جوش ملیح آبادی کے منتخب خطوط

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - بابا ذہین شاہ تاجی)
۲۰۸F​
شالی مار ۸​
اسلام آباد​
۱۵/۷/۷۲​
حسب حالے نہ نوشتیم و شد ایامے چند​
پیر و مرشد۔ اب تک آپ کی خدمت میں بالقوۃ، دس بارہ خط لکھ چکا ہوں، اور آج، موانع پر قابو پا کر، بالفعل، پہلا خط روانہ کر رہا ہوں۔​
کیا عرض کروں کن جھمیلوں میں رہا۔ خدا خدا کر کے، اب مکان ملا ہے، لیکن فرنیچر ابھی مکمل طور سے نہیں آیا ہے۔ اس لیے، ذہن پر معلقیت طاری ہے۔​
ام الشعرا جسمانی طور پر تو کسی قدر درست ہیں، لیکن دماغی توازن کے بگاڑ کا وہی عالم ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ میری تو یہ تمنا ہے کہ میری زندگی میں اُن کا بال تک بیکا نہ ہوا۔ لیکن اس بے مہر دنیا کا سفاکانہ مزاج کب کسی کی تمنا کا پاس کرتا ہے۔​
کاروبارِ عالم، ایک اندھی مشین کے مانند چل رہا ہے، اس کے سلسلۂ عمل میں، کس پر کیا بیت رہی ہے اسے کیا پروا۔ اُسے، اِس سے نہیں مطلب، کوئی مرتا ہے مر جائے۔​
جی ہاں۔ دریا بوجود خویش، موجے دارد۔ کون ڈوب رہا ہے، اس کو اس سے کیا غرض۔ شاید اس مشین کے چلانے والے کے سینے میں، دل سی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔​
ارے، میں خیالات کی رو میں کدھر بہہ گیا۔ خط کے عوض، شکایت کا دفتر کھول کر بیٹھ گیا۔​
شاہ صاحب، آپ کی ذات نے مجھے ایک بڑے کرب میں مبتلا کر رکھا ہے، آپ بار بار، اور بہت ہی بری طرح یار آتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا دل آپ کی طرف کیوں کھنچتا ہے، آپ کو سینے سے لگا لینے کو، جی کیوں چاہتا ہے۔ آپ پیر ہیں، میں رند ہوں۔ آپ صد حیف کہ، دین دار ہیں، میں بحمد اللہ کہ بے دین ہوں۔ آپ، پانی بھری بوتلوں پر دم فرماتے ہیں۔ میں، آگ بھرے ساغروں پر دم کرتا ہوں۔ آپ کے ہات میں سبحۂ صد دانہ، اور میرے ہات میں زلفِ جانانہ ہے۔ آپ کے گردوپیش، مریدوں کی سانسیں ہیں، میرے سینے میں کچی جوانیوں کے انفاس کی پھانسیں ہیں۔ الغرض، ایک شے بھی مشترک نہیں ہمارے درمیان پھر بھی، میرا دل آپ کی طرف کھنچتا، اور بری طرح کھنچتا ہے۔​
کردگارا، یہ ماجرا کیا ہے؟​
ارے میرے قلم سے 'کردگارا' نکل گیا۔ اپنی عقل کے حضور، میں اپنے اس شاعرانہ 'لونڈے پن' کی معافی طلب کر کے، آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا، بلکہ درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ اِن 'بزرگ وارا کردگارا' صاحب سے واقف ہوں، اور آپ کی ان سے ملاقات بھی ہوتی ہو تو یہ عرض کر دیجیے کہ ایک شخص ہے جوش ملیح آبادی، جو آپ کو، ایک مدتِ دراز سے، بے پایاں ولولے، اور بے نہایت خلوص کے ساتھ، ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر اے 'کردگارا صاحب' آپ وہمِ اجداد نہیں ہیں، تو بے چارے جوش کے سامنے، برافگندۂ نقاب ہو کر، آ جائیے۔ اس لیے کہ:​
ما، بداں مقصدِ عالی، نہ توانیم رسید​
ہاں، مگر، لطفِ شما، پیش نہد، گامے چند!!​
حضرت بابا ذہین شاہ کی بارگاہ میں۔​
آپ کا - اپنی فکر کے علی الرغم - چاہنے والا​
جوش​
 

حسان خان

لائبریرین
(بنام خان بہادر میاں محمد صادق، ڈی ایس پی، سی آئی ڈی)
پونا​
۲۸-۴-۱۹۴۶​
مجھ بے دین کے دیندار دوست میاں صاحب! لعنت اس شخص پر جو آپ کو برسوں خط نہیں لکھتا۔ لیکن رحمت ہو اس پر، کہ خط لکھے یا نہ لکھے، آپ کو ہمیشہ یاد کرتا رہتا ہے۔ دو ایک ہی ایسے دوست رہ گئے ہیں۔ جن کی یاد کانٹے کی طرح دل میں چبھا کرتی ہے۔ ایسے دوست کس قدر موذی ہوتے ہیں۔ آپ کے دل کو بھی اس کا اندازہ ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا دشمن کے شر سے بچائے، لیکن میں کہتا ہوں کہ خدا دوستوں کے خیر سے بچائے۔ اس لیے کہ دشمن کی عداوت کبھی اتنی موذی ہو ہی نہیں سکتی، جس قدر کہ دوستوں کی محبت ہوتی ہے۔ کاش ہم کبھی نہ ملے ہوتے۔ کاش ہم کبھی خوش نہ ہوئے ہوتے۔​
گاہ گاہ آراستہ ہوتے ہیں جلسے عیش کے​
آنسوؤں کے ساتھ برسوں یاد آنے کے لیے​
طالبانِ عیش سے کہہ دو تو اڑ جائیں حواس​
کس قدر رویا ہوں میں اک مسکرانے کے لیے​
میاں صاحب! یہ دنیا اور یہ ہے اس دنیا کا نظام۔​
مانے گا اسے کون کہ ہوتا ہے طلوع​
آنسو کے افق سے ہر تبسم میرا​
آپ کا شیدائی - جوش​
 

حسان خان

لائبریرین
(بنام خان بہادر میاں محمد صادق، ڈی ایس پی، سی آئی ڈی)
اولڈ سیکریٹریٹ دہلی​
۲۲-۱۲-۴۸​
آپ کے بغیر دہلی کیسی اجڑی اجڑی نظر آتی ہے۔ قیامت تو یہ ہے کہ اب یہاں آپ ہیں نہ 'وہ'۔۔۔۔۔​
زباں پہ بارِ خدایا۔۔۔۔ ہائے کیا ویرانی ہے۔ آپ تو وہاں مزے کر رہے ہیں۔ رات دن نمازیں پڑھتے۔ ہر آن وضو کرتے۔ اور ہر وقت لانبی لانبی ڈاڑھیوں کی چھاؤں میں چہکتے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ نہ کوئی حبیب ہے نہ محبوبہ۔ شراب کے ساتھ جو شخص آنسو پیتا ہو وہ کیونکر جی رہا ہے ذرا تصور تو فرمائیے۔​
بہت جی چاہتا ہے۔ لاہور آؤں۔ آپ کی صورت دیکھوں۔ آپ کو کلیجے سے لگاؤں۔ مگر مور کی طرح پاؤں دیکھ کر شرماتا ہوں۔ دیکھیے کب ملاقات ہوتی ہے۔ کبھی ہوتی بھی ہے کہ نہیں کون کہہ سکتا ہے؟​
آج کل کیا مشاغل ہیں؟۔۔ لیکن آپ سے یہ پوچھنا ہی بیکار ہے۔ وہی مصلیٰ ہوگا۔ وہی وضو کا لوٹا۔ اور وہی زاہدانِ خشک کا مجمع۔۔ ہائے​
آپ کا سا پیارا انسان اور یہ ساز و سامان​
محو اہلِ حرم میں نہ گم آیات میں ہوتا​
یہ مردِ حسن کاش خرابات میں ہوتا​
آپ کا نخچیرِ محبت -- جوش​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - خورشید علی خان)
اسلام آباد​
۲۲/۱۱/۷۲​
ہائے خورشید علی خان، ہم دونوں پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے، ہم دونوں کے چھوٹے بھائی وہاں چلے گئے ہیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔​
بنال بلبل، اگر با منت، سرِ یاریست​
کہ ما، دو عاشقِ زاریم و کارِ ما، زاریست​
اس وقت میرے دل کا یہ عالم ہے کہ آپ کو، ہات سنبھال سنبھال کر، خط لکھ رہا ہوں، لیکن قلم ہے کہ قابو میں نہیں، حروف کی شکلیں بگڑی چلی جا رہی ہیں۔​
اس وقت، رات کے دو بجے ہیں، سناٹا ہر طرف چھایا ہوا ہے، اور دل اسقدر زور زور سے دھڑک رہا ہے کہ اس کی کھٹ کھٹ کانوں میں گونج رہی ہے۔​
ہم دونوں کے بھائی، ہم سے منہ موڑ کر چلے گئے۔ اور، سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم جی رہے ہیں۔ میں اپنی زندگی سے پشیمان ہوں، خورشید علی خان۔ آخر میں کب تک نہیں مروں گا۔​
اس ہول ناک کُرے میں موت سے زیادہ کوئی چیز یقینی و لازمی نہیں ہے۔ یہ دنیا نہیں، بوچڑ خانہ ہے اور اس بوچڑ خانے کا چلانے والا، ایک ایسا قصاب ہے کہ اگر اس کو یزید و شمر کہا جائے، تو یزید و شمر ازالہِ حیثیتِ عرفی کا دعویٰ دائر کر دیں۔​
آخر ہم یہاں ایک، سب سے الگ تھلگ، اور سب سے بے پروا مسافر کی طرح کیوں نہیں رہتے، آخر یہ کیا پاگل پن ہے۔ ہم یہاں اقرباء و احباب سے محبت کرتے ہیں۔ اور:​
بدل اگر نہ خلد، ہرچہ از نظر گزرد​
خوشا روانیِ عمرے کہ در سفر گزرد​
پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ لیکن ہم نامرادوں کے سینے میں ایک ایسا دل ہے کہ محبت کیے بغیر دھڑک ہی نہیں سکتا۔۔۔ ہم کسی سے بھی دل نہیں لگاتے، دل لگانا نہیں چاہتے مگر سرکش و نامراد دل، ہمارے علی الرغم، دوسروں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ حیف صد حیف ہماری ساخت پر۔​
بہرحال، ہم دونوں اس وقت لہولہان ہیں، اگر ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے، تو شاید ہمارا غم۔۔۔ آپ پھر بھی، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہیں، جن کی معیت سے کچھ نہ کچھ غم بٹ ہی جاتا ہوگا۔ میں نامراد یہاں بالکل تنہا ہوں، بیوی، بیٹی، اور بیٹا، کوئی بھی میرے پاس نہیں۔ دن بھر تو لکھنے بڑھنے میں وقت گزر جاتا ہے، لیکن غروب کے وقت دل ڈوبنے لگتا ہے۔ ہائے، میں کیا کروں، کدھر جاؤں۔​
آپ ہی کی طرح، آپ کا، لہولہان دوست​
جوش​
یہ منسلک خط، ذہین شاہ کے حوالے کر دیجیے، ان کا پتا یاد نہیں۔​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - بابا ذہین شاہ تاجی)
نامۂ کفر، از اسلام آباد
۲۲/۱۱/۷۲
قبلہ ذہین شاہ بابا۔ ڈھائی بجے، رات کو حسبِ معمول، بیدار ہوا تھا، اب چار میں پانچ منٹ باقی ہیں۔ ہمارے پرہول کرۂ ارض کا حقیقی رنگ، یعنی گھپ اندھیرا، زمین و آسمان کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور پچھلے پہر کا اتھاہ سناٹا بول رہا ہے۔
میں آج کل گھر میں تنہا ہوں، پورا خاندان، بیوی سمیت، کراچی میں ہے، اور میں چغد کے مانند، گنبدِ افراسیاب پر بیٹھا نوبت بجا رہا ہوں۔۔۔ یہ سچ ہے کہ میں خلوت پسند آدمی ہوں، مگر شام کے وقت جلوت کو جی چاہنے لگتا ہے، اور اسی بنا پر جب آفتاب غروب ہونے لگتا ہے، تنہائی کی اداسی میں، میرا دل ڈوب کر رہ جاتا ہے۔
خدا کی بے پایاں 'رحمت' نے آثار ایسے پیدا کر دیے ہیں کہ مجھ پر انشاءاللہ، آج نہیں تو کل، اور کل نہیں تو پرسوں دل کا دورہ ضرور پڑے گا، تنہائی میں کچھ لمحے تڑپوں گا، اور پھر مر جاؤں گا۔ خس کم، جہاں پاک۔ کچکچا کر آنکھیں بند کر لیں تو کچھ بھی نظر نہیں آتا، لیکن، آنکھیں کھول کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ حیاتِ انسانی ایک عبرت ناک ٹریجڈی، اور کرۂ خاکی ایک ہول ناک مقتل ہے۔
جہاں، بسمل گہِ درد است، آسایش کہ دید، ایں جا؟​
بقدرِ سخت جانی، ہر کسے، بر خود تپید ایں جا​
آسمان و زمین، اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ مرضِ حیات کا واحد علاج، موت ہے۔​
حزیں، از پائے رہ پیما، بسے آشفتگی دیدم​
سرِ شوریدہ، بر بالینِ آسائش رسید ایں جا​
(کتبہ لوحِ مزارِ حزیں)​
بابا صاحب، حقائق بے نہایت تلخ ہیں، کون ان سے منہ موڑ سکتا ہے۔ اقوال و اساطیر سے ہم تابکے فریب کھائیں، اور، تاچند، اوہامِ آبائی کے سامنے سر جھکائیں۔​
قبلہ و کعبہ، آپ بڑے مزے میں ہیں، رومی و غزالی آپ کے سامنے بانسری بجا رہے ہیں، تخیلات و تاویلات کی وجدانی دیواریں آپ کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، آبائے ذوالاحترام، پھولوں کی چادر، آپ کے سر پر تانے ہوئے ہیں، اور اولیائے کرام، آپ کو لوریاں دے رہے ہیں، اور اس بناء پر آپ اس دوزخِ زندگی میں بیٹھے، جنت کی ہوائیں کھا رہے ہیں لیکن میں نامراد، منطق کے تپتے سورج، اور دلائل کے چمکتے نیزوں کے سامنے، سینہ عریاں کیے کھڑا ہوں، مجھ سے، ہاں، مجھ سے پوچھیے کہ یہ کارخانۂ عالم کیا ہے، اور اس کارخانے کا جرنل منیجر کیسا ہے۔​
ایں مپرسید کہ بر غالبِ ناکام، چہ رفت​
می تواں گفت کہ ایں بندہ، خداوند نہ داشت!​
کہتے ہیں کسی بادشاہ کے ملک پر اس کے حریف نے چڑھائی کی، بادشاہ نے، دوسری پلٹنوں کے ساتھ ساتھ، لانبے تڑانگے ہیجڑوں کی بھی، ایک پلٹن بنائی، اور اس کو میدانِ جنگ میں بھیج دیا۔ دشمن کی فوج ان ہیجڑوں کے قد و قامت دیکھ کر ہراساں ہو گئی، سالارِ فوج نے جب یہ سماں دیکھا تو اپنے سپاہیوں کا دل بڑھانے کے لیے، اس نے گرجتی آواز میں نعرہ لگایا کہ اے بہادرو، ٹکڑے اڑا کر رکھ دو، ان ہیجڑوں کے۔ (دشمن کے سپاہ سالار کو یہ مطلق پتا نہیں تھا کہ وہ دراصل ہیجڑے ہیں، اس نے تو لفظ 'بزدلوں' کے معنی میں استعمال کیا)​
ہیجڑوں نے، جیسے ہی یہ نعرہ سنا، تلواریں پھینک دیں، پلّو سر پر ڈال لیے، اور تالیاں بجا بجا کر ناچنے گانے لگے 'قربان جاؤں، پہچان لیا' 'قربان جاؤں پہچان لیا' 'قربان جاؤں پہچان لیا۔'​
اس طرح، تفکر کی زمین پر کھڑے ہو کر جب میں نگاہِ بغاوت اٹھاتا، اور چلاتا ہوں کہ یہ سب کچھ دھوکا ہے تو، آسمان سے آواز آنے لگتی ہے 'قرباں جاؤں پہچان لیا' 'قربان جاؤں پہچان لیا! تاتا تھیا، مان لیا، قربان جاؤں پہچان لیا۔'​
میں ہوں، آپ کی ذات، اور صرف ذات سے محبت اور بے پناہ محبت کرنے والا،​
جوش​
رندِ آفاق نوش​
 

حسان خان

لائبریرین
کیا جوش کے خطوط مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں
اگر ہیں تو کہاں اور کس نام سے

جوش کے دوست راغب مراد آبادی اُن کے سارے خطوط مرتب کر کے خطوطِ جوش ملیح آبادی کے نام سے چھپوا چکے ہیں۔ یہ سارے منتخب خطوط اُسی کتاب سے ٹائپ کیے گئے ہیں۔ کتاب کا سنِ اشاعت ۱۹۹۳ ہے اور اسے ویلکم بک پورٹ، کراچی نے نشر کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - ہلال نقوی)
میاں ہلال نقوی​
خوش و خرم رہو!​
تمہارے خطوط کا جواب کیسے دیتا، ہات تو کانپتے ہی تھے، اب قوتِ سماعت و بصارت نے بھی کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ چشمہ تو استعمال کرتا ہی تھا اب آلۂ سماعت کا بھی سہارا لینا پڑ گیا ہے، یہ خط خود نہیں لکھ رہا، تف ہے جوش کی مجبوریوں کے اس دور پر، سوچتا ہوں کہ اُس کی کن کن 'نعمتوں' کا شکر ادا کروں۔​
تم نے جمیل مظہری کا شکایتی قطعہ بھیجا تھا۔ 'یادوں کی برات' میں نہ صرف جمیل مظہری بلکہ دوسرے دوستوں کا بھی ذکر تھا مگر نہ جانے کیا گڑبڑ ہوئی، کتاب چھپنے گئی تو اس کے اصل مسودات میں سے بعض تذکرے کوئی لے اڑا۔​
لکھنؤ سے تمہارا خط آیا تو وہاں کے گلی کوچے اور کوٹھے نظروں کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے، لیکن جمیل مظہری کے انتقال کی خبر پڑھی تو تصورات کا یہ محل گر کر تباہ ہو گیا۔ ہائے جمیل مظہری۔ کیا کہوں؟ کیا لکھوں؟ سب نے ساتھ چھوڑ دیا، کس کس کا ماتم کروں۔ اب تو میری موت پر آنسو بہانے والا پرانا دوست شاید ہی کوئی باقی ہو۔​
تم نے ہندوستان کے مرثیہ نگار عظیم امروہوی کے مرثیے پر تبصرہ لکھنے کی فرمایش کی ہے، لیکن صحت کی خرابی اب اس قسم کے کام نہیں کرنے دیتی۔ کل ایک صاحب سے مرثیے کے کچھ بند پڑھوا کر سنے۔ یہ بات وجہِ مسرت ہے کہ ہندوستان کا نوجوان شاعر فکر و نظر سے کام لے رہا ہے اور حسین ابنِ علی کے معرکۂ حق سے درسِ عمل دینے پر آمادہ نظر آتا ہے، لیکن افسوس کہ سننے والوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی، اور شاعر کی ہر کوشش رائیگاں چلی جائے گی۔ اب مرثیے کو روشن دماغ نوجوانوں کی ضرورت ہے ورنہ اس صنف کا وجود ختم ہو جائے گا۔ عظیم امروہوی قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ایک عظیم انسان کے مرثیے کو نئے احساسات کی آب و تاب دے کر لکھا ہے۔​
اب مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے کون سا مرثیہ کس سنہ میں لکھا تھا۔ اگر تمہاری اہلیہ میری شاعری پر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھنا چاہتی ہیں تو شوق سے لکھیں۔ وہ تمہاری رہنمائی میں یہ کام بہتر طور پر کر سکیں گی۔​
تم دونوں کا خیر خواہ​
جوش ۲۴-۹-۸۰​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - حکیم محمد نصیر الدین ندوی مالک نظامی دواخانہ، صدر، کراچی)
کراچی​
بندہ نواز و مسیحائے اربابِ نیاز، وہی قبض ہے، وہی پیچش۔ بھوک کا فقدان، طبیعت ہلکان، تمام جسم بے جان۔​
اس پر قیامت یہ کہ نزلے کا زور، کھانسی کا ٹھسکا، سینے کی چُوں چُوں، سانس میں رکاوٹ، گلے میں خراش، زور لگاؤں تو سانس لوں، دل پر دباؤ، دماغ میں جھن جھناہٹ۔​
قبضِ مسلسل کی بدولت پیٹ میں پھلاؤ، نزلہِ دمادم کے ہاتوں کھوپڑی میں تناؤ، انفاس میں کھنچاؤ۔​
خدارا زیادہ توجہ سے کام لیجیے، زود اثر دوائیں دیجیے۔​
ام الشعراء کو بھی شدید زکام، گلے میں میری ہی سی خراش، عافیت پاش پاش۔​
نیاز کوش​
جوش​
۱۸/۷/۶۱​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - خورشید علی خان)
لاہور (پھر اس کے بعد)​
اسلام آباد​
خورشیدِ صبحِ کوہساراں۔ آج کل، فردوسِ لاہور میں شرفِ قیام حاصل ہے۔ یعنی ہر صبح، صبحِ بنارس اور ہر شام، شامِ اودھ کو شرما رہی ہے۔​
ابھی ابھی 'وہاں' سے اپنی سکونت گاہ، یعنی سید شوکت حسین صاحب کے مکان پر آیا ہوں، آفتاب کے غروب اور میرے طلوع میں صرف پندرہ منٹ ہیں۔ تنہائی کا عالم ہے اور آپ کی یاد ستا رہی ہے کاش اس وقت آپ بھی ہوتے۔ ہائے، ایسے میں، ان کو ڈھونڈ کے لائیں کہاں سے ہم۔​
آپ، میرا دل دکھا کر، تنہا لندن چلے گئے، میری ہائے آپ پر ایسی پڑی کہ دل کا دورہ پڑ گیا۔ آپ نے 'بترس از آہِ مظلوماں' سنا ہوگا۔ اب آنکھوں سے دیکھ لیا۔​
آپ لندن کس غرض سے گئے ہیں اور کب تک پلٹ کر آئیں گے۔ میں تو ایک ایک پل گن رہا ہوں۔​
یوسفِ گم گشتہ، باز آید، بکنعاں، غم مخور​
سردی بہت شدید ہے، عید کے دوسرے دن یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اور پھر وہی تنہائی ہوگی اور میں۔​
میں ہی نہیں، اور بھی 'کوئی' آپ کو یاد کرتا رہتا ہے۔ کس قدر کشش ہے آپ کی ذات میں۔​
کراچی میں ٹے لی ویژن کا مشاعرہ تھا، میں نہیں گیا۔ آپ کے بغیر کراچی میں کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ اسی لیے وہاں جانے سے کتراتا ہوں۔ آپ کو وہاں نہیں پاؤں گا، دل تھام کر رہ جاؤں گا۔​
اب تو آپ اچھے ہو چکے اور خوب مزے اڑا رہے ہوں گے۔ وہاں کے جملہ مشاغل نوٹ کرتے جائیے اور مجھ کو یہاں آ کر سنائیے۔ کاش میں بھی آپ کے دوش بدوش لندن کی گلیوں پر پھرتا۔ اور حسینوں کے غولوں میں گھرتا۔​
لیجیے شام ہو گئی، بوتل سامنے رکھ دی گئی اور گلاس چیخنے لگا کہ بابا ہم کو جلدی سے اٹھاؤ اور منہ سے لگاؤ۔ اچھا، اے میرے دور افتادہ حبیب اب تحریر ختم کر رہا ہوں۔​
لیکن پتا تو آپ کا ہمراہ نہیں ہے، پنڈی جا کر، یہ خط روانہ کروں گا۔​
آپ کا شیدائی​
جوش مینائی​
۲۲/۱۲/۷۴​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - خورشید علی خان)
افقِ اخلاص کے تاباں خورشید۔ پایندہ و تابندہ و رخشندہ باد۔​
آپ اکاڈمی کا مقصد دریافت کرنا چاہتے ہیں، سو، بندہ پرور اس کا مقصد، انقباضِ جہل و انشراحِ علم کے سوا، اور کیا ہو سکتا ہے۔​
اس مقصد کے حصول کے خاطر، فلموں، ڈراموں، رسالوں، کتب خانوں، درس گاہوں، مقالوں، جلسوں، تصنیفوں، تالیفوں اور ترجموں سے کام لیا جا سکتا ہے۔​
چالاک صوفیوں اور مجذوب شاعروں نے، قوالوں کی 'آہے وا' اور، مشاعروں کی 'سبحان اللہ' کی وساطت سے، عشق و جنون کو ابھار، اور عقل و شعور کو بھینچ کر، بالعموم ایشیا اور بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کو، جذبات کی افیون پلا پلا کر، انٹا غفیل کر رکھا ہے، اس غوط سے لوگوں کو جگانا، اور حکمت و منطق کی راہ پر چلانا، سب سے بڑا فریضہ ہے۔​
اقوال و اساطیر نے ہماری عقل کا گلا گھونٹ رکھا ہے، اور ہمارے دماغ کو، ایک ایسے ڈھرّے پر ڈال دیا ہے کہ ہم، بے بنیاد ایقان کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے، اور، عقاید کا دودھ پی پی کر، تجسس و تحقیق کو ایک شیطانی عمل سمجھنے لگے ہیں، اِن خرافات کے جادو گھر سے، انسان کا نکالنا، سب سے بڑا شرف و مجد ہے۔​
آپ، اِنہیں باتوں پر نگاہ کر کے، اکاڈمی آف لیٹرز کا ڈھانچا تیار کریں۔ اور، ایک ہفتے کے اندر بھیج دیں۔ تاکہ میں آپ کو یہاں بلا لوں۔​
جی ہاں، اب وہ اگلی سی معلقیت باقی نہیں رہی ہے، بال و پر نکل آئے ہیں، لاہورجانے کی طاقت آ گئی ہے۔ ام اشعراء کی آمد کا انتظار ہے، وہ آ لیں، تو لاہور جا کر، کوئے جاناں کا طواف کر آؤں۔ اس سفر میں آپ میرے تصوری ساتھی ہوں گے اور چلنے لگوں گا تو، پہلے ہوٹل 'فلیش مین' جا کر، آپ کی معشوقۂ طناز کو بھی، آنکھوں میں رکھ کر، لاہور لے جاؤں گا تاکہ اثنائے سفر میں، آپ کا دل بشاش رہے۔​
کل، رات کو، ایک شعر و سخن اور ناؤ نوش کی محفل میں شریک ہوا تھا۔ سامعین خام تھے، داد تو، سب نے بہت چیخ چیخ کر دی، مگر ان کی آنکھوں میں، چونکہ سخن سنجی کی دمک نہیں پائی، اس لیے، اہلِ بمبئی کے بقول 'مجا نہیں آئی'۔ رات کو دیر سے گھر پہنچا، نئے لحاف میں لیٹا، روئی کی گرمی نے جسم کو تو آرام پہنچایا، لیکن خالی روئی سے کیا ہوتا ہے، جب تک 'دوئی' نہ ہو۔ بستر کو ٹٹولا، کسی چہکا دینے والے پنڈے کو پہلو میں نہیں پایا، کروٹوں پر کروٹیں لیں، لیکن، نشے کے باوجود دیر تک نیند نہیں آئی۔​
میں، شاید، مرتے دم تک بوڑھا نہیں ہوں گا۔ میر انیس نے فرمایا ہے کہ: جو، جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی۔ لیکن، یہاں معاملہ برعکس ہے، یہاں تو یہ عالم ہے کہ: جو، آ کے نہ جائے، وہ جوانی دیکھی۔​
اچھا، اب ٹہلنے کا وقت آ گیا۔ آسمان کی سیاہی پر، ہلکی سی گلابی سفیدی آ چلی ہے۔​
آپ کو، خوابوں میں دیکھ کر، غسل کرنے والا​
جوش​
(۲۰۸) ایف شالی مارا / ۸۔​
اسلام آباد​
۱۲/۷۳​
 

تلمیذ

لائبریرین
موصوف کے قادرالکلام ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی یاوہ گوئی اور فحش نگاری کے ذوقِ نامراد پریقین پُختہ ہو گیا ہے، خصوصاً آخری خط میں کی گئی گوہر افشانی کو پڑھنے کے بعد۔
؂ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!!
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - خورشید علی خان)

مکتوبِ کافر
از
اسلام آباد
۱/۲/۷۳
سرِ شام
حضرت خورشید، سورج ڈوبنے والا ہے، اور میں، کانپتے ہاتوں سے، آپ کو خط لکھ رہا ہوں، یعنی: شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند۔
بیماری سے اس قدر نڈھا ل ہوں کہ، ہات جما جما کر، لکھ رہا ہوں، پھر بھی، حروف کی شکلیں بگڑتی چلی جا رہی ہیں۔ اب لکھا نہیں جاتا۔ اگر، خدا نہ خواستہ، زندہ رہا، تو کل لکھوں گا۔
--------------​
لیجئے، تاریخ بدل گئی، آج دوسری فروری ہے، اور حضرت اکبر الٰہ آبادی کے بقول:​
افسوس ہے کہ زندہ ہوں، کہنا پڑا ہے حال​
کیا مختصر جواب یہ ہوتا کہ مر گیا​
کے مطابق آپ سے اپنا حال بیان کر رہا ہوں۔ آج، خلافِ معمول دیر اور بہت ہی دیر سے بیدار ہوا۔ رات کو سوا سات بجے، تکیے پر سر رکھ دیا تھا، بہت دیر میں نیند آئی، دماغ، سوتے میں، تمام رات باتیں کرتا، اور میرے آخری مجموعۂ کلام 'محمل و جرس' کا دیباچہ لکھتا رہا۔ نیند کا رشتہ، بار بار ٹوٹتا اور جڑتا رہا۔۔۔ اب، خدا خدا کر کے سات بجے بیدار ہوا، اور کراہ کراہ کر خط لکھ رہا ہوں۔۔۔ بات یہ ہے کہ میرا دل اب، آہستہ آہستہ دم توڑ چکا ہے، بھوک بند ہو چکی ہے، سانس کھینچ کھینچ کر لیتا ہوں، ناتوانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کھڑا ہوتا ہوں تو پنڈلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ جی اس قدر اداس ہے کہ خوش مزاجی مفقود ہو چکی ہے۔ فانی کی طرح، چپ چاپ اور مغموم رہنے لگا ہوں۔ خون اور پیشاب کا امتحان اور ایکس رے سے کسی خاص مرض کا پتا نہیں چلتا، ڈاکٹر کہتا ہے آپ کے اعضائے رئیسہ نارمل ہیں۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ میں، آہستگی کے ساتھ، ختم ہوتا اور بجھتا چلا جا رہا ہوں۔ چوں قضا آید، طبیب ابلہ شود۔ اس بجھاوٹ کے باوجود، ارادہ کر رہا ہوں کہ ہفتے عشرے میں کراچی آ کر، آپ سب سے مل لوں، اور آخری بار سب کو گلے لگا لوں۔ بہت دن سے دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ ۱۹۷۳ء میرا آخری سال ہوگا، سو، بحمد اللہ کہ اس کے آثار اب ظاہر ہو چکے ہیں۔۔ ہائے میری فتنۂ آخر الزماں بھی، تقریباً ایک سال سے بیمار ہے، اور اس کی بیماری کا تسلسل، گھن کی طرح، میری زندگی کو چاٹے جا رہا ہے۔​
ہم تبرک ہیں، بس اب کر لے زیارت مجنوں۔​
آپ کا چاہنے والا​
جوش مرحوم​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - راغب مراد آبادی)
راغب جانی، ابھی ابھی 'ذکر و فکر' کے لیے ایک مضمون لکھا ہے، جی چاہا، اس کی نقل آپ کو بھیج دوں۔ ملاحظہ فرمائیے:
عورت​
میں، عوام، یعنی، دو پاؤں پر چلنے والے حیوانوں سے خطاب کرنے کے ننگ پر، اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتا۔ میرا تو روئے سخن ہے تمہاری طرف، اے تلواروں کی دھاروں کو موڑ دینے والے ساونتو۔ اور، تمام کائنات کو، پلکوں پر، تول لینے والے گمبھیر فلسفیو۔ کہ تمہارے آگے، موت کی آگ پانی بھرتی ہے، اور تمہاری نظروں کی لمس سے، اسرارِ مرگ و زیست کا لوہا پگھلنے لگتا ہے۔​
ہاں، تو، میں تم سے، کانپتی ہوئی پنڈلیوں، اور اپنے بدن کے تمام کھڑے ہوئے رونگٹوں کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ 'عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!'​
یہ عورت، وہ حسین بلائے بے درماں ہے کہ افلاطون کی پشت پر سوار ہو کر، اسے گھوڑا بنا، اور نپولینِ اعظم کی ناک چھید کر، اسے نتھنی پہنا چکی ہے۔​
سنو، سنو کہ عورت ہر روپ میں خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بے وفا ہو کہ وفادار، بہر رنگ ہے خوں خوار۔ وہ اگر، سراپا وفا ہے، تو عاشق کے دل میں، وہ کیف بھر دیتی ہے کہ اس کو دین و دنیا دونوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔۔۔ وہ، آدمی کو، فکرِ بیدار کی گلابی دھوپ سے اٹھاتی، اور خواب آور زلفوں کی مہکتی چھاؤں میں بٹھا دیتی ہے۔۔۔ اپنے، بوسہ طلب ہونٹوں کی مہک سے، یوں رجھاتی ہے کہ آدمی کی ہر سانس، اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔۔۔ وہ کائنات کی تمام راگنیوں کا گلا گھونٹ کر، صرف اپنے کھنکتے بول سناتی ہے۔ وہ تشنگی کی آگ بھڑکانے کی خاطر، پیاس بجھاتی ہے۔ اور، انفس و آفاق کے تمام جلووں کو دھندلا کر، فقط اپنا دمکتا مکھڑا جھمکاتی ہے۔​
اور، آخرکار، انسان، اس کے بحرِ جمال میں، یوں بہہ جاتا ہے کہ معاشرے کا عضوِ معطل بن کر رہ جاتا ہے۔​
عشق نے غالب، نکما کر دیا​
اور اگر، عورت نامہربان و جفا پیشہ ہوتی ہے تو، آدمی اس بے پایاں احساسِ کمتری میں گھر جاتا ہے کہ۔ اور تو اور، خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔​
ٹھکرایا ہوا عاشق، اپنے کو، اس قدر نامطبوع و مکروہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے دل سے، دوستوں کا تو کیا ذکر، خود اپنی ماں تک کی شفقت کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔۔۔ اور وہ بے چارہ اپنے کو اس حد کا حقیر و ذلیل سمجھنے لگتا ہے کہ جب وہ آئینہ اٹھاتا ہے، تو اپنا چہرہ ایسا نظر آتا ہے، گویا وہ ایک ایسا خارشتیا ٹینی کتا ہے جو، آسمان کی طرف تھوتھن اٹھا کر رو رہا ہے۔​
سراپا کرم ہے کہ سفاک ہے​
بہر طور، عورت خطرناک ہے​
یا اس طرح کہہ لیجئے کہ:​
سراپا سَمَن ہے کہ سفاک ہے​
بہر طور عورت خطرناک ہے​
کہو، پیارے کیسا مضمون ہے؟ مجھے تو اچھا لگا کہ میں نے لکھا ہے۔ خورشید علی خان کو بھی یہ مضمون دکھا دیجئے گا۔​
افسوس کہ اب کی نسیم صاحب سے نہایت سرسری ملاقات رہی۔​
جوش​
اسلام آباد​
۹/۸/۷۵​
 

حسان خان

لائبریرین
(بنام ۔۔ محمد برہان الدین بقا نظامی)
حضرت سید بندگی شاہ، محمد برہان الدین صاحب بقا نظامی کا 'مجموعۂ کلام' پڑھ کر، مجھے بے حد خوشی ہوئی۔​
حضرت ایسے مقدس بزرگ ہیں کہ ان کے حسنِ خلق کو دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے وہ اس دور میں حضرت بانئ اسلام کے 'خلقِ عظیم' کا جیتا جاگتا مجسمہ ہیں۔​
اب رہی ان کی شاعری سو اس کے باب میں اگر میں کچھ عرض کروں تو چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی۔ ملائکۂ مقربین سے پوچھئے کہ ان کی حمد و نعت کس پائے کی ہے۔​
مجھے یقین ہے کہ حورانِ بہشت ان کا کلام، رسالت و الوہیت کے بربط پر گائیں گی اور اعیانِ فردوس کو وجد میں لائیں گی۔​
جوش​
۱۹/۳/۷۸​
کراچی​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - ہلال نقوی)
اسلام آباد
۱۷/۶/۱۹۸۱
پیارے ہلال
تحقیقی نوعیت کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے مجھے اپنی طبیعت پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاملات، میرے مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔ تم نے جس سوال کا جواب چاہا ہے وہ بہت تفصیل چاہتا ہے، اور کمزوری ہے کہ بدن توڑے دے رہی ہے، زیادہ لکھتا ہوں تو حروف کی شکلیں مسخ ہونے لگتی ہیں۔
میں نے اس پر کبھی اصرار نہیں کیا میرے 'مسدسوں' کو مرثیہ کہا جائے۔ مجھے اس سے سروکار نہیں ہے اُنہیں آپ مرثیے کا نام دیں یا نہ دیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے پیشِ نظر اس قسم کے مسدس لکھتے وقت مرثیے ہی کا تصور رہتا ہے اور میرا موضوع ان مرثیوں میں جب کربلا، حسینیت، عزمِ شہیدانِ کربلا، بے باکی اور حق گوئی ہے تو پھر 'نقادوں' کی یہ رٹ کہ جوش کے مسدس جدید مرثیے نہیں ہیں، میری سمجھ نہیں آتی۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اب اس سے زیادہ لکھنے کی ہمت باقی نہیں۔
تمہارا بیمار​
جوش​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - نسیم احمد شمیم)
خط ملا۔ نسیم کا جھونکا آیا، ذہن کی شاخوں کو لچکایا، اور غنچۂ خاطر کو چٹکایا۔ جزائے خیر دے آپ کو اللہ۔​
یہاں کا موسم بہت غنیمت ہے، ہوا کی گرم دھار مڑ چکی ہے، اور حدت باقی نہیں رہی ہے۔​
کل، سرِ شام، مندرجہ بالا سوا دو سطریں لکھی تھیں کہ ایک سراپا ناز سرو قامت آ گئی، قلم ہاتھ سے چھوٹ گیا، اور، اُس کے روئے صبیح کی تلاوت کرنے لگا۔​
یہاں تک قلم پہنچا تھا کہ جو کافرہ کل شام کو آئی تھی، اُس کا فون آ گیا۔ اب اس سے حرف و حکایت ختم کر کے، آپ کی جانب، روئے سخن پھر موڑ رہا ہوں۔​
اِس وقت، میرے پاس ہی نہیں، میرے گرد و پیش بھی کوئی نہیں ہے، تنہا کمرے میں بیٹھا ہوں۔ تنہائیاں میری ندیم بن چکی ہیں۔​
تنہائیاں، دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک تو بھری، اور دوسری کھوکھلی۔ بھری تنہائیوں میں، چاروں طرف خیالات کا میلا سا لگا رہتا ہے، اور اُن خیالات کو نظم و نثر میں ادا کرتا رہتا ہوں۔ کھوکھلی، یعنی بے مشغلہ قرطاس و قلم، بری طرح، دل پر ڈنک مارتی، اور، آزارِ ہجر کو ابھارتی ہے۔​
سَروَر و فراست سے میری دعا کہئے اور سانولے راغب کو گلے لگا کر میری طرف سے چوم لیجئے۔​
بعالمِ اعصاب شکستگی و بدخطی​
مخلص، جوش​
ایف ۶/۳​
اسٹریٹ ساتویں۔ ایمبیسی روڈ - اسلام آباد​
۶/۷/۷۴​
دوپہر​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - خورشید علی خان)
ارے آپ بھی، منور عباس، 'یوسوس فی صدور الناس' کے مانند، وہ نکلے، جس کو 'مسٹر آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ' کہا جاتا ہے۔۔۔ میرے کراچی آنے کے بعد، آپ نے، ایک سطر بھی نہیں لکھی مجھ کو۔ مبارک ہو یہ سرد مہری، یہ طوطا چشمی۔ یہ ابو سفیانیت۔​
جس نے بھی معاویہ کا نمک کھایا ہے، دوستوں پر ہمیشہ ظلم ڈھایا ہے۔​
اب جی میں یہ ٹھانی ہے کہ اب کی آیا، تو آپ کو خبر ہی نہیں کروں گا، اور بے ملے واپس آ جاؤں گا۔ نام خورشید، اور، دل میں یہ ظلمتِ شدید، المدد یا حضرتِ یزید۔​
جوش​
یعنی: اے وائے پر اسیرے، کز، یاد رفتہ باشد​
۶/۷/۷۴۔ نصف النہار​
اپنا پتا کیوں لکھوں، جواب کی تشنگی نہیں۔ بھاری پتھر تھا۔ فقط، چوم ہی کر، چھوڑ دیا۔​
 

حسان خان

لائبریرین
(مکتوب الیہ - مرزا جعفر حسین)
۱۹/۱۰/۴۸​
حضورِ والا، میں یہاں سے اِسی مہینے کی اٹھائیسویں، یا زیادہ سے زیادہ انتیسویں۔۔۔ نہیں، غلط، بلکہ یقینی طور پر اٹھائیسویں کی رات کو روانہ ہو کر اور انتیسویں کی صبح کو افقِ لکھنؤ پر طالع ہو کر اسٹیشن سے، براہِ راست، اور بہ ارادۂ قیامِ پنج روز آپ کے دولت کدے پر، ایک عدد سبزی خور شاعر کو بغل میں دبائے، وارد ہو جاؤں گا۔۔۔​
لہٰذا لکھ دیکھ سند رہے اور بہ وقتِ آمد کار آمد ثابت ہووے۔​
بھابی کو سلام۔ بچوں کو دعا۔​
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو۔​
جوش​
 
Top