الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
جنّت کی ہے تلاش تو رب سے بنا کے رکھ
دل کو اسی کی یاد میں ہر دم لگا کے رکھ
-------
جو بھی کرے وہ کام ہو رب کے لئے ترا
دل میں اسی کے پیار کی شمعیں جلا کے رکھ
----------
تجھ کو خدا کی راہ میں سہنا پڑیں گے غم
سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ
---------
بھولے گا گر خدا کو تُو دنیا کے واسطے
جنّت نہ مل سکے گی یوں مجھ سے لکھا کے رکھ
-------یا
راحت نہ مل سکے گی یوں ، مجھ سے لکھا کے رکھ
----------
آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
آتش خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
----------یا
عشقِِ خدا کے نور کو دل میں جلا کے رکھ
--------
کہتے ہیں لوگ دل کو ہی ، یہ ہے خدا کا گھر
تُو اس کے انتظار میں گھر کو سجا کے رکھ
-------
ارشد خدا کی ذات سے ہر دم امید کے
جتنے بھی ہیں چراغ ، تُو سب کو جلا کے رکھ
-----------
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
جنّت کی ہے تلاش تو رب سے بنا کے رکھ
دل کو اسی کی یاد میں ہر دم لگا کے رکھ
-------
جو بھی کرے وہ کام ہو رب کے لئے ترا
دل میں اسی کے پیار کی شمعیں جلا کے رکھ
----------
تجھ کو خدا کی راہ میں سہنا پڑیں گے غم
سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ
---------
بھولے گا گر خدا کو تُو دنیا کے واسطے
جنّت نہ مل سکے گی یوں مجھ سے لکھا کے رکھ
-------یا
راحت نہ مل سکے گی یوں ، مجھ سے لکھا کے رکھ
----------
آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
آتش خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
----------
کہتے ہیں لوگ دل کو ہی ، یہ ہے خدا کا گھر
تُو اس کے انتظار میں گھر کو سجا کے رکھ
-------
ارشد خدا کی ذات سے ہر دم امید کے
جتنے بھی ہیں چراغ ، تُو سب کو جلا کے رکھ
-----------
میرے خیال میں یہاں آتش لفظ استعمال کرنا درست نہیں اسکی جگہ ہوسکتا ہے

عشقِ خدا کے نورکو دل میں جلا کے رکھ
 
رب کی رضا کے واسطے ہر کام ہو ترا
دل میں اسی کے عشق کی شمع جلا کے رکھ
الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
جنّت کی ہے تلاش تو رب سے بنا کے رکھ
دل کو اسی کی یاد میں ہر دم لگا کے رکھ
-------
جو بھی کرے وہ کام ہو رب کے لئے ترا
دل میں اسی کے پیار کی شمعیں جلا کے رکھ
----------
تجھ کو خدا کی راہ میں سہنا پڑیں گے غم
سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ
---------
بھولے گا گر خدا کو تُو دنیا کے واسطے
جنّت نہ مل سکے گی یوں مجھ سے لکھا کے رکھ
-------یا
راحت نہ مل سکے گی یوں ، مجھ سے لکھا کے رکھ
----------
آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
آتش خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
----------یا
عشقِِ خدا کے نور کو دل میں جلا کے رکھ
--------
کہتے ہیں لوگ دل کو ہی ، یہ ہے خدا کا گھر
تُو اس کے انتظار میں گھر کو سجا کے رکھ
-------
ارشد خدا کی ذات سے ہر دم امید کے
جتنے بھی ہیں چراغ ، تُو سب کو جلا کے رکھ
-----------
 
سہنا پڑیں گے غم کی جگہ
سہنے پڑیں گے
سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ
خدا کی راہ کا الٹا دنیا ہے جہان سے وہ بات پیدا نہیں ہو رہی ہے

اگلے شعر میں لکھا کے رکھ میری نظر میں ٹھیک نہیں ہے لکھوا ہوتا ہے شاید

آئیں گے لوگ اور بھی لینے کو روشنی

اس مصرعے کے ساتھ بھی مجھے وہی مصرع
دل میں خدا کے عشق کی شمع جلا کے رکھ
یا
عشق خدا کی دل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا لگ رہا ہے

اور پہلے شعر سے یہ شعر زیادہ اچھا ہے میری نظر میں
 
ڈاکٹر صاحب آپ کی ساری اصلاح بہت اچھی ہے (سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ ) اس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جہان کی بجائے دنیا ہونا چاہئے تو اس مصرعے کو اگر ایسے کر دیا جائے تو کیا ٹھیک رہے گا۔
(اپنے دل و دماغ سے دنیا بھلا کے رکھ )
 
جنت کے واسطے تجھے سہنے پڑیں گے غم
دنیا کی راحتوں کو تو دل سے بھلا کے رکھ

جنت پکارتی ہے تجھے روز صبح شام
اپنے دل و دماغ سے دنیا بھلا کے رکھ

فردوس کی ہے تجھ کو تمنا اگر تو پھر
اپنے دل و دماغ سے دنیا بھلا کے رکھ

جو اچھا لگے استاد محترم کے مشورے کے بعد
رکھ لینا
 

الف عین

لائبریرین
جنّت کی ہے تلاش تو رب سے بنا کے رکھ
دل کو اسی کی یاد میں ہر دم لگا کے رکھ
------- ٹھیک ہے

جو بھی کرے وہ کام ہو رب کے لئے ترا
دل میں اسی کے پیار کی شمعیں جلا کے رکھ
---------- ربط نہیں لگ رہا، پیار کی شمع جلانے سے کیا خود بخود اللہ کی مرضی کے مطابق کام ہو سکیں گے!

تجھ کو خدا کی راہ میں سہنا پڑیں گے غم
سب راحتیں جہان کی دل سے بھلا کے رکھ
--------- عظیم میاں کی دوسری تجویز بہتر ہے
یعنی
جنت پکارتی ہے تجھے روز صبح شام
اپنے دل و دماغ سے دنیا بھلا کے رکھ

بھولے گا گر خدا کو تُو دنیا کے واسطے
جنّت نہ مل سکے گی یوں مجھ سے لکھا کے رکھ
-------یا
راحت نہ مل سکے گی یوں ، مجھ سے لکھا کے رکھ
---------- اسے نکال دیا جائے

آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
آتش خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
----------یا
عشقِِ خدا کے نور کو دل میں جلا کے رکھ
-------- آتش کی جگہ مشعل بہتر ہو گا بہ نسبت دوسرے آپشنس کے
یہ شعر بہتر ہے، میری رائے میں جو بھی کرے وہ کام.... والے شعر کی بہ نسبت یہ بہتر ہے۔ دوسرا مصرع تو مشترک ہے تقریباً

کہتے ہیں لوگ دل کو ہی ، یہ ہے خدا کا گھر
تُو اس کے انتظار میں گھر کو سجا کے رکھ
------- خیال اچھا ہے مگر بیانیہ اچھا نہیں
گھر کو.. کی بھی ضرورت نہیں، صرف گھر کافی ہے
اسے پھر کہیں

ارشد خدا کی ذات سے ہر دم امید کے
جتنے بھی ہیں چراغ ، تُو سب کو جلا کے رکھ
----------- اسے بھی پھر کہیں الفاظ بدل کر
 
بھولے گا گر خدا کو تُو دنیا کے واسطے
جنّت نہ مل سکے گی یوں مجھ سے لکھا کے رکھ
-------یا
راحت نہ مل سکے گی
لکھا کے رکھ کہنا ٹھیک نہیں ارشد بھائی، یہ لکھوا کے رکھ لے کا محل ہے.

آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
آتش خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
----------یا
عشقِِ خدا کے نور کو دل میں جلا کے رکھ
نور جلا کے رکھ کہنا تو ٹھیک نہیں، نور جلایا نہیں جاتا.
آتش کہہ سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ پیار عجیب لگتا ہے، عشق کہیں تو زیادہ مناسب رہے گا.
 
الف عین
( اصلاح شدہ اشعار )
----------
دل میں ترے جہان کی کوئی نہ بات ہو
ایسے خدا کی ذات سے تُو لو لگا کے رکھ
------------
دل ہے ترا یہ جان لے تیرے خدا کا گھر
تُو اُس کے انتظار میں یہ گھر سجا کے رکھ
-----------
جنّت پکارتی ہے تجھے روز صبح و شام
اپنے دل و دماغ سے دنیا بھلا کے رکھ
----------
آئیں گے لوگ اور بھی پانے کو روشنی
مشعل خدا کے پیار کی دل میں جلا کے رکھ
--------یا
مشعل خدا کے پیار کی تُو بھی جلا کے رکھ
-------
جب تک تری حیات ہے رب کے لئے ہی جی
ہر دم خدا کی راہ میں خود کو لگا کے رکھ
-------
ارشد دئے امید کے مدھم نہ ہوں کبھی
ان کو دل و دماغ میں ایسے جلا کے رکھ
-------------
 
Top