عبدالقیوم چوہدری
محفلین
4 ستاریاں آلا کہیڑا اے اینھاں وِچوں ؟
4 ستاریاں آلا کہیڑا اے اینھاں وِچوں ؟
تصحیح: ۴ نہیں ۳ اسٹار رینک تک گئے ہیں قادیانی جرنیل4 ستاریاں آلا کہیڑا اے اینھاں وِچوں ؟
تو پھر فوجی فاؤنڈیشن کب ہاؤسنگ سوسائیٹیز کا کاروبار بیچ کر اپنا سرمایہ انڈسٹری میں لگا رہی ہے؟
پاکستان میں جج، جرنیل اور سیاست دان کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔پاکستان میں فوج ہی کُل کاروبار کر لے اور کُل حکومت چلا لے۔ اب وزارت خارجہ پر ہی قبضہ دیکھیں۔
٣٨ سال فوج میں رہنے کرنے کے بعد میجر جنرل ر عبد العزیز طارق اب برونائی میں ہمارے سفیر ہیں۔ کوئی سویلین اتنا کولیفائڈ نہیں؟
تو پھر فوجی فاؤنڈیشن کب ہاؤسنگ سوسائیٹیز کا کاروبار بیچ کر اپنا سرمایہ انڈسٹری میں لگا رہی ہے؟
کسی سرکاری ادارہ یا محکمہ میں بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوتی۔ سفارش، سیاسی وابستگی یا ڈھول سپاہیہ کے دباؤ پر اپنے اپنے مفاد میں لوگ جگہ جگہ بٹھا دیے گئے ہیں۔ پھر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ملک کا نظام کیوں نہیں چل رہا۔ دنیا میں ہر جگہ نظام میرٹ سے چلتا ہے۔ جو پاکستان میں موجود نہیں۔
لیفٹنیٹ جنرل ر مزمل حسین واپڈا کے چیرمین قریباً ۵ سال سے لگے ہیں تو لگے ہیں۔
کسی سرکاری ادارہ یا محکمہ میں بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوتی۔ سفارش، سیاسی وابستگی یا ڈھول سپاہیہ کے دباؤ پر اپنے اپنے مفاد میں لوگ جگہ جگہ بٹھا دیے گئے ہیں۔ پھر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ملک کا نظام کیوں نہیں چل رہا۔ دنیا میں ہر جگہ نظام میرٹ سے چلتا ہے۔ جو پاکستان میں موجود نہیں۔
وہ جو کروڑوں نوکریوں کا وعدہ تھا صرف جرنیلوں کیلئے تھاچیرمین PTA بنے ہیں میجر جنرل عامر عظیم باجوہ۔
جو سوال پورے قد سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جیسا کہ نواز شریف کو کیوں جانے دیا گیا (اب یہ نیا بیانیہ تیار کر لیا گیا ہے کہ وہ محب وطن ہیں کیونکہ جانے کی اجازت جو دے دی تھی)، کلبھوشن کو پھانسی کیوں نہیں لگائی جاتی ہے (حیرت انگیز طور پر اس کا انتہائی بھونڈا جواز تلاش کر لیا گیا ہے، ھاھا) تو، ان جوابات کے حوالے سے بعض 'چنیدہ' صحافیوں کو بلوا کر سبکی مٹانے کی غرض سے اور اپنے نام نہاد بیانیے کو تقویت دینے کے لیے جوابات سامنے رکھ دیے جاتے ہیں اور یوں باجوہ ڈاکٹرائن کے تسلسل کے ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں حالانکہ ملک کے مجموعی حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں ہو چکے اور فوج میں بھی کرپشن کے الزامات اور حتیٰ کہ واضح شواہد کے بعد اب اس ڈاکٹرائن میں جان نہیں رہی مگر جب تک جاوید چوہدری، صالح ظافر، صابر شاکر اور اس قبیل کے دیگر صحافی موجود ہیں، میڈیا پر یہ منجن بیچا جاتا رہے گا۔ جرنیل مبینہ طور پر پاپا جانز ریستوران چینز اور جزیرے خریدتے رہیں گے، من پسند سیاست دان نیب زادے بن کر رہیں گے اور عوام باجوہ ڈاکٹرائن کی مالا جپتی رہے گی۔جنرل باجوہ کو سلیکٹ کر کے آرمی چیف لگانے والا نواز شریف۔ اسحاق ڈار کو سلیکٹ کر کے وزیر خزانہ لگانے والا نواز شریف۔ ایک نے جمہوریت تباہ کر دی۔ دوسرے نے معیشت۔ لیکن نواز شریف پھر بھی محب وطن ہے۔ ایسے ذہین و فطین دماغ رکھنے والی قوم ہے پاکستان کی۔
یہ ادارے تمہارے ہیں ہم ہیں خوامخواہ اس میںاور نیشنل ہائے وے اتھارٹی کے چیرمین بنے ہیں کیپٹن ر محمد خرم آغا۔
کیپٹن خرم سے قبل اس عہدے پر تھے کیپٹن ر سکندر قیوم۔
اتنے بڑے ٹڈ بھی صرف فوج میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیںیہ ہیرے، خاکستر میں چنگاریاں اور شعلہ بدن اور ہنر مند سب فوج میں ہی پائے جاتے ہیں۔ سویلینز کا کیا ہے، اللہ ہی اللہ۔
ان میں فور سٹار جنرل کون تھا؟ دو احمدی جنرلز بھائی مشہور ہیں، لیفٹننٹ جنرل اختر حسین ملک اور لیفٹننٹ جنرل عبدالعلی ملک۔ ظاہر ہے دونوں ہی تھری سٹار جنرلز تھے۔ ہاں اول الذکر کے "کریڈٹ" پر 1965ء کے بدنامِ زمانہ آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام ہیں، جو کہ دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے تھے!
بغض قادیانیت۔ اسٹریٹیجک اخنور فتح ہونے کے قریب تھا کہ جنرل ایوب نے عین حملہ کے دوران جنرل ملک کو تبدیل کر دیا۔ یوں بھارت کو کمان کی تبدیلی میں ضائع ہونے والے وقت سے سنبھلنے کا موقع مل گیا۔ یہ حقائق تو دونوں اطراف کے تاریخ دان مانتے ہیں۔ پھر بھی جنگ میں ناکامی کا سارا ملبہ جنرل اختر ملک پر ڈال دیا جاتا ہے۔ہاں اول الذکر کے "کریڈٹ" پر 1965ء کے بدنامِ زمانہ آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام ہیں، جو کہ دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے تھے!
بغض نہیں ہے بلکہ آپ کا مطالعہ انتہائی ناقص ہے۔ جنرل ملک کی تبدیلی تو بہت بعد کی بات ہے، مذکورہ دونوں آپریشنز ہی انتہائی ناکارہ تھے، اور چند فوجی جرنیلوں کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی شعبدہ باز بھی اس میں شامل تھے، نہ صرف یہ آپریشنز غلط طور پر تیار کیے گئے بلکہ ان میں جتنے بھی مفروضات تھے (یعنی جتنی باتیں فرض کی گئی تھیں کہ ایسے ہوگا، ویسے ہوگا) وہ بھی سارے کا سارا غلط ثابت ہوا، اور دونوں آپریشنز تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے تھے۔ جنرل ملک ان دونوں آپریشنز کی منصوبہ بندی میں شامل تھا!بغض قادیانیت۔ اسٹریٹیجک اخنور فتح ہونے کے قریب تھا کہ جنرل ایوب نے عین حملہ کے دوران جنرل ملک کو تبدیل کر دیا۔ یوں بھارت کو کمان کی تبدیلی میں ضائع ہونے والے وقت سے سنبھلنے کا موقع مل گیا۔ یہ حقائق تو دونوں اطراف کے تاریخ دان مانتے ہیں۔ پھر بھی جنگ میں ناکامی کا سارا ملبہ جنرل اختر ملک پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ویسے اگر جنرل اختر ملک کو تبدیل نہ کیا جاتا اور اخنور فتح ہوجاتا تو کیا پھر بھی بھارت لاہور پر حملہ کرتا؟ اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے جو بھی اندازہ لگائے وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ اور لاہور حملہ کے وقت تو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔بغض نہیں ہے بلکہ آپ کا مطالعہ انتہائی ناقص ہے۔ جنرل ملک کی تبدیلی تو بہت بعد کی بات ہے، مذکورہ دونوں آپریشنز ہی انتہائی ناکارہ تھے، اور چند فوجی جرنیلوں کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی شعبدہ باز بھی اس میں شامل تھے، نہ صرف یہ آپریشنز غلط طور پر تیار کیے گئے بلکہ ان میں جتنے بھی مفروضات تھے (یعنی جتنی باتیں فرض کی گئی تھیں کہ ایسے ہوگا، ویسے ہوگا) وہ بھی سارے کا سارا غلط ثابت ہوا، اور دونوں آپریشنز تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے تھے۔ جنرل ملک ان دونوں آپریشنز کی منصوبہ بندی میں شامل تھا!
اکھنور کی فتح سے زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ کشمیر میں بھارتی فوج کی گزرگاہ پاکستان کے قبضے میں آ جاتی اور انڈین فوج کو کچھ عرصہ کے لیے وہاں مشکلات پیش آتیں اور بس، لیکن اکھنور فتح کرنے کے لیے سیالکوٹ کے پاس انٹرنیشنل بارڈر کراس کرنا ضروری تھا جو کہ پاکستانی فوج نے کیا (اور یہی آپریشن گرنیڈ سلام تھا) اور اس سے پہلے کشمیر میں تو آپریش جبرالٹر تو کر ہی رہے تھے (جو اتنا ناکام تھا کہ چوتھے دن سارے کا سارا آپریشن جبرالٹر آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہو رہا تھا، گرفتار شدہ پاکستانی افسروں کی زبانی)۔ ان دونوں آپریشنز اور انٹرنیشنل بارڈر کراس کرنے کے باوجود یہاں عقل کے اندھے سمجھتے تھے کہ انڈیا مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر کچھ کیا بھی تو مشرقی پاکستان میں کرے گا۔ ان کی آنکھیں تب کھلیں جب انڈین فوج لاہور اور سیالکوٹ چونڈہ کے دروازوں پر اپنے ٹینکوں سے دستک دے رہی تھی!ویسے اگر جنرل اختر ملک کو تبدیل نہ کیا جاتا اور اخنور فتح ہوجاتا تو کیا پھر بھی بھارت لاہور پر حملہ کرتا؟ اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے جو بھی اندازہ لگائے وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ اور لاہور حملہ کے وقت تو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔