جنگی مجرم…؟

اس کے منہ سے نکلا لفظ لفظ حقائق پر جمی ریت کی تہوں کو کھرچ کر جدید گلوبل ویلیج کے باسیوں کے قلوب و اذہان کو جھنجھوڑ رہا تھا، شاید احساس زیاں کی ایسی چنگاری صدر اور وزیراعظم کے سینے میں بھی بھڑک اٹھے اور وہ بھی ایسی لب کشائی کر کے بش اور اوباما کہ یہ باور کرا دیں کہ وہ جنگی مجرم ہیں، وہ کہہ رہا تھا کہ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا میں اپنے ہمہ قسم کے نقصان کی پروا کئے بغیر ہائوس آف لارڈز کے باہر بھی یہی بات کہوں گا۔
اگرچہ دنیا کے چند ناسوروں نے تمام قوانین، اصول اور ضوابط کی دھجیاں ہی نہیں بکھیریں بلکہ الفاظ کے معانی و مفاہیم بھی تبدیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، جہاد پر دہشت گردی اور شہداء اور غازیوں پر دہشت گرد کا لفظ چسپاں کر دیا ہے، یہ ان بدلتے حالات کی کرشمہ سازی ہے کہ جنوں کا نام خرد اور خرد کا جنوں پڑ گیا ہے۔ موسموں کی اس تبدیلی پر ہر ذی فہم اور ذی شعور کا دل کڑھتا ہے، ان عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے ایسے قوانین وضع کر لئے ہیں کہ جن کی مدد سے دنیا کے باوقار اور امن کے خوگر شہریوں کو شقی القلبی کے ساتھ قتل کیا جا سکے۔ کیا یہ اندھیر نگری نہیں ہے کہ اپنے ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی یلغار کو بھی قیام امن کے لئے ناگزیر قرار دیا جائے، جبکہ نہتے، بے سروسامان اور غربت کی چکی میں پسے مظلوم لوگوں کو دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ بتایا جائے۔ ان عجیب پنپتے قوانین پر ہر شخص متحیر اور متجسس ہے کہ درندوں کو مسیحا کے طور پر متعارف کروایا جانے لگا ہے۔ وہ ایسا وحشی ہے کہ گوئٹے مالا میں ایک لاکھ سے زائد، مشرقی تیمور میں اڑھائی لاکھ، ترکی میں نوے ہزار، موزمبیق میں چودہ لاکھ، انڈونیشیا میں ساڑھے سات لاکھ اور چیچنیا میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل میں ملوث ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی زبان امن کے راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اب تک کتنے مسلمان عراق اور افغانستان میں امریکی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق 10 سے 15 لاکھ مسلمان اس سفاک جنگ کا نوالہ بن چکے ہیں، بچوں کے ساتھ محبت انسان کی رگ و ریشے میں رچی بسی ہوتی ہے مگر سنگلاخ دل اور شقی القلب بش نے انہیں قتل کرنے کے لئے ڈیزی کٹر بم استعمال کئے، 2010ء کے دوران اوسطاً 2 بچے روزانہ بے دردی کے ساتھ موت کے منہ میں دھکیلے گئے۔
دس سال اور 198 دنوں پر محیط افغان جنگ امریکی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، 35 ہزار کے قریب پاکستانی شہری بھی اس بے ننگ و ناموس جنگ کا ایندھن بنے، مشرف نامی اس شخص نے امریکا کے سامنے یوں سر تسلیم خم کیا کہ اب وہ بڑے دھڑلے سے پاکستانی شہریوں کے سروں کی قیمتیں مقرر کرتا ہے۔
اس کا نام لارڈ نذیر احمد ہے، اس کی زبان حق و صداقت پر مبنی الفاظ ادا کر رہی ہے کہ بش، اوباما اور ٹونی بلیئر جنگی مجرم ہیں، عراق اور افغانستان میں جنگی جرائم کی پاداش میں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، لارڈ نذیر نے حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کرنے پر ردعمل کا اظہار کیا کہ اگر امریکا حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت مقرر کر سکتا ہے تو میں بھی بش اور اوباما پر ایک کروڑ پونڈ مقرر کر سکتا ہوں۔
یہ الفاظ اوباما اور ٹونی بلیئر کی چھاتی میں چھرے کی مانند پیوست ہو گئے، انہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ کوئی شخص انہیں اس انداز میں مخاطب کر سکتا ہے۔ جب بش کے منہ پرجوتا مارا جا سکتا ہے تو کوئی شخص ان پر انعام بھی مقرر کر سکتا ہے۔ لارڈ نذیر کی اس بات پر برطانوی لیبر پارٹی میں کھلبلی مچ گئی اور اس کی رکنیت معطل کر دی۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے دماغ میں ایسی دراڑیں پڑ چکی ہیں، ان کے جسموں میں ہر سمت پھیلی شریانوں اور رگوں میں ایسے اندھیرے دوڑتے ہیں کہ یہ حق کو باطل اور باطل کو حق کہنے لگے ہیں، اب تک شاید ہی چشم فلک نے ایسے مہیب ، لق دق اور سلگتے موسموں کی ایسی کرشمہ سازی ملاحظہ کی ہو مگر جہاد فی سبیل اللہ ان تیرہ بخت موسموں کی تلخیوں اور حق و باطل کے معانی و مفاہیم بدلنے والی لغات کو درست کرنے کا ہنر بخوبی سکھاتا اور سمجھاتا ہے۔ جایئے! ورجنیا اور فلوریڈا سمیت ہر امریکی ریاست میں پھیلے ان وسیع و عریض قبرستانوں کو دیکھ لیجئے جو ایک متکبر، رعونت شعار اور خناس طاقت کے جبڑے پر زناٹے دار طمانچہ ہیں یہ قبرستان ایک نام نہاد سپر پاور کو اس کی حماقت اور عبرت ناک انجام کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اس نے کیوں عراق اور افغانستان کو ترانوالہ سمجھ لیا تھا۔ یہ قبرستان اس شیطان کے دل و دماغ پر ان مٹ نشانات ثبت کرتے رہیں گے اور یہ سزا آنے والی نسلوں کے قلوب و اذہان میں بھی منتقل ہوتی رہے گی، جو بھی ان قبرستانوں کو دیکھے گا وہ نہ صر ف بش اور اوباما کو کوسنے دے گا بلکہ وہ ورطہ حیرت میں بھی غرق رہے گا کہ ان قبرستانوں کو آباد کرنے والے طالبان جرات و بہادری کے کن سانچوں میں ڈھلے تھے، کہ انہوں نے ایک سپر پاور کا قبرستان امریکا ہی کو بنا ڈالا اور پھر وہ امریکی نسل اپنی ڈکشنری میں دہشت گردی کا مطلب دہشت گردی اور جہاد کا معانی جہاد درج کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ (ان شاء اللہ


بشکریہ ہفت،،،روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

ساجد

محفلین
لارڈ نذیر کی امریکی اور برطانوی پالیسیوں پر تنقید کو طالبان کی حمایت سے جوڑنا انصاف نہیں۔ اس کالم میں صاحب تحریر امریکہ ہی کی اس عادت کا اعادہ کرتے نظر آ رہے ہیں جس کے تحت وہ اپنی جارح افواج کے خلاف عوامی رد عمل کو طالبان کی کارروائیوں کا نام دے کر دنیا کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔ ہمیں جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہے۔ 35000 ہزار عام پاکستانی شہریوں اور 7000 پاکستانی فوجیوں کے قاتل طالبان کسی کے نجات دہندہ یا مجاہد نہیں بلکہ امریکہ ہی کی پراکسی ہیں۔دونوں ہی بین الاقوامی سطح کے قاتل اور ہمارے مجرم ہیں۔
 
Top