جنوبی پختونخواکا مطالبہ کرنیوالے الگ صوبے کیلئے اسمبلی میں قرارداد لائیں، نوابزادہ جمیل بگٹی

کاشفی

محفلین
جنوبی پختونخواکا مطالبہ کرنیوالے الگ صوبے کیلئے اسمبلی میں قرارداد لائیں، نوابزادہ جمیل بگٹی

jameel-bugti.jpg

کوئٹہ (آن لائن) نواب محمد اکبر خان بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے خضدار میں بلوچ اساتذہ پروفیسر عبدالرزاق زہری کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان دشمن قوتیں بلوچستان کو جہالت کی تاریکیوں میں دھکیلے رکھنا چاہتی ہیں اس لئے علم و دانش کا پرچار کرنے والوں بھی ہدف بنا کر قتل کیا جارہا ہے ڈیرہ بگٹی میں امن فورس نہیں بلکہ ڈیتھ اسکواڈ ہے نہتے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جنوبی پشتونخوا کا مطالبے پر سیاسی دکان چمکانے والی لسانی جماعت کے پاس بہترین موقع ہے تنگ نظری تعصب پسندی اور بلوچ دشمنی کی بجائے وہ اپنی قوم کے بہتر مستقبل کیلئے فیصلہ کرتے ہوئے اسمبلی میں قرار داد لائے ’’آن لائن‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خضدار میں گزشتہ روز بلوچ اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں پروفیسر عبدالرزاق زہری جاں بحق ہوئے جبکہ پروفیسر عبدالحکیم زخمی ہوگئے یہ کوئی انہونی بات نہیں اور نہ ہی کوئی انوکھا واقعہ ہے بلوچ دشمن قوتیں اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ان کے بلوچ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ناقابل برداشت ہے بلوچ مسئلہ کے حل کیلئے انہوں نے ایک نسخہ دریافت کرلیا ہے کہ بلوچ کو ہی ختم کردو نہ رہے گا بلوچ اور نہ ہی رہے گا بلوچ کا کوئی مسئلہ اس لئے اس ملک کے حاکمین بلوچ قوم کی نسل کشی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں گمشدگیوں کے بعد لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب ہدف بناکر قتل کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں میں نے نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ کو مشورہ دیا کہ ان کے پاس بہترین موقع ہے وہ اس کا فائدہ اٹھائیں اور بلوچ پشتون برادر اقوام کے مابین جو نفرتوں کی خلیج بڑھ رہی ہے اس کو ختم کرنے میں اپنا کردارادا کریں اور بلوچستان کی تقسیم کے حوالے سے قرار داد منظور کرالیں کیونکہ پشتون لسانی جماعت ایک طویل عرصے سے منافرت پر مبنی بیانات داغتی رہی ہے اور جنوبی پشتونخوا اس کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے حالانکہ پشتون علاقوں پر بلوچ کبھی بھی دعویدار نہیں رہے لیکن اس کے باوجود منافرت پر مبنی سیاست کی وجہ سے بلوچ پشتوں رشتوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں اب تو اس کے پاس بہترین موقع ہے اپنے دیرینہ مطالبے اور خواہش کو عملی جامہ پہنائے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے دوستوں کو شاید میری بات ناگوار گذری اور وہ سمجھ نہ سکے تو انہوں نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا میں نیشنل پارٹی یا پشتونخوا کو بلوچ پشتون قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا اس کا فیصلہ بلوچ و پشتون واقوام خود کریں گی تاہم منافرت کے جو بیج بلوچ سرزمین پر بوئے جارہے تھے میں اس کا راستہ روکنے کا مشورہ دیا اور اس سے قبل بھی کہہ چکا ہوں جب تک بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا بلوچستان کو دو انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے کوئی بلوچ افسر پشتون علاقے میں نہیں جائے گا اور کوئی پشتون بلوچ علاقے میں تعینات نہیں ہوگا بلوچ علاقوں کے وسائل بلوچوں کی ترقی و خشحالی کیلئے خرچ ہونگے پشتون علاقوں کے وسائل پر صرف اور صرف پشتونوں کا حق ہوبلوچ پر ایک پائی بھی حرام ہے لیکن اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے اور میں نے بلوچ و پشتون قوم کے بہتر مستقبل کے حوالے سے یہ تجاویز دی ہیں کوئی مذاق نہیں کیا اگر اس کو کوئی مذاق سمجھتا ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں البتہ پشتون لسانی جماعت کے حوالے کوئی دو رائے نہیں کہ اس نے ہمیشہ منافرت کی سیاست کی ہے اور اب بھی بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے بلوچ افسران کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں ان سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جاسکتی پبلک سروس کمیشن میں اعلیٰ عہدوں پر تین بلوچ اور پانچ پشتون ہیں صرف یہی نہیں بلکہ تمام اداروں میں یہی صورتحال ہے زراعت میں ڈائریکٹر سے لے کر سیکرٹری تک ،ہیلتھ میں سیکرٹری پشتون ،ایری گیشن میں پشتون ہیں اس کے باوجود بھی اگر لسانی جماعت اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے یہ نعرہ لگائے کہ پشتون استحصال کا شکار ہیں تو بات سمجھ سے بالاتر ہے بلوچ سرزمین پر تو استحصال بھی بلوچ کا ہورہا ہ ے وسائل بلوچ کو لوٹے جارہے ہیں ،تعلیمی اداروں کے دروازے بلوچوں پر بند کئے جارہے ہیں لاشیں بلوچوں کی پھینکی جارہی ہے صف ماتم بلوچوں کے ہاں بچھی ہے یہاں بسنے والوں نے بلوچ کا ساتھ تو کبھی نہیں البتہ اس کا استحصال کرنے میں برابر کے شریک رہے ہیں افغان مہاجرین کہنے پر ناراض ہونے والے بتائیں کہ اگر یہ مہاجر نہیں تو پھر اقوام متحدہ سے رجسٹریشن کراکے پیسے کیوں بٹورہے ہیں گزشتہ تیس سال سے بلوچستان پر بوجھ بنے ہوئے ہیں یہاں کہ یہاں کے امن و سکون کو تباہ کیا انکی موجودگی کی وجہ سے ہماری معشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ڈیرہ بگٹی میں ملنے والی لاشوں کے حوالے سے میڈیا کی زینت بننے والی خبروں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مرنے والوں کا تعلق امن لشکر سے جو حیران کن ہے جہاں امن کا کوئی تصور نہیں وہاں امن لشکر کا کیا کام ہوسکتا ہے وہاں کوئی امن لشکر نہیں البتہ ایک سرکاری ڈیتھ اسکواڈ ہے جس کے کارندوں کی جانب سے آئے روز وہاں نہتے اور بے گناہ لوگوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرکے خواتین و بچوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اس ڈیتھ اسکواڈ کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جارہی ہے جمیل بگٹی نے گزشتہ روز بلیدہ میں فائرنگ کے واقعہ میں جان بلیدی کے جوانسال بھتیجے کے جاں بحق ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی اللہ تعالی مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ اور پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے۔
 
Top