جنازہ نکلا ہے تہذیب کا

جنازہ نکلا ہے تہذیب کا
مردہ ضمیری کی حد ہوگئی ہے
فرنگی رسموں کو فروغ دے کر
یہ بیج کیسے بو رہے ہیں۔۔؟
خواب غفلت میں سو رہے ہیں
فراموش کرکے افکار و عقائد
کیوں جہنم کے ہو رہے ہیں۔۔؟
فرنگیوں کے نمائندوں نے
صنفِ نازک کو ورغلایا
اعتدالی کا سبق دے کر
مرد و زن کا فرق مٹایا
آزادیءِ نسواں کی راہ دکھائی
بنتِ حوا میداں میں آئی
حجاب و عفاف اتار پھینکا
جھجکی نہ سمٹی نہ ہی شرم آئی
اطراف میں ہے مایوسی چھائی
اے دانشورو۔! اے میرے رہبرو!
امید کیسی ہے اب نسل نو سے؟
تخلیق محمد اطہر طاہر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محمد اطہر صاحب آپ کا بیان و اسلوب شاعرانہ تو ہے مگرشعرو اوزان کی قیود سے ماوراء ہے ۔ اشعار اور بحر کے اوزان کی پابندی کی طرف توجہ دیجئے تو بہت اچھا ہو گا۔اس کی وجہ سےیہ شاعری پابند بحور نہیں کہلائے گی ۔
دوسرے یہ کہ اعتدال یا بے اعتدالی کا سبق ہو سکتا ہے محض "اعتدالی کا سبق" اسلوب و بیان کی رو سےدرست نہیں ۔ ۔۔۔۔ایک رائے بصد آداب
 
Top