جنابِ «محمد فضولی بغدادی» کا تُرکی نعتیہ قصیدہ «سو قصیدہ‌سی» (قصیدۂ آب)

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» کا نعتیہ قصیدہ «سو قصیده‌سی» (قصیدۂ آب) بلامُبالغہ مخزنِ شعرِ تُرکی کا سب سے معروف ترین نعتیہ گَوہر ہے اور اِس کو تُرکی ادبیات میں وہی شُہرت و رُتبہ حاصل ہے جو مثَلاً عرَبی ادبیات میں قصیدۂ بُردہ کے حِصّے میں آیا ہے۔ اِس نعتیہ قصیدے کو «سو قصیده‌سی» اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اِس کی ردیف «سو» ہے جو زبانِ تُرکی میں «آب» کو کہتے ہیں۔ یہ قصیدہ بحرِ رملِ مُثمّنِ محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) میں ہے۔
جنابِ «فُضولی» علیہ التّحِیّہ کے نام و آثار کو پاکستانیوں میں مزید شِناختہ و مُتعارف کرانے کے لیے اِس قصیدے کا تدریجاً ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ مشیّتِ ایزدی سے آرزو ہے کہ یہ کار جلد اِتمام تک پہنچے گا!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۱
ساچما ای گؤز اشک‌دن کؤنلۆم‌ده‌کی اۏدلاره سو
کیم بو دنلۆ توتوشان اۏدلارا قېلماز چارہ سو
(محمد فضولی بغدادی)

اے چشم! میرے دل میں موجود آتشوں پر اشک سے آب مت چِھڑکو، کیونکہ اِس قدر [زیادہ] براَفروختہ و شُعلہ ور آتشوں کا چارہ آب سے نہیں ہوتا۔ (یعنی آب اِن آتشوں کو نہیں بُجھا سکتا۔)

جمہورۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Saçma, ey göz, əşkdən könlümdəki оdlarə su
Kim, bu dənlü tutuşan оdlara qılmaz çarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Saçma ey göz eşkden göñlümdeki odlare su
Kim bu deñlü tutuşan odlare kılmaz çâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۲
آب‌گون‌دور گُنبدِ دوّار رنگی بیلمه‌زم
یا مُحیط اۏلموش گؤزۆم‌دن گُنبدِ دوّاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
میں نہیں جانتا کہ [آیا] گُھومنے والے گُنبد (آسمان) کا رنگ آب جیسا ہے، یا پھر میری چشم سے آب [نِکل نِکل کر اِس] گُھومنے والے گُنبد (آسمان) پر مُحیط ہو گیا (یعنی پھیل گیا) ہے۔
(یعنی شاعر کو لگتا ہے کہ شاید آسمان کا آبی رنگ اُس کے اشکوں کے باعث ہے۔)

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Abgundur günbədi-dəvvar rəngi, bilməzəm,
Ya mühit оlmuş gözümdən günbədi-dəvvarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Âbgûndur günbed-i devvâr rengi bilmezem
Yâ muhît olmış gözümden günbed-i devvâre su
 

حسان خان

لائبریرین
۳
ذوقِ تیغین‌دن عجب یۏخ اۏلسا کؤنلۆم چاک-چاک
کیم مُرور ایله‌ن بوراخېر رخنه‌لر دیواره سو

(محمد فضولی بغدادی)
[اے محبوب!] اگر تمہاری تیغِ [آب دار] کے ذَوق سے میرا دل چاک چاک ہو جائے تو عجب نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ مُرورِ زمانہ کے ساتھ (یعنی وقت گُذرنے کے ساتھ ساتھ) آب دیوار میں رخنے (شِگاف و سوراخ) چھوڑ جاتا ہے۔ (یعنی آب آہستہ آہستہ دیوار میں شِگاف کر دیتا ہے۔)

× «تیغ» کو اُس کی آبداری کی وجہ سے «آب» کے ساتھ نسبت دی گئی ہے۔
× ممکن ہے کہ یہاں «تیغ» سے محبوب کی نگاہ مُراد ہو۔
× مصرعِ اوّل میں «کؤنلۆم» کی بجائے «گؤگسۆم» بھی نظر آیا ہے یعنی: اگر تمہاری تیغِ [آب دار] کے ذَوق سے میرا سینہ چاک چاک ہو جائے تو عجب نہیں ہے۔۔۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Zövqi-tiğindən əcəb yоx, оlsa könlüm çak-çak
Kim, mürur ilən buraxır rəxnələr divarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Zevk-ı tîġuñdan 'aceb yoh olsa göñlüm çâk çâk
Kim mürûr ilen bırakur rahneler dîvâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۴
وهْم ایله‌ن سؤیله‌ر دلِ مجروح پَیکانېن سؤزۆن
احتیاط ایله‌ن ایچه‌ر هر کیم‌ده اۏلسا یاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
دلِ زخمی [تمہارے] تیر کی نوک کے بارے میں خوف کے ساتھ سُخن کرتا (بولتا) ہے۔۔۔ جو بھی شخص زخمی ہو وہ احتیاط کے ساتھ آب پِیتا ہے۔

تشریح:
«پَیکان» تیر کی آہنی نوک کو کہتے ہیں، اور اِس سے احتمالاً معشوق کی مِژگاں مُراد ہیں۔ یعنی عاشق کا دلِ مجروح معشوق کی مِژگاں کے بارے میں خوف و لرز کے ساتھ سُخن کہتا ہے۔ ایک قدیم طِبّی باور یہ تھا "مجروح کو آب نہیں پِینا چاہیے، کیونکہ آب پِینا مجروح کی موت کا باعث بن جاتا ہے"۔ زخمی حالت میں آب پِینے میں احتیاط اُسی باعث کی جاتی تھی۔ اور فُضولی نے اُسی طِبّی باور پر اِستِناد کرتے ہوئے عاشق کے دلِ مجروح کے طرزِ عمل کی یہ توجیہہ کی ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Vəhm ilən söylər dili-məcruh peykanın sözün,
Ehtiyat ilən içər hər kimdə оlsa yarə, su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Vehm ilen söyler dil-i mecrûh peykânuñ sözin
İhtiyât ilen içer her kimde olsa yare su
 

حسان خان

لائبریرین
۵
سویا وئرسین باغ‌بان گُل‌زارې زحمت چکمه‌سین
بیر گُل آچېلماز یۆزۆن تک وئرسه مین گُل‌زاره سو

(محمد فضولی بغدادی)

باغبان کو چاہیے کہ وہ گُلزار کو آب میں بہا دے، [اور یوں بے فائدہ] زحمت مت اُٹھائے۔۔۔ اگر وہ ہزار گُلزاروں کو آب دے [تو بھی] تمہارے چہرے جیسا کوئی گُل شکوفا نہ ہو گا۔
× شُکُوفا ہونا = کِھلنا

× «سویا وئرسین» کا لفظی ترجمہ «وہ آب کے سپرد کر دے!» ہے، یعنی وہ آب میں بہا دے اور نابود کر دے!۔
× «بیر» کا معنی «ایک»، جبکہ «مین» کا معنی «ہزار» ہے۔ مصرعِ ثانی میں اِن دونوں الفاظ کے مابین صنعتِ تضاد کا استعمال ہوا ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Suya versin bağban gülzarı, zəhmət çəkməsin,
Bir gül açılmaz yüzün tək, versə min gülzarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Suya virsün bâġban gülzârı zahmet çekmesün
Bir gül açılmaz yüzüñ tek virse biñ gülzâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۶
اۏخشادا بیلمه‌ز غُبارې‌نې مُحَرِّر خطّینه
خامه تک باخماق‌دان ائنسه گؤزلری‌نه قاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
کاتب اپنے [خطِ] غُبار کو تمہارے خطِ [مُو] سے مُشابِہ نہیں کر سکتا۔۔۔ خواہ نگاہ کرتے کرتے اُس کی چشموں میں قلم کی طرح سیاہ آب اُتر جائے۔

تشریح:
«غُبار» ایک رسم الخط کا بھی نام ہے، جس کی خاصیت یہ ہے کہ اُس کو بِسیار کُوچَک (چھوٹا) لِکھا جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے محبوبِ جواں کے چہرے پر تازہ اُگے کُوچک بالوں کو خطِ غُبار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ بیت میں شاعر محبوب سے (یا جنابِ پیغمبر سے) کہہ رہا ہے کہ اگر کاتب اپنے خطِ غُبار کو تمہارے چہرے کے کُوچک بالوں جیسا کرنا چاہے تو ہرگز ایسا نہیں کر سکتا، خواہ تمہارے چہرے پر مُسلسل نگاہ کرتے رہنے سے اُس کی چشموں میں سیاہ آب اُتر آئے اور وہ نابینا ہو جائے۔ فارس-تُرک ادبیات میں "آبِ سیاہ" اُس سیاہی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جس سے لِکھا جاتا ہے۔ شاعر اِس بیت میں غُبار، مُحرِّر، خامہ، خط، قاره سو (آبِ سیاه، سیاہی) جیسے الفاظ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے صنعتِ مُراعات النظیر کو بروئے کار لایا ہے۔
قلم کی چشم میں سیاہ آب اُتر آنا یعنی قلم کی نوک میں سیاہی بھر جانا۔
چونکہ یہ ایک نعتیہ قصیدے کی تشبیب کا بیت ہے، لہٰذا گُمان کیا جا سکتا ہے کہ بیتِ ہٰذا میں شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ قلم پیغمبرِ گِرامی کے چہرے کی زیبائی کی توصیف کر پانے پر قادر نہیں ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Оxşada bilməz qübarini mühərrir xəttinə,
Xamə tək baxmaqdan ensə gözlərinə qarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ohşadabilmez gubârını muharrir hattuña
Hâme tek bahmakdan inse gözlerine kare su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۷
عارِضین یادیله نم‌ناک اۏلسا مژگانېم نۏلا
ضایع اۏلماز گُل تمنّاسیله وئرمه‌ک خاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
اگر تمہارے رُخسار کی یاد سے میری مِژگاں (پلکوں کے بال) نم ناک ہو جائیں تو کیا ہوا؟۔۔۔ گُل کی تمنّا میں خار کو آب دینا ضائع نہیں جاتا۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Arizin yadilə nəmnak оlsa müjganım, nоla,
Zaye’ оlmaz gül təmənnasilə vermək xarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
'Ârizuñ yâdıyla nemnâk olsa müjgânum n'ola
Zâyi' olmaz gül temennâsıyla virmek hâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۸
غم گۆنۆ ائتمه دلِ بیماردان تیغین دِریغ
خَیردیر وئرمه‌ک قارانقو گئجه‌ده بیماره سو

(محمد فضولی بغدادی)
بہ روزِ غم، دلِ بیمار سے اپنی تیغ کو دریغ مت رکھو!۔۔۔ تاریک شب میں بیمار کو آب دینا [کارِ] خیر ہے۔

تشریح:
«تیغ» مِژگان (اور نِگاہ) کا اِستِعارہ ہے۔ شاعر اپنے یار سے درمندانہ خواہش کر رہا ہے کہ وہ خود کی نِگاہ کو اُس کے دلِ بیمار سے دریغ مت رکھے۔ اور قصیدے کی بیتِ چہارُم کی مانند اِس بیت میں بھی ایک قدیم طِبّی باور پر اِستِناد کیا گیا ہے: بیماری شب کے وقت شِدّت پکڑتی ہے، پس شبِ تاریک میں بیمار کو آب دینا اور اُس کی تیمارداری کرنا کارِ ثواب ہے۔ لیکن اِس کے باوجود، جیسا کہ بیتِ چہارم میں اشارہ گُذرا ہے، زخمی کو زیادہ آب دینا اُس کے لیے زِیاں‌آور اور مُہلِک ہے۔ دونوں حالتوں کو مدِّ نظر رکھا جائے، تو تیغ (نِگاہ) کو آب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نگاہِ معشوق اگرچہ آرام‌بخش و شادمانی‌بخش ہے۔ لیکن یہ عاشق کو فرطِ ہَیجانِ دیدار سے ہلاک کر دیتی ہے، کیونکہ «عاشقا‌ں کُشتگانِ معشوق ہیں»۔ «بیمار کو آب دینا کارِ ثواب ہونا» صنعتِ تشبیہِ تمثیل کا ایک نمونہ ہے۔ «روزِ غم» اور «شبِ تاریک»، «دلِ بیمار» اور «بیمار»، «تیغ» اور «آب»، جُفتوں (جوڑیوں) کے لِحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتے ہیں، اور اِس ارتباط سے صنعتِ لفّ و نشر وجود میں آئی ہے۔ ضِمناً، «روز» اور «شب» صنعتِ تضاد یا طِباق کے استعمال کے ذریعے سے ایک باہمی مُتَناقِض رابطے میں ایک دوسرے کے مُقابِل موجود ہیں۔
شاعر پیغمبر (ص) سے روزِ قیامت، کہ «یوم التغابُن» (روزِ زیاں و خسارہ و پشیمانی و افسوس) ہے، کے لیے شفاعت کی خواہش کر رہا ہے۔

(شارح: علی‌اصغر شعردوست)
(مترجم: حسّان خان)


جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Qəm günü etmə dili-bimardən tiğin diriğ,
Xeyrdir vermək qaranqu gecədə bimarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ġam güni itme dil-i bîmârdan tîġuñ dirîġ
Ḫayrdur virmek ḳaranġu gicede bîmâre su
 
من لبین مۆشتاقې‌یم، زؤهّاد کؤثر طالِبى،
نئته ‏کیم مسته مى ‏ایچمک خۏش گلیر،هۆشیاره سو!

(فضولی بغدادی)
میں تیرے لب کا مشتاق ہوں جبکہ زاہد (آبِ) کوثر کے طالب ہیں جیسے مست کو شراب‌نوشی خُوب لگتی ہے اور ہوش‌یار کو آب !

Mən ləbin müştaqiyəm, zöhhad Kövsər talibi,
Netəkim məstə mey içmək xoş gəlir, hüşyarə su
 
فارسی میں قصیدہٗ انیس القلب اور ترکی میں قصیدہٗ آب فضولی کے خوب ترین قصیدے ہیں۔ اس سے شیریں تر قصیدے کم از کم میری نظر سے نہیں گزرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں قصیدہٗ انیس القلب اور ترکی میں قصیدہٗ آب فضولی کے خوب ترین قصیدے ہیں۔ اس سے شیریں تر قصیدے کم از کم میری نظر سے نہیں گزرے۔
نعتیہ قصائد میں تو «سو قصیده‌سی» سے بہتر و زیباتر و معروف‌تر کوئی تُرکی قصیدہ مجھے نظر نہیں آیا۔
خُدا زُود اِس قصیدے کے ترجمے کو اختتام تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے!
 

منہاج علی

محفلین
ک
۷
عارِضین یادیله نم‌ناک اۏلسا مژگانېم نۏلا
ضایع اۏلماز گُل تمنّاسیله وئرمه‌ک خاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
اگر تمہارے رُخسار کی یاد سے میری مِژگاں (پلکوں کے بال) نم ناک ہو جائیں تو کیا ہوا؟۔۔۔ گُل کی تمنّا میں خار کو آب دینا ضائع نہیں جاتا۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Arizin yadilə nəmnak оlsa müjganım, nоla,
Zaye’ оlmaz gül təmənnasilə vermək xarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
'Ârizuñ yâdıyla nemnâk olsa müjgânum n'ola
Zâyi' olmaz gül temennâsıyla virmek hâre su
یا کہنے وااااہ !!!
 
Top