محمد شکیل خورشید
محفلین
دلِ بے چین کو قرار نہیں
تیرے غم سے ہمیں فرار نہیں
اب کے اتری نہیں ہے فصلِ گلاب
اب کے باغوں میں وہ بہار نہیں
میرے اشکوں نے دھو دیا مجھ کو
اب مرے دل پہ کچھ غبار نہیں
ایک بے نام سی خلش ہے ضرور
گو ہمیں تیرا انتظار نہیں
کیا کہیں اس کی کج ادائی کو
ہم نے مانا ہمیں ہی پیار نہیں
بے یقینی سدا رہے گی شکیل
گر تمہیں خود پہ اعتبار نہیں
احباب واساتذہ کی توجہ کا طالب
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن ودیگر
تیرے غم سے ہمیں فرار نہیں
اب کے اتری نہیں ہے فصلِ گلاب
اب کے باغوں میں وہ بہار نہیں
میرے اشکوں نے دھو دیا مجھ کو
اب مرے دل پہ کچھ غبار نہیں
ایک بے نام سی خلش ہے ضرور
گو ہمیں تیرا انتظار نہیں
کیا کہیں اس کی کج ادائی کو
ہم نے مانا ہمیں ہی پیار نہیں
بے یقینی سدا رہے گی شکیل
گر تمہیں خود پہ اعتبار نہیں
احباب واساتذہ کی توجہ کا طالب
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن ودیگر