جواب کی تلاش ہے ۔۔۔ حسن نثار

مغرب کا تمدن اس وقت عروج پر ہے لیکن اس سے پہلے مشرق میں سوریا، عراق، مصر، ایران، ہندوستان، چین وغیرہ عروج کا وقت گذار چکے ہیں اور ان پر زوال بھی آ چکا ہے۔ اپنے زمانے میں یہ سب بھی ایسا ہی کہتے ہونگے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک چیز جس کا عروج ہے اس کا زوال بھی ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارا مشاہدہ محدود ہے کہ اتنے بڑے زمانے کو تصور نہیں کر سکتے ہیں۔
حسن نثار کے ان کالمز میں جو سوال کیا گیا ہے، بہت اہم ہے۔ مجھے تو اس سوال کا جواب یہی سمجھ میں آیا ہے کہ اسکی وجہ ہے ترجیحات کا فرق۔
 

سید ذیشان

محفلین

نام بتانے میں تھوڑی سی غلطی ہو گئی ہے۔ اس کا نام ہے The Private Life of Plants اور اس کے چھ حصے ہیں۔ یوٹیوب پر تو ملنا محال ہے۔ البتہ میں نے پاکستان سے ہی اس کی DVDs خریدی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی David Attenborough کی بہت ساری ڈاکیومنٹریاں ہیں جو BBC کے لئے بنائی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں سب: یہاں پر پوری لسٹ موجود ہے۔

انہی ڈاکیومنٹریز میں سے ایک ہے Planet Earth جس کا ایک کلپ جو پاکستان کے برفانی لیپرڈ کے بارے میں ہے یوٹیوب پر موجود ہے:

کوڈ:
https://www.youtube.com/watch?v=jSGikymKFlc
 

سید ذیشان

محفلین
حسن نثار کے ان کالمز میں جو سوال کیا گیا ہے، بہت اہم ہے۔ مجھے تو اس سوال کا جواب یہی سمجھ میں آیا ہے کہ اسکی وجہ ہے ترجیحات کا فرق۔

حسن نثار مغرب سے بہت مرعوب نظر آتے ہیں، ورنہ میں مشرق میں آج بھی جاپان اور چین جیسے ممالک موجود ہیں۔ اور چند سالوں میں یہ ٹیکنالوجی میں امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ مسلمان ممالک کے اپنے مسائل ہیں اور ان میں سے ایک ترجیحات کا فرق ہے۔
 

رانا

محفلین
حسن نثار کے ان کالمز میں جو سوال کیا گیا ہے، بہت اہم ہے۔ مجھے تو اس سوال کا جواب یہی سمجھ میں آیا ہے کہ اسکی وجہ ہے ترجیحات کا فرق۔
مشرق میں ایک محاورہ بہت سننے کو ملتا ہے کہ یہ علم ہمارے خاندان میں سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔اگر کوئی علم کسی ذریعے سے حاصل ہوگیا تو اس پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پوری قوم کو اس سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس رویے سے کئی علم صفحہ ہستی سے ہی معدوم ہوگئے ہیں۔ یہ مطلوبہ سوال کا جواب تو نہیں ہے لیکن جو وجوہات اس رویے کا باعث بنتی ہیں انہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

حسن نثار مغرب سے بہت مرعوب نظر آتے ہیں، ورنہ میں مشرق میں آج بھی جاپان اور چین جیسے ممالک موجود ہیں۔ اور چند سالوں میں یہ ٹیکنالوجی میں امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ مسلمان ممالک کے اپنے مسائل ہیں اور ان میں سے ایک ترجیحات کا فرق ہے۔
ذیشان بھائی، حسن نثار مغرب سے مرعوب بظاہر نظر تو آتےہیں لیکن میرے نزدیک معاملہ کچھ اور ہے۔ جب کوئی معاملہ ایک انتہا تک پہنچ جائے تو اسے بیلنس کرنے کے لئے عارضی طور پر ہی سہی، دوسری انتہا تک جانا پڑتا ہے۔ حسن نثار جب دیکھتا ہے کہ قوم کئی صدیوں سے مسلسل پستی کی طرف جارہی ہے تو اسے توجہ دلانے کے لئے وہ مسلسل ایسی اقوام کی مثالیں دیتا ہے جو اتنی ہی بلندی پر جارہی ہے۔ اور کیوں کہ مشرقی ممالک کی ترقی ماضی قریب کی کہانی ہے جبکہ ہماری قوم کی تنزلی ماضی بعید کے کسی دور سے شروع ہوتی ہے۔ اور ماضی میں وقت کے جس نقطے سے تنزلی شروع ہوتی ہے اسی نقطے سے مغربی اقوام کی علمی میدان میں بلندی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس لئے حسن نثار ان مغربی اقوام کی مثالیں دینے پر مجبور ہے۔ کیوں کہ ایک انتہا کو بیلنس کرنے کے لئے دوسری انتہا چین اور جاپان نہیں جو ابھی کی پیداوار ہیں بلکہ مغرب ہے جو گذشتہ کئی صدیوں سے مسلسل علمی پیداوار دیتا چلا رہا ہے۔ اس لئے حسن نثار کا رویہ بظاہر ہمیں کتنا ہی سخت نظر آئے لیکن پیچھے چھپے ہوئے قومی درد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
 
اصل وجہ ترجیحات کا فرق ہی ہے۔۔یعنی ہم اپنے وقت کو کیسے گذاریں۔
ویسے سو سال قبل اکبر الہ آبادی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں اس موضوع پر ایک نظم لکھی ہے۔۔کافی حد تک درست تجزیہ ہے یہ بھی:
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر
مجھے تو ان کي خوشحالي سے ہے ياس
يہ عاشق شاہد مقصود کے ہيں
نہ جائيں گے و ليکن سعي کے پاس
سناؤں تم کو اک فرضي لطيفہ
کيا ہے جس کو ميں نے زيب قرطاس

کہا مجنوں سے يہ ليلي کي ماں نے
کہ بيٹا تو اگر ايم اے کر لے پاس
تو فورا بياہ دوں ليلي کو تجھ سے
بلادقت ميں بن جاؤں تري ساس

کہا مجنوں نے يہ اچھي سنائي
کجا عاشق کجا کالج کي بکواس
کجا يہ فطرتي جوش طبعيت
کجا ٹھونسي ہوئي چيزوں کا احساس
بڑي بي آپ کو کيا ہوگيا ہے
ہرن پر لادي جاتي ہے کہيں گھاس؟
يہ اچھي قدر داني آپ نے کي
مجھے سمجھا ہے کوئي ہر چن داس
دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہيں منظور مگر مغز سرکا آماس
يہي ٹھہري جو شرط وصل ليلي
تو استعفا مرا، با حسرت و ياس
 

سید ذیشان

محفلین
مشرق میں ایک محاورہ بہت سننے کو ملتا ہے کہ یہ علم ہمارے خاندان میں سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔اگر کوئی علم کسی ذریعے سے حاصل ہوگیا تو اس پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پوری قوم کو اس سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس رویے سے کئی علم صفحہ ہستی سے ہی معدوم ہوگئے ہیں۔ یہ مطلوبہ سوال کا جواب تو نہیں ہے لیکن جو وجوہات اس رویے کا باعث بنتی ہیں انہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


ذیشان بھائی، حسن نثار مغرب سے مرعوب بظاہر نظر تو آتےہیں لیکن میرے نزدیک معاملہ کچھ اور ہے۔ جب کوئی معاملہ ایک انتہا تک پہنچ جائے تو اسے بیلنس کرنے کے لئے عارضی طور پر ہی سہی، دوسری انتہا تک جانا پڑتا ہے۔ حسن نثار جب دیکھتا ہے کہ قوم کئی صدیوں سے مسلسل پستی کی طرف جارہی ہے تو اسے توجہ دلانے کے لئے وہ مسلسل ایسی اقوام کی مثالیں دیتا ہے جو اتنی ہی بلندی پر جارہی ہے۔ اور کیوں کہ مشرقی ممالک کی ترقی ماضی قریب کی کہانی ہے جبکہ ہماری قوم کی تنزلی ماضی بعید کے کسی دور سے شروع ہوتی ہے۔ اور ماضی میں وقت کے جس نقطے سے تنزلی شروع ہوتی ہے اسی نقطے سے مغربی اقوام کی علمی میدان میں بلندی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس لئے حسن نثار ان مغربی اقوام کی مثالیں دینے پر مجبور ہے۔ کیوں کہ ایک انتہا کو بیلنس کرنے کے لئے دوسری انتہا چین اور جاپان نہیں جو ابھی کی پیداوار ہیں بلکہ مغرب ہے جو گذشتہ کئی صدیوں سے مسلسل علمی پیداوار دیتا چلا رہا ہے۔ اس لئے حسن نثار کا رویہ بظاہر ہمیں کتنا ہی سخت نظر آئے لیکن پیچھے چھپے ہوئے قومی درد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔



حسن نثار کچھ زیادہ ہی exaggeration سے کام لیتا ہے۔ مثلاً آخری کالم میں غالب اور منٹو پر سرقہ کا الزام دھر دیا ہے۔ اتنا بھی اپنے آپ سے نفرت نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے لئے بہت ہی معدوم چیزوں کا سہارا لینا پڑے۔شاعروں میں غالب پر پاکستان میں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں شائد انڈیا میں بھی سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ اور آج کل تو امریکی یونیورسٹیوں (مثلاً کولمبیا یونیورسٹی) میں بھی غالب پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اگر اتنے لوگوں کو سرقہ کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا تو حسن نثار کے پاس کوئی آلہ دین کا جن ہے جو وہ مخفی علم اس کو مہیا کرے گا۔
 
Top