جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

آج کے اس ہما ہمی اور نفسا نفسی کے دور میں اخلاص ڈھونڈے نہیں ملتا۔ کسی کی پریشانی پر دکھ اور افسوس کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا پر چند جملے لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں جب کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا داخل ہوتا ہے تو جیسے مایوسی کی چھائی گھٹا یک دم چھٹ جاتی ہے اور پھر سے نئی توانائی کے ساتھ، جینے کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ منگل میرے ساتھ پیش آیاِ۔
دفتر سے واپسی پر ایک رفیقِ کار نے کھنہ پُل بس سٹاپ پر اتارا۔ کافی دیر تک جب گھر کی طرف جانے والی گاڑی نہ آئی، تو سڑک کنارے ہی موبائل نکالا اور اوبر (uber) کی گاڑی بک کروانے لگا۔ گاڑی بک ہونے پر ابھی گاڑی کا ماڈل اور نمبر نوٹ کر ہی رہا تھا کہ کسی نے ہاتھ مار کر موبائل چھین لیا۔ ہڑبڑا کر دیکھا تو ایک موٹر سائیکل سوار لڑکا، جس کے پیچھے خاتون سوار تھیں، وہ میرے ہاتھ سے موبائل جھپٹ کر جا چکا تھا۔ مغرب کا وقت اور بائیک کی رفتار تیز ہونے کے سبب بائیک کا نمبر بھی نہیں پڑھا گیا۔
اس کے فوراً پیچھے ایک بائیک میرے پاس رکی، اس پر دو نوجوان لڑکے بیٹھے تھے۔ جو شاید یہ واردات دیکھ چکے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بائیک والا میرا موبائل لے کر بھاگا ہے۔ انہوں نے بائیک پیچھے دوڑا دی۔
اور میں انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کرتے ہوئے اگلے لائحۂ عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔ فیصلہ کیا کہ اوبر بک تو ہو ہی چکی ہے، اس کا انتظار کیا جائے۔ اوبر میں جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب گھر جا کر پہلا کام اینڈرائڈ ڈیوائس مینیجر سے کونیکٹ ہو کر موبائل کو اِریز (erase)اور لاک (lock)کرنا ہے۔ موبائل چونکہ چھنتے وقت استعمال میں تھا، تو ایک پریشانی یہ بھی تھی کہ چور کو موبائل اَن لاکڈ (unlocked)ہی مل گیا ہے۔
کچھ دیر میں خیال آیا کہ اپنے موبائل پر کال کی جائے۔ اوبر ڈرائیور سے درخواست کی تو اس نے فوراً موبائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
فون کیا تو آگے سے ایک لڑکے نے فون اٹھایا اورکہا کہ "بھائی آپ کا فون ہم نے اس سے لے لیا ہے، آپ کہاں پر ہیں؟"
میں نے ان کو فوراً اپنی لوکیشن بتائی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور ان دونوں کے لیے دل سے دعا کی۔
کچھ ہی دیر میں دونوں بھائی موبائل لے کر پہنچ گئے۔ پوچھنے پر بتایا کہ "رش ہونے کے سبب وہ لڑکا بائیک زیادہ نہیں بھگا سکا۔ ہم نے قریب پہنچ کر شور مچایا تو گھبراہٹ میں موبائل پھینک کر بھاگ گیا۔"
موبائل کا کور اترا ہوا تھا، جو کہ شاید موبائل کھولنے کی غرض سے اتارا گیا ہو۔ موبائل پر لاک کوڈ کی وجہ سے کسی کو فون نہیں کر سکتے تھے، تو واپس کھنہ پل پہنچ گئے کہ شاید میں وہیں انتظار میں ہوں۔ اسی اثنا میں میری کال آ گئی۔
یوں دس بارہ منٹ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش میں ڈال کر دو فرشتوں کی مدد سے نکال لیا۔ ان کو گلے سے لگایا، دعا دی اور کچھ انعام پیش کیا۔ انہوں نے صرف دعا کی درخواست کرتے ہوئے انعام لینے سے انکار کر دیا۔
بعد میں اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر غور کیا ۔
چھننے سے پہلے اوبر کا بک ہو جانا۔۔۔
چھننے کے فوراً بعد فرشتہ صفت نوجوان بھیجنا۔۔۔
کال کرنے کا خیال کچھ دیر بعد ذہن میں ڈالنا۔۔۔
ضرور کوئی خاص نیکی تھی جو کام آئی۔
یوں کسی انجان کی مدد کے لیے بلا خوف و خطر اور کسی ذاتی غرض سے بالاتر ہو کر نکل پڑنا، یقیناً والدین کی اچھی تربیت کی بدولت ہی ممکن ہے۔ لہٰذا ان نوجوانوں کے والدین کے لیے بھی دعا کی۔ اُس وقت جو کیفیت تھی اس میں نہ تو ان نوجوانوں کا پتہ پوچھنے کا خیال آیا اور نہ ہی ان کی تصویر لینا ذہن میں آیا۔
مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا کردار اپنا گہرا نقش چھوڑ گیا ہے۔
یہ تحریر میں نے اپنے اوپر ان لڑکوں کا ایک قرض سمجھ کر لکھی ہے۔ یہ سطور لکھنے کا بھی بنیادی مقصد ان نوجوانوں کے لیے دعاؤں کا دائرہ کار بڑھانا ہے، کیونکہ یہی نوجوان اس ملک کے لیے اصل سرمایہ ہیں۔
شاید انہی کے لیے سرور بارہ بنکوی کہہ گئے ہیں:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں​
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت خوب لکھا تابش بھائی!! آج کل کا دور ایسا ہے کہ کوئی کسی پہ اعتبار کر ہی نہیں سکتا۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ کوئی خاتون دروازہ کھٹکھٹا کر پانی کا گلاس بھی طلب کر لیں تو ہم انہیں بھی مشکوک نظروں سے ہی دیکھتے ہیں کہ کہیں کسی واردات گروہ سے نہ ہوں۔ لیکن اچھے لوگ پھر بھی ختم نہیں ہوئے۔ معاشرے میں توازن انھی لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔
ایسی اولاد والدین کے لیے بھی صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کو اس نیکی کا بہت سارا اجر دیں۔ آمین!!
 
بے شک اس بے ڈھنگے زمانے میں بھی ایسے نیک لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے ماشرہ قائم و دائم ہے... اللہ پاک ان نوجوانوں کو جزائے خیر عطا کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں.... اور ہمیں دین و دنیا کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں..... آمین.....
اللہ پاک آپ سمیت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور ہر اچھے و برے وقت میں مدد و حوصلہ عطا کریں... آمین.....
 
بہت خوب لکھا تابش بھائی!! آج کل کا دور ایسا ہے کہ کوئی کسی پہ اعتبار کر ہی نہیں سکتا۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ کوئی خاتون دروازہ کھٹکھٹا کر پانی کا گلاس بھی طلب کر لیں تو ہم انہیں بھی مشکوک نظروں سے ہی دیکھتے ہیں کہ کہیں کسی واردات گروہ سے نہ ہوں۔ لیکن اچھے لوگ پھر بھی ختم نہیں ہوئے۔ معاشرے میں توازن انھی لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔
ایسی اولاد والدین کے لیے بھی صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کو اس نیکی کا بہت سارا اجر دیں۔ آمین!!
آمین. بے شک درست کہا.
 
بے شک اس بے ڈھنگے زمانے میں بھی ایسے نیک لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے ماشرہ قائم و دائم ہے... اللہ پاک ان نوجوانوں کو جزائے خیر عطا کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں.... اور ہمیں دین و دنیا کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں..... آمین.....
اللہ پاک آپ سمیت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور ہر اچھے و برے وقت میں مدد و حوصلہ عطا کریں... آمین.....
آمین. جزاک اللہ ابو مدین بھائی.
 

با ادب

محفلین
اللہ ہر اولاد کو ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک بنائے اور معاشرے کا کارآمد شہری بھی ..آمین.
آپکی تحریر پڑھ کر خوشی ہوئی اور باقی لوگوں کے تبصرے بھی پڑھے. بہت عجیب اور شاید ناقابل بھروسہ بات لگے لیکن اللہ کا انتہائی کرم ہے مجھے اپنی زندگی میں آج تک برے لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا. . . اور میں نے کبھی کسی انسان پہ شک نہیں کیا نہ.کبھی ذہن میں آیا کہ یہ انسان برا بھی ہوسکتا ہے. یہ یقیناً اللہ کا خاص کرم ہوگا ..آپ یقین جانئیے میرا اعتقاد ہے خود برا مت کرو اللہ آپکے ساتھ کبھی کچھ برا نہیں ہونے دے گا.
میرے گھر کا دروازہ پورا دن کھلا رہتا ہے کئی بار گھر والوں سے ڈانٹ پڑی کوئی یہ کر دے گا وہ کردے گا آج تک اللہ کا کرم رہا. بعض دفعہ تو رات کو بھی لاک لگانا یاد نہ رہا.
کبھی ان خواتین کو گھر آنے سے نہیں روکا جو کبھی کپڑے بیچنے آجاتی ہیں کبھی کیا کبھی کیا. کبھی بھیک مانگنے کبھی صرف پانی پینے کبھی پولیو کے قطرے پلانے گو کہ گھر میں کوئی بچہ نہیں.
حالات خراب ضرور ہوں گے کہ کوئی معاشرہ سو فیصد اچھا نہیں لیکن ابھی اس مملکت خداداد میں حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنا واویلا ہے. اللہ سب پہ رحم فرمائے خاص طور پہ ان بچوں پہ جن کے کردار نے انسان پہ اعتبار بخشا. آمین
 

عثمان

محفلین
واقعی حیران کن اور قابل تحسین ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ان جوانوں نے خطرہ مول لیا جو بہرحال ایک آئیڈیل بات نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ جان، مال اور عزت سلامت رکھے۔ آمین!
 
جس نے موبائل چھینا وہ بھی قابل رحم ہے۔ جابز ہوتی نہیں اور ٹی وی گلیمر دکھاتا رہتا ہے۔
پورا معاشرہ تباہ ہے۔ ہر ایک لوٹ مار میں لگا ہے۔
پولیس خود لوٹ مار کررہی ہے۔
عوام ایک دوسرے کو لوٹ رہی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی حیران کن اور قابل تحسین ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ان جوانوں نے خطرہ مول لیا جو بہرحال ایک آئیڈیل بات نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ جان، مال اور عزت سلامت رکھے۔ آمین!
عام طور پر ایسی واردات کرنے والوں کے پاس 'گن' بھی ہوتی ہے اور گھبرا کر وہ انتہائی قدم بھی اُٹھا لیتے ہیں۔ بہرحال ان نوجوانوں کا جذبہ قابلِ تحسین ہے۔ ویسے پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے، پولیس اور دوسری فورسز کے کرنے والے کام بھی شہریوں کو خود ہی کرنے پڑتے ہیں :)
 

انتہا

محفلین
بے شک اس بے ڈھنگے زمانے میں بھی ایسے نیک لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے ماشرہ قائم و دائم ہے... اللہ پاک ان نوجوانوں کو جزائے خیر عطا کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں.... اور ہمیں دین و دنیا کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں..... آمین.....
اللہ پاک آپ سمیت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور ہر اچھے و برے وقت میں مدد و حوصلہ عطا کریں... آمین.....
برا مت مانیے گا۔ زمانے کو برا کہنے کو منع کیا گیا ہے۔ سبب انسانی کمزوریاں ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اصلاح احوال کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا:
( يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ)
(صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ حم الجاثیۃ، باب وما یھلکنا الا الدھر، ح:4826 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246)
اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر (برابھلاکہہ کر) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ(درحقیقت) میں ہی زمانہ (کا خالق اور مالک)ہوں۔ دن اور رات کو مین ہی تبدیل کرتا ہوں۔
اور ایک روایت میں ہے:
(لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ)
(صحیح مسلم، الالفاظ من الادب، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246)
زمانہ کو گالی مت دو(برا بھلا مت کہو)کیونکہ در حقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ ہے۔

 
اللہ ہر اولاد کو ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک بنائے اور معاشرے کا کارآمد شہری بھی ..آمین.
آپکی تحریر پڑھ کر خوشی ہوئی اور باقی لوگوں کے تبصرے بھی پڑھے. بہت عجیب اور شاید ناقابل بھروسہ بات لگے لیکن اللہ کا انتہائی کرم ہے مجھے اپنی زندگی میں آج تک برے لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا. . . اور میں نے کبھی کسی انسان پہ شک نہیں کیا نہ.کبھی ذہن میں آیا کہ یہ انسان برا بھی ہوسکتا ہے. یہ یقیناً اللہ کا خاص کرم ہوگا ..آپ یقین جانئیے میرا اعتقاد ہے خود برا مت کرو اللہ آپکے ساتھ کبھی کچھ برا نہیں ہونے دے گا.
میرے گھر کا دروازہ پورا دن کھلا رہتا ہے کئی بار گھر والوں سے ڈانٹ پڑی کوئی یہ کر دے گا وہ کردے گا آج تک اللہ کا کرم رہا. بعض دفعہ تو رات کو بھی لاک لگانا یاد نہ رہا.
کبھی ان خواتین کو گھر آنے سے نہیں روکا جو کبھی کپڑے بیچنے آجاتی ہیں کبھی کیا کبھی کیا. کبھی بھیک مانگنے کبھی صرف پانی پینے کبھی پولیو کے قطرے پلانے گو کہ گھر میں کوئی بچہ نہیں.
حالات خراب ضرور ہوں گے کہ کوئی معاشرہ سو فیصد اچھا نہیں لیکن ابھی اس مملکت خداداد میں حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنا واویلا ہے. اللہ سب پہ رحم فرمائے خاص طور پہ ان بچوں پہ جن کے کردار نے انسان پہ اعتبار بخشا. آمین
آمین. جزاک اللہ.
آپ کی باتوں سے متفق ہوں، مگر کسی حد تک احتیاط لازمی ہے. کسی کے حوالے سے بد گمانی نہ کریں. مگر اپنے حفاظتی اقدامات ضرور مکمل رکھیں.
 
Top