حسن نظامی
لائبریرین
سیاست نہیں ریاست بچاؤ
طلوع از ارشاد احمد عارفموجودہ اجارہ دارانہ انتخابی طریقہ کار پر علامہ طاہرالقادری کے اعتراضات بجا۔ موذی مرض کی تشخیص درست اور انتخابات سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ برحق۔ مگر یہ قوم دودھ کی جلی ہے چھاجھ بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے اس لئے ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ کے نعرے پرہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے۔
گزشتہ شب منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں قاضی فیض الاسلام اور چودھری حفیظ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شہر کے سینئراخبارنویسوں کی شیخ الاسلام سے ملاقات کا اہتمام کیا تو تبادلہ خیال کے دوران بار بار انہی خدشات کااظہار ہوا جو بار بار کے تجربات کی وجہ سے جمہوریت پسند شہریوں کے ذہنوں میں راسخ ہوچکے ہیں۔ بھرپور عوامی تحریک اور انتخاب سے پہلے اصلاح واحتساب کا نعرہ کہیں فوجی مداخلت کا سبب نہ بنے وغیرہ وغیرہ ۔
جمہوریت پرمجبوریت کی پھبتی سے بہت سی جبینیں شکن آلود ہوتی ہیں مگر اس میں غلط کیا ہے؟ حالیہ ضمنی انتخابات نے اقدار کی سیاست کو پیچھے دھکیل کر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، ذات برادری، دھڑے، زبان، نسل اورفرقہ واریت کے بتوں کی سیاسی و انتخابی نظام پربرتری ثابت کی ہے اورہر سیاسی جماعت انہی بتوں کی پوجا کرنے پر مجبور ہے۔
وفاقی کابینہ سات ارب روپے روزانہ کرپشن کے الزام پر جزبز نظرآتی ہے لیکن چیئرمین نیب اعتراف کرتے ہیں کہ سات نہیں بلکہ بارہ ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہورہی ہے یعنی ہمارے سالانہ قومی بجٹ کے برابر یا قدرے زائد۔
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے اعداد دوشمار کہیں زیادہ ہوشربا ہیں۔ اس قدر خوفناک کہ
”کسی بت کدے میں بیاں کروں
تو کہے صنم بھی ہری ہری“
مگر سیاستدانوں اور ان کے مدح خوانوں سے پوچھو تو سب اچھا ہے جمہوریت ان کے نزدیک خیر کا نظام نہیں شر کا منبع ہے۔
اسی سیاسی و انتخابی نظام کے سبب اپنے علم، تجربے، قابلیت، مہارت، لیاقت اور قومی خدمات کی بنا پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر عطاالرحمن اور عبدالستار ایدھی یونین کونسل کے انتخاب میں کامیابی کی امید نہیں کرسکتے البتہ چھٹے ہوئے بدمعاش، کم عقل،ان پڑھ، ان گھڑ اور ناتجربہ کار مردم گزار چودھری، ملک اور خان محض حرام کی دولت، ذات برادری، دھونس، دھڑے، زبان، نسل، مسلک اور قبیلہ کے بل بوتے پر انتخاب جیت کر قوم کامنہ چڑاتے ہیں۔
ضمیر فروش، دغاباز، فریب کار اوروفاداریاں بدلنے کے ماہر ہر سیاسی جماعت کو مطلوب ہیں تاکہ عددی اکثریت کے ذریعے وہ قومی وسائل تک رسائی حاصل کرسکے اور لوٹ مار کا بازار گرام کردے۔
ظلم اورزیادتی کے اس نظام میں اقتدارکا مطلب من مانی، اقربا پروری، خویش نوازی اور اپنے اندرون و بیرون ملک اثاثوں، اکاؤنٹس میں اضافہ، قومی وسائل کا ضیاع، نمود و نمائش اور مخالفین کی سرکوبی ہے۔
قومی خزانہ ان کے لئے حلوائی کی دکان ہے جس پر یہ ناناجی کی فاتحہ پڑھ کر خوش ہوتے ہیں
مگر
کیا اس نظام کا برقرار رہنا ملک وقوم کے مفاد میں ہےاور ناکامی کی طرف بڑھتی ریاست زیادہ عرصہ تک اس نظام کا بوجھ برداشت کرسکتی ہے؟
اس نظام کو بدلنے کا جو نسخہ شیخ الاسلام تجویز کرتے ہیں اس سے فی الحال کوئی مطمئن نہیں۔
قوم کو سڑکوں پر لا کر آئین کوفوجی مداخلت سے بچانا اور محض عددی دباؤ پر ایک ایسی حکومت کا قیام جو ایماندار، اہل، باصلاحیت، تجربہ کار اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار افراد پرمشتمل ہو کارِ دارد ہے
ہاں!!
اگر فوج اور عدلیہ نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ ملک کو بچانے اور نظام کو عوام کے لئے ثمر آور، مفید، خیر کا چشمہ بنانے کی خاطر دونوں ادارے موجودہ پارلیمینٹ اور صدر پر ڈال کر ایسی انتخابی اصلاحات کراسکتے ہیں جن کے نتیجے میں نچلی اور متوسط کلاس کے ایماندار، تجربہ کار اور خدمت کے جذبے سے سرشار پڑھے لکھے شہری بھی کروڑوں روپیہ خرچ کئے بغیر پارلیمینٹ تک پہنچ سکیں تو معدودِ چندکوتاہ بینوں اورمفاد پرستوں کے سواکسی کواعتراض نہیں ہوگا۔
آخر عدلیہ کی بحالی کے ہنگام جنرل کیانی کی مداخلت کا سب نے خیرمقدم کیا تھا ”وہ اچھا ہے کہ جس کا مال اچھا ہے“
اگر علامہ صاحب 23دسمبر کو ایسا کوئی دستوری فارمولا پیش کردیتے ہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
انہیں یقین ہے کہ سڑکوں پر بیٹھے لاکھوں عوام آزاد میڈیا اور فعال عدلیہ کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی جنگ جیت سکتے ہیں تو
ہم خوش ہمارا خداخوش
ہمیں نہ تو بروقت انتخابات سے کوئی خوش فہمی لاحق ہے کہ 1970 سے لے کر 2008 کے انتخابات نے قوم کے مصائب، مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے اور نہ لوٹ مار، دھونس دھاندلی اور اشرافیہ کی اجارہ داری کے موجودہ نظام کو ہر قیمت پر جاری رکھنے سے کوئی دلچسپیالبتہ یہ خوش فہمی ضرور ہے کہ حقیقی تبدیلی اور سیاسی وانتخابی نظام میں اصلاح کی خواہش مند قوتیں مل جل کر جدوجہد کریں۔
بیداری عوام کی زوردار مہم چلائیں۔
پانچ سال جاری رہنے والے ظلم و زیادتی کے نظام کی تباہ کاریوں سے شہری و دیہی عوام کو آگاہ کریں اور حقیقی جمہوریت کے فوائد بتائیں
تو شاید غیرجانبدار نگران حکومت کے فول پروف انتظام کی وجہ سے اگلے انتخابات منصفانہ اور فائدہ مند ہوں اور خیر کی قوتیں اتنی قوت حاصل کرلیں کہ منہ زور برائی کا راستہ روک سکیں۔
جب کسی جماعت کے امیدوار کوووٹروں پردھونس جمانے، اسلحہ لہرانے، بیلٹ بکس غائب کرنے اور تھانیدار، پٹواری، ڈی پی او، ڈی سی او کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی سہولت حاصل نہ ہوگی۔
نوجوان اور خواتین ووٹ کے ذریعے سیاست کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں بشرطیکہ سٹیٹس کو کی قوتوں کی طرح تبدیلی کے علمبردار بھی متحد، مستعد، چوکس اور بیدارہوں۔
آج اگر جنرل پرویز مشرف کے ساتھی اور مخالف سٹیٹس کو کی علم بردارجماعتوں کے گھاٹ پر اکٹھے پانی پی رہے ہیں اور کسی کو ان پر اعتراض نہیں اسے جمہوریت کا حسن اور کامیابی کا گر قرار دیا جارہا ہے
تو
آخر ظلم، نا انصافی، کرپشن، دادا گیری اور فریب کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے داعی الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بسائے رکھنے پر مصر کیوں؟
اگر علامہ طاہر القادری ان لوگوں کے ساتھ مل کر تبدیلی اوراصلاحات کے ایجنڈے پرکام کریں جو موجودہ بدبودار سیاسی، اقتصادی، معاشی اورسماجی ڈھانچے کو منہدم کرکے ایک نئی دنیا بسانا چاہتے ہیں اورعوام بھی ذاتی و گروہی مفادات کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر ان کا ساتھ دیں توووٹ کے ذریعے تبدیلی خارج ازامکان نہیں۔
سٹیٹس کو کے حامیوں کی نذر حضورسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ”بے شک اللہ تعالیٰ عوام پر خواص (اشرافیہ) کے برے اعمال کے سبب عذاب نازل نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیا ن برائی کو کھلے عام پائیں اور روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں، جب وہ ایسا کرنے لگیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہر خاص و عام پر (بلاامتیاز) عذاب نازل کرتا ہے۔“
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشعور طبقات تبدیلی کے منتظر ہیں یا……؟