Latif Usman
محفلین
افغان طالبان کے سابق رہنما ملا محمد عمر کے دو رشتہ داروں کو باغی تحریک میں سینیئر عہدے دے دیےگئے ہیں۔ تقریباً تین ہفتے قبل ملا اختر منصور نے اپنے پیروکاروں کو ’آخری دھکے‘ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا تھا اور اُن کو ’آنے والے مہینوں میں فتح‘ کی امید دلائی تھی۔ کیا یہ پرانی اور نئی قیادت کے درمیان پیدا ہونے والی دراڑ کے خاتمے کا اشارہ تو نہیں ہے؟
اہم رہنماؤں کی واپسی اور گروہ میں اختلافات کے خاتمے سے ممکنہ امن مذاکرات اور مستقبل میں کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے اثرات مرتب ہوں گے۔اب تک طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو مسترد کیا تھا، اُنھوں نے غیر ملکی افواج کے انخلا، فہرستوں سے رہنماؤں کے نام ہٹانے اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ افغانستان میں ایک اور اہم سال جنگ اور مذاکرات، یا کم سے کم مذاکرات کے حوالے سے باتیں، ساتھ ساتھ جاری رہتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آخری تدوین: