بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان ہمیشہ سے ترقی کی منازل تہہ کرتا رہا ہے۔ ہر دور میں کئی ایسے لوگ ہوئے جو نئی سے نئی ایجاد کرنے میں مصروف رہے اور بہتوں نے کئی ایجادات کیں۔ ماضی میں کئی ایسی ایجادات ہوئیں جو وقتی طور پر شاید اتنی اہمیت نہ رکھتی ہوں لیکن آج وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہیں۔ جیسے سائنس کی سب سے بڑی ایجاد "پہیہ" اس کے علاوہ مختلف قسم کی لہریں اور بجلی وغیرہ وغیرہ۔
عام طور پر ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ منفرد ہو، وہ کچھ ایسا کرے جو آج سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو یہی سوچ جب جنون بنتی ہے تو تو نئی راہیں کُھلتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ جنون صرف اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے لیکن جو لوگ خلقِ خدا کی بہتری کے لئے یہ جنون اپنے سرچڑھاتے ہیں وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور ایسے لوگ تاریخ میں ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ ایسے جنونی لوگ جن کا مقصد خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کچھ اچھا کرنا ہوتا ہے جس دن کسی معاشرے میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں بس اُسی دن اُس معاشرے کی تقدیر بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔
آج کے ترقی پذیر ممالک کا ماضی دیکھیں یعنی اُن کے تاریک دور کا مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا تو چند لوگ ایسے بھی تھے جو اس بات سے قطع نظر کہ اُن کا کام، اُن کی محنت، اُن کی لگن اور اُن کا جنون چھوٹا ہے یا بڑا، لیکن وہ اپنی عوام کی بہتری کے لئے کوشاں رہے۔ وقت گزرتا رہا، حالات بدلتے رہے اور تاریخ وہ دن لے آئی جب وہ ایک ترقی پذیر ملک/ممالک بن کر دنیا پر چھا گئے۔
آج ہمارے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ کہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو کہیں خون کی ہولی، کہیں قوم کے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں تو کہیں اسی قوم کے پیسے سے عیاشی کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔ ایک طرف حکمران دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف عوام حکمرانوں سے اپنے حقوق کی بھیک مانگ رہی ہے۔ ایک طرف حکمران انا کی خاطر ظلم کی داستانیں لکھتے ہیں تو دوسری طرف عام شہری ہر چوراہے، ہر موڑ، ہر سڑک، راہ چلتے ہوئے اپنی خودی کی دھجیاں اڑانے پر مجبور ہے۔ غرض ہم لوگ ہر لحاظ سے ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان حالات میں عوام کسی اچھے لیڈر کی تلاش میں صبح سے شام اور شام سے پھر صبح تک انتظار کرتی ہے۔ انتظار ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔
اے میرے ہم وطنو، اے میرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں! اب لیڈر کا انتظار چھوڑو، خود اپنا لیڈر آپ بنو اور سب سے بڑ کر دنیا کے عظیم لیڈر کا کہا مانو، صبح سے شام تک اور پھر شام سے صبح تک انتظار کی بجائے عقل والے بنو اور دن و رات کے آنے جانے میں نشانیاں تلاش کرو۔ یہ مت سوچو کہ آپ کا کام، آپ کی محنت یا آپ کی ایجاد چھوٹی ہے یا بڑی بس خلقِ خدا کی بہتر کے لئے جنون اپنے سر چڑھا لو۔ ویسے بھی کسی کو کیا معلوم کہ آج کسی کا چھوٹا سا کام کل کو دنیا کی اہم ضرورت بنے گا اس لئے جو جتنا کر سکتا ہے وہ اتنا کرے۔ قطرہ قطرہ ملاؤ اور سمندر بنا ڈالو۔
اے اس قوم کے غیور جوانو! اس قوم کا مستقبل تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس قوم کے بوڑھے اور بچے تم سے بہتری کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب تم نیند غفلت سے جاگو گے اور قوم کی بہتری کے لئے کچھ ایسا کرو گے جو آج سے پہلے اس قوم کے لئے کسی نے نہیں کیا۔ عوام امید کرتی ہے کہ تم کچھ ایسا کرو جس سے تم اُن لوگوں میں شمار ہو جاؤ جن کا نام ہی تاریخ ہوتا ہے۔
انسان ہمیشہ سے ترقی کی منازل تہہ کرتا رہا ہے۔ ہر دور میں کئی ایسے لوگ ہوئے جو نئی سے نئی ایجاد کرنے میں مصروف رہے اور بہتوں نے کئی ایجادات کیں۔ ماضی میں کئی ایسی ایجادات ہوئیں جو وقتی طور پر شاید اتنی اہمیت نہ رکھتی ہوں لیکن آج وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہیں۔ جیسے سائنس کی سب سے بڑی ایجاد "پہیہ" اس کے علاوہ مختلف قسم کی لہریں اور بجلی وغیرہ وغیرہ۔
عام طور پر ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ منفرد ہو، وہ کچھ ایسا کرے جو آج سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو یہی سوچ جب جنون بنتی ہے تو تو نئی راہیں کُھلتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ جنون صرف اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے لیکن جو لوگ خلقِ خدا کی بہتری کے لئے یہ جنون اپنے سرچڑھاتے ہیں وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور ایسے لوگ تاریخ میں ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ ایسے جنونی لوگ جن کا مقصد خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کچھ اچھا کرنا ہوتا ہے جس دن کسی معاشرے میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں بس اُسی دن اُس معاشرے کی تقدیر بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔
آج کے ترقی پذیر ممالک کا ماضی دیکھیں یعنی اُن کے تاریک دور کا مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا تو چند لوگ ایسے بھی تھے جو اس بات سے قطع نظر کہ اُن کا کام، اُن کی محنت، اُن کی لگن اور اُن کا جنون چھوٹا ہے یا بڑا، لیکن وہ اپنی عوام کی بہتری کے لئے کوشاں رہے۔ وقت گزرتا رہا، حالات بدلتے رہے اور تاریخ وہ دن لے آئی جب وہ ایک ترقی پذیر ملک/ممالک بن کر دنیا پر چھا گئے۔
آج ہمارے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ کہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو کہیں خون کی ہولی، کہیں قوم کے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں تو کہیں اسی قوم کے پیسے سے عیاشی کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔ ایک طرف حکمران دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف عوام حکمرانوں سے اپنے حقوق کی بھیک مانگ رہی ہے۔ ایک طرف حکمران انا کی خاطر ظلم کی داستانیں لکھتے ہیں تو دوسری طرف عام شہری ہر چوراہے، ہر موڑ، ہر سڑک، راہ چلتے ہوئے اپنی خودی کی دھجیاں اڑانے پر مجبور ہے۔ غرض ہم لوگ ہر لحاظ سے ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان حالات میں عوام کسی اچھے لیڈر کی تلاش میں صبح سے شام اور شام سے پھر صبح تک انتظار کرتی ہے۔ انتظار ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔
اے میرے ہم وطنو، اے میرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں! اب لیڈر کا انتظار چھوڑو، خود اپنا لیڈر آپ بنو اور سب سے بڑ کر دنیا کے عظیم لیڈر کا کہا مانو، صبح سے شام تک اور پھر شام سے صبح تک انتظار کی بجائے عقل والے بنو اور دن و رات کے آنے جانے میں نشانیاں تلاش کرو۔ یہ مت سوچو کہ آپ کا کام، آپ کی محنت یا آپ کی ایجاد چھوٹی ہے یا بڑی بس خلقِ خدا کی بہتر کے لئے جنون اپنے سر چڑھا لو۔ ویسے بھی کسی کو کیا معلوم کہ آج کسی کا چھوٹا سا کام کل کو دنیا کی اہم ضرورت بنے گا اس لئے جو جتنا کر سکتا ہے وہ اتنا کرے۔ قطرہ قطرہ ملاؤ اور سمندر بنا ڈالو۔
اے اس قوم کے غیور جوانو! اس قوم کا مستقبل تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس قوم کے بوڑھے اور بچے تم سے بہتری کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب تم نیند غفلت سے جاگو گے اور قوم کی بہتری کے لئے کچھ ایسا کرو گے جو آج سے پہلے اس قوم کے لئے کسی نے نہیں کیا۔ عوام امید کرتی ہے کہ تم کچھ ایسا کرو جس سے تم اُن لوگوں میں شمار ہو جاؤ جن کا نام ہی تاریخ ہوتا ہے۔