صرف علی
محفلین
شمالی وزیرستان سے ضرب عضب سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرنے والے غیر ملکی جنگجو کی اکثریت اپنا ساز و سامان اونے پونے داموں فروخت کر کے علاقہ چھوڑ گئی ہے۔
شمالی وزیرستان کا علاقہ موسکی جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے عسکریت پسندوں کی کثرت کے باعث ازبکستان کہلاتا تھا اب ان عسکریت پسندوں سے خالی ہو چکا ہے۔
علاقے سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں یہ غیر ملکی خاندان فوجی آپریشن سے بچنے کے لیے میر علی کے مختلف حصوں میں اپنا قیمتی گھریلو سامان اونے پونے داموں بیچ کر علاقہ سے نکل گئے ہیں۔
گھریلو استعمال کی ان اشیاء میں الیکٹرانیکس کا سامان ہی تھا جو گھر گھر نیلام ہوا۔
ان اشیاء میں فریج ، ایئر کنڈیشن، واشنگ مشینں، پنکھے، جوسر سے لیکر قیمتی ڈنر سیٹ، کراکری اور بیش قیمت بیڈ شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہر مز کے رہائشی سمیع اللہ نے ازبکستان کے صنعت اللہ نامی باشندے سے 55 ہزار کا ائیر کنڈیشن صرف 15ہزار روپے میں خریدا۔
مقامی ڈرائیور محمد یوسف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شمالی وزیرستان میں غیر ملکیوں کے میزبان ہی ان کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے جاتے ہوئے غیر ملکیوں نے زیادہ تر سامان اپنے ان میزبانوں کو ہی بیچا یا مفت بانٹ دیا۔‘
ایسو خیل کے علاقے میں ایک اور مقامی باشندے جمیل نے ترکمانستان کے فاروق ترکمان نامی عسکریت پسند سے 70 ہزار کا امپورٹیڈ فریج صرف 23ہزار روپے میں خریدا ۔اس طرح چھوٹی موٹی اشیاءجیسے استری ،جوسر وغیرہ ہزار دو ہزار روپے میں فروخت کی گئیں۔
اس دور افتادہ علاقے میں آباد ان غیر ملکیوں کے پاس یہ بیش قیمت سامان آیا کہاں سے؟
اس حوالہ سے ڈرائیور محمد یوسف نے بتایا کہ گو کہ ان ازبک، تاجک، ترکمان خاندانوں کے پاس ڈالر بہت تھے لیکن یہ مقامی کرنسی اپنے میزبان یا پھر کسی دکاندار کو دیتے اور پشاور کے کارخانوں مارکیٹ سے لاہور تک، لاہور سے کراچی تک اور کراچی سے دبئی تک جو چیز بھی وہ منگواتے ان کے پاس پہنچ جاتی۔
خرید و فروخت کی یہ کہانیاں بہت ساری دیگر کہانیوں کی طرح شمالی وزیرستان سے اس وقت نکلیں جب لاکھوں کی تعداد میں مقامی قبائل جاری آپریشن کے باعث بنوں منتقل ہوئے۔
میر علی کے باشندوں نے بتایا کہ وسطی ایشائی ریاستوں کے عسکریت پسند اور ان کے خاندانوں والے اپنے ساتھ گاڑی،گدے، اسلحہ، کمپیوٹر اور توانائی کے شمسی یونٹس کے علاوہ بہت کم سامان لے گئے۔
شمالی وزیرستان کا علاقہ موسکی جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے عسکریت پسندوں کی کثرت کے باعث ازبکستان کہلاتا تھا اب ان عسکریت پسندوں سے خالی ہو چکا ہے۔
علاقے سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں یہ غیر ملکی خاندان فوجی آپریشن سے بچنے کے لیے میر علی کے مختلف حصوں میں اپنا قیمتی گھریلو سامان اونے پونے داموں بیچ کر علاقہ سے نکل گئے ہیں۔
گھریلو استعمال کی ان اشیاء میں الیکٹرانیکس کا سامان ہی تھا جو گھر گھر نیلام ہوا۔
ان اشیاء میں فریج ، ایئر کنڈیشن، واشنگ مشینں، پنکھے، جوسر سے لیکر قیمتی ڈنر سیٹ، کراکری اور بیش قیمت بیڈ شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہر مز کے رہائشی سمیع اللہ نے ازبکستان کے صنعت اللہ نامی باشندے سے 55 ہزار کا ائیر کنڈیشن صرف 15ہزار روپے میں خریدا۔
مقامی ڈرائیور محمد یوسف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شمالی وزیرستان میں غیر ملکیوں کے میزبان ہی ان کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے جاتے ہوئے غیر ملکیوں نے زیادہ تر سامان اپنے ان میزبانوں کو ہی بیچا یا مفت بانٹ دیا۔‘
ایسو خیل کے علاقے میں ایک اور مقامی باشندے جمیل نے ترکمانستان کے فاروق ترکمان نامی عسکریت پسند سے 70 ہزار کا امپورٹیڈ فریج صرف 23ہزار روپے میں خریدا ۔اس طرح چھوٹی موٹی اشیاءجیسے استری ،جوسر وغیرہ ہزار دو ہزار روپے میں فروخت کی گئیں۔
اس دور افتادہ علاقے میں آباد ان غیر ملکیوں کے پاس یہ بیش قیمت سامان آیا کہاں سے؟
اس حوالہ سے ڈرائیور محمد یوسف نے بتایا کہ گو کہ ان ازبک، تاجک، ترکمان خاندانوں کے پاس ڈالر بہت تھے لیکن یہ مقامی کرنسی اپنے میزبان یا پھر کسی دکاندار کو دیتے اور پشاور کے کارخانوں مارکیٹ سے لاہور تک، لاہور سے کراچی تک اور کراچی سے دبئی تک جو چیز بھی وہ منگواتے ان کے پاس پہنچ جاتی۔
خرید و فروخت کی یہ کہانیاں بہت ساری دیگر کہانیوں کی طرح شمالی وزیرستان سے اس وقت نکلیں جب لاکھوں کی تعداد میں مقامی قبائل جاری آپریشن کے باعث بنوں منتقل ہوئے۔
میر علی کے باشندوں نے بتایا کہ وسطی ایشائی ریاستوں کے عسکریت پسند اور ان کے خاندانوں والے اپنے ساتھ گاڑی،گدے، اسلحہ، کمپیوٹر اور توانائی کے شمسی یونٹس کے علاوہ بہت کم سامان لے گئے۔