جواب کی تلاش ہے ۔۔۔ حسن نثار

رانا

محفلین
جواب کی تلاش ہے (1)
حسن نثار کا کالم​
صبر آزما طویل مطالعہ اور لمبی سوچ بچار بھی بیکار ثابت ہوئی کیونکہ مجھے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ گزشتہ چند صدیوں سے یورپ کے چند مخصوص ملکوں اور امریکہ کے علاوہ باقی تقریباً ساری دنیا تخلیق، تحقیق، تعمیر ، ایجاد، دریافت اور اختراع کے حوالوں سے اس قدر بانجھ، بنجر اور بے فیض کیوں ہے؟​
یہ ایک حیرت انگیز سٹڈی اور اوبزرویشن ہے کہ صرف چند ملکوں نے ہی بنی نوع انسان کو آگے لے جانے کا ”ٹھیکہ“ کیوں لے رکھا ہے اور باقی دنیا صرف”پیرا سائیٹس“ کی طرح ہی زندہ کیوں ہے؟​
میں موٹی موٹی روزمرہ کی دریافتوں مثلاً بجلی، ریل ، کار ، فون ،ٹی وی، کمپیوٹر، ہوائی جہاز وغیرہ کی بات نہیں کررہا ہے بلکہ انسانی زندگی کے حساس ترین شعبوں اور حصوں میں بھی چند مخصوص ملکوں کی ہی اجارہ داری ہے مثلاً آپ اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics)جیسی انقلابی اور انسان دوست دریافت پر غور کریں تو اک جہان حیرت کھلتا چلا جائے گا۔ اینٹی بائیوٹکس میں سے صرف ایک یعنی پنسلین 1928ء سے اب تک کروڑوں انسانی زندگیاں بچا چکی ہے اور اس کو دریافت کرنے والا پال ایرلش جرمن باشندہ تھا۔​
ذرا تصور کریں کہ اینستھیسا (Anaesthesia) کے بغیر انسانی زندگی کتنی اذیت ناک ہوتی۔ سرجری کے دوران درد کا احساس ختم کرنے کا یہ طریقہ، نسخہ یا فارمولا دریافت نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس کا کریڈٹ ایک انگریز ہمفرے ڈیوی کو جاتا ہے اور اس سلسلہ میں اس سے پہلے جتنے لوگوں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا وہ سب بھی”گورے“ ہیں۔ یاد رہے کہ یہی سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں تک پہنچ گیا کہ اب جسم کے کسی حصہ کو سن کرنے کے لئے شعائیں بھی استعمال ہورہی ہیں۔​
ہماری زندگیوں میں اک لفظ بہت فراوانی و روانی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔”بیکٹیریا“ (Bacteria) یعنی وہ جاندار مخلوق جسے انسانی آنکھ دیکھنے سے عاجز ہے حالانکہ یہ”جنات“ سے کم نہیں۔ بیکٹیریا کی دریافت مائیکرو بیالوجی کے میدان میں بنیاد کی سی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی دریافت کا سہرا ہالینڈ میں پیدا ہونے والے انیٹون وان لیوین ہوئک(Anton van leeuwenhoek) کے سر ہے۔​
آج ویکسی نیشن (Vaccination)کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اسے 1798ء تک کوئی نہ جانتا تھا پھر لیڈی میری وارٹلے(Lady mary wortley)اور ایڈورڈ جینر(Edward jenner)نے یہ”معجزہ“ بپا کرکے انسانی زندگی کا رنگ و روپ ہی بدل دیا۔ دونوں ہی انگریز تھے اور یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ”ویکسی نیشن“ وہ کام ہے جس کے نتیجہ میں کسی بیماری کے کمزور جراثیم جسم میں داخل کرکے اس بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچا جاسکتا ہے۔ ہم آج تک ”نیشن“ نہ بن سکے ،انہوں نے 1798ء میں ہی”ویکسی نیشن“ متعارف کرادی تھی۔​
بائی دی وے آپ کے خون کا گروپ کیا ہے؟ جسے جانے بغیر آپ کا ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بن سکتا اور خدا نخواستہ بوقت ضرورت آپ کو خون دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضرور ی ہوگا کہ آپ کا بلڈ گروپ کیا ہے؟ کیا آپ نے زندگی میں کبھی ایک بار بھی سوچا کہ خون کی اقسام دریافت کرنے والا شخص بنی نوع انسان کا کتنا بڑا محسن ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے اس عظیم محسن کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے کیونکہ آپ کی دلچسپی صرف”محسن پاکستان“ کا نام جاننے تک محدود ہے تو میں عرض کئے دیتا ہوں کہ اس کا نام تھا کارل لینڈ سیٹنز(Karl landsteiner)اور آپ آسٹریا کے رہنے والے تھے اور خون کی قسموں کو دریافت کرنے کا مبارک سال ہے1897ء۔ ہم آنکھوں میں خون اتارتے رہے، کبھی خون کھولاتے رہے، کبھی خون کی ندیاں بہاتے رہے یا”سستا خون تے مہنگا پانی“ جیسی گھٹیا فلمیں بناتے رہے،”اغیار و کفار“ خون کی قسمیں دریافت کرتے رہے۔​
آج للوؤں پنجوؤں کو بھی علم ہے کہ وائی ٹامن (Vitamin)کسے کہتے ہیں لیکن مجال ہے کبھی کسی بٹ صاحب، بھٹی صاحب، مہر صاحب، میاں صاحب، چودھری صاحب، حضرت صاحب، مولوی صاحب، پیر صاحب کو اتنی توفیق ملی ہو کہ سمجھیں یہ ہے کیا اور کس کی عطا ہے؟ انسانی زندگی اور صحت کے لئے نہایت اہم غذائی مرکبات کی یہ عظیم پہیلی 1906ء میں بوجھ لی گئی اور یہ عظیم کارنامہ دو لوگوں نے مل کر مکمل کیا۔ ایک کا نام تھا کرسٹان اک مین(Chris taan eijkman)اور دوسرے مہربان کا نام تھا فریڈرک ہوپکنز(Fredrk hopkin)اور جیسا کہ ناموں سے ظاہر ہے گورے امریکن تھے اور دریافت ہونے والا پہلا وٹامن جیسے عموماً وٹامن لکھا جاتا ہے وائی ٹامنBتھا جو 1910ء میں دریافت ہوا۔اور اب کچھ دیر کے لئے انسانی صحت کی دنیا سے نکل کرکہیں اور چلتے ہیں۔ زلزلے تو دنیا میں آتے ہی رہتے ہیں اور جب بھی زلزلہ آتا ہے ،فالٹ لائنز کا ذکر بھی آتا ہے لیکن اس کے دریافت کنندہ جناب ہیری ریڈ (Hary reid)کا ذکر کرنا کبھی کسی نے مناسب نہیں سمجھا جس نے1911ء میں اس طلسم عظیم کو بے نقاب کیا اور بنی نوع انسان کے لئے ممکن ہوسکا کہ ان فالٹ لائنز کی نقشہ کشی کرتے ہوئے زلزلوں کی پیش گوئی کرسکے۔ اسی عظیم دریافت نے1950ء میں قشری پلٹیوں اور ٹیکٹونک پلیٹوں کی دریافت کے لئے بنیادوں کا کام کیا اور ارضیاتی سائنس کی دنیا بدل ڈالی۔ ہیری ریڈ بالٹی مور میں پیدا ہوا تھا…بھیرے یا بہاولپور میں نہیں۔باقی چند مثالیں اگلی قسط میں۔ آپ ابھی سے اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع کردیں کہ ایجاد و اختراع، تخلیق و تحقیق کا سارا معاملہ صرف چند ملکوں تک ہی محدود کیوں ہے؟ اور باقی دنیا صرف نقالوں اور طفیلیوں پر مشتمل کیوں ہے؟​
ربط
 

رانا

محفلین
جواب کی تلاش ہے (2)
حسن نثار کا کالم​
تقریباً گیارہ بجے صبح تک بہت سے جواب سنے لیکن ایک بھی جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ کچھ نے کہا کہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال لوگ باقی دنیا سے جینیاتی طور پر برتر ہیں۔ چند قارئین کا خیال تھا کہ موسموں کا رول اہم ہوگا، بہت سے لوگوں نے مخصوص ملکوں کے معاشی، معاشرتی، نفسیا تی و مذہبی ماحول کی اہمیت پر روشنی ڈالی، نوجوانوں نے ایجوکیشن سے بھی کہیں زیادہ ”کوالٹی آف ایجوکیشن“ کو بار آوری اور بانجھ پن کا فرق قرار دیا تو حقیقت یہ ہے کہ میں ان تمام پہلوؤں اور جوابوں پر پہلے ہی غور کر کے انہیں کلی یا جزوی طور پر مسترد کر چکا تھا مثلاً مذہبی انتہا پسندی جب اپنی انتہا پر تھی تب بھی لوگوں نے بڑے بڑے عقدے حل کیے اور پاپائیت کے عقائد کو سائنسی دلیلوں سے روند کر رکھ دیا۔ رہ گئے موسم اور دیگر حالات تو ان میں بھی گہری مماثلت کے باوجود یورپی ممالک کی پرفارمنس یکساں نہیں بلکہ بہت نمایاں فرق ہے۔ البتہ ایک پہلو ایسا ضرور تھا جس کی طرف میرا دھیان نہ تھا کہ ”موجد“ ملکوں کی آبادی بھی غیر موجد ملکوں سے کہیں کم تھی اور ہے۔ اس نکتے کے بعد اس سوال کی گھمبیرتا میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ تخلیقی و فکری حوالوں سے دھرتی کے کچھ حصے بہت ہی خوشحال جبکہ باقی ساری دنیا اس قدر کنگال کیوں ہے؟ فکری طور پر کنگال !
خوشی اس بات کی ہے کہ اور کچھ نہ سہی اس انتہائی اہم بنیادی اور نازک سوال کے جواب میں کم از کم مل جل کر ہلکی پھلکی برین سٹارمنگ تو شروع ہوئی کیونکہ اس مصرعہ میں خاصا دم ہے کہ ”چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ“ ورنہ ہمیں تو برباد معیشت ، تباہ حال امن و امان، بدترین مہنگائی، خونخوار دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ، کرپشن جیسے منحوس موضوعات سے ہی فرصت نہیں … بہرحال آج چند مزید فیصلہ کن دریافتوں کو دلیل کی مضبوطی کیلئے زیر بحث لاتے ہیں جن کے بغیر انسانیت آج بھی بے بسی سے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہی ہوتی۔
انسانی زندگی کی بقاء کیلئے کوئی دوسرا نظام اتنا اہم نہیں جتنا اہم نظام دوران خون (CIRCULATORY SYSTEM) ہے جس کے بارے میں ایسے ایسے احمقانہ مفروضے تھے کہ الامان الحفیظ۔ 1578ء میں برطانیہ کے اندر جنم لینے والے ولیم ہاروے نے پہلی بار نظام دوران خون کے بنیادی ارکان یعنی دل، پھیپھڑوں، شریانوں اور وریدوں کے حقیقی افعال کو دریافت کیا۔ ہاروے کی 1628ء میں لکھی گئی کتاب ماڈرن فزیالوجی کے آغاز کی نمائندگی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاروے کو چرچ کی طرف سے خطرہ تھا کیونکہ چرچ نے یہ ”سائنسی سچ“ تسلیم کرنے سے حسب عادت انکار کردیا تھا۔ یہ بات ان کے خالی سروں کے اوپر سے گذر گئی کہ انسانی دل … روح اور ضمیر کی رہائش گاہ کی بجائے فقط ایک پٹھہ و عضلاتی پمپ ہے۔ ہاروے نے اپنی اس تاریخ ساز تحقیق کو صرف اس لیے لاطینی زبان میں شائع کرایا تاکہ اس کے اپنے ملک میں کوئی اسے سمجھ نہ سکے، گالیاں نے دے سکے۔آج کون ہے جو وائرس (VIRUS) کے لفظ سے ناآشنا ہو لیکن یہ بات کتنے لوگ جانتے ہیں کہ وائرس لاکھوں سال زندہ رہ سکتا ہے اور یہ سیلز اور بیکیٹریا سے بھی کہیں زیادہ مختصر جسامت رکھتا ہے۔ یہ اس قد ر مہین ہوتے ہیں کہ کسی بھی فلٹر یا پھندے سے نکل سکتے ہیں۔ سادہ زکام سے لیکر جان لیوا زرد بخار تک کا باعث بننے والی یہ مختصر ترین اور سادہ ترین بلا 1898ء تین انسانوں کی مشترکہ کوششوں سے دریافت ہوئی جس نے طب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ان میں سے ایک بھی نہ کالا تھا، نہ بھورا نہ پیلا۔ اس سے ناواقفیت کی وجہ سے کروڑوں انسان مارے گئے جبکہ اس کی دریافت کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی۔اسی طرح توانائی کی اکائیوں (UNITS OF ENERGY) کو کیلوریز (CALORIES) کہتے ہیں۔ ممی ڈیڈی ٹائپ قسم کے برگر بچوں سے لیکر ہیلتھ کانشس ادھیڑ عمروں اور بوڑھوں تک ، جم جانے والوں سے لیکر پارکوں میں جاگنگ کرنے والوں تک سب جانتے ہیں کہ ”کیلوریز“ کیا ہوتی ہیں لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ غیر ضروری یا اضافی کیلوریز کو ”جلاتے“ وقت کسی غیور و باشعور نے کبھی جیمز جول (JAMES JOULE) جیسے محسن کو یاد نہیں کیا ہوگا جس نے پاکستان بننے سے 104 سال پہلے 1843ء میں انسانوں کو ”کیلوریز“ کی تمیز سکھائی۔ جیمز جول بھی ظاہر ہے برطانوی ہی تھا جس نے پرائیویٹ ٹیوٹر سے سائنس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ ایک کیلوری سے مراد توانائی کی وہ مقدار ہے جو ایک گرام پانی کا درجہ حرارت ایک ڈگری سسیائس تک بڑھانے کیلئے درکار ہوتی ہے۔چند سطریں اوپر ہی میں نے ”جاگنگ“ کا ذکر کیا تو اچانک خیال آیا کہ ہم تو وہ ہیں جو ”جاگرز“ بھی نہ بنا سکے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر سر ہنری فورڈ نے موٹر بنا لی تھی تو ہم میں سے کوئی کم از کم ”وائپر“ ہی بنا لیتا لیکن یہ بھی نصیب نہ ہوسکا۔ نت نئی چیزیں بناتے بھی وہ ہیں اور مسلسل انہیں ”اپ گریڈ“ اور ”ری فائن“ بھی وہی کرتے ہیں اور یہ کتنی عجیب و غریب، کتنی ناقابل فہم سی بات ہے کہ ائیرکنڈیشنر سے لیکر ریفریجریٹر تک بھی ان ملکوں نے متعارف کرائے جو ٹھنڈے تھے اور انہیں ان دریافتوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔میں جب بھی شوگر کے کسی ناشکرے مریض کو انسولین (INSULIN) استعمال کر کے اپنی شوگر کنٹرول کرتے دیکھتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ اس نے کبھی فریڈرک بینٹنگ (FREDRICK BANTING) کا نام بھی نہ سنا ہوگا جس نے ہمیں 1921ء میں لبلبہ میں پیدا ہونے والے اس ہارومون کا تحفہ دیا جو خون میں شوگر کی مقدار ہموار رکھتا ہے۔ خدا جانے دنیا کی باقی قومیں فروعات و خرافات سے نجات حاصل کر کے کب اس قابل ہوں گی کہ انسانیت کی تعمیر و ترقی میں وہ بھی اپنا حصہ ڈال سکیں کہ موجودہ صورت حال تو ایسی ہی ہے جیسے ایک ایسا گھر جس میں چند افراد کما رہے ہوں، باقی سارا خاندان ہڈ حرام مشٹنڈوں پر مشتمل دندیاں نکال نکال کر ”حرام“ کھا رہا ہو یا ایک ایسا ملک جو صرف دو فیصد آبادی کے ٹیکس پر رینگ رہا ہو اور باقی رنگ رلیاں منا رہے ہوں۔مجھے ان اہل مغرب کی تحریریں پڑھ کر غصہ کم آتا ہے ندامت زیادہ محسوس ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ملک دھرتی کا بوجھ ہیں کیونکہ دنیا کی حقیقی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ صفر بھی نہیں۔ چلتے چلتے اک فضول سی فرمائش کہ کبھی کچھ دیراس موضوع پر بھی سوچیں کہ صرف 500 سال بعد کی دنیا کیسی ہوگی اور ”بانجھ دنیا“ کا اس محیر العقول دنیا میں کیا مقام ہوگا؟ کیا حیثیت ہوگی؟

ربط
 

رانا

محفلین
گزشتہ موضوع سے ہٹنا پڑا
حسن نثار کا کالم​
اپنے دیرینہ و پسندیدہ گذشتہ موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے مجھے مجبوراً پھر ملکی سیاست کی خباثت، نجاست اور غلاظت پرچند سطریں گھسیٹنی ہوں گی۔ سبحان اللہ کیا قول ہے کہ ”جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔“ جیسے ہم، ویسے ہی ہمارے نمائندے اور ہم کیسے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے کسی سیانے کے در پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ … ”ہم کیسے ہیں؟“ اگر بے ایمانی، منافقت رشوت، کرپشن، جھوٹ بولنا، کم تولنا، ملاوٹ کرنا، خوشامد کرنا، رنگ بازی، کام چوری، تجاوزات، ہیرا پھیری، ایک دوسرے کا استحصال، قانون کی پامالی، اسراف اورنمود و نمائش وغیرہ ہماری ”عادات ثانیہ“ ہیں تو سب ٹھیک، جو ہو چکا اس کے علاوہ اور کچھ ممکن ہی نہ تھا … ”بے شک جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں“ لیکن امید کی اک کرن سی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں ”خود احتسابی“ کا آغاز ہو چکا۔ بہت ہی سلوموشن میں سہی، ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ”تبدیلی“ کی آرزو پالنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی ”تبدیل“ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
انتخابی نتائج کا صرف ایک پہلو یعنی ”نمبر آف سیٹس“ ہی نہیں کچھ اور سچائیاں بھی ہیں کہ اگر (ن) لیگ کو لاہور سے 12لاکھ ووٹ ملے تو تحریک انصاف اپنی تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود 7 لاکھ ووٹ لے اڑی۔ میں بیحد کھوچل اور سسٹم میں گہری پیوست (ن) لیگ کی دھاندلی کو ایک طرف بھی رکھ دوں تو یہ سب کچھ روایتی سیاست کیلئے کسی ”ڈیتھ وارنٹ“ سے کم نہیں اور غالباً اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی میڈیا نے یہ بہت ہی میچور اور متوازن تبصرہ کیا ہے کہ … ”عمران خان کیلئے میچ ختم ہوا ہے سیریز نہیں… دوسرا تبصرہ اس سے بھی کہیں زیادہ چشم کشا ہے کہ ”سربراہ تحریک انصاف اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کراسکے تو شکست بھی نہیں ہونے دی، طویل اور مشکل انتخابی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران پنجاب میں جگہ بنا چکے۔ حالیہ الیکشن ڈرا ٹیسٹ ثابت ہوئے۔
یہ سب میں نہیں برطانوی میڈیا کہہ رہا ہے جبکہ میرے تجزیہ کی باٹم لائن بہت سادہ ہے کہ اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں پی ٹی آئی بہت بڑے پیمانے پر جھک نہ مارتی اور ان کی الیکشن کمپین اس بری طرح اتنی ”اربن“ یعنی”شہری“ نہ ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے مثلاً ”بیلی پور“ میں میرے گھر ”ہانسی حویلی“ میں جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کچھ لونڈے لپاٹے لیکر آئے اور بڑے فخر سے بتایا کہ ہماری مہم کا مرکزی وکلیدی خیال ”نیا پاکستان“ ہوگا۔ میں نے نرمی سے عرض کیا کہ یہ ایک بیہودہ اور منحوس سا آئیڈیا ہے کیونکہ یہ لعنتی سی اصطلاح ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے پر استعمال کی تھی لیکن بات میرے دوستوں کو سمجھ نہ آئی حالانکہ جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کی ذہانت، شرافت، دیانت ہر قسم کے شک و شبہ سے انتہائی بالاتر ہے لیکن ”کمیونیکیشن“ ان میں سے کسی کا بھی شعبہ نہیں اور میرا المیہ یہ کہ میں نے کبھی ”آؤٹ آف دی وے“ جاتا ہوں نہ خود کبھی کسی سے رابطہ کرتا ہوں چاہے وہ میرا فیورٹ عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔ گذشتہ چند ماہ میں ایک آدھ بار کے علاوہ جب بھی رابطہ کیا عمران نے ورنہ میں اپنی دنیا میں گم حال مست آدمی ہوں اور جو جتنا ”اہم“ ”مقبول“ یا ”طاقت ور“ ہوتا چلا جاتا ہے، میں اس سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے بچے پودے، پرندے، کتابیں کافی قدیم موسیقی اور پرانی فلموں سے ہی فرصت نہیں۔ سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں کا ساتھ ہو تو مجھ جیسا ”فرعون“ اور ”قارون“ ہی کوئی نہیں۔ قصہ مختصر کہ ٹکٹوں کی بھونڈی تقسیم، بہت ہی شہری قسم کی انتخابی مہم کے علاوہ بے وقت انٹرا پارٹی الیکشن عمران خان کے ایسے فیصلے تھے جو اگر کچھ اور لوگوں نے بھی کرائے تو ذمہ دار عمران خان خود ہی ہے۔ رہ گئی ”کے پی کے“ کی حکومت تو میرے نزدیک یہ بھی خودکش حملہ ہوگا۔ اس ایشو پر نوازشریف نے ایک تیر سے تین شکار کیے ہیں۔ اول مولانا فضل الرحمن کی آفر ٹھکرا کر حضرت صاحب کو ”شرمندہ“ کر کے بہت سے حساب برابر کردیئے، دوم قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ بڑی ”اصولی“ سیاست کررہے ہیں حالانکہ وہ چھانگا مانگا، لوٹا اور لفافہ سیاست کے موجد ہیں اور سوئم یہ کہ (ن) لیگ ہر قیمت پر ”کے پی کے“ میں تحریک انصاف کی حکومت چاہتی ہے تاکہ عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فارغ ہو جائے کیونکہ اس کے علاوہ اور کچھ ہوگا ہی نہیں۔یہاں اک اور بات عرض کرتا چلوں کہ پی ٹی آئی کی ”تھیم“ یعنی ”نیا پاکستان“ پر میڈیا کا بالکل وہی ری ایکشن تھا جو میں نے جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر منو بھائی سے لیکر عبدالقادر حسن تک نے اس سلوگن کی نحوست کا ماتم کیا تو باقی کیا رہ گیا؟ سچ یہ ہے کہ بیشمار ”قلمکاروں نے اس احمقانہ سلوگن کا سختی سے نوٹس لیا لیکن ”برگر فیملی“ کی بلاسے!معاف کیجئے تقریباً پورا کالم پھر سیاست نامی یہ ڈائن کھا گئی حالانکہ میں نے گذشتہ دو کالموں سے بہت ہی خوبصورت موضوع چھیڑ رکھا تھا کہ بنی نوع انسان کیلئے ہر معیشت، خوبصورت، تخلیق، بامعنی اور تعمیری قدم یورپ کے چند مخصوص ملکوں اور امریکہ سے ہی کیوں اٹھتا ہے؟ میرے گذشتہ دو کالموں میں اٹھائے گئے اس سوال پر مختلف قسم کے جواب موصول ہورہے ہیں جن میں سے اہم ترین یہ کہ سائنس میں بھلے ہی ہم ”کمی کمین“ ہوں لیکن شاعری اور نثر میں تو ہم بھی تخلیق کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں تو قارئین! ہے تو یہ کج بحثی کہ سوال گندم جو اب چنا لیکن انشاء اللہ بہت جلد یہ بخار بھی اتار دوں گا۔ میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ … ”ہم دو نمبر کاموں میں ایک نمبر لوگ ہیں۔“ ہماری انٹلکچوئیل تاریخ بھی ایسی ہے جسے انشاء اللہ عنقریب بے نقاب کروں گا۔ ہمارے دامن میں غالب سے بڑا شاعر اور منٹو سے بڑا افسانہ نگار کون ہے؟ ذہنی طور پر تیئے پانچے کیلئے تیار ہو جائیں کہ ”سرقہ بازی“ کی ساری تاریخ خاکسار کے سامنے ہے جسے ثبوتوں کے ساتھ اس طرح پیش کروں گا کہ ہر باضمیر عش عش کر اٹھے گا۔ باقی رہ گئی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی تو ان ”صفات“ کے ساتھ پہلے کون لڑ لیا جو میں لڑ سکوں گا۔یوں بھی میں تو آج کے لیے لکھتا ہی نہیں۔ میں تو اپنی آئیندہ نسلوں کیلئے لکھ رہا ہوں جو فخر سے یہ کہہ سکیں کہ ہمارے بزرگوں میں بھی کوئی تھا جو لگی لپٹی بغیر لکھتا رہا آپ میں سے جو محبت کرتے اور پڑھتے ہیں وہ تو میرا بونس ہے … تنخواہ تو مجھے سو پچاس سال بعد ملنی شروع ہوگی۔افسوس گذشتہ موضوع سے ہٹنا پڑا !

ربط
 

رانا

محفلین
رانا بھائی اب تو حسن نثار جنگ پر ہوتے ہیں اور ان کے کالم یونی کوڈ میں بھی دستیاب ہیں تو پھر یہ "پکچر فارمیٹ" کیوں:eek:
مثال کے طور پر یہ لنک ملاحظہ فرمائیے
گزشتہ موضوع سے ہٹنا پڑا...چوراہا …حسن نثار
جزاک اللہ۔ میں اصل میں شروع سے ہی جنگ پکچر فارمیٹ پر پڑھتا رہا ہوں اس لئے کبھی اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ آپ کا بہت شکریہ کہ اس طرف توجہ دلادی۔ مجھے بھی پکچر فارمیٹ شئیر کرنے میں مزہ نہیں آرہا تھا لیکن۔۔۔۔ اب تو 30 منٹ سے اوپر ہوگئے تدوین بھی نہیں کرسکتا۔:(
 
جزاک اللہ۔ میں اصل میں شروع سے ہی جنگ پکچر فارمیٹ پر پڑھتا رہا ہوں اس لئے کبھی اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ آپ کا بہت شکریہ کہ اس طرف توجہ دلادی۔ مجھے بھی پکچر فارمیٹ شئیر کرنے میں مزہ نہیں آرہا تھا لیکن۔۔۔ ۔ اب تو 30 منٹ سے اوپر ہوگئے تدوین بھی نہیں کرسکتا۔:(
:bighug:
 

رانا

محفلین
ویسے منتظمین میں سے اگر کوئی یہ کام کرسکیں تو ممنون ہوں گا کہ اوپر پکچر فارمیٹ کو حذف کرکے اس کی جگہ یونی کوڈ ٹیکسٹ پیسٹ کردیں۔ اگر کوئی کرسکیں تو لنکس بالترتیب درج زیل ہیں۔
جواب کی تلاش - حسن نثار
جواب کی تلاش (2) - حسن نثار
گزشتہ موضوع سے ہٹنا پڑا - حسن نثار
ٹیگ میں کر دیتا ہوں
مقدس شمشاد قیصرانی ساجد
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے David Attenborough کی ڈاکیومینٹریاں بہت پسند ہیں۔ ان کی ایک ڈاکیومینٹری ہے Life of Plants جس میں پودوں کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اگر فرصت ہو تو ضرور دیکھئے گا۔ میں ہمیشہ درختوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کو تقریباً بے جان سمجھتا تھا۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ اسی لئے جاندار کہلاتے ہیں کہ ان میں سانس لینے کی صلاحیت ہے لیکن پھر بھی یہ حرکت نہیں کر سکتے، تو میں درختوں کو ایک نیچ قسم کی مخلوق سمجھتا تھا۔ جب یہ ڈاکیومنٹری دیکھی تو بہت حیرت ہوئی کہ درخت اسی طرح کے جاندار ہیں جیسا کہ ہم اور آپ یا پھر دوسرے جانور، یہ حرکت بھی کرتے ہیں ایک دوسرے کیساتھ لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور اپنی نسل بڑھانے کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں نظر نہیں آ سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں اور اگر ان کو ہم زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں وقت کی رفتار کو بڑھانا ہوگا۔ تہذیب و تمدن کا بھی یہی حال ہے، اگر ہم اس کو ایک وقت میں دیکھیں تو سب کچھ ٹہرا ہوا نظر آئے گا۔ جیسے کہ کیمرے سے لی گئی تصویر۔ لیکن اگر ہم کیمرے سے بہت سی تصاویر لیں تو اس سے وڈیو بنے گی۔ اور اس سے ہمیں حقیقت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
اسی ڈاکیومنٹری میں، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا، ایک گھنے جنگل کے پودے دکھائے گئے ہیں۔ جنگل میں سورج کی روشنی حاصل کرنے کی ایک دائمی جنگ چل رہی ہے۔ یہ جنگل (Rain Forest) اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ زمین تک روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ وہ درخت جو کہ بہت بڑے ہوتے ہیں اور گھنے ہوتے ہیں ساری روشنی جذب کر لیتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ لیکن زمین پر بڑے ہوئے بیج روشنی نہ ملنے کی وجہ سے پودے نہیں بن پاتے اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ایک تناور درخت اپنی عمر کی آخری حد کو پہنچتا ہے اور ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ اس وقت چھوٹے پودوں اور بیجوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے اور کچھ ہی عرصے میں وہ بھی تناور درخت بن کر زمین پر روشنی کا راستہ بند کر دیتے ہیں۔
مغرب کا تمدن اس وقت عروج پر ہے لیکن اس سے پہلے مشرق میں سوریا، عراق، مصر، ایران، ہندوستان، چین وغیرہ عروج کا وقت گذار چکے ہیں اور ان پر زوال بھی آ چکا ہے۔ اپنے زمانے میں یہ سب بھی ایسا ہی کہتے ہونگے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک چیز جس کا عروج ہے اس کا زوال بھی ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارا مشاہدہ محدود ہے کہ اتنے بڑے زمانے کو تصور نہیں کر سکتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
مجھے David Attenborough کی ڈاکیومینٹریاں بہت پسند ہیں۔ ان کی ایک ڈاکیومینٹری ہے Life of Plants جس میں پودوں کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اگر فرصت ہو تو ضرور دیکھئے گا۔ میں ہمیشہ درختوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کو تقریباً بے جان سمجھتا تھا۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ اسی لئے جاندار کہلاتے ہیں کہ ان میں سانس لینے کی صلاحیت ہے لیکن پھر بھی یہ حرکت نہیں کر سکتے، تو میں درختوں کو ایک نیچ قسم کی مخلوق سمجھتا تھا۔ جب یہ ڈاکیومنٹری دیکھی تو بہت حیرت ہوئی کہ درخت اسی طرح کے جاندار ہیں جیسا کہ ہم اور آپ یا پھر دوسرے جانور، یہ حرکت بھی کرتے ہیں ایک دوسرے کیساتھ لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور اپنی نسل بڑھانے کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں نظر نہیں آ سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں اور اگر ان کو ہم زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں وقت کی رفتار کو بڑھانا ہوگا۔ تہذیب و تمدن کا بھی یہی حال ہے، اگر ہم اس کو ایک وقت میں دیکھیں تو سب کچھ ٹہرا ہوا نظر آئے گا۔ جیسے کہ کیمرے سے لی گئی تصویر۔ لیکن اگر ہم کیمرے سے بہت سی تصاویر لیں تو اس سے وڈیو بنے گی۔ اور اس سے ہمیں حقیقت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
اسی ڈاکیومنٹری میں، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا، ایک گھنے جنگل کے پودے دکھائے گئے ہیں۔ جنگل میں سورج کی روشنی حاصل کرنے کی ایک دائمی جنگ چل رہی ہے۔ یہ جنگل (Rain Forest) اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ زمین تک روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ وہ درخت جو کہ بہت بڑے ہوتے ہیں اور گھنے ہوتے ہیں ساری روشنی جذب کر لیتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ لیکن زمین پر بڑے ہوئے بیج روشنی نہ ملنے کی وجہ سے پودے نہیں بن پاتے اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ایک تناور درخت اپنی عمر کی آخری حد کو پہنچتا ہے اور ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ اس وقت چھوٹے پودوں اور بیجوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے اور کچھ ہی عرصے میں وہ بھی تناور درخت بن کر زمین پر روشنی کا راستہ بند کر دیتے ہیں۔
مغرب کا تمدن اس وقت عروج پر ہے لیکن اس سے پہلے مشرق میں سوریا، عراق، مصر، ایران، ہندوستان، چین وغیرہ عروج کا وقت گذار چکے ہیں اور ان پر زوال بھی آ چکا ہے۔ اپنے زمانے میں یہ سب بھی ایسا ہی کہتے ہونگے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک چیز جس کا عروج ہے اس کا زوال بھی ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارا مشاہدہ محدود ہے کہ اتنے بڑے زمانے کو تصور نہیں کر سکتے ہیں۔
بہت عمدہ! آپ نے تو اس ڈاکیومنٹری کا ایسا تعاف کرایا ہے کہ آتش شوق و تجسس ایک ساتھ بھڑک اٹھی ہیں۔ پہلی فرصت میں ڈاون لوڈ کرتا ہوں۔:)
 
Top