طارق شاہ

محفلین
غزل
جوكہی تجھ سے بات كہہ دينا
ہےمصيبت میں ذات كہہ دینا

أن كے جانے سے جو ہُوئی طارى
وه كٹی ہے نہ رات كہہ دینا

ہم دِل آزارى پر، پَشیماں ہیں !
پُوچھ كر ذات پات كہہ دينا

اِستتقامت جو قول و فعل میں تھى
ہے وه، اب بھى ثبات كہہ دينا

معنٰی ركھتے نہیں بغیر أن كے
کچھ حيات وممات كہہ دينا

أن كى صرفِ نَظر کی تلقين نے!
باندھ رکھے ہیں ہاتھ كہہ دینا

أن كی خاطر ہی اِس زمانے پر
روکے رکھی ہے لات کہہ دینا

ضد، انا سارے بُھول بیٹھے ہیں
ہوگئی اُن سے مات کہہ دینا

وجہِ تعمِیری اِلتِوا کی، اُنھیں
دسترس میں نہ دھات کہہ دینا

کب کریں گے خلش پہ ، وعدہ کِیا
مُمکِنہ اِلتِفات کہہ دینا

شفیق خلشؔ
 
Top