہوئے بغیر ہم بدستور تمام سیاستدانوں کو اس ملک میں ایک ایسے تنہاء طبقے کے طور پر بدستور پیش کرتے چلے جا رہے ہیں جو دھوکہ باز اور ٹیکس چور ہے۔ ان میں سے جو لوگ منتخب ہو بھی گئے ان میں سے کسی اخلاقی طاقت کے بغیر وزیر وغیرہ بنیں گے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل ہماری دائمی حکومت ان وزیروں کی ایک نہیں سنے گی اور کچھ عرصے بعد ہم دوبارہ سوال اٹھانا شروع کردیں گے کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
ان کے پاس جدید اور مہنگی ترین گاڑیاں ہیں اور خدمت پر مامور ملازمین کی فوجِ ظفر موج۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنے گوشواروں میں ٹیکس کے نام پر جو ادائیگیاں ظاہر کیں، وہ مضحکہ خیز دِکھ رہی ہیں۔ سات بجے شام کے بعد ہاتھ میں ریموٹ لے کر ٹیلی وژن اسکرین پر توجہ مرکوز کر لیجیے۔ ہمارے نیک نام اینکروں کی اکثریت سیاپا کر رہی ہو گی کہ عادی ٹیکس چور، بینکوں سے بڑے قرضے لے کر ہڑپ کر جانے والے اور ریاستی خزانے سے عیش و عشرت کرنے والے ایک بار پھر ’’عوامی مینڈیٹ‘‘ کے نام پر ہمارے سروں پر سوار ہونے والے ہیں۔
فخرو بھائی کا الیکشن کمیشن ایسے لوگوں کو روک نہیں سکا۔ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سے ہماری جان تو اعلیٰ عدلیہ نے چھڑوائی ہے۔ مگر وہ کس کس کو روکے۔ فی الوقت تو جنرل مشرف بھی قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کے اہل قرار پا چکے ہیں۔ حالانکہ انھیں سپریم کورٹ نے باقاعدہ طلب کرنے کے بعد یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ کیوں نہ ان کے خلاف غداری کے جرم کا مقدمہ چلایا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کس کس کو روکے؟
خدارا میرا اعتبار کر لیجیے گا۔ اپنے نیک نام اینکروں کی سیاپا فروشی کے بعد میں کینیڈا سے آئے شیخ الاسلام جناب ڈاکٹر طاہر القادری سے دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہو رہا ہوں۔ وہ بیچارے تو کئی برسوں تک غیر ممالک میں اسلام کے فروغ کی کاوشوں میں دن رات ایک کر رہے تھے۔ خدا جانے کتنے ہزار غیر مسلموں نے ان کے ذریعے ہمارے دین کی حقانیت کو سمجھا اور اس پر ایمان لائے۔ اپنے اس ارفع مشن کو وقتی طور پر بھلا کر ڈاکٹر صاحب دسمبر 2012ء میں پاکستان آئے اور یہاں کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس ملک میں رائج انتخابی نظام کے تحت صادق اور امین لوگ اسمبلیوں میں نہیں جا سکیں گے۔
انھوں نے اپنے لاکھوں پیروکاروں اور عقیدت مندوں کے ساتھ اس یزیدی نظام کو للکارا اور سابقہ حکومت سے وعدہ لیا کہ وہ آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں کے کاغذاتِ نامزدگی کی تفصیلی پڑتال کے مواقع ضرور فراہم کرے گی۔ حکمران اشرافیہ کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی بھلا دیا گیا۔ پاکستان کے تمام لوگوں کو تقریباَ 25 ہزار سے زائد امیدواروں کے کوائف کا جائزہ لینے کے لیے صرف سات دن ملے۔ الیکشن کمیشن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیدواروں کے تمام کوائف انٹرنیٹ پر مہیا کرے گا۔ لوگ اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کھولے بٹنوں سے کھیلتے رہے۔
میں کمپیوٹر سے اتنا واقف نہیں جتنا پاکستان کے عوام کی اکثریت کو سمجھ لیا گیا ہے۔ میں یہ کالم لکھنے تک بارہا کوششوں کے باوجود ہرگز نہیں جان پایا کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھ کر اپنی دیانت اور لگن سے ’’فرزند ِپاکستان‘‘ بن جانے والے شیخ رشید احمد صاحب نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں کیا معلومات دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ بھی الیکشن کمیشن کی اس کوتاہی پر بہت چراغ پا ہے۔ شیخ رشید کے حوالے سے نہیں تمام امیدواروں کے کوائف انٹرنیٹ پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے۔
ہمارے مستعد اور نیک نام صحافیوں کو اس بات پر بھی بہت دُکھ محسوس ہو رہا ہے کہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور نیب جیسے اداروں نے بھی ہمارے امیدواروں کی اکثریت کو کلین چٹ دے دی ہے۔ سیاپا فروشی میں اپنے چہروں اور سینوں پر دوہتڑ مارنے والے ہمارے نیک نام اینکرز پتہ نہیں لوگوں کو کیوں نہیں بتا رہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہر رکن کو ہر سال ستمبر کے مہینے میں اپنے گوشوارے الیکشن کمیشن کو باضابطہ بھجوانے ہوتے تھے۔ الیکشن کمیشن انھیں وصول کرنے کے بعد ہمیشہ اپنی ویب سائٹس پر ڈالا کرتا تھا۔
اسی کی بدولت ہماری اسکرینوں پر ’’سب سے امیر اور سب سے غریب‘‘ عوامی نمایندوں کی کہانیاں چلا کرتی تھیں۔ ہم نے ہر سال باقاعدگی سے فراہم کردہ ان معلومات کی بناء پر ہمارے ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کو اس بات پر مجبور کیوں نہیں کیا کہ وہ ہمیں اس بات کا یقین دلائیں کہ کسی عوامی نمایندے نے اپنے جو گوشوارے جمع کروائے ہیں وہ اس کی جانب سے ادا کردہ ٹیکسوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ نیک نام اینکروں کا اس ضمن میں آج کل کا سیاپا پشتو کے ایک محاورے والا وہ گھونسہ ہے جو بعد میں یاد آتا ہے اور جسے اپنے ہی منہ پر مارنا چاہیے۔
میرے جیسے اینکروں کو مگر اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا اعتراف کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ہم تو خدائی فوجدار ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں گند کی بالٹیاں ہیں جو ہمیں دوسروں کے اوپر اُلٹا کر اپنا دھندا چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہم تو پچھلے پانچ برسوں سے جمشید دستی کو جعلی ڈگری والوں کی علامت کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اب اور کسی نے نہیں ہائیکورٹ کے ایک جج نے طے کر دیا ہے کہ اس پر لگا یہ الزام بالکل غلط تھا۔ ایاز امیر ایک دوسرے حوالے سے عبرت کی مثال بنتے بنتے بچے۔
ان دونوں واقعات کے بارے میں ذرا سا بھی شرمندہ ہوئے بغیر ہم بدستور تمام سیاستدانوں کو اس ملک میں ایک ایسے تنہاء طبقے کے طور پر بدستور پیش کرتے چلے جا رہے ہیں جو دھوکہ باز اور ٹیکس چور ہے۔ ان میں سے جو لوگ منتخب ہو بھی گئے ان میں سے کسی اخلاقی طاقت کے بغیر وزیر وغیرہ بنیں گے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل ہماری دائمی حکومت ان وزیروں کی ایک نہیں سنے گی اور کچھ عرصے بعد ہم دوبارہ سوال اٹھانا شروع کردیں گے کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس