سردار محمد نعیم
محفلین
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے
قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے
دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں
کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے
خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے
ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے
بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو
وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے
ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں
اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے
مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت
کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے
فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں
در رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے
قلق گر یہی ہے تو راز نہانی
کوئی دن میں رسوا ہوا چاہتا ہے
وفا شرط الفت ہے لیکن کہاں تک؟
دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے
بہت حظ اٹھاتا ہے دل تجھ سے مل کر
قلق دیکھیے کیا ہوا چاہتا ہے
غم رشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم
سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے
بہت چین سے دن گزرتے ہیں حالیؔ
کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے