فرخ منظور
لائبریرین
غزل
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا!
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا!
یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا!
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!
ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا!
ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا!
لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا!
(مجید امجد)
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا!
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا!
یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا!
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!
ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا!
ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا!
لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا!
(مجید امجد)