محمد وارث
لائبریرین
ایک تحریر جو آج صبح عجلت میں اپنے بلاگ کیلیئے لکھی یہاں بھی دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
---------
احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول قاسمی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا
احمد فراز سے میرا تعارف کہیں بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب مجھے علم ہوا کہ میرا پسندیدہ “گیت” رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیئے آ، جو میں پہروں مہدی حسن کی آواز میں سنا کرتا تھا، دراصل احمد فراز کی غزل ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھا غزلیں بھی اسطرح فلموں میں گائی جاتی ہیں اور یہ حیرت بڑھتی چلی گئی جب یہ بھی علم ہوا کہ ایک اور گانا “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” بھی انہی کی غزل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی میں ہر طرف مہدی حسن کا طوطی بول رہا تھا اور مہدی حسن میرے پسندیدہ گلوکار تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر انکی ایک اور مشہور غزل “اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں” جو مہناز نے انتہائی دلکش انداز میں گائی ہے، سنی تو فراز کیلیئے دل میں محبت اور بھی بڑھ گئی۔
اس وقت تک میں نے فراز کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن پھر مجھے ‘کلیاتِ فراز’ کا علم ہوا جو ماورا نے شائع کیے تھے، یہ پچھلی صدی کی آخری دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا اور میں کالج میں پڑھتا تھا، میں نے لاہور منی آڈر بھیج کر فراز کے کلیات منگوائے اور پھر پہروں ان میں غرق رہتا اور آج بھی یہ کلیات میرے آس پاس کہیں دھرے رہتے ہیں۔
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلیئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب “اے عشق جنوں پیشہ” جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
ہر ذی روح کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ انسان ہوتے ہیں جن کے جانے سے چار سُو اداسی پھیل جاتی ہے اور یہی کیفیت کل سے کچھ میری ہے۔ غالب کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
---------
احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول قاسمی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا
احمد فراز سے میرا تعارف کہیں بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب مجھے علم ہوا کہ میرا پسندیدہ “گیت” رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیئے آ، جو میں پہروں مہدی حسن کی آواز میں سنا کرتا تھا، دراصل احمد فراز کی غزل ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھا غزلیں بھی اسطرح فلموں میں گائی جاتی ہیں اور یہ حیرت بڑھتی چلی گئی جب یہ بھی علم ہوا کہ ایک اور گانا “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” بھی انہی کی غزل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی میں ہر طرف مہدی حسن کا طوطی بول رہا تھا اور مہدی حسن میرے پسندیدہ گلوکار تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر انکی ایک اور مشہور غزل “اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں” جو مہناز نے انتہائی دلکش انداز میں گائی ہے، سنی تو فراز کیلیئے دل میں محبت اور بھی بڑھ گئی۔
اس وقت تک میں نے فراز کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن پھر مجھے ‘کلیاتِ فراز’ کا علم ہوا جو ماورا نے شائع کیے تھے، یہ پچھلی صدی کی آخری دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا اور میں کالج میں پڑھتا تھا، میں نے لاہور منی آڈر بھیج کر فراز کے کلیات منگوائے اور پھر پہروں ان میں غرق رہتا اور آج بھی یہ کلیات میرے آس پاس کہیں دھرے رہتے ہیں۔
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلیئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب “اے عشق جنوں پیشہ” جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
ہر ذی روح کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ انسان ہوتے ہیں جن کے جانے سے چار سُو اداسی پھیل جاتی ہے اور یہی کیفیت کل سے کچھ میری ہے۔ غالب کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے