حسان خان
لائبریرین
نوے کے عشرے میں جب یوگوسلاویہ کا خاتمہ ہو رہا تھا تو سلووینیا اور خرواتستان (کروشیا) کی طرح بوسنیا نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا۔ لیکن جہاں اول الذکر دو ریاستیں کم و بیش قومی لحاظ سے یک جنس تھیں، وہیں بوسنیا میں اکثریتی گروہ 'بوسنیائی مسلمان' کے علاوہ خروات اور سرب اقلیتیں بھی موجود تھیں۔ خاص طور پر ریاست میں مقیم سرب باشندوں نے سربیا سے الگ رہنا بالکل گوارا نہیں کیا۔ اور اسی سرب قومی اقلیت کے حقوق کو جواز بناتے ہوئے سربیا کی فوج نے بوسنیا پر بھی حملہ کر دیا، اور تقریباً ستر فیصد حصے پر قبضہ کر کے وہاں سے بوسنیائی باشندوں کی جبراً نسلی تطہیر کرنا شروع کر دی۔ آگے سرب فوج نے قوم پرستی کے جنونی نشے میں جو جنایات کیں، وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔
یہ تصاویر اُسی بدترین جنگ اور نسل کشی کی چند جھلکیاں ہیں۔ ان سے شاید ہمیں کچھ اندازہ ہو سکے کہ نسلی قوم پرستی کا جنون کیا کیا گل کھلاتا ہے!
۶ اپریل ۱۹۹۲: سرائیوو کے مرکزی حصے میں بوسنیا کی خصوصی قوت کا فوجی سرب اسنائپروں کی شہریوں پر برسائی جانے والی گولیوں کا جواب دیتے ہوئے۔
۲۶ اگست ۱۹۹۲: سرائیوو میں ہونے والی فضائی بمباری کے بعد ایک فلیٹ میں آگ لگی ہوئی ہے۔
۲۶ نومبر ۱۹۹۲: سرائیوو کے جنوب مغری مضافاتی علاقے ڈوبرینیا میں ایک آدمی گولیوں سے پناہ کی غرض سے جھکتے ہوئے پل عبور کر رہا ہے، اور سامنے سے ایک سائیکل سوار تیزی سے سائیکل دوڑاتا ہوا آ رہا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر اسنائپروں کا منظر روکنے کے لیے ریت کے تھیلے رکھے گئے ہیں۔ اسنائپر باقاعدگی سے پل عبور کرنے والے شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
۱۶ فروری ۱۹۹۳: پورے ملک سے آئے پناہ گیر سرائیوو کی کچرا کنڈی میں کھانا تلاش کر رہے ہیں۔
۲۹ مارچ ۱۹۹۳: سریبرینیتسا سے طوزلہ بھاگنے والے بوسنیائی مسلمان پناہ گیر اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم کردہ ڈبل روٹی کے ٹکڑے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
(یاد دہانی: اس خطے میں لفظ 'مسلمان' مذہبی کے بجائے بنیادی طور پر نسلی شناخت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔)
۳۱ مارچ ۱۹۹۳: اقوامِ متحدہ کی گاڑی میں مسلمان پناہ گیر سرب فوج کی طرف سے محاصرہ شدہ بوسنیائی علاقے سریبرینیتسا سے قافلے کی شکل میں فرار ہو رہے ہیں۔
۸ اپریل ۱۹۹۳: سریبرینیتسا سے مفرور پناہ گیر طوزلہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
۲۵ اپریل ۱۹۹۳: سربیرینیتسا میں اقوامِ متحدہ کی حفاظتی قوت کے کینیڈین فوجی ایک بری طرح سے زخمی بوسنیائی شخص کو اسٹریچر پر لے کے جا رہے ہیں۔ علاقہ مکین اوپر بیٹھے اس منظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
۵ فروری ۱۹۹۴: سرائیوو کے ایک بازار میں ہوئے شیل حملے کے بعد امدادی کارکن ملبے سے ایک لاش نکال لے جا رہے ہیں۔
۱پریل ۱۹۹۵: وسطی بوسنیا میں سرب کمانڈر رادووان کاراجِچ اپنے جنرل راتکو ملادچ سے بات کرتے ہوئے
۲ جولائی ۱۹۹۵: اقوامِ متحدہ کی ایک بکتر بند گاڑی مغربی سرائیوو کی ایک سڑک پر گشت کر رہی ہے۔ تصویر میں گولیوں سے چھلنی ایک کنٹینر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
۱۱ جولائی ۱۹۹۵: ایک سالخوردہ مسلمان عورت اور اس کا قریب المرگ شوہر سرب فوج کی طرف سے رسیدہ زخموں کا علاج کرواتے ہوئے۔۔ سریبرینیتسا میں سرب فوج نے ان کا گھر تاراج کر دیا تھا۔ (تصویر کھینچے جانے کے تھوڑی دیر بعد شوہر فوت ہو گیا تھا۔)
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: سریبرینیتسا کے بوسنیائی پناہ گیر پوتوچاری کے مقام پر موجود اقوامِ متحدہ کے فوجی اڈے سے خطِ مقدم (فرنٹ لائن) کی طرف چلتے ہوئے۔۔۔
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: طوزلہ کے قریب قائم اقوامِ متحدہ کی ایک پناہ گاہ میں موجود بوسنیائی پناہ گیر خاردار تاروں سے نئے آنے والے پناہ گیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ نئے آنے والے پناہ گیر سریبرینتسا سے آ رہے ہیں کیونکہ وہاں موجود اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہ بھی غاضب فوج کی طرف سے تاراج کر دی گئی ہے۔
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: پوتوچاری قصبے میں سریبرینتیسا سے آئے پناہ گیر اقوامِ متحدہ کی حفاظتی ولندیزی فوجیوں کے ہمراہ۔۔۔
اس روز سریبرینیتسا میں سرب فوج کے قبضے کے بعد سات ہزار پانچ سو سے زیادہ مسلمان شہری مارے گئے تھے۔ ولندیزی فوجی دیکھتے رہے اور سرب فوجی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو اُن کے خاندانوں سے جدا کر کے اعدام کے لیے لے گئے۔
(سرب کمانڈر راتکو ملادچ کے مطابق یہ ترکوں کی پانچ سو سالہ غلامی کا انتقام تھا!
اور مردگان کی تعداد پرانی ہے کیونکہ اب تک آٹھ ہزار چھ سو لاشیں شناخت کے بعد دفنائی جا چکی ہیں۔)
۱۷ جولائی ۱۹۹۵: سریبرینیتسا میں ہونے والے مردوں اور لڑکوں کے اجتماعی اعدام کے بعد اُن کا باقی ماندہ سامان سڑک کے کنارے پڑا ہے۔
۲۹ فروری ۱۹۹۶: مسلم-خروات وفاق کے پولیس افسران سرب فوج سے شہر کا کنٹرول واپس لے لینے کے بعد شہر کا نقشہ دیکھتے ہوئے۔ بوسنیائی وفاقی حکومت کے مطابق اسی روز سرائیوو کے پانچ سالہ محاصرے کا خاتمہ ہوا تھا۔
۱۲ مارچ ۱۹۹۶: چار سال تک پناہ گیر رہنے والے بوسنیائی مرد اپنے تباہ حال قصبے ایلیجا میں لوٹتے ہوئے۔
۳ ۱پریل ۱۹۹۶: سریبرینیتسا کی ایک اجتماعی قبر سے ایک انسانی ہڈی باہر نکلی ہوئی ہے۔۔۔۔
۲۲ اپریل ۱۹۹۶: سرائیوو کے علاقے گرباویتسا میں ایک بچہ ٹینک سے کھیل رہا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
یہ تصاویر اُسی بدترین جنگ اور نسل کشی کی چند جھلکیاں ہیں۔ ان سے شاید ہمیں کچھ اندازہ ہو سکے کہ نسلی قوم پرستی کا جنون کیا کیا گل کھلاتا ہے!
۶ اپریل ۱۹۹۲: سرائیوو کے مرکزی حصے میں بوسنیا کی خصوصی قوت کا فوجی سرب اسنائپروں کی شہریوں پر برسائی جانے والی گولیوں کا جواب دیتے ہوئے۔
۲۶ اگست ۱۹۹۲: سرائیوو میں ہونے والی فضائی بمباری کے بعد ایک فلیٹ میں آگ لگی ہوئی ہے۔
۲۶ نومبر ۱۹۹۲: سرائیوو کے جنوب مغری مضافاتی علاقے ڈوبرینیا میں ایک آدمی گولیوں سے پناہ کی غرض سے جھکتے ہوئے پل عبور کر رہا ہے، اور سامنے سے ایک سائیکل سوار تیزی سے سائیکل دوڑاتا ہوا آ رہا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر اسنائپروں کا منظر روکنے کے لیے ریت کے تھیلے رکھے گئے ہیں۔ اسنائپر باقاعدگی سے پل عبور کرنے والے شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
۱۶ فروری ۱۹۹۳: پورے ملک سے آئے پناہ گیر سرائیوو کی کچرا کنڈی میں کھانا تلاش کر رہے ہیں۔
۲۹ مارچ ۱۹۹۳: سریبرینیتسا سے طوزلہ بھاگنے والے بوسنیائی مسلمان پناہ گیر اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم کردہ ڈبل روٹی کے ٹکڑے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
(یاد دہانی: اس خطے میں لفظ 'مسلمان' مذہبی کے بجائے بنیادی طور پر نسلی شناخت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔)
۳۱ مارچ ۱۹۹۳: اقوامِ متحدہ کی گاڑی میں مسلمان پناہ گیر سرب فوج کی طرف سے محاصرہ شدہ بوسنیائی علاقے سریبرینیتسا سے قافلے کی شکل میں فرار ہو رہے ہیں۔
۸ اپریل ۱۹۹۳: سریبرینیتسا سے مفرور پناہ گیر طوزلہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
۲۵ اپریل ۱۹۹۳: سربیرینیتسا میں اقوامِ متحدہ کی حفاظتی قوت کے کینیڈین فوجی ایک بری طرح سے زخمی بوسنیائی شخص کو اسٹریچر پر لے کے جا رہے ہیں۔ علاقہ مکین اوپر بیٹھے اس منظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
۵ فروری ۱۹۹۴: سرائیوو کے ایک بازار میں ہوئے شیل حملے کے بعد امدادی کارکن ملبے سے ایک لاش نکال لے جا رہے ہیں۔
۱پریل ۱۹۹۵: وسطی بوسنیا میں سرب کمانڈر رادووان کاراجِچ اپنے جنرل راتکو ملادچ سے بات کرتے ہوئے
۲ جولائی ۱۹۹۵: اقوامِ متحدہ کی ایک بکتر بند گاڑی مغربی سرائیوو کی ایک سڑک پر گشت کر رہی ہے۔ تصویر میں گولیوں سے چھلنی ایک کنٹینر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
۱۱ جولائی ۱۹۹۵: ایک سالخوردہ مسلمان عورت اور اس کا قریب المرگ شوہر سرب فوج کی طرف سے رسیدہ زخموں کا علاج کرواتے ہوئے۔۔ سریبرینیتسا میں سرب فوج نے ان کا گھر تاراج کر دیا تھا۔ (تصویر کھینچے جانے کے تھوڑی دیر بعد شوہر فوت ہو گیا تھا۔)
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: سریبرینیتسا کے بوسنیائی پناہ گیر پوتوچاری کے مقام پر موجود اقوامِ متحدہ کے فوجی اڈے سے خطِ مقدم (فرنٹ لائن) کی طرف چلتے ہوئے۔۔۔
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: طوزلہ کے قریب قائم اقوامِ متحدہ کی ایک پناہ گاہ میں موجود بوسنیائی پناہ گیر خاردار تاروں سے نئے آنے والے پناہ گیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ نئے آنے والے پناہ گیر سریبرینتسا سے آ رہے ہیں کیونکہ وہاں موجود اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہ بھی غاضب فوج کی طرف سے تاراج کر دی گئی ہے۔
۱۳ جولائی ۱۹۹۵: پوتوچاری قصبے میں سریبرینتیسا سے آئے پناہ گیر اقوامِ متحدہ کی حفاظتی ولندیزی فوجیوں کے ہمراہ۔۔۔
اس روز سریبرینیتسا میں سرب فوج کے قبضے کے بعد سات ہزار پانچ سو سے زیادہ مسلمان شہری مارے گئے تھے۔ ولندیزی فوجی دیکھتے رہے اور سرب فوجی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو اُن کے خاندانوں سے جدا کر کے اعدام کے لیے لے گئے۔
(سرب کمانڈر راتکو ملادچ کے مطابق یہ ترکوں کی پانچ سو سالہ غلامی کا انتقام تھا!
اور مردگان کی تعداد پرانی ہے کیونکہ اب تک آٹھ ہزار چھ سو لاشیں شناخت کے بعد دفنائی جا چکی ہیں۔)
۱۷ جولائی ۱۹۹۵: سریبرینیتسا میں ہونے والے مردوں اور لڑکوں کے اجتماعی اعدام کے بعد اُن کا باقی ماندہ سامان سڑک کے کنارے پڑا ہے۔
۲۹ فروری ۱۹۹۶: مسلم-خروات وفاق کے پولیس افسران سرب فوج سے شہر کا کنٹرول واپس لے لینے کے بعد شہر کا نقشہ دیکھتے ہوئے۔ بوسنیائی وفاقی حکومت کے مطابق اسی روز سرائیوو کے پانچ سالہ محاصرے کا خاتمہ ہوا تھا۔
۱۲ مارچ ۱۹۹۶: چار سال تک پناہ گیر رہنے والے بوسنیائی مرد اپنے تباہ حال قصبے ایلیجا میں لوٹتے ہوئے۔
۳ ۱پریل ۱۹۹۶: سریبرینیتسا کی ایک اجتماعی قبر سے ایک انسانی ہڈی باہر نکلی ہوئی ہے۔۔۔۔
۲۲ اپریل ۱۹۹۶: سرائیوو کے علاقے گرباویتسا میں ایک بچہ ٹینک سے کھیل رہا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
آخری تدوین: