مجید امجد جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا! ۔ مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا!
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا!

یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا!

جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!

ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا!

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا!

لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا!

(مجید امجد)
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ قبلہ!
مطلع کی ترکیبِ عجیب بے حد بھائی گو کہ مصرع ثانی کم از کم ہمارے ہاں تو ممکنات میں سے نہیں;)
اور ہاں کیا "تیرگئ" کی بجائے "تیرگیِ" نہیں ہونا چاہیے تھا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ قبلہ!
مطلع کی ترکیبِ عجیب بے حد بھائی گو کہ مصرع ثانی کم از کم ہمارے ہاں تو ممکنات میں سے نہیں;)
اور ہاں کیا "تیرگئ" کی بجائے "تیرگیِ" نہیں ہونا چاہیے تھا؟

ہا ہا۔ بہت خوب اور بہت شکریہ! کتاب میں چونکہ ایسے ہی درج ہے اس لئے میں نے جوں کا توں رہنے دیا۔ یہ غزل کلیاتِ مجید امجد مرتبہ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، پبلشرز "ماورا" سے لی گئی ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا!
سبحان اللہ..............
 

محمداحمد

لائبریرین
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!

ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا!

لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا!

زبردست۔۔۔۔!

کیا خوبصورت غزل ہے۔ بہت خوب۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا!
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا!
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!
واہ!
کیا خوبصورت غزل ہے! :)
 
Top