حسان خان
لائبریرین
(مکتوب الیہ - بابا ذہین شاہ تاجی)
۲۰۸F
شالی مار ۸
اسلام آباد
۱۵/۷/۷۲
حسب حالے نہ نوشتیم و شد ایامے چند
پیر و مرشد۔ اب تک آپ کی خدمت میں بالقوۃ، دس بارہ خط لکھ چکا ہوں، اور آج، موانع پر قابو پا کر، بالفعل، پہلا خط روانہ کر رہا ہوں۔
کیا عرض کروں کن جھمیلوں میں رہا۔ خدا خدا کر کے، اب مکان ملا ہے، لیکن فرنیچر ابھی مکمل طور سے نہیں آیا ہے۔ اس لیے، ذہن پر معلقیت طاری ہے۔
ام الشعرا جسمانی طور پر تو کسی قدر درست ہیں، لیکن دماغی توازن کے بگاڑ کا وہی عالم ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ میری تو یہ تمنا ہے کہ میری زندگی میں اُن کا بال تک بیکا نہ ہوا۔ لیکن اس بے مہر دنیا کا سفاکانہ مزاج کب کسی کی تمنا کا پاس کرتا ہے۔
کاروبارِ عالم، ایک اندھی مشین کے مانند چل رہا ہے، اس کے سلسلۂ عمل میں، کس پر کیا بیت رہی ہے اسے کیا پروا۔ اُسے، اِس سے نہیں مطلب، کوئی مرتا ہے مر جائے۔
جی ہاں۔ دریا بوجود خویش، موجے دارد۔ کون ڈوب رہا ہے، اس کو اس سے کیا غرض۔ شاید اس مشین کے چلانے والے کے سینے میں، دل سی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔
ارے، میں خیالات کی رو میں کدھر بہہ گیا۔ خط کے عوض، شکایت کا دفتر کھول کر بیٹھ گیا۔
شاہ صاحب، آپ کی ذات نے مجھے ایک بڑے کرب میں مبتلا کر رکھا ہے، آپ بار بار، اور بہت ہی بری طرح یار آتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا دل آپ کی طرف کیوں کھنچتا ہے، آپ کو سینے سے لگا لینے کو، جی کیوں چاہتا ہے۔ آپ پیر ہیں، میں رند ہوں۔ آپ صد حیف کہ، دین دار ہیں، میں بحمد اللہ کہ بے دین ہوں۔ آپ، پانی بھری بوتلوں پر دم فرماتے ہیں۔ میں، آگ بھرے ساغروں پر دم کرتا ہوں۔ آپ کے ہات میں سبحۂ صد دانہ، اور میرے ہات میں زلفِ جانانہ ہے۔ آپ کے گردوپیش، مریدوں کی سانسیں ہیں، میرے سینے میں کچی جوانیوں کے انفاس کی پھانسیں ہیں۔ الغرض، ایک شے بھی مشترک نہیں ہمارے درمیان پھر بھی، میرا دل آپ کی طرف کھنچتا، اور بری طرح کھنچتا ہے۔
کردگارا، یہ ماجرا کیا ہے؟
ارے میرے قلم سے 'کردگارا' نکل گیا۔ اپنی عقل کے حضور، میں اپنے اس شاعرانہ 'لونڈے پن' کی معافی طلب کر کے، آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا، بلکہ درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ اِن 'بزرگ وارا کردگارا' صاحب سے واقف ہوں، اور آپ کی ان سے ملاقات بھی ہوتی ہو تو یہ عرض کر دیجیے کہ ایک شخص ہے جوش ملیح آبادی، جو آپ کو، ایک مدتِ دراز سے، بے پایاں ولولے، اور بے نہایت خلوص کے ساتھ، ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر اے 'کردگارا صاحب' آپ وہمِ اجداد نہیں ہیں، تو بے چارے جوش کے سامنے، برافگندۂ نقاب ہو کر، آ جائیے۔ اس لیے کہ:
ما، بداں مقصدِ عالی، نہ توانیم رسید
ہاں، مگر، لطفِ شما، پیش نہد، گامے چند!!
حضرت بابا ذہین شاہ کی بارگاہ میں۔
آپ کا - اپنی فکر کے علی الرغم - چاہنے والا
جوش