شاھد رضا
محفلین
. سڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟
تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی
ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی
جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟
کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں
تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟
کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے
وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا..
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟
تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی
ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی
جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟
کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں
تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟
کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے
وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا..