فارقلیط رحمانی
لائبریرین
جنسی بے راہ روی ایک چیلنج
ڈاکٹر محمد آفتاب خاں / ریاض اختر
موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اب وہ ہمارے دروازے پر ہی دستک نہیں دے رہا بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے، ٹی وی ، ڈِش، اِنٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کررہی ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اورامریکہ کے نقش قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں جس پر وہ عیسائی مذہبی رہنماؤں کی غلط تعلیمات و نظریات کے نتیجے میں آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل رواں دواں ہوئے تھے، امریکہ اور یورپ اس جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بن بیاہی ماؤں ، طلاقوں کی بھرمار، خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں، کیا مسلمان بھی انہیں نتائج سے دو چار ہونا چاہتے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے چند سوالات ہیں جنہوں نے سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کیا ہواہے۔ اس کا علاج ایک طرف امریکہ یورپ اور اقوام متحدہ کی جانب سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے مسلمانوں کو اسی رنگ میں رنگنے کے لیے کوششوں سے ہورہا ہے۔ تاہم اس کا دوسرا یقینی اورقابل اعتماد حل وہ ہے جو ہمیں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے دیا گیا تھا، جسے نظر انداز کرنے اور بھلانے سے ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں، زیر نظر مضمون میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے۔
جنرل (ر) عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ ’’مغرب کا نعرہ ’’آزادی‘‘ وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدر آزادی کہتی ہے، اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کرسکیں، کیبل پر اتنہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم و حیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے لگے ہیں، موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکنگ کے غلط استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔
اٹھارھویں صدی عیسوی یورپ کی عورتوں کے لیے بالخصوص اور تمام دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم ایک ایسی بد قسمت صدی ثابت ہوئی جس کے مسائل اور آلام ومصائب سے انسانیت آج تک بلبلارہی ہے، اور نہ معلوم کتنے عرصے تک اسے اس کے برے اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔ ۱۷۶۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کی وجہ سے دیہاتوں سے شہروں کی جانب آبادی کے بہاؤ کے نتیجے میں یورپ کے بڑے بڑے شہر تو آباد ہوگئے لیکن اس کی وجہ سے یورپین خاندانی اور معاشرتی ڈھانچا زیر و زبر ہوگیا، بعد ازاں جنگ عظیم اول اور دوم کی وجہ سے مرد و عورت کے تناسب میں ایک ایسا تفاوت پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں جنسی وصنفی انار کی کا ایک طوفان بے محابہ اٹھ کھڑا ہوا، عورتوں کو اپنے خاندان کے وجو د کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت قلیل معاوضے پر طویل دور انئے کے لیے کام کرنا پڑا، سرمایہ دار نے ان کی محنت کا ہی استحصال نہیں کیا بلکہ ان کی عزت و عصمت کا بھی سودا کرلیا۔
عورت گھر سے باہر نکلی تو دنیا کے تقاضے مختلف پائے، اب اس کے سامنے دو راستے تھے، ایک تو یہ کہ گھر واپس لوٹ جائے، مگر اس صورت میں سہولیات سے محرومی نظر آتی تھی، دوسری راہ اس سے بالکل متضاد تھی کہ وہ مرد کے ساتھ مسابقانہ اصول کے تحت اپنی نسوانیت کو خیرباد کہتے ہوئے شرم و حیا کو بھی بالائے طاق رکھے اورمرد کی ہوس کا شکار ہوتی رہے، یہ راہ جنسی بے راہ روی کے اس میدان تک لے گئی جہاں عورت اب ماں ، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں رہی تھی بلکہ جنسی کشش اور دعوت کا نمونہ بن گئی، انہیں حالات میں اس کے اندر پیدا ہونے والی سوچ نے ایک رد عمل کو جنم دیا جو بتدریج بڑھتا ہوا احتجاجی مظاہروں ، جلسے جلوسوں اور تشہیری مہم کے ذریعے اس قدر طاقت ور ہوگیا کہ نتیجتاً عورتوں کو مردوں کے برابر معاوضے کا حق مل گیا۔
بات یہیں تک رک جاتی تو گوارا تھا ، عورت گھر سے باہر نکلی، کام اورمعاوضے کا حق تسلیم کیا گیاہر سطح پر برابری ملنے لگی تو بالآخر معاملہ نسوانی تحریکوں کے ایک چونکادینے والے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کو چیلنج کردیا، ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کی، مردانہ سازش تھی، اس ’سازش‘ کے خلاف ’جنگ‘یوں جیتی جاسکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کے لیے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی اہل ہو ،یوں سمجھئے کہ گیند اب ایک ڈھلوان سڑک پر تھی جو آگے ہی آگے چلی جارہی تھی، عورتوں نے جنس کے فطری تقاضے کی تسکین کے لیے ازدواجی حدودکو یکسر مسترد کردیا، اورایک نیا نعرہ بلند ہوا کہ ’’عورت کا جسم اس کی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔ مردوں کے لیے یہ امر خوش کن تھا، عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہوگئے۔ لیکن اس کی کس قدر قیمت طبقۂ نسواں اور انسانیت کو ادا کرنی پڑی اس کا ابھی تک مکمل شعور انسان کو نہیں ہوسکا۔
اٹھارھویں صدی میں چرچ اور سائنس کے درمیان جو جنگ لڑی گئی اس میں چرچ کے غیر عقلی اور غیر منطقی طرز عمل سے اس کا دائرہ عمل یورپ کی سوشل زندگی اور بالآخر ریاست کے دائرہ کار سے بالکل علیحدہ ہوگیا، انقلاب فرانس اورمارٹن لوتھرکے ذریعے الحادی نظام کو جڑپکڑنے کا موقع ملا اور یوں چرچ نے خوداپنے آپ کو وینی کن سٹی (روم) کی چاردیواری تک محدود کرلیا، مزید برآں عیسائیت کو دیگر تمام الہامی مذاہب کے برابر گردانتے ہوئے یورپی مفکرین نے تمام مذاہب بشمول اسلام کو بھی خدا اور انسان کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلق کی حد تک محدود کرنے کا پرچار شروع کیا، جس سے موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اس تصور کے قائل ہوگئے جس کے نتائج بد سے آج انسانیت کراہ رہی ہے۔
موجودہ زمانے میں عورتوں کی عزت واحترام کے کھوجانے کی وجہ سے عورت،مرد وں کے ہاتھوں جنسی شہوت اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے، یورپ، امریکہ اور ہندوستان کی عریاں فلم ساز صنعت (Pornographic Industry) اس کا ایک منھ بولتا ثبوت ہے۔
انسانی زندگی میں جنسیت کی اہمیت و ضرورت
جنسیت کا موضوع، انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق، تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں، اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی، اگر چہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے، اس کا اظہار کس طریق پر ہونا چاہئے، اور اس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے، تاریخ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہوجاتی ہے جیسا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں، تو بلا شبہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یونان ، روم، ہندوستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف کم یاب ، طبقاتی تفریق ایک حقیقت اور جنسیت بے لگام ہوگئی تھی، پھر قانون الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست و نابود ہوگئیں، ایک انسان اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا، اور اس طرح کی خوف ناک سزا کسی قوم کو اس وقت ہی ملتی ہے جب وہ جنسیت کے بارے میں مادر پدر آزاد رویہ اختیار کرلیتی ہے، یہاں اس امرکی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے وہاں خاندانی نظام چوپٹہوکر رہ گیا ہے، ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے قائم نہیں رہتا۔
اسلام میں انسان کی جسمانی، روحانی، عقلی اور جذباتی احساسات کی تمام تر ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے، قرآن کریم نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت وجوانی کے ساتھ ساتھ جنسی داعیہ بھی دیا ہے لہٰذا اس کو ختم کرنا یا اس سے جائز طریق پر استفادہ نہ کرنا منشائے الٰہی نہیں ہوسکتا، اسلام کے نزدیک کوئی ایسا کام جو انسانی زندگی میں انتہائی دنیوی سمجھا جاتا ہو اگر احکام خداوندی کے مطابق کیا جائے تو وہ ایک روحانی اور مذہبی عمل بن جاتا ہے حتی کہ میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی ایک باعث ثواب عمل بن جاتا ہے، یہ اسلام کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس طرح باہم سمود یا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھا گیا جس کے معنی صرف عبادت (پوجاپاٹ) کے لیے چند ظاہری رسوم کی پیروی کرنا ہے، مغربی تعلیم و تہذیب کے زیر اثر یہ بات ہمارے ذہنوں میں راسخ ہوگئی کہ دنیاوی معاملات ازقسم شادی بیاہ، لین دین، اخلاق اور زندگی کے دیگر مختلف پہلوؤں میں ہم آزاد ہیں کہ جس طرح چاہیں اپنی مرضی سے یا معاشرے میں مروجہ رسم ورواج کے مطابق عمل کریں، جو اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسولؐ سے کوسوں دور ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں، اس جگہ اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسلام دنیا کے معروف معنوں میں کوئی مذہب نہیں بلکہ زندکی گزارنے کا طریقہ کار ہے، جس نے مسلمانوں کو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے ان کی جنسی زندگی کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد آفتاب خاں / ریاض اختر
موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اب وہ ہمارے دروازے پر ہی دستک نہیں دے رہا بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے، ٹی وی ، ڈِش، اِنٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کررہی ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اورامریکہ کے نقش قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں جس پر وہ عیسائی مذہبی رہنماؤں کی غلط تعلیمات و نظریات کے نتیجے میں آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل رواں دواں ہوئے تھے، امریکہ اور یورپ اس جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بن بیاہی ماؤں ، طلاقوں کی بھرمار، خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں، کیا مسلمان بھی انہیں نتائج سے دو چار ہونا چاہتے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے چند سوالات ہیں جنہوں نے سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کیا ہواہے۔ اس کا علاج ایک طرف امریکہ یورپ اور اقوام متحدہ کی جانب سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے مسلمانوں کو اسی رنگ میں رنگنے کے لیے کوششوں سے ہورہا ہے۔ تاہم اس کا دوسرا یقینی اورقابل اعتماد حل وہ ہے جو ہمیں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے دیا گیا تھا، جسے نظر انداز کرنے اور بھلانے سے ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں، زیر نظر مضمون میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے۔
جنرل (ر) عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ ’’مغرب کا نعرہ ’’آزادی‘‘ وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدر آزادی کہتی ہے، اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کرسکیں، کیبل پر اتنہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم و حیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے لگے ہیں، موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکنگ کے غلط استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔
اٹھارھویں صدی عیسوی یورپ کی عورتوں کے لیے بالخصوص اور تمام دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم ایک ایسی بد قسمت صدی ثابت ہوئی جس کے مسائل اور آلام ومصائب سے انسانیت آج تک بلبلارہی ہے، اور نہ معلوم کتنے عرصے تک اسے اس کے برے اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔ ۱۷۶۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کی وجہ سے دیہاتوں سے شہروں کی جانب آبادی کے بہاؤ کے نتیجے میں یورپ کے بڑے بڑے شہر تو آباد ہوگئے لیکن اس کی وجہ سے یورپین خاندانی اور معاشرتی ڈھانچا زیر و زبر ہوگیا، بعد ازاں جنگ عظیم اول اور دوم کی وجہ سے مرد و عورت کے تناسب میں ایک ایسا تفاوت پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں جنسی وصنفی انار کی کا ایک طوفان بے محابہ اٹھ کھڑا ہوا، عورتوں کو اپنے خاندان کے وجو د کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت قلیل معاوضے پر طویل دور انئے کے لیے کام کرنا پڑا، سرمایہ دار نے ان کی محنت کا ہی استحصال نہیں کیا بلکہ ان کی عزت و عصمت کا بھی سودا کرلیا۔
عورت گھر سے باہر نکلی تو دنیا کے تقاضے مختلف پائے، اب اس کے سامنے دو راستے تھے، ایک تو یہ کہ گھر واپس لوٹ جائے، مگر اس صورت میں سہولیات سے محرومی نظر آتی تھی، دوسری راہ اس سے بالکل متضاد تھی کہ وہ مرد کے ساتھ مسابقانہ اصول کے تحت اپنی نسوانیت کو خیرباد کہتے ہوئے شرم و حیا کو بھی بالائے طاق رکھے اورمرد کی ہوس کا شکار ہوتی رہے، یہ راہ جنسی بے راہ روی کے اس میدان تک لے گئی جہاں عورت اب ماں ، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں رہی تھی بلکہ جنسی کشش اور دعوت کا نمونہ بن گئی، انہیں حالات میں اس کے اندر پیدا ہونے والی سوچ نے ایک رد عمل کو جنم دیا جو بتدریج بڑھتا ہوا احتجاجی مظاہروں ، جلسے جلوسوں اور تشہیری مہم کے ذریعے اس قدر طاقت ور ہوگیا کہ نتیجتاً عورتوں کو مردوں کے برابر معاوضے کا حق مل گیا۔
بات یہیں تک رک جاتی تو گوارا تھا ، عورت گھر سے باہر نکلی، کام اورمعاوضے کا حق تسلیم کیا گیاہر سطح پر برابری ملنے لگی تو بالآخر معاملہ نسوانی تحریکوں کے ایک چونکادینے والے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کو چیلنج کردیا، ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کی، مردانہ سازش تھی، اس ’سازش‘ کے خلاف ’جنگ‘یوں جیتی جاسکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کے لیے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی اہل ہو ،یوں سمجھئے کہ گیند اب ایک ڈھلوان سڑک پر تھی جو آگے ہی آگے چلی جارہی تھی، عورتوں نے جنس کے فطری تقاضے کی تسکین کے لیے ازدواجی حدودکو یکسر مسترد کردیا، اورایک نیا نعرہ بلند ہوا کہ ’’عورت کا جسم اس کی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔ مردوں کے لیے یہ امر خوش کن تھا، عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہوگئے۔ لیکن اس کی کس قدر قیمت طبقۂ نسواں اور انسانیت کو ادا کرنی پڑی اس کا ابھی تک مکمل شعور انسان کو نہیں ہوسکا۔
اٹھارھویں صدی میں چرچ اور سائنس کے درمیان جو جنگ لڑی گئی اس میں چرچ کے غیر عقلی اور غیر منطقی طرز عمل سے اس کا دائرہ عمل یورپ کی سوشل زندگی اور بالآخر ریاست کے دائرہ کار سے بالکل علیحدہ ہوگیا، انقلاب فرانس اورمارٹن لوتھرکے ذریعے الحادی نظام کو جڑپکڑنے کا موقع ملا اور یوں چرچ نے خوداپنے آپ کو وینی کن سٹی (روم) کی چاردیواری تک محدود کرلیا، مزید برآں عیسائیت کو دیگر تمام الہامی مذاہب کے برابر گردانتے ہوئے یورپی مفکرین نے تمام مذاہب بشمول اسلام کو بھی خدا اور انسان کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلق کی حد تک محدود کرنے کا پرچار شروع کیا، جس سے موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اس تصور کے قائل ہوگئے جس کے نتائج بد سے آج انسانیت کراہ رہی ہے۔
موجودہ زمانے میں عورتوں کی عزت واحترام کے کھوجانے کی وجہ سے عورت،مرد وں کے ہاتھوں جنسی شہوت اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے، یورپ، امریکہ اور ہندوستان کی عریاں فلم ساز صنعت (Pornographic Industry) اس کا ایک منھ بولتا ثبوت ہے۔
انسانی زندگی میں جنسیت کی اہمیت و ضرورت
جنسیت کا موضوع، انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق، تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں، اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی، اگر چہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے، اس کا اظہار کس طریق پر ہونا چاہئے، اور اس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے، تاریخ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہوجاتی ہے جیسا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں، تو بلا شبہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یونان ، روم، ہندوستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف کم یاب ، طبقاتی تفریق ایک حقیقت اور جنسیت بے لگام ہوگئی تھی، پھر قانون الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست و نابود ہوگئیں، ایک انسان اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا، اور اس طرح کی خوف ناک سزا کسی قوم کو اس وقت ہی ملتی ہے جب وہ جنسیت کے بارے میں مادر پدر آزاد رویہ اختیار کرلیتی ہے، یہاں اس امرکی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے وہاں خاندانی نظام چوپٹہوکر رہ گیا ہے، ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے قائم نہیں رہتا۔
اسلام میں انسان کی جسمانی، روحانی، عقلی اور جذباتی احساسات کی تمام تر ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے، قرآن کریم نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت وجوانی کے ساتھ ساتھ جنسی داعیہ بھی دیا ہے لہٰذا اس کو ختم کرنا یا اس سے جائز طریق پر استفادہ نہ کرنا منشائے الٰہی نہیں ہوسکتا، اسلام کے نزدیک کوئی ایسا کام جو انسانی زندگی میں انتہائی دنیوی سمجھا جاتا ہو اگر احکام خداوندی کے مطابق کیا جائے تو وہ ایک روحانی اور مذہبی عمل بن جاتا ہے حتی کہ میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی ایک باعث ثواب عمل بن جاتا ہے، یہ اسلام کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس طرح باہم سمود یا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھا گیا جس کے معنی صرف عبادت (پوجاپاٹ) کے لیے چند ظاہری رسوم کی پیروی کرنا ہے، مغربی تعلیم و تہذیب کے زیر اثر یہ بات ہمارے ذہنوں میں راسخ ہوگئی کہ دنیاوی معاملات ازقسم شادی بیاہ، لین دین، اخلاق اور زندگی کے دیگر مختلف پہلوؤں میں ہم آزاد ہیں کہ جس طرح چاہیں اپنی مرضی سے یا معاشرے میں مروجہ رسم ورواج کے مطابق عمل کریں، جو اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسولؐ سے کوسوں دور ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں، اس جگہ اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسلام دنیا کے معروف معنوں میں کوئی مذہب نہیں بلکہ زندکی گزارنے کا طریقہ کار ہے، جس نے مسلمانوں کو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے ان کی جنسی زندگی کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔