ایم اسلم اوڈ
محفلین
وہ گھرمیں تنہا بیٹھی تھی، 7 ماہ بیت گئے تھے، اس نے کسی انسان سے ملاقات کی نہ اسے آسمان یا کبھی دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ کوئی قیدی بھی نہیں تھی۔ نہ اس کو کسی نے نظر بند کیا تھا۔ کہنے کو تو اسے دنیا کے کروڑوں انسان جانتے تھے اسے اس کے مداحوں نے بہت سے ایوارڈ دے رکھے تھے۔ جہاں وہ اپنی خود ہی نظربندی کئے بیٹھی تھی اس سے نکل کر اگر دوسری دنیا میں پہنچے تو اسے بہت سے لوگ عزت دینے کے لئے تیار تھے لیکن وہ ان عزت دینے والوں کے پاس بھی جانے سے خوفزدہ تھی کیونکہ نجانے ان تک اسے پہنچنے کا موقع بھی ملتا ہے کہ نہیں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے تھے جو اس کے خون کے پیاسے تھے اور اسے مار دینا اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشن اور مقصد سمجھتے تھے۔ ان سب کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ اگر وہ اس عورت کو مارنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لئے وہ دنیا کی ہر مشکل و پریشانی کو بالائے طاق رکھے ہوئے تھے۔ یہ خاتون کون تھی.... اس کا نام دنیا میں تسلیمہ نسرین مشہور تھا۔ وہ 25 اگست 1962ءکو بنگلہ دیش میں پیدا ہوئی۔ انتہائی ذہن و فطین تھی۔ چند کلاسیں پڑھنے کے بعد ہی تحریر کے میدان میں آ گئی۔ نظم و نثر لکھنا شروع کر دی۔ ناول لکھے، اخبارات میں مختلف موضوعات پر کالم اور مضامین لکھے اور خوب نام کمایا۔ 1986ءسے 1993ءتک اس کی نصف درجن کتب بھی شائع ہوئیں، لیکن 1993ءمیں لکھے ناول ”لجا“ یعنی ” بے شرمی“ نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس کے ذہن میں یہ فتور آ گیا تھا کہ وہ برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کو ایک کر سکتی ہے اور اس کے لئے اسلام پر حملے کرنے چاہئیں تاکہ مسلمان ہندوﺅں کی بالادستی تسلیم کرلیں۔ اپنے ناول ”لجا“ میں اس نے ایک ہندو خاندان کو مسلمانوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا دکھایا اور مسلمانوں اور اسلام کو ظلم و جابر ثابت کیا اور شعائر اسلامی کو بدلنے کی رائے دی اور نبی مکرمﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے۔ پھر کیا تھا.... اس کے گھر کے باہر ہزاروں لوگ جمع تھے، اس نے پولیس کو پہلے ہی طلب کر رکھا تھا۔ حکومت نے اس کو بڑی مشکل سے بچایا۔ صورتحال جب بگڑنے لگی تو اسے روپ بدل کر انتہائی خفیہ طور پر سویڈن روانہ کر دیا گیا۔ تسلیمہ نے اگلے 10 برس سویڈن اور یورپی ممالک میں چھتے چھپاتے گزار دیئے۔ کافر دنیا اسکو اس کی جرا ¿ت پر اعزازات سے نوازتی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کراتی رہی لیکن تسلیمہ کو چین نصیب نہ ہو سکا۔ جنوبی ایشیا کو چھوڑے اسے 10 برس بیت گئے تھے۔ وہ واپس آنا چاہتی تھی لیکن آنہ سکتی تھی۔ چارو ناچار اس نے بھارت آنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے سب سے بڑی پناہ یہی نظر آئی، کیونکہ بنگلہ دیش حکومت مسلمانوں کے غیظ و غضب کو دیکھتے ہوئے اس کی شہریت منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئی تھی اور وہ اب یہاں کبھی نہیں آ سکتی تھی۔ وہ خفیہ طور پر بھارت منتقل ہو گئی۔ یہ 2004ءکی بات تھی یہاں تین سال انتہائی خاموشی اور خفیہ زندگی گزارتے ہوئے بسر کئے کہ اس دوران میں مسلمانوں کو خبر ہو گئی۔ اس پر اس نے بھی کھل کر سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور کئی اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کئے، وہ دن رات بھارت کی تعریف کرتی، کلکتہ کو اپنی پہلی گود قرار دیتی، ہندوﺅں سے راہ و رسم بڑھاتی لیکن بھارت نے پھر بھی اسے شہریت دینے سے انکار کر دیا اور اسے مرحلہ وار ویزا جاری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد اس نے ایک بار پھر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کچھ الفاظ لکھ دیئے۔ کلکتہ میں واقع ٹیپو سلطان مسجد کے امام مولانا سید نورالرحمان برکاتی نے اعلان کیا کہ جو اس پر سیاہی پھینکے گا اس کو خصوصی انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان نے بھی تسلیمہ کے چھکے چھڑا دیئے لیکن آل انڈیا پرسنل بورڈ نے مارچ 2007ءمیں اس کے قتل پر انعام کا اعلان کردیا۔ تسلیمہ پھر نامعلوم مقام پرمنتقل ہو گئی اور ساری دنیا سے پوشیدہ رہ کر زندگی کی سانسیں پوری کرنے لگی۔ اگست 2007ءکو ایک بار بھارتی مسلمانوں کو اندازہ ہواکہ وہ یہی کہیں چھپی ہوئی ہے کہ کلکتہ میں مسلم علماءنے مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر اسے ڈھونڈ نکال کر مارنے والے کے لئے منہ مانگے انعام کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کو یہ دھمکیاں ملیں کہ اگر تسلیمہ اس ملک میں رہیں تو مجاہدین ہر جگہ حملے کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس دھمکی کو neo-jihadis کی طرف منسوب کیا گیا جس کا اہتمام بھارتی مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مائینارٹی فورم نے کیا تھا صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ شہر میں مسلح افواج متعین کر کے حالات کو قابو کیا گیا۔ تسلیمہ کو کلکتہ سے جے پور پہنچایا گیا۔ بھارتی مسلح افواج کے دستے اس کے ہمراہ تھے لیکن وہاں بھی مسلمانوں نے اس کو قدم نہ رکھنے دیا جس کی وجہ سے وہ نئی دہلی منتقل کرنا پڑی۔ یہاں اسے حکومت ہند نے ایک خفیہ مقام پر رہائش دیدی۔ اسے یہاں سات ماہ تک ساری دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگ اور یکہ و تنہا رہنا پڑا۔ وہ یہاں مختلف امراض کا شکار ہوئی لیکن کوئی علاج کے لئے دستیاب نہ ہوا کیونکہ حکومت کو ڈر تھا کہ کہیں مسیحا ہی اس کا قاتل نہ بن جائے، انتہائی اعتماد کے لوگوں کو علاج کے لئے بلایا جاتا، تنہائی نے اس کے سر کے بال تک اڑا دیئے۔ نیند اڑ گئی دیواروں کو گھورنا اس کا معمول بن گیا کہ اسی دوران میں فرانس سے بھارت کو پیشکش ہوئی کہ وہ اسے اس کے ہاں بھیج سکتا ہے، بھارت سرکار نے اس پر سکون کا سانس لیا اور راتوں رات اسے برطانیہ روانہ کر دیا گیا، جہاں سے اس کی اگلی منزل فرانس تھی کیونکہ اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نامی ادارہ بھی اس کی مدد کے لئے میدان میں آ چکا تھا۔ نئی دہلی میں اس کی زندگی اس قدر جہنم بنی کہ اس نے اپنی سوانح حیات کی آخری جلد چھپوانے سے انکار کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ میں بہت کچھ لکھ رہی ہوں لیکن اسلام کے متعلق کچھ نہیں لکھ رہی اور نہ لکھ سکتی ہوں کیونکہ اب یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اسے اب یورپ میں دوبارہ رہتے ہوئے سوا دو سال ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 16 برس کے عرصہ میں بنگلہ دیش میں اس کے ماں باپ مر گئے لیکن وہ انکی آخری رسومات میں شرکت کر سکی اور نہ ان کی میت دیکھ سکی۔ جنوبی ایشیا آنے کا اس کا خواب کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے تمام رشتہ دار اسے برسوں سے چھوڑ چکے ہیں۔ وہ سخت سکیورٹی کے حصار میں آ جکل نیویارک میں مقیم ہے۔ اس نے زندگی میں تین مرتبہ شادی کی لیکن کوئی شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ نیویارک میں رہتے ہوئے اس نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا ہے۔ اس کی زندگی جیتے جی ہی اندھیر ہو چکی ہے کیونکہ اس کا کوئی دوست بھی نہیں، ہر کوئی اس کے پاس جاتے یا اپنے پاس بلاتے ڈرتا ہے کہ کہیں موت اسے ہی نہ آئے۔
اسلام کی توہین اور محمد کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی کوشش نے اس کے لئے ساری دنیا کو اندھیر کر دیا ہے اب وہ دن رات سکون آور مختلف بیماریوں سے مقابلے کی دوائیں کھا کر زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہے جس پر ہر وقت حملے اور موت کا خطرہ طاری ہے۔
http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen03.htm
اسلام کی توہین اور محمد کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی کوشش نے اس کے لئے ساری دنیا کو اندھیر کر دیا ہے اب وہ دن رات سکون آور مختلف بیماریوں سے مقابلے کی دوائیں کھا کر زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہے جس پر ہر وقت حملے اور موت کا خطرہ طاری ہے۔
http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen03.htm