حسان خان
لائبریرین
قریبِ شام جب دھیمی ہوا نوحے سناتی ہے
سسکتے کنج پر جب سوگواری دوڑ جاتی ہے
شفق جب زندگی پر خون کے آنسو بہاتی ہے
میانِ گلستاں ظالم خزاں کی رتھ جب آتی ہے
اور اُس کی رَو میں جب ہر ایک پتی کھڑکھڑاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
تھکے سے جھٹپٹے میں اونگھنے لگتے ہیں جب منظر
فضا کی سوگواری اوڑھ لیتی ہے سیہ چادر
طلسمی وادیوں میں اک ذرا سا شہر سے ہٹ کر
کماں کی طرح بل کھائے ہوئے غمناک ساحل پر
مرے دل کے سمندر میں ندی جب ڈوب جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
نظر آتا نہیں اک پھول بھی جس وقت دامن میں
سسکتی ہے رُندھی سی چاندنی جب صحنِ گلشن میں
کوئی آوارہ طائر، شب کو بول اٹھتا ہے جب بن میں
اور اک ویران عشرت گاہ کے خوابیدہ روزن میں
ہوا جس وقت آدھی رات کو سیٹی بجاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
سبک سارنگیاں جب گونجتی ہیں بزمِ خوباں میں
گھنی زلفوں کی مہکیں تیرتی پھرتی ہیں ایواں میں
نگاہوں کے سفینے ڈوب جاتے ہیں جب افشاں میں
اور اُس موقع پہ مجھ آشفتہ قسمت کی رگِ جاں میں
نکیلی راگنی جب ڈوب کر برچھی لگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
انگیٹھی کے کنارے جب بہ فیضِ جامِ زر افشاں
وہ راتیں بولتی ہیں جو کبھی تھیں قلزمِ الحاں
پرانی داستانیں جب پہنتی ہیں نئے عنواں
اور اُس موقع پہ گھبرا کر بہ یادِ وعدۂ جاناں
نظر جب ایک عاشق کی گھڑی کی سمت جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
افق پر چھوٹتا ہے صبح کا جس وقت فوارا
تھرکتا ہے سنہری وادیوں میں سرمئی دھارا
شلوکا دھوپ چھاؤں کا پہن لیتا ہے اندھیارا
نظر آتا ہے آدھے چاند کے آغوش میں تارا
اور اپنی سیج کو جب زندگی ویران پاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
فلک کی جگمگاہٹ سے، فضا کی مسکراہٹ سے
افق کی تھرتھراہٹ، سرد شبنم کی لگاوٹ سے
چمن کی خاکِ گل پرور کی دھیمی گنگناہٹ سے
نسیمِ صبح کے موّاج بوسوں کی چٹاچٹ سے
کلی میں جب چٹکنے کی تمنا رسمساتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
ہوائے سرد چھوتی ہے لٹیں جب روئے تُرکاں کی
جگر میں پینگ لیتی ہے مہک انفاسِ خوباں کی
گلابی روشنی سے آنکھ کھل جاتی ہے بستاں کی
اور اس کے ساتھ ہی پہلی کرن صبحِ بہاراں کی
جب اس اجڑے ہوئے سینے میں چبھ کر ٹوٹ جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
مچلتی ہے سرِ دوشِ ہوا جب شکّریں سردی
لرزتے ہیں ستارے دوڑتی ہے چاند پر زردی
دلوں کو گدگداتی ہے تمنائے جہاں گردی
مسک جاتی ہے جب دھندلی فضا کی ملگجی وردی
کلائی میں نویلی صبح جب کنگن گھماتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
طرب کا رنگ اڑا کر، جشن کی دھوموں کو مرجھا کر
ربابوں کو بجھا کر، راگ کے شعلوں کو کجلا کر
فضا کو کپکپا کر، چمپئی مکھڑوں کو سنولا کر
صبا کی قمچیاں کھا کھا کر، آئینوں کو دھندلا کر
قریبِ صبح، جب شمعِ شبستاں جھلملاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
جھلکتی ہے ستاروں کی ردا جب خوش نواؤں پر
برستی ہے نکیلی کج کلاہی دلرباؤں پر
اترتی ہے مٹھاس آئینہ پیکر مہ لقاؤں پر
ننداسی راگنی گھنگرو بجاتی ہے ہواؤں پر
نشیلی بھیرویں مکھڑے سے جب گھونگھٹ اٹھاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
گرجتے گونجتے کم بخت ساون کے مہینے میں
لگا دیتی ہے پانی کی جھڑی جب آگ سینے میں
شبِ غم کے دہکتے، کھولتے، ٹھنڈے سفینے میں
بلکتی زندگی جب ڈوب جاتی ہے پسینے میں
مری سوئی ہوئی رم جھم کو جب برکھا جگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
ابھرتا، ڈوبتا ہے چاند جب ابرِ گریزاں میں
کبھی لچکا، کبھی کاجل تھرک اٹھتا ہے میداں میں
ہوائے ساحلِ پُرخم کھٹکتی ہے رگِ جاں میں
ستارے غوطہ زن ہوتے ہیں سنگم کے شبستاں میں
تھکی جمنا کو گنگا جب کلیجے سے لگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
لرزتے ہیں در و دیوار پر یادوں کے جب سائے
نظر آتے ہیں جب، گم کردہ مہ رو، بال بکھرائے
جھلک اٹھتے ہیں جب وہ چاند، کب سے تھے جو گہنائے
ہوا آتی ہے جب بکسے ہوئے ہوئے لمحوں کو مہکائے
فضا جب گھپ اندھیرے میں بجھی راتیں جلاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
مرا یہ چہرہ، جو گوہر فروش و گل بداماں تھا
متاعِ گل رخاں تھا، دولتِ محمل نشیناں تھا
کلیسائے نگاراں، کعبۂ اصنامِ دوراں تھا
جو کل کی بات ہے، بت خانۂ قومِ حسیناں تھا
اب اُس سے جب پجارن تک مری آنکھیں چراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
اٹھائے دوش پر گم کردہ لمحوں کی ملاقاتیں
ملاقاتیں، دعائیں، شکریے، شکوے، مناجاتیں
لیے چاندی کی تھالی میں دمکتی، کندنی باتیں
مری گردن میں بانہیں ڈالتی ہیں چاندنی راتیں
اور اُن راتوں میں جب ماتھوں کی بیندی جھلجھلاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
جہاں میری تمناؤں نے کل دھومیں مچائی تھیں
گھنی زلفوں کے سائے میں جہاں نیندیں جگائی تھیں
جہاں شیریں لبوں پر مدتوں مہریں لگائی تھیں
جہاں کل رتجگوں نے صبح تک راتیں بجائی تھیں
مجھے پہچان کر جب وہ گلی آنسو بہاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
حیا سے کانپ کر، جھک کر ہجومِ شرمساری سے
کلائی میں سبک کنگن گھما کر، بے قراری سے
ذرا سا لڑکھڑا کر، اک ادائے بادہ خواری سے
دھنک کی سی کھنچی انگڑائی لے کر، طرح داری سے
کسی کو دیکھ کر جب کوئی کمسن مسکراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
کوئی الھڑ گلی میں رات کو صدہا جتن کرتی
ٹھنکتی، ڈولتی، تھمتی، ٹھہرتی، سسکیاں بھرتی
لرزتی، ہانپتی، رکتی، بدکتی، ہولتی، مرتی
سمٹتی، کانپتی، مڑتی، جھجکتی، جھینپتی، ڈرتی
کسی کا در جب اک انگلی سے آ کر کھٹکھٹاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
چمن کو غرقِ سوز و ساز کر جاتا ہے جب بھونرا
نیازِ عاشقی کو ناز کر جاتا ہے جب بھونرا
خموشی کو لطیف آواز کر جاتا ہے جب بھونرا
کلی کو چوم کر پرواز کر جاتا ہے جب بھونرا
اور اُس کے بعد جب تادیر ٹہنی تھرتھراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
(جوش ملیح آبادی)
سسکتے کنج پر جب سوگواری دوڑ جاتی ہے
شفق جب زندگی پر خون کے آنسو بہاتی ہے
میانِ گلستاں ظالم خزاں کی رتھ جب آتی ہے
اور اُس کی رَو میں جب ہر ایک پتی کھڑکھڑاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
تھکے سے جھٹپٹے میں اونگھنے لگتے ہیں جب منظر
فضا کی سوگواری اوڑھ لیتی ہے سیہ چادر
طلسمی وادیوں میں اک ذرا سا شہر سے ہٹ کر
کماں کی طرح بل کھائے ہوئے غمناک ساحل پر
مرے دل کے سمندر میں ندی جب ڈوب جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
نظر آتا نہیں اک پھول بھی جس وقت دامن میں
سسکتی ہے رُندھی سی چاندنی جب صحنِ گلشن میں
کوئی آوارہ طائر، شب کو بول اٹھتا ہے جب بن میں
اور اک ویران عشرت گاہ کے خوابیدہ روزن میں
ہوا جس وقت آدھی رات کو سیٹی بجاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
سبک سارنگیاں جب گونجتی ہیں بزمِ خوباں میں
گھنی زلفوں کی مہکیں تیرتی پھرتی ہیں ایواں میں
نگاہوں کے سفینے ڈوب جاتے ہیں جب افشاں میں
اور اُس موقع پہ مجھ آشفتہ قسمت کی رگِ جاں میں
نکیلی راگنی جب ڈوب کر برچھی لگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
انگیٹھی کے کنارے جب بہ فیضِ جامِ زر افشاں
وہ راتیں بولتی ہیں جو کبھی تھیں قلزمِ الحاں
پرانی داستانیں جب پہنتی ہیں نئے عنواں
اور اُس موقع پہ گھبرا کر بہ یادِ وعدۂ جاناں
نظر جب ایک عاشق کی گھڑی کی سمت جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
افق پر چھوٹتا ہے صبح کا جس وقت فوارا
تھرکتا ہے سنہری وادیوں میں سرمئی دھارا
شلوکا دھوپ چھاؤں کا پہن لیتا ہے اندھیارا
نظر آتا ہے آدھے چاند کے آغوش میں تارا
اور اپنی سیج کو جب زندگی ویران پاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
فلک کی جگمگاہٹ سے، فضا کی مسکراہٹ سے
افق کی تھرتھراہٹ، سرد شبنم کی لگاوٹ سے
چمن کی خاکِ گل پرور کی دھیمی گنگناہٹ سے
نسیمِ صبح کے موّاج بوسوں کی چٹاچٹ سے
کلی میں جب چٹکنے کی تمنا رسمساتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
ہوائے سرد چھوتی ہے لٹیں جب روئے تُرکاں کی
جگر میں پینگ لیتی ہے مہک انفاسِ خوباں کی
گلابی روشنی سے آنکھ کھل جاتی ہے بستاں کی
اور اس کے ساتھ ہی پہلی کرن صبحِ بہاراں کی
جب اس اجڑے ہوئے سینے میں چبھ کر ٹوٹ جاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
مچلتی ہے سرِ دوشِ ہوا جب شکّریں سردی
لرزتے ہیں ستارے دوڑتی ہے چاند پر زردی
دلوں کو گدگداتی ہے تمنائے جہاں گردی
مسک جاتی ہے جب دھندلی فضا کی ملگجی وردی
کلائی میں نویلی صبح جب کنگن گھماتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
طرب کا رنگ اڑا کر، جشن کی دھوموں کو مرجھا کر
ربابوں کو بجھا کر، راگ کے شعلوں کو کجلا کر
فضا کو کپکپا کر، چمپئی مکھڑوں کو سنولا کر
صبا کی قمچیاں کھا کھا کر، آئینوں کو دھندلا کر
قریبِ صبح، جب شمعِ شبستاں جھلملاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
جھلکتی ہے ستاروں کی ردا جب خوش نواؤں پر
برستی ہے نکیلی کج کلاہی دلرباؤں پر
اترتی ہے مٹھاس آئینہ پیکر مہ لقاؤں پر
ننداسی راگنی گھنگرو بجاتی ہے ہواؤں پر
نشیلی بھیرویں مکھڑے سے جب گھونگھٹ اٹھاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
گرجتے گونجتے کم بخت ساون کے مہینے میں
لگا دیتی ہے پانی کی جھڑی جب آگ سینے میں
شبِ غم کے دہکتے، کھولتے، ٹھنڈے سفینے میں
بلکتی زندگی جب ڈوب جاتی ہے پسینے میں
مری سوئی ہوئی رم جھم کو جب برکھا جگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
ابھرتا، ڈوبتا ہے چاند جب ابرِ گریزاں میں
کبھی لچکا، کبھی کاجل تھرک اٹھتا ہے میداں میں
ہوائے ساحلِ پُرخم کھٹکتی ہے رگِ جاں میں
ستارے غوطہ زن ہوتے ہیں سنگم کے شبستاں میں
تھکی جمنا کو گنگا جب کلیجے سے لگاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
لرزتے ہیں در و دیوار پر یادوں کے جب سائے
نظر آتے ہیں جب، گم کردہ مہ رو، بال بکھرائے
جھلک اٹھتے ہیں جب وہ چاند، کب سے تھے جو گہنائے
ہوا آتی ہے جب بکسے ہوئے ہوئے لمحوں کو مہکائے
فضا جب گھپ اندھیرے میں بجھی راتیں جلاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
مرا یہ چہرہ، جو گوہر فروش و گل بداماں تھا
متاعِ گل رخاں تھا، دولتِ محمل نشیناں تھا
کلیسائے نگاراں، کعبۂ اصنامِ دوراں تھا
جو کل کی بات ہے، بت خانۂ قومِ حسیناں تھا
اب اُس سے جب پجارن تک مری آنکھیں چراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
اٹھائے دوش پر گم کردہ لمحوں کی ملاقاتیں
ملاقاتیں، دعائیں، شکریے، شکوے، مناجاتیں
لیے چاندی کی تھالی میں دمکتی، کندنی باتیں
مری گردن میں بانہیں ڈالتی ہیں چاندنی راتیں
اور اُن راتوں میں جب ماتھوں کی بیندی جھلجھلاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
جہاں میری تمناؤں نے کل دھومیں مچائی تھیں
گھنی زلفوں کے سائے میں جہاں نیندیں جگائی تھیں
جہاں شیریں لبوں پر مدتوں مہریں لگائی تھیں
جہاں کل رتجگوں نے صبح تک راتیں بجائی تھیں
مجھے پہچان کر جب وہ گلی آنسو بہاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
حیا سے کانپ کر، جھک کر ہجومِ شرمساری سے
کلائی میں سبک کنگن گھما کر، بے قراری سے
ذرا سا لڑکھڑا کر، اک ادائے بادہ خواری سے
دھنک کی سی کھنچی انگڑائی لے کر، طرح داری سے
کسی کو دیکھ کر جب کوئی کمسن مسکراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
کوئی الھڑ گلی میں رات کو صدہا جتن کرتی
ٹھنکتی، ڈولتی، تھمتی، ٹھہرتی، سسکیاں بھرتی
لرزتی، ہانپتی، رکتی، بدکتی، ہولتی، مرتی
سمٹتی، کانپتی، مڑتی، جھجکتی، جھینپتی، ڈرتی
کسی کا در جب اک انگلی سے آ کر کھٹکھٹاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
چمن کو غرقِ سوز و ساز کر جاتا ہے جب بھونرا
نیازِ عاشقی کو ناز کر جاتا ہے جب بھونرا
خموشی کو لطیف آواز کر جاتا ہے جب بھونرا
کلی کو چوم کر پرواز کر جاتا ہے جب بھونرا
اور اُس کے بعد جب تادیر ٹہنی تھرتھراتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
(جوش ملیح آبادی)
آخری تدوین: