عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یہ کوئی سفر نامہ نہیں ہے۔
مورخہ 26 اکتوبر کو صبح 10 بجے کے لگ بھگ دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آج برقی رو کی فراہمی میں تعطل ہے جو کہ بقول کچھ ہمسائیوں کے خاصا طویل تھا۔ (صبح 8 سے شام 5 بجے تک)۔ اس بات کو سچ ماننے کے لیے اپنے موبائل پر چیک کیا کہ کبھی کبھار واپڈا والے پیغام بھیج دیتے ہیں، لیکن ایسے کوئی ایس ایم ایس موصول نہیں ہوا تھا۔ شاید مجھے بھول گئے ہوں۔
سوچا۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے، گھر سے جو نکل آئے ہیں، اب واپس کیاجانا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ اردگرد کے متاثرین واپڈا سے دو تین گھنٹے یہیں گپ شپ کرتا ہوں اور پھر سہ پہر میں گھر چلا جاؤں گا۔ اس دوران دو متاثرین ہمارے دفتر آ گئے اور دو دن پہلے ہوئے پاک بھارت کرکٹ ٹاکرے پر بات چیت شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد موضوع بدلا اور گفتگو لبیک کی ریلی اور متوقع دھرنے کی طرف چلی گئی اور پھر گھوم پھر کر اصلی اور سُچےموضوع مہنگائی کی طرف مڑ گئی۔ ایک ڈیڈھ گھنٹہ بیت گیا۔
اس گفتگو کے دوران ایک ہمسائے جو سرکاری ٹھیکدار ہیں کو کال موصول ہوئی کہ فلاں فلاں بل کلئیر ہو گیا ہے اور آپ چاہیں تو 2 بجے سے پہلے آ کر اپنی پیمنٹ لے سکتے ہیں۔ وہ تو جیسے تیار بیٹھے تھے، بولیں یہ تو زبردست ہو گیا کہ بجلی بند ہے اور کام کوئی کر نہیں سکتے، ابھی آ جاتا ہوں۔ پھر مجھے کہا کہ آئیں بہت عرصہ ہوا کہیں گھوم پھر کر نہیں آئے، اسی بہانے گھوم آتے ہیں۔ پہلے نیت بنی کہ موٹر سائیکل پر نکلتے ہیں، پھر میں نے ہی کہا کہ سامنے والے بھائی جان کو بھی لے چلتے ہیں، ایسا کریں گاڑی لے آئیں۔ انھوں نے اس تجویز پر آمین کہا اور گھر کو نکل گئے۔ آدھے پونے گھنٹے بعد ہم تینوں اس سرکاری دفتر کی پارکنگ میں تھے جہاں سے رقم وصول کرنی تھی۔
یہ قصہ تمام ہوا تو سوچا اب دن اسی علاقے میں گھوم پھر کر گزارا جائے کہ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بدھ مت کے زمانے کے بہت سے کھنڈرات موجود ہیں۔ سب سے نزدیک جولیاں کی سائیٹ تھی، ادھر کا ہی رخ کر لیا۔ اور اس کی وجہ یہ بھی رہی کہ جن تیسرے بھائی کو ہم نے ساتھ ملایا تھا، یہ ان کا آبائی گاؤں بھی تھا۔ اس بہانے وہ عزیزوں اور پرانے یاروں دوستوں سے مل لیتے۔ سرکاری دفتر سے جولیاں کی سائیٹ تک بمشکل 15 منٹ لگے اور ہم نے ایک دکان کے پاس گاڑی پارک کی اور جولیاں یونیورسٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ پارکنگ کے ساتھ جس دکان پر پہلی نظر پڑی وہ ہینڈی کرافٹس کی تھی۔
مورخہ 26 اکتوبر کو صبح 10 بجے کے لگ بھگ دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آج برقی رو کی فراہمی میں تعطل ہے جو کہ بقول کچھ ہمسائیوں کے خاصا طویل تھا۔ (صبح 8 سے شام 5 بجے تک)۔ اس بات کو سچ ماننے کے لیے اپنے موبائل پر چیک کیا کہ کبھی کبھار واپڈا والے پیغام بھیج دیتے ہیں، لیکن ایسے کوئی ایس ایم ایس موصول نہیں ہوا تھا۔ شاید مجھے بھول گئے ہوں۔
سوچا۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے، گھر سے جو نکل آئے ہیں، اب واپس کیاجانا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ اردگرد کے متاثرین واپڈا سے دو تین گھنٹے یہیں گپ شپ کرتا ہوں اور پھر سہ پہر میں گھر چلا جاؤں گا۔ اس دوران دو متاثرین ہمارے دفتر آ گئے اور دو دن پہلے ہوئے پاک بھارت کرکٹ ٹاکرے پر بات چیت شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد موضوع بدلا اور گفتگو لبیک کی ریلی اور متوقع دھرنے کی طرف چلی گئی اور پھر گھوم پھر کر اصلی اور سُچےموضوع مہنگائی کی طرف مڑ گئی۔ ایک ڈیڈھ گھنٹہ بیت گیا۔
اس گفتگو کے دوران ایک ہمسائے جو سرکاری ٹھیکدار ہیں کو کال موصول ہوئی کہ فلاں فلاں بل کلئیر ہو گیا ہے اور آپ چاہیں تو 2 بجے سے پہلے آ کر اپنی پیمنٹ لے سکتے ہیں۔ وہ تو جیسے تیار بیٹھے تھے، بولیں یہ تو زبردست ہو گیا کہ بجلی بند ہے اور کام کوئی کر نہیں سکتے، ابھی آ جاتا ہوں۔ پھر مجھے کہا کہ آئیں بہت عرصہ ہوا کہیں گھوم پھر کر نہیں آئے، اسی بہانے گھوم آتے ہیں۔ پہلے نیت بنی کہ موٹر سائیکل پر نکلتے ہیں، پھر میں نے ہی کہا کہ سامنے والے بھائی جان کو بھی لے چلتے ہیں، ایسا کریں گاڑی لے آئیں۔ انھوں نے اس تجویز پر آمین کہا اور گھر کو نکل گئے۔ آدھے پونے گھنٹے بعد ہم تینوں اس سرکاری دفتر کی پارکنگ میں تھے جہاں سے رقم وصول کرنی تھی۔
یہ قصہ تمام ہوا تو سوچا اب دن اسی علاقے میں گھوم پھر کر گزارا جائے کہ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بدھ مت کے زمانے کے بہت سے کھنڈرات موجود ہیں۔ سب سے نزدیک جولیاں کی سائیٹ تھی، ادھر کا ہی رخ کر لیا۔ اور اس کی وجہ یہ بھی رہی کہ جن تیسرے بھائی کو ہم نے ساتھ ملایا تھا، یہ ان کا آبائی گاؤں بھی تھا۔ اس بہانے وہ عزیزوں اور پرانے یاروں دوستوں سے مل لیتے۔ سرکاری دفتر سے جولیاں کی سائیٹ تک بمشکل 15 منٹ لگے اور ہم نے ایک دکان کے پاس گاڑی پارک کی اور جولیاں یونیورسٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ پارکنگ کے ساتھ جس دکان پر پہلی نظر پڑی وہ ہینڈی کرافٹس کی تھی۔