جوانوں اور توانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر غزل نمبر 89 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:

صحت مند و جوانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر
اُٹھالیتے ہیں ایسا بوجھ بھی کچھ ناتواں اکثر

اُجڑتے باغ دیکھے اور روتے باغباں اکثر
رُلاتی ہے بہاروں کو بہت ظالم خزاں اکثر

کبھی بھی انکساری سے نہیں گھٹتی کسی کی شان
زمیں پہ ہم نے دیکھا ہے یہ جھکتے آسماں اکثر

جہاں آپس میں رنجش ہو جہاں نااتفاقی ہو
لٹیرے لُوٹ لے جاتے ہیں ایسے کارواں اکثر

ذرا معلوم تو کرلو جگر یا دل ہے مشکل میں
ہمارے سوختہ سینے سے اٹھتا ہے دھواں اکثر

سبق آموز ہے دل کے لئے شیریں و لیلیٰ کی
سناتے ہیں ہم اپنے آپ کو یہ داستاں اکثر

محبت،عشق،الفت پر ہنسی پیری میں آتی ہے
جوانی میں تو ہوجاتی ہیں یہ نادانیاں اکثر

یہ جیون اک سمندر ہے وفا والوں کو رکھو ساتھ
سفینے کو بچا لے جاتے ہیں یہ بادباں اکثر

تکبر اک گناہ ہے مت کرو ہے رب کو نا پسند
تکبر کرنے والے ہم نے دیکھے بے نشاں اکثر

محبت مت سمجھ لینا کبھی مسکان کو شارؔق
غلط فہمی سے لیتی ہیں جنم خوش فہمیاں اکثر
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
صحت مند و جوانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر
اُٹھالیتے ہیں ایسا بوجھ بھی کچھ ناتواں اکثر


توانوں سے تو بہتر ہے
جوانوں، پہلوانوں پر جو ہے ۔۔۔ کر دیں

اُجڑتے باغ دیکھے اور روتے باغباں اکثر
رُلاتی ہے بہاروں کو بہت ظالم خزاں اکثر

ٹھیک

کبھی بھی انکساری سے نہیں گھٹتی کسی کی شان
زمیں پہ ہم نے دیکھا ہے یہ جھکتے آسماں اکثر

پہ=پر
اچھا ہے۔

جہاں آپس میں رنجش ہو جہاں نااتفاقی ہو
لٹیرے لُوٹ لے جاتے ہیں ایسے کارواں اکثر

"جہاں" دو بار کچھ کھٹک رہا ہے۔

ذرا معلوم تو کرلو جگر یا دل ہے مشکل میں
ہمارے سوختہ سینے سے اٹھتا ہے دھواں اکثر

اس کو نکال ہی دیں ۔یہ خیال بہترین انداز میں میر بیان کر چکے ہیں


سبق آموز ہے دل کے لئے شیریں و لیلیٰ کی
سناتے ہیں ہم اپنے آپ کو یہ داستاں اکثر

شیریں و لیلی کی کیا۔مصرع اول نامکمل ہے۔

محبت،عشق،الفت پر ہنسی پیری میں آتی ہے
جوانی میں تو ہوجاتی ہیں یہ نادانیاں اکثر

"محبت عشق الفت " صاف محسوس ہوتا ہے وزن پورا کرنے کے لیے لائے گئے ہیں کیونکہ ایک سے کام چل جاتا ہے۔

یہ جیون اک سمندر ہے وفا والوں کو رکھو ساتھ
سفینے کو بچا لے جاتے ہیں یہ بادباں اکثر

بھائی وفاوالوں کو اس لیے ساتھ رکھنا کہ بادباں بن جائیں اور اپن کی کشتی نہ ڈوبے میرے خیال سے تو خود ایک خود غرضی ہے۔


تکبر اک گناہ ہے مت کرو ہے رب کو نا پسند
تکبر کرنے والے ہم نے دیکھے بے نشاں اکثر

پہلا مصرع وزن سے خارج ہو رہا ہے۔

محبت مت سمجھ لینا کبھی مسکان کو شارؔق
غلط فہمی سے لیتی ہیں جنم خوش فہمیاں اکثر

اچھا ہے۔
 

امین شارق

محفلین
صحت مند و جوانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر
اُٹھالیتے ہیں ایسا بوجھ بھی کچھ ناتواں اکثر

توانوں سے تو بہتر ہے
جوانوں، پہلوانوں پر جو ہے ۔۔۔ کر دیں

بہت اچھا متبادل بتایا آپ نے پسند آیا یہی شامل کرلیتا ہوں۔

جوانوں، پہلوانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر
اُٹھالیتے ہیں ایسا بوجھ بھی کچھ ناتواں اکثر


اُجڑتے باغ دیکھے اور روتے باغباں اکثر
رُلاتی ہے بہاروں کو بہت ظالم خزاں اکثر


کبھی بھی انکساری سے نہیں گھٹتی کسی کی شان
زمیں پر ہم نے دیکھا ہے یہ جھکتے آسماں اکثر


جہاں آپس میں رنجش ہو جہاں نااتفاقی ہو
لٹیرے لُوٹ لے جاتے ہیں ایسے کارواں اکثر

"جہاں" دو بار کچھ کھٹک رہا ہے۔

پہلا مصرعہ تبدیل کردیا ہے۔
جہاں آپس میں رنجش، بیرہو، نا اتفاقی ہو
لٹیرے لُوٹ لے جاتے ہیں ایسے کارواں اکثر

ذرا معلوم تو کرنا جگر یا دل ہے مشکل میں
ہمارے سوختہ سینے سے اٹھتا ہے دھواں اکثر


اس کو نکال ہی دیں ۔یہ خیال بہترین انداز میں میر بیان کر چکے ہیں
میر کا مقابلہ کون کرسکتا ہے یہ شعر مجھے پسند ہے اس لئے نہیں نکال سکتا

سبق آموز ہے دل کے لئے شیریں و لیلیٰ کی
سناتے ہیں ہم اپنے آپ کو یہ داستاں اکثر

شیریں و لیلی کی کیا۔مصرع اول نامکمل ہے۔

محبت،عشق،الفت پر ہنسی پیری میں آتی ہے
جوانی میں تو ہوجاتی ہیں یہ نادانیاں اکثر

"محبت عشق الفت " صاف محسوس ہوتا ہے وزن پورا کرنے کے لیے لائے گئے ہیں کیونکہ ایک سے کام چل جاتا ہے۔

یہ جیون اک سمندر ہے وفا والوں کو رکھو ساتھ
سفینے کو بچا لے جاتے ہیں یہ بادباں اکثر

بھائی وفاوالوں کو اس لیے ساتھ رکھنا کہ بادباں بن جائیں اور اپن کی کشتی نہ ڈوبے میرے خیال سے تو خود ایک خود غرضی ہے۔


تکبر اک گناہ ہے مت کرو ہے رب کو نا پسند
تکبر کرنے والے ہم نے دیکھے بے نشاں اکثر

پہلا مصرع وزن سے خارج ہو رہا ہے۔

محبت مت سمجھ لینا کبھی مسکان کو شارؔق
غلط فہمی سے لیتی ہیں جنم خوش فہمیاں اکثر

اچھا ہے۔
 

امین شارق

محفلین
غزل (اصلاح و ترمیم کے بعد)

جوانوں، پہلوانوں پر جو ہے بارِ گراں اکثر
اُٹھالیتے ہیں ایسا بوجھ بھی کچھ ناتواں اکثر


اُجڑتے باغ دیکھے اور روتے باغباں اکثر
رُلاتی ہے بہاروں کو بہت ظالم خزاں اکثر


کبھی بھی انکساری سے نہیں گھٹتی کسی کی شان
زمیں پر ہم نے دیکھا ہے یہ جھکتے آسماں اکثر


جہاں آپس میں رنجش، بیرہو، نا اتفاقی ہو
لٹیرے لُوٹ لے جاتے ہیں ایسے کارواں اکثر


ذرا معلوم تو کرنا جگر یا دل ہے مشکل میں
ہمارے سوختہ سینے سے اٹھتا ہے دھواں اکثر


سبق آموز ہے دل کے لئے شیریں و لیلیٰ کی
سناتے ہیں ہم اپنے آپ کو یہ داستاں اکثر


محبت کی حماقت پر ہنسی پیری میں آتی ہے
جوانی میں تو ہوجاتی ہیں یہ نادانیاں اکثر


یہ جیون اک سمندر ہے وفا والوں کو رکھو ساتھ
سفینے کو بچا لے جاتے ہیں یہ بادباں اکثر


تکبر سے بچو اپناؤ عادت تم تواضع کی
تکبر کرنے والے ہم نے دیکھے بے نشاں اکثر


محبت مت سمجھ لینا کبھی مسکان کو شارؔق
غلط فہمی سے لیتی ہیں جنم خوش فہمیاں اکثر
 
Top